1676046599977_54338026
Open/Free Access
224
مولانا آزاد سجانی
دوسرا حادثہ مولانا آزاد سبحانی کی وفات کا ہے، نئی پود کو کیا معلوم کہ ایک زمانہ میں مولانا کتنی بڑی شخصیت رکھتے تھے، اگر ان کے دل و دماغ میں توازن اور خیالات و عمل میں استقلال ہوتا تو ہندوستان کے چوٹی کے علماء اور لیڈروں میں ان کا شمار ہوتا، وہ بڑے ذہین اور وسیع النظر عالم معقولات کے ماہر اور سحربیان خطیب تھے، ان کی تقریر خطابت اور منطق کا مرقع ہوتی تھی، ایک زمانہ میں مدرسہ الٰہیات کانپور کے روح رواں اور مسجد کانپور کے واقعہ کے ہیرو تھے، ہندوستان کی جنگ آزادی میں بھی ان کا حصہ ہے تحریک ترک موالات میں اور اس کے بعد بھی کچھ دنوں تک گاندھی جی کے رفیق کار اور کانگریس کے سرگرم رکن رہے، مگر ان میں استقلال نہ تھا، کسی مسلک پر زیادہ دنوں تک قائم نہ رہتے تھے اور عجیب عجیب تحریکیں اختراع کرتے تھے، ادھر کئی سال سے اسلامی کمیونزم اور حکومت ربانی کے مبلغ بن گئے تھے اور اس پر ایک کتاب بھی لکھی تھی، مگر کسی تحریک کو عرصہ تک نہ چلا سکے اور سب کا خاتمہ ناکامی پر ہوا، ادھر عرصہ سے سب جماعتوں سے الگ ہوگئے تھے اور ان کی زندگی کا آخری دور گمنانی میں بسر ہوا، مگر اس حال میں بھی جب کہ بڑی شکستہ حالت میں حکومت ربانی کی تبلیغ کرتے پھرتے تھے جب کسی مسئلہ پر گفتگو کرتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ کوئی بڑا مفکر اور فلسفی بول رہا ہے، ان کی خاموش موت دنیاوی شہرت کی بے ثباتی کا سبق آموز واقعہ ہے ایک زمانہ میں جس کی خطابت کی سارے ہندوستان میں دھوم تھی، اس کی موت کو اخبارات نے ایک معمولی واقعہ سے زیادہ اہمیت نہ دی اور بہتوں کو اس کی خبر بھی نہ ہونے پائی لیکن اصل شہرت و ناموری عالم آخرت کی ہے، اﷲ تعالیٰ اس سے سرفراز فرمائے۔
(شاہ معین الدین ندوی، اگست ۱۹۵۷ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |