Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا ابوالکلام آزاد

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا ابوالکلام آزاد
ARI Id

1676046599977_54338029

Access

Open/Free Access

Pages

225

مولانا ابوالکلام آزادؔ
بالآخر اس مسیحا نفس نے بھی جان جاں آفریں کے سپرد کردی جو نصف صدی تک اپنے انفاس کرم سے مردہ دلوں میں زندگی کی روح پھونکتا رہا، وہ روشن ضمیر اٹھ گیا جو اپنے نور بصیرت سے تاریک دماغوں کو منور کرتا رہا، کاروان ملت کا وہ حدی خواں رخصت ہوگیا جو اپنی ہدایت و رہنمائی سے گم کردہ راہوں کو راہ راست دکھلاتا رہا، وہ شمع فروزاں خاموش ہوگئی جس کی روشنی سے علم معرفت کا ہرگوشہ منور تھا، ابوالکلام کی وفات تنہا ہندوستان کا نہیں بلکہ پوری دنیائے اسلام کا حادثہ ہے اور اس حادثہ پر جتنا ماتم بھی کیا جائے کم ہے۔
آسماں راحق بودگر خوں ببارد برز میں
ایسی جلیل القدر اور عہد آفریں شخصیتیں مدتوں میں پیدا ہوتی ہیں، جو افکار و تصورات کی دنیا اور قوموں و ملتوں کی زندگی میں انقلاب پیدا کردیتی اور تاریخ کا نیا دور شروع کرتی ہیں اور ترقی و تعمیر کی ہر راہ میں اپنے نقشِ قدم رہنمائی کے لئے چھوڑ جاتی ہیں، حق یہ ہے کہ مولانا کی وفات پر ان کی زبان سے اقبال کا یہ قطعہ آج پھر دہرایا جائے۔
سرور رفتہ باز آید کہ نہ آید
نسیم از حجاز آید کہ نہ آید
سرآمد روزگار ایں فقیرے
وگر دانائے راز آید کہ نہ آید
ان میں فطری عظمت تھی، وہ فلسفیانہ فکر مجتہدانہ دماغ اور مجاہدانہ جوش عمل رکھتے تھے اور اپنے گوناگوں کمالات کے اعتبار سے تنہا ایک عالم تھے، عالم و فن کے امام و مجتہد بھی تھی اور دانائے راز حکیم مفکر بھی، میدان سیاست کے مدبر بھی تھے اور عرصہ جہاد کے شہسوار بھی، سحرطراز ادیب بھی تھے اور جادو بیان خطیب بھی، ذہانت، فہم و فراست، فکر و تدبر کی گہرائی، دیدہ وری و نکتہ رسی میں ان کا کوئی معاصر ان کا حریف نہ تھا، ان کی ذات پر بہت سے اوصاف و کمالات اور تاریخ کے ایک پورے دور کا خاتمہ ہوگیا، وہ فطرۃً عبقری تھے جس راہ میں بھی انھوں نے قدم رکھا اپنا راستہ سب سے الگ نکالا اور ہر میدان میں اپنا الگ مقام اور امتیازی شان رکھتے تھے جہاں کسی دوسرے کو یاد نہ تھا، اخلاق میں ان کا پایہ اتنا بلند تھا کہ وہ ادنی درجہ کی بات سوچ نہ سکتے تھے، اپنے مخالفوں کے ساتھ بھی احسان و سلوک کرتے تھے جس پر گذشتہ دس سال کی تاریخ گواہ ہے۔
وہ حق و صداقت کی آواز اور عزم و استقلال کا پہاڑ تھے، جو راہ ابتداء میں انھوں نے اختیار کی اس پر آخر عمر تک قائم رہے، اس طویل مدت میں بڑے بڑے انقلابات ہوئے، بڑے بڑے لیڈروں کے پاؤں ڈگمگائے گئے مگر ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی ان کی نگاہ اتنی دوربیں تھی کہ ۱۵۱۲؁ء میں انھوں نے جو صدا بلند کی تھی وہ بالآخر پورے ملک کی آواز بن گئی، اس راہ میں وہ گاندھی جی کے بھی پیشرو تھے۔
وہ جنگ آزادی کے میرکارواں اور ہندوستان کے معمار اعظم تھے، ان کے کارنامے اتنے گوناگوں ہیں کہ اس کا احاطہ دشوار ہے ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ جنگ آزادی کی ابتداء سے لے کر اس وقت تک جتنے نازک مراحل پیش آئے اور جس قدر اندرونی و بیرونی پیچیدہ مشکلات و مسائل پیدا ہوئے ان کے حل کرنے میں مولانا کے تدبر کو بڑا دخل تھا وہ متحدہ قومیت کا نشان اور سیکولرزم کی آبرو تھے، ہندوستان کی تقسیم کے بعد جب پورا ملک فرقہ پرستی کے سیلاب میں نکلا تھا، ان ہی نے حکومت کو اس میں گرنے سے بچایا اور دنیا میں ہندوستان کی سیکولر کی لاج رکھ لی، اگر مولانا کی بصیرت رہنما نہ ہوتی تو معلوم نہیں ہندوستان کس راہ پر پڑجاتا اور اس کا انجام کیا ہوتا، مولانا کی ذات فرقہ پرستی کے خلاف سپر تھی اور ہر فرقہ کو ان پر اعتماد تھا، چنانچہ آج بلاتفریق مذہب و ملت سارے فرقے ان کے غم میں سوگوار ہیں، غرض وہ ہندوستان میں روشنی کا مینار تھے جس سے پورا ملک روشنی حاصل کرتا تھا، اب پنڈت جواہر لال نہرو کے علاوہ کوئی ایسی شخصیت نظر نہیں آتی جو اس روشنی کو قائم رکھ سکے، مگر ان کی قوتِ بازو بھی مولانا تھے، اس لیے دیکھنا یہ ہے کہ یہ روشنی کہاں تک قائم رہتی ہے۔
ان میں دین و سیاست، مذہب و وطنیت اور جدت و قدامت کا نہایت دلکش امتزاج تھا اور ان پر ان کی نظر بڑی حکیمانہ تھی، انھوں نے ان مختلف عناصر کو ایک دوسرے سے متصادم ہونے کے بجائے ہم آہنگ کردیا اور اسلام میں دین و سیاست کی وحدت کا بھولا ہوا سبق ان ہی نے مسلمانوں کو یاد دلایا، ایک طرف وہ بڑے عالم دین راسخ العقیدہ مسلمان اور اپنی دینی و تہذیبی روایات کے امین و محافظ تھے، دوسری طرف زمانہ کے حالات اور تقاضوں پر بھی ان کی نظر تھی اور نئی قابل قبول چیزوں کے لئے بھی ان کا دل کشادہ اور دامن وسیع تھا، قوم پروری اور وطن پرستی میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہندوؤں کے بھی رہنما تھے۔
ہندوستان میں انگریزی حکومت کے قیام کے بعد مسلمانوں میں پسپائی اور کمتری کا جو احساس پیدا ہوگیا اور جدید علوم اور مغربی تہذیب کا جو رعب ان پر چھاگیا تھا، اس کے دور کرنے میں مولانا کا بڑا حصہ ہے، اور اس میں ان کا انداز عذر خواہانہ نہیں بلکہ ناقدانہ اور جارحانہ تھا، مغرب زدہ طبقہ میں سب سے پہلے ان ہی نے دینی و ملی غیرت و حمیت کی روح پھونکی اور یہ ان ہی کا فیض تھا کہ علی گڑھ کالج جیسے جدید تعلیم و مذہب کے مرکز سے محمد علی جیسا مرد مومن اور مجاہد پیدا ہوا اور پرانے خیال کے علماء اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیا۔
مولانا کا اصل مقام علم و حکمت کا کنگرہ تھا، سیاست کے میدان میں وہ بقول خود آئے نہیں بلکہ لائے گئے تھے، مگر پھر اس خارزار میں ایسا دامن الجھا کہ علم و فن کا کوچہ قریب قریب چھوٹ گیا، اس سے ملک و وطن کو جتنا فائدہ پہنچا اتنا ہی علم و ادب کا نقصان ہوا، اگر ان کی توجہ علم و ادب کے دائرے تک محدود رہتی تو معلوم نہیں آج اردو کا دامن کیسے کیسے گرانبہا علمی جواہر سے لبریز ہوتا پھر بھی جب کبھی وہ ادھر توجہ کردیتے تھے تو علم و ادب کا کوئی نہ کوئی شاہکار وجود میں آجاتا تھا اور یہ ان کے قلم کا اعجاز تھا کہ وہ چڑیا چڑے کی کہانی بھی لکھ دیتے تھے تو ادب عالیہ کا نمونہ ہوتی تھی۔
ہندوستان کی آزادی کے بعد مولانا نے پبلک جلسوں میں شرکت بالکل چھوڑ دی تھی، چنانچہ ایک مدت کے بعد وہ دلّی کی اردو کانفرنس میں شریک ہوئے تھے اور تقریر بھی کی تھی، یہ شاید اس لیے کہ اب یہ چراغ بجھنے والا تھا، یہ تقریر اگرچہ مختصر تھی لیکن اس حیثیت سے نہایت اہم تھی کہ اس میں انھوں نے صریح الفاظ میں اردو کی حیثیت اور اس کا حق واضح کردیا تھا، اور یہ بھی فرمایا تھا کہ اردو بولنے والوں کا یہ حق ہے کہ وہ اس حق کا مطالبہ کریں اور ملک و حکومت دونوں کو اردو کی اس حیثیت کو ماننا چاہئے، یہ آخری فقرے غالباً کسی اخبار نے نقل نہیں کیے ہیں، آخر میں یہ بھی فرمایا تھا کہ وزیراعظم کے اس کانفرنس کا افتتاح کرنے کے بعد یقینا کانفرنس اپنے مقصد میں کامیاب ہوگی، یہ اردو کے جائز حق کے لیے مولانا کی آخری وکالت تھی، جس کی حیثیت گویا وصیت کی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ وہ ارباب حکومت جن کی آنکھیں مولانا کے غم میں اشکبار ہیں، ان کی آخری وصیت کا کہاں تک لحاظ رکھتے اور ان کی محبوب زبان کیساتھ کیا سلوک کرتے ہیں، یہ مولانا کے ساتھ ان کے تعلق کا سب سے بڑا امتحان ہے۔
دارالمصنفین کے ساتھ مولانا کو دوہرا تعلق تھا، ایک مولانا شبلی کی یادگار دوسرے ایک علمی ادارے کی حیثیت سے جس پر ان کے وہ مکاتیب شاہد ہیں جو معارف میں شائع ہوچکے ہیں، اس تعلق کو انھوں نے ہمیشہ قائم رکھا، ابھی چند سال ہوئے جب دارالمصنفین سخت مالی مشکلات میں مبتلا ہوگیا تھا اور اس کے چلنے کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی، مولانا ہی کی امداد و دستگیری سے اس کو دوبارہ زندگی ملی، اس کی امداد و اعانت لئے برابر ان کے پیش نظر رہتی تھی، اور جب بھی اس کا کوئی موقع آتا تھا تو دارالمصنفین کو نہ بھولتے تھے، اس وقت بھی یہ مسئلہ ان کے سامنے تھا، ابھی ۱۷؍ فروری کو راقم الحروف ان سے ملا تھا حسب معمول بڑی شفقت سے پیش آئے دارالمصنفین کے حالات پوچھتے رہے اور فرمایا کہ ان کی جانب سے دارالمصنفین کی امداد میں کوئی کمی نہ ہوگی کیا معلوم تھا کہ یہ آخری ملاقات اور دارالمصنفین کے لیے ان کے آخری الفاظ ہیں، دارالمصنفین بھی انشاء اﷲ اس تعلق کا حق ادا کرنے کی پوری کوشش کرے گا فی الحال مولانا کی یادگار میں معارف کا خاص نمبر نکالنے کا قصد ہے اور آئندہ بھی اس سلسلے میں جو خدمت انجام دے سکتا ہے اس کو انجام دینے کی کوشش کرے گا۔
اﷲ تعالیٰ اس ترجمان القرآن، مجاہد جلیل، قوم و ملت کے غم خوار اور مسلمانوں کے محسن کو دنیا کی طرح عالم آخرت کی سربلندی سے بھی سرفراز فرمائے۔
(شاہ معین الدین ندوی، مارچ ۱۹۵۸ء)

مولانا ابوالکلام آزادؔ
( پروفیسر رشید احمد صدیقی)
مولانا مرحوم سے خط و کتاب عمر بھر میں دو بار ہوئی۔ ملاقات صرف ایک بار، وہ بھی ان کے آفس میں چند منٹ کے لیے ڈیوٹی سوسائٹی سے متعلق غالباً ۱۹۴۸؁ء کے آخر میں! اس طرح میں ان لوگوں میں ہوں جو مرحوم کے بارے میں براہ راست بہت کم واقفیت رکھتے ہیں۔ مرحوم کی نجی، قومی یا علمی زندگی سے اسی حد تک متعارف ہوں جس حد تک کتب رسائل، تقاریر اور مختلف اشخاص کی مدد سے میری جیسی محدود فہم و فکر کا آدمی مولانا جیسی عظیم شخصیت سے ہوسکتا ہے!
بہت سے دوسرے اصحاب کے مانند مولانا سے میری غائبانہ اور بہت گہری عقیدت اس وقت سے ہے جب بلقان اور طرابلس کی جنگ برپا تھی۔ الہلال میں ان کے مضامین شائع ہوتے تھے اور میں اسکول کا طالب علم تھا۔ کیسے اچھے وہ دن تھے جب جینے کی ہر خوشی اپنے دیار اور اپنے عزیزوں اور دوستوں میں نصیب تھی اور اس سے کم خوشی مجاہدوں کے دیار میں جان دینے کی اس دعوت و بشارت میں نہیں ہوتی تھی جو مولانا کی آتش نوائی میں ملتی تھی۔
عمر کا وہ دور کتنا مسعود اور کتنا عجیب تھا جب اچھے اور بڑے کاموں کے لیے جیتے رہنے اور جان دینے دونوں کی یکساں خوشی ہوتی تھی۔ گزرے ہوئے دنوں کی یاد کس کو نہیں عزیز ہوتی، بالخصوص بوڑھوں کو جنھیں صرف ماضی کی جائے پناہ میسر ہوتی ہے، اس لیے یہ کہنا کہ وہ عہد کتنا مسعود اور کتنا عجیب تھا، واقعہ کے اعتبار سے ممکن ہے اتنا صحیح نہ ہو جتنا اپنی یاد کے اعتبار سے میرے لیے حسین و حزیں ہے! بہرحال وہ زمانہ کب کا ختم ہوا اور زمانہ بھی کیا کرے اس کی تقدیر ہی یہ ہے، آج مولانا آزاد بھی اس جہاں سے اٹھ گئے کس کو یاد کرکے کس کا ماتم کروں!
مولانا ان برگزیدہ ہستیوں میں تھے جو اپنے عہد سے بڑی تھیں۔ وہ آفرینندۂ عہد تھے۔ اس لیے ان کی کشمکش ایسے لوگوں سے رہتی جو زائیدہ عہد ہوتے۔ وہ ہماری تاریخ، ہماری تہذیب اور ہمارے علوم کا اعتبار و افتخار تھے۔ اس کا احساس آج ہورہا ہے جب وہ ہم میں نہیں رہے، کیا کیا جائے ایسا احساس بھی ایسے ہی وقت ہوتا ہے۔
سیاسی پلیٹ فارم پر مولانا کے آنے کا وہی زمانہ تھا، جب مسلم یونیورسٹی کی تحریک ملک میں پھیل چکی تھی اور ہزہائینس آغا خان اور مولانا محمد علی اور شوکت علی بھی ہمارے ایسے ہی ہیرو بنے ہوئے تھے جیسے بلقان اور طرابلس کے جانباز مجاہد، اس سے پہلے مسلم لیگ قائم ہوچکی تھی اور تقسیم بنگال اور اس کی تنسیح کا عمل اور ردعمل بھی سامنے آچکا تھا۔ برطانوی تسلط سے نجات حاصل کرنے کے لیے مولانا آزاد نے ہندوستانی قومیت کے متحدہ محاذ کا انتخاب کیا۔ اصولاًوہ علی گڑھ یونیورسٹی کی تحریک اور مسلم لیگ کے پروگرام کی تائید میں نہ تھے۔ وہ ہندو مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف نہیں بلکہ دونوں کو انگریزوں کے خلاف صف آراء ہونے کی دعوت دیتے تھے۔ اس عقیدے کی حمایت میں ان پر کیسے کیسے حادثات نہیں گزرگئے، دوچار مہینے یا سال نہیں کم و بیش نصف صدی تک گزرتے رہے۔
قطع نظر اس سے کہ مولانا نے اپنی غیرمعمولی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے کس محاذ جنگ کا انتخاب کیا اور اس کا نتیجہ کیا ہوا، مجھے جو چیز سب سے عجیب اور عظیم نظر آئی، وہ ان کا اپنی فراست پر بھروسہ اور اپنے عقیدے کی محکمی تھی۔ کتنی مدت پہلے انھوں نے اسی فراست کی روشنی میں جو راستہ اختیار کیا اور جس منزل کو سامنے رکھا، اس سے تمام عمر سرموا انحراف نہیں کیا۔ اس زمانے میں تذبذب اور تفرقے کی کیسی کیسی نزاع اور نزاکتوں کا سامنا ہوا اور ان کی زد میں آکر کیسے کیسے ساتھیوں نے فکروعمل میں کیسے کیسے ردوبدل کیے لیکن مولانا نے اپنے اختیار کیے ہوئے راستے سے منہ نہ موڑا۔ سیاست کے صحیفے میں اس طریق عمل کو کبھی کبھی نہیں بھی سراہا گیا ہے لیکن اس کو کیا کہیے کہ بالآخر ان تمام چھوٹے بڑے ساتھیوں اور سرداروں کو جو سیاست کے الیاس و خضر یا قیس و کوہکن سمجھتے جاتے تھے، اسی راستہ پر آنا اور اسی کعبہ مقصود کی طرف پلٹنا پڑا جو مولانا کا بتایا ہوا تھا۔
مولانا کا ایک فقرہ اس وقت یاد آرہا ہے، جو کہیں کہیں یا تو نظر سے گزرا ہے یا سننے میں آیا۔ کچھ اس طرح کی بات کہی ہے کہ ’’تم لوگ پانی اور کیچڑ کو دیکھ کر بارش کا یقین کرتے ہو میں اس کو ہوا میں سونگھ کر جان لیتا ہوں‘‘۔ دنیا کے کم لیڈروں کو یہ درجہ نصیب ہوا ہے۔
بلقان اور طرابلس کی جنگوں کا نعرہ مولانا کی زبان اور قلم سے نکل کر پہلی بار ہمارے کانوں میں گونجا اور دل میں اتر گیا۔ ان کی تحریر و تقریر کی بجلیاں اور زلزلے ہندوستان میں وہی کام کررہے تھے، جو مسلمان مجاہدین یورپ اور افریقہ کے میدان کارزار میں اپنے لہو اور تلواروں سے انجام دے رہے تھے، یہاں تک کہ کبھی کبھی ہمارا قصور تاریخ کی کتنی صدیوں اور کھنڈروں کو روندتا کھوندتا اس عہد شرف و سعادت میں پہنچ جاتا جہاں شیدایان اسلام دادشجاعت و شہادت دے رہے تھے۔ اس زمانے میں مولانا یا ان کے اخبار الہلال کے خلاف حکومت جب کوئی تادیبی کاروائی کرتی، اخبار سے ضمانت طلب کی جاتی یا مولانا کو نظربند کردیا جاتا تو ایسا ہی محسوس ہوتا جیسے مسلمانوں کا کوئی جانباز جنرل میدان جنگ میں اسیر ہوگیا یا کام آگیا۔ بلقان اور طرابلس کے مجاربے (حق و باطل کی جنگ) جہاں کہیں جب کبھی برپا ہوں گے، مولانا کی تحریریں اور تقریریں دعوت دارورسن دیتی رہیں گی۔
یہ پہلا موقعہ تھا جب مولانا کی تحریروں کے طفیل ہندوستان کے مسلمانوں کے دور دراز بکھرے ہوئے مسلمانوں کی ابتلا و آزمائش میں شریک ہونے کا احساس و افتخار ہوا، گویہاں اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے دکھ درد میں شریک ہونے کی توفیق باہر کے مسلمانوں کو کبھی نہیں ہوئی، نہ وہاں کے زعما کو نہ عوام کو! اور یہ اس ہندوستانی مسلمان کا کارنامہ ہے جس کی ہندوستانی قومیت کی محکمی سے کٹر سے کٹر ہندو اور جس کے اسلامی تصورات مذہبی معتقدات اور دینی خدمات سے کٹر سے کٹر مسلمان انکار کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ بہ ایں ہمہ ہندوستانی قومیت کی حمایت میں جتنا ظلم وجور اپنے ملک کے مسلمانوں کے ہاتھوں مولانا ابوالکلام نے اٹھایا وہ ہندوستان میں شاید ہی کسی دوسرے مسلمان کے حصہ میں آیا ہو۔
گاندھی جی اور مولانا ابوالکلام کی زندگیوں میں ایک بات کتنی المناک لیکن اتنی ہی عظیم الشان نظر آتی ہے، مسلمانوں کی حمایت اور غم خواری میں اور اس وقت جبکہ مسلمانوں کے جان و مال و آبرو کی کوئی قیمت اور وقعت نہیں رہ گئی تھی، گاندھی جی اپنی ہی قوم کے ایک فرد کی گولی کا نشانہ بنے۔ مجھے اپنی لاعلمی پر ندامت ہوگی لیکن فرطِ افتخار سے سر اونچا ہوجائے گا، اگر کبھی یہ معلوم ہوسکا کہ گاندھی جی کی طرح کسی بڑے مسلمان کو غیرمسلموں کی حمایت میں جان سے ہاتھ دھونا پڑا! ہندوستان کی دو اتنی بڑی ہستیوں کے ساتھ ان کے ہم مذہبوں نے کیا سلوک کیا اس پر کسی اور کو نہیں ہم ہندوستانی مسلمانوں کو ضرور غور کرنا چاہئے۔
تقسیم ملک سے اب تک ہندوستان کی سیاست جن دشواریوں اور نزاکتوں سے گزری اور اب تک گزر رہی ہے اس کو تفصیل سے بیان کرنا نہ تو ضروری معلوم ہوتا ہے نہ میرے بس کی بات ہے لیکن اس دوران میں حکومت ہندوستان کی خارجی اور اندرونی پالیسی پر مولانا کی سیاسی بصیرت، آئینی تدبر، اخلاقی بلندی، علمی فضیلت اور شخصی وقار کس طور پر اثر انداز ہوتا رہا کسی تفصیل کا محتاج نہیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ اور نگہداشت کے نہایت درجہ مشکل اور نازک فرائض جس خاموشی، دلسوزی اور قابلیت سے مولانا نے انجام دیئے وہ ان ہی کا حصہ تھا۔ مولانا کی خدمات کی اہمیت اس لیے اور بڑھ جاتی ہے کہ ان کو مسلمانوں کی حمایت اور ان کے گرتے ہوئے حوصلوں کو اونچا کرنے اور رکھنے کے فرائض ایسے حالات اور ایسے زمانے میں انجام دینے پڑے جن سے زیادہ مشکل اور نازک زمانہ مسلمانوں پر اس برصغیر میں شاید پہلے کبھی نہیں گزرا تھا۔
مولانا نے جس طرح جس حد تک جن دشواریوں سے دو چار رہ کر جس کامیابی کے ساتھ ہندوستان کے تباہ حال مسلمانوں کو تسکین دینے اور تقویت پہنچانے کی خدمت انجام دی اس سے بڑی خدمت اس سیکولر جمہوریہ کی ساکھ اندرون و بیرون ملک قائم کرنے میں کوئی اور نہیں انجام دے سکتا تھا۔ ہندوستان کی حکومت مولانا کی اس خدمت کو کبھی فراموش نہ کرسکے گی! کس عظمت اور کیسی عبرت کا یہ مقام تھا کہ یہ فریضہ یکہ و تنہا اس مسلمان کے حصے میں آیا جس سے زیادہ مطعون اور مغضوب تقسیم ملک کی رات سے پہلے مسلمانوں ہی کے نزدیک دوسرا مسلمان نہ تھا۔
ہندؤں یا حکومت ہند میں یہ غیرمعمولی ساکھ مولانا نے محض حسن اتفاق سے نہیں پیدا کرلی تھی، ہندو تو پھر ہمارے ہی آپ جیسے انسان ہیں ہم میں ایسے لوگ بھی ہیں اور رہے ہیں جن میں مولانا کسی سے پیچھے نہیں اور بہتوں سے آگے تھے جن کا سابقہ انسانیت سے ناآشنا وحشیوں سے ہوتا تو وہ ان میں بھی اپنی سرداری مسلم کرالیتے، سفاکی یا چالاکی سے نہیں برگزیدگی اور بہادری سے مولانا کو صبر و صداقت کی کتنی آزمائشوں سے گزرنا پڑا ہوگا تب کہیں جاکر یہ منزلت حاصل ہوئی ہوگی۔ ’بزیرِ شاخ گل افعی گزیدہ بلبل را‘ کا جیسا ماجرا جو مولانا پرگزرا ہوگا، اس کا احساس ان لوگوں کو کیسے دلاؤں جو نہ اس صورت حال سے آشنا ہیں جن میں مولانا گرفتار تھے نہ اس کرب سے جو شاعر نے اس شعر میں بھر دیا ہے۔
حکومت میں مولانا کو بعض ساتھیوں کے تعصب اور تنگ نظری کا بھی مقابلہ کرنا پڑتا تھا اور کس غیرتمند کو نہیں کرنا پڑتا! یہ اس زمانہ کا ذکر ہے جب نامساعد حالات کا ہجوم تھا۔ ان پر جو گزرتی تھی اور کیا کچھ نہیں گزرتی تھی اس کو وقار اور خاموشی سے سہتے تھے۔ مولانا کو اپنا ہم خیال بنانے میں کبھی تامل نہیں ہوا لیکن اپنا غمگسار بنانا انھوں نے کبھی گوارا نہیں کیا۔ یہ ان کی طبیعت کا بڑا ممتاز خاصہ تھا۔ وہ اپنے عزائم کے سامنے کسی دشواری کو ناقابل تسخیر نہیں سمجھتے تھے۔ دنیوی جاہ منزلت سے بے نیاز تھے۔ کسی سے جھگڑتے نہیں تھے، جھگڑنا اپنے رتبہ سے فروتر سمجھتے تھے لیکن اس کی نوبت آجاتی تو اپنی سطح سے نیچے نہیں اترتے تھے۔ حریف کے مقابلہ میں یہ ان کی پہلی جیت ہوتی تھی۔
علم کی معرفت اور مذہب کے شرف و سعادت نے ایسی بلندنظری اور خود اعتمادی پیدا کردی تھی کہ وہ زندگی کے مصائب و مکروہات اور سیاست کے شوروفتن سے پراگندہ خاطر اور تلخ کام نہیں ہوتے تھے۔ جو شخص ہارجیت دونوں میں اپنا سہارا خود ہو اس کو کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن ایسے لوگ دنیا میں بہت کم ہوئے ہیں، جو نارمل ہوں اور اپنا سہارا خود ہوں۔
یہاں دو واقعات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں، ایک دہلی کی سب سے بڑی مسجد میں پیش آیا، دوسرا ہندوستان کے سب سے بڑے ایوان حکومت میں ۱۹۴۷؁ء کے اکتوبر میں شمالی ہند کے مسلمان بالعموم اور دہلی کے بالخصوص تقسیم ملک کے تہلکے سے ہراس اور درماندگی کی انتہا کو پہنچ چکے تھے۔ ہندوستان میں کوئی مسلمان لیڈر ایسا نہیں رہ گیا تھا جو ان کو ڈھارس دیتا یا ان کی حمایت میں آگے آتا بلکہ یہ کہنا بھی حقیقت سے بعید نہ ہوگا کہ لیڈر خود سراسیمہ اور درماندہ تھے۔
مولانا دہلی کی جامع مسجد میں تشریف لائے جو مسلمانوں کے جبروت و جلال، شوکت و شادمانی، اقبال و اختلال کی کتنی کروٹیں دیکھ چکی تھی۔ مسلمانوں کے خاموش، مایوس اور ملول مجمع کو دیکھا جیسا مجمع آج سے پہلے انہوں نے نہ کسی اور نے ہندوستان میں کبھی دیکھا تھا۔ پھر جیسے بوڑھے سردار کی شریانوں میں خون کے ساتھ عزیمت اور حمیت کے شرارے کوندنے لگے ہوں لیکن اپنے وقار پر قابو رکھتے ہوئے جو اس کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا تھا۔ بولنا شروع کیا․․․․․․․․․․ یہ تقریر اردو کے بیشتر اخبارات میں تمام و کمال چھپ چکی ہے اور پڑھنے والوں میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جس کو اس کے اکثر ٹکڑے زبانی یاد نہ ہوں۔چاہا تھا کہ ناظرین کی خاطر جہاں تہاں سے اس کے اقتباسات ہی پیش کردوں لیکن اس کوشش میں کامیابی نہیں ہوئی کہ کس حصے کو حذف کیا جائے اور کس کو نہیں، اس تقریر پر تبصرہ بجائے خود ایک مضمون بن جاتا، اس لیے بادل ناخواستہ ارادے سے باز رہنا پڑا، جامع مسجد کی اس تاریخی تقریر سے مسلمانوں کے حوصلے بندھے اور خوف و مایوسی کی تاریکی چھٹنے لگی اور ایسا معلوم ہونے لگا جیسے زلزلے کے بعد زمین کی شکست و شکن میں ہمواری اور اس زمین پر بسنے والوں کے پاؤں میں استقامت آگئی ہو۔
کسے معلوم مولانا، ان کی اس تقریر اور اس مجمع کے ہلکے گہرے نقوش جامع مسجد کے سنگ و خشت، سقف ودر، مینار و محراب، نقش و نگار میں کہیں نامعلوم طریقہ سے پیوست یا مرتسم ہوگئے ہوں، اور خدا ہی جانتا ہے کہ قوم کی تقدیر میں ان کی بازگشت کب اور کس طور پر سنائی دے۔
دوسری تقریر پارلیمنٹ میں پرشوتم داس ٹنڈن کے اس اتہام لگانے پر کرنی پڑی کہ وزارت تعلیمات ہندی سے سرد مہری برت رہی ہے، اور اردو کی بے جا پاسداری کرتی ہے، اس اتہام کے پیچھے کھلے چھپے کتنے اور الزامات تھے جن کا اندازہ کرنا ایسا کچھ دشوار نہیں۔ مولانا نے پارلیمنٹ کے آداب اور خود اپنی روایات کو ملحوظ رکھتے ہوئے جس وقار برہم اور صداقت بے باک سے جواب دیا وہ ایک ناقابل فراموش تاریخی واقعہ بن گیا ہے، اس کی روئداد بھی اخباروں میں آچکی ہے جس کو دہرانے کی ضرورت نہیں معلوم ہوتی۔ پوری پارلیمنٹ جس کے اراکین میں سے شاید بہتوں نے مولانا کی یہ تقریر پورے طور پر سمجھی بھی نہ ہو مولانا کے خطاب سے سناٹے میں آگئی، سکوت کا یہ عالم اور سطوت کا یہ سماں ہندوستانی پارلیمنٹ میں اس سے پہلے شاید ہی کبھی دیکھا گیا ہو، اس کے بعد اردو کی حمایت کرنا شیوۂ شرافت و انصاف سمجھا جانے لگا۔ انجمن ترقی اردو (ہند) کے اس تاریخی جلسے میں جو دہلی میں گزشتہ موسم سرما میں ہوا تھا۔ مولانا کی اردو کی حمایت میں آخری تقریر ہوئی۔ اس کے بعد ہی اردو کا سب سے بڑا خطیب اردو کا سب سے شاندار انشا پرداز اور اردو ہی کی کتنی حسین اور عظیم شخصیت ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔ اب دیکھئے اردو کے باب میں:
کسے ہے حکم اذاں لا الہ الا اﷲ!
رینائسنس (احیائے علوم) اور ریفرمیشن (اصلاح دین) کی دو ایسی زبردست اور عدیم المثال انقلابی تحریکیں یورپ میں برسرکار آئیں جنھوں نے یورپ کو دنیا کی تمام دوسری اقوام سے کمبخت اس درجہ بلند کردیا کہ دوسری قوموں کو صدیوں بعد تک ان مدارج تک پہنچنا نصیب نہیں ہوا، ان تحریکوں نے جو کچھ کر دکھایا تاریخ عالم کے بڑے بڑے کشور کشاؤں کے حصے میں نہ آیا تھا۔ انسان کی صالح اور صحت مند پوشیدہ قوتوں کو بروئے کار لانے میں مذہب (اعتقاد) اور علوم بڑے زبردست اور پائدار محرکات ثابت ہوئے ہیں۔ اسلام کا ظہور بجائے خود اصلاح ادیان اور احیائے علوم کی براہ راست بشارت تھا۔ چنانچہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ رینائسنس اور ریفرمیشن دونوں بڑی حد تک اسلام کا عطیہ ہیں! لیکن مسلمانوں کی عام غفلت اور ان تحریکوں کے غیرمعمولی غلبے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان حکومتیں اور مسلمانوں کے عقائد اور اعمال دونوں مغربی افکار اور استعمار کی زد میں آگئے اقبال نے ٹھیک کہا ہے کہ جو قومیں اپنے اعمال کا حساب نہیں لیتی رہتیں، ان کو ایسے ہی برے دن دیکھنے نصیب ہوتے ہیں۔ چنانچہ اب مسلمانوں کو ایک طرف اپنی حکومتوں کو دوسری طرف اپنے افکار و عقائد کو ان قوتوں سے محفوظ رکھنے کی مہم کا سامنا تھا۔ حکومتوں پر کیا گزری یا گزر رہی ہے یہاں خارج ازبحث ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ تبدیلی اور اصلاح سب سے دیر میں حکومتیں قبول کرتی ہیں اور ان کا احساس و اظہار سب سے پہلے قوم کے ارباب فکر و نظر کرتے ہیں۔
اسلامی عقائد و افکار کو مغربی اور مروجہ عقائد و افکار کی روشنی میں پرکھنے اور تعبیر کرنے کا فریضہ ہندوستان میں غدر کے بعد جن بزرگوں کے حصہ میں آیا، ان میں بعض یہ ہیں: سرسید، جسٹس امیر علی، شبلی، اقبال، ابوالکلام اور مولانا مودودی۔ ان سب کا مقصد ایک تھا، طریقہ کار و استدلال جدا تھا۔ یہ صورت حال مقامی نہ تھی، عالمگیر تھی۔ مصر اور دیگر بلاد اسلامیہ میں جمال الدین افغانی، مفتی عبدہ، رشید رضا وغیرہ کے سامنے بھی یہی مسائل تھے۔
یہاں اس امر کی طرف بھی اشارہ کردینا غیرمتعلق نہ ہوگا کہ اسی زمانے میں ہندوستان میں بھی ہندو عقائد اور قومیت کے احیاء اور تشکیل نوکی تحریک تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ جس کے اہم مرکز دکن، بنگال اور پنجاب میں تھے۔ یہی نہیں بلکہ بدیسی کمپنیوں کی دیکھا دیکھی ہندو سرمایہ دار بھی صنعتی اور اقتصادی محاذ پر پورے طور سے مستحکم ہوچکے تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوؤں کی کیا حیثیت بن گئی تھی اور مسلمانوں کی کیا رہ گئی تھی۔
غدر کے بعد ہندوستان کے مسلمان جن دشواریوں میں مبتلا تھے ان میں بعض یہ تھیں: مغلیہ حکومت کا خاتمہ اور انگریزی حکومت کا قیام، انگریزوں کا مسلمانوں سے برہم اور برگشتہ ہونا، مسلمانوں کا ضرورت سے زیادہ کبھی آئین نو سے ڈرنا اور طرز کہن پر اڑنا۔ اسی طرح کبھی طرز کہن سے ڈرنا اور آئین نو پر اڑنا، مذہبی اور تہذیبی احیاء اور سیاسی و صنعتی تنظیم میں ہندوؤں کی پیش قدمی مسلمانوں کی سیاسی کسمپرسی، اقتصادی بدحالی، صنعتی پسماندگی، تعلیمی پستی اور عام مایوسی و درماندگی! سرسید نے ان کا مداوا بہ حیثیت مجموعی علی گڑھ تحریک میں پیش کیا جس کی مرئی اور متعین شکل مدرسۃ العلوم کی تھی جو اب مسلم یونیورسٹی ہے۔
مسلمانوں کے نزدیک اور مسلمانوں کے لیے غدر انیسویں صدی کا سب سے المناک انقلابی حادثہ تھا، جس نے ہندوستان میں ان کی کئی سوسالہ سیاسی اور تہذیبی حیثیت کا کلیتہً زیر و زبر کردیا۔ مسلمانوں میں کسی بڑی سے بڑی شخصیت کے فکروعمل کے لیے یہ صورت حال ایک بے اماں و بے درماں آزمائش سے کم نہ تھی۔ نظر برآں علی گڑھ تحریک اور مسلم یونیورسٹی کی اس بنیادی اور تاریخی حیثیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ یہ دونوں مسلمانوں کی تقریباً ہمہ جہت آباد کاری وبردمندی کا مشن بھی تھیں اور مشین بھی! اور اپنے گوناگوں مقاصد کے حصول میں جو کبھی کبھی ایک دوسرے کی ضد معلوم ہوتے تھے براہ راست یا بالواسطہ اس حد تک کامیاب ہوئے، جس حد تک ہندوستان کا کوئی اور مسلم ادارہ اب تک کامیاب نہیں ہوا تھا۔
کچھ تعجب نہیں سرسید اور ان کے رفقا نے علی گڑھ تحریک اور مدرسۃ العلوم (مسلم یونیورسٹی) کو کسی نہ کسی حد تک دانستہ یا نادانستہ طور پر رینائسنس اور ریفرمیشن کی روشنی میں آگے بڑھانے کی کوشش کی ہو۔ اس خیال کو اس بنا پر اور تقویت پہنچتی ہے کہ اصلاح دین کی تحریک دہلی میں مدتوں سے برسرکار تھی، جو سرسید کے عہد میں اور زیادہ نمایاں ہوگئی تھی۔ حضرت شاہ ولی اﷲؒ کا گھرانا اس تحریک میں خصوصیت کے ساتھ ممتاز تھا۔ اسی اصلاح دین سے احیائے علوم کے چشمے پھوٹتے تھے۔ پرانے زمانے میں مسلمان ہی نہیں دوسری اقوام میں بھی علوم کا سرچشمہ مذہب تھا۔ ہندوستان میں اس وقت مسلمان جن حالات و حوادث سے دوچار تھے، ان کے پیش نظر علی گڑھ تحریک میں کچھ اور مقاصد بھی شامل کرلیے گئے تھے۔
ہندوستان کے مسلمانوں میں رینائسنس اور ریفرمیشن کی قیادت کے لیے جس عظیم اور جامع حیثیات شخصیت کی ضرورت تھی وہ صرف سرسید کی تھی۔ انیسویں صدی کے خاتمہ پر سرسید رحلت فرماگئے، بیسویں صدی کے عشرہ اول میں مسلمانوں کی سیاسی اور قومی زندگی نے جو رنگ اور رخ اختیار کیا اس کے بارے میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا اس کی قیادت اتنی حرکی، محکم، اور ہمہ جہتی نہ تھی کہ وقت کا تقاضا تھا۔ اس وقت ایک نئے سرسید کی ضرورت تھی۔ میرے نزدیک یہ رول مولانا ابوالکلام نے ادا کیا۔
سرسید ہی کی طرح وہ اعلیٰ خاندانی روایات، اسلامی علوم، اسلامی تاریخ، اسلامی عقائد، اسلامی اقدار اور اسلامی تہذیب و اخلاق کے حامل اور مبلغ ہونے کے علاوہ سیاسی بصیرت رکھتے تھے، زندگی اور زمانے کے نئے تقاضوں اور رجحانات کو پہچانتے تھے اور ان سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت اور طاقت رکھتے تھے۔ مخالفت کتنی ہی شدید کیوں نہ ہو اس کا مقابلہ شرافت، قابلیت اور پامردی سے کرتے تھے۔ عربی، فارسی اور اردو شعروادب کا اعلیٰ ذوق اور تحریر و تقریر میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ البتہ ایک بات جو سرسید اور مولانا کو ایک دوسرے سے جدا اور ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ سرسید عامۃ الناس سے بڑا گہرا قریبی اور ہمہ وقت کا تعلق رکھتے تھے، ان میں سے نہ ہوتے ہوئے بھی جیسے ان ہی میں سے ہوں۔ ان کے پاؤں زمین میں بڑی مضبوطی سے گڑے ہوئے تھے۔ اسی وجہ سے وہ چھوٹے بڑے ہر پیمانے پر سوچتے تھے اور اسی کے مطابق کام کرتے تھے۔ سرسید کا کمال اور کارنامہ یہ تھا کہ دور اور دیر کی اسکیموں کو بروئے کار لانے کے علاوہ، موقع آن پڑتا تو وہ فرسٹ ایڈ (حادثے پر فوری چارہ سازی) بھی کرتے۔ سرسید کے اس فرسٹ ایڈ کو ان کے بعد آنے والوں نے خود غرضی یا ناسمجھی کی بنا پر مستقل علاج سمجھ لیا اور کبھی لازمۂ صحت۔
مولانا ابوالکلام عوام کے آدمی نہ تھے۔ کتنے خواص کو بھی ان کے ہاں عوام کے درجے پر اکتفا کرنا پڑتا تھا، شاید انھوں نے اقبال کے عقاب کی طرح چٹانوں کی بلند و ویران تنہائیوں میں اپنی دنیا بنارکھی تھی۔ یہ بحث آگے بھی آئے گی۔
یہاں علی گڑھ تحریک اور مسلم یونیورسٹی کا ذکر کسی قدر تفصیل سے کیا گیا ہے، مولانا ان تحریکوں کی تائید میں نہ تھے، یونیورسٹی جن شرائط پر یا جن حالات میں قبول کی گئی، اس کے خلاف مولانا کی لکھنو میں جو تقریر ہوئی اور اس پر جو مضامین انھوں نے سپرد قلم کیے وہ کچھ اور نہیں تو بے مثل خطابت، شدید طنز اور اعلیٰ انشا پروازی کے اعتبار سے اردو ادب میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ لیکن تقسیم ملک کے بعد جب حالات دگرگوں ہوئے تو مسلم یونیورسٹی کو ہرگز ندسے محفوظ رکھنے میں مولانا نے جو خدمات انجام دیں، وہ بھی اس ادارے کی تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کی جائیں گی۔ ان میں سے ایک ذاکر صاحب کو علی گڑھ کی وائس چانسلرشپ قبول کرنے پر آمادہ کرنا بھی تھا۔ حالات و حادثات کی یہ ستم ظریفی بھی دیدنی ہے کہ ذاکر صاحب اور مولانا دونوں علی گڑھ کے خلاف تھے، لیکن وقت آیا تو ان ہی دونوں کو اس کی حمایت و حفاظت کے فرائض ادا کرنے پڑے۔ ’’بت خانے‘‘ کی یہ ’’کرامت‘‘ کیا کم ہے:
کہ چوں خراب شود خانہ خدا گردو!
ایسے لوگ کم دیکھے گئے ہیں جو اس کم عمری میں اپنے آپ کو دنیا کے راستوں پر نہیں بلکہ دنیا کو اپنے راستے پر چلنے کے لیے تیار کرلیتے ہوں۔ مولانا ابواکلام ایسے ہی تھے۔ دنیا کے راستے پر چلنے والے دنیا کے اشارے کے محتاج ہوتے ہیں، مردان کار آگاہ، کے بنائے ہوئے راستے پر چلنے کے لئے، خود دنیا ان کے اشارے کی محتاج و منتظر ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ مولانا تمام عمر خود کسی کے مشورے یا مدد کے خواستگار نہیں ہوئے، ان کی مدد اور مشورے کے محتاج و منتظر دوسرے رہے۔ وہ صرف اپنے بنائے ہوئے معیار خوب وزشت کی پابندی کرسکتے تھے۔
مولانا عزلت نشین، دیرآشنا اور کم آمیز تھے۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ ہر قوم، ہر ملک اور ہر زمانے کے ’’خاصانِ یادگار‘‘ سب سے کنارہ کش ہوکر زندگی کا وہ زمانہ جو ترغیبات نفس کے اعتبار سے غفلت اور غلبے اور ضمیر و دانش کے اعتبار سے نیم رس ہوتا ہے، عبادت و ریاضت میں گزارتے ہیں۔ اس خلوت، عبادت اور ریاضت (اعتکاف) کا مقصد مطالعہ ذات اور محاسبہ نفس سے ہوتا ہے، اس سے ان پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ ان کی زندگی کا کیا مشن ہے اور وہ خلق خدا کی کس خدمت پر مامور (من اﷲ) ہونے والے ہیں۔ ان مراحل سے گزرنے کے بعد وہ دعوت حق اور خدمت خلق کے لیے عامۃ الناس میں آتے ہیں۔ یہ تو نہیں بتاسکتا کہ مولانا اپنی زندگی کے کسی خاص عہد میں اس مرحلے و منزل سے گزرے یا نہیں اتنا ضرور محسوس ہوتا ہے کہ اس مطالعے اور مجاہدے میں کسی نہ کسی حد تک مولانا آخر دم تک منہمک رہے۔ اپنے محاسبے کے لیے اپنی کمیں گاہ میں بیٹھنا ایک بات ہے۔ اور بہت بڑی بات ہے اور اپنی بنائی ہوئی جنت یا خانقاہ میں بیٹھنا قطعاً دوسری بات ہے اور بہت معمولی بات ہے۔ اول الذکر حالت وسیلہ ہے ایک بڑے مقصد کا اور موخرالذکر بجائے خود ایک مقصد ہے لیکن ادنیٰ مقصد ہے۔ ایک پناہ لینا ہے، دوسرا بے پناہ بننا ہے، اتنا ہم سب جانتے ہیں کہ مولانا کا مزاج خانقاہی نہ تھا۔ آخرت میں مولانا کے ساتھ جنت کیا سلوک کرے وہ تو مجھے نہیں معلوم، دنیا میں تو مولانا نے جنت کے ساتھ کبھی اچھا سلوک نہیں کیا۔
مولانا کی رہبری میں پیغمبرانہ طریق دعوت کے بجائے، آمرانہ شان اور کبریائی کی ادا تھی، وہ اتنے پبلک کے نہیں جتنے لیڈروں کے لیڈر تھے۔ مولانا اپنے آپ کو عوام سے زیادہ خواص کی راہ نمائی پر مامور سمجھتے تھے۔
مولانا کا اسلوب تحریر ان کی شخصیت تھی اور ان کی شخصیت ان کا ا سلوب دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ صاحب طرز کی ایک نشانی یہ بھی ہے! مولانا نے لکھنے کا انداز، لب و لہجہ اور مواد کلام پاک سے لیا جو ان کے مزاج کے مطابق تھا۔ مولانا پہلے اور آخری شخص ہیں جنھوں نے براہ راست قرآن کو اپنے اسلوب کا سرچشمہ بنایا۔ وہی انداز بیان اور زورکلام اور وعید وتہدید کے تازیانے جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ پہاڑوں کو رعشہ سیماب طاری کردیتا ہے۔ مولانا کی تحریروں میں وہ نرمی اور نوازش نہ ملے گی جو پیغمبروں کی دعوت میں ملتی ہے، جیسا کہ عرض کرچکا ہوں، مولانا کی حیثیت پیغمبری کے رول سے اتنی سازگار نہ تھی جتنی خدائی کے رول سے، خدا پیغمبروں کی طرح انسانوں میں گھلا ملا نہیں ملتا۔ اس لیے پیغمبروں کی طرح وہ انسانوں میں سے نہیں ہوتا، اس لیے خدا کے خطاب کرنے کا انداز پیغمبر یا انسان کے طرز خطاب سے جداگانہ ہوتا ہے، یہاں پہنچ کر یہ بھید کھلنے لگتا ہے کہ مولانا کی تحریروں میں انانیتی رنگ اور خطابت کا غلبہ کہاں سے آیا۔
صحف سماوی میں جو باتیں بتائی گئی ہیں، انسان نے ہمیشہ ان کو اپنی بہترین احساسات کے مطابق فنون لطیفہ میں تعبیر کرنے کی کوشش کی ہے۔ مذہبی افکار کو شعروادب سے شعروادب کو مذہبی افکار سے سب سے زیادہ تازگی اور توانائی ملی ہے۔ فارسی اور اردو نظم میں رومی اور اقبال نے جس حرارت دینی، علمی تبحر، عصری بصیرت، شاعرانہ حسن کاری اور فنی قدرت سے کلام پاک کو متعارف کیا، اس کی جھلک اگر کہیں ملتی ہے تو ڈانٹے اور ملٹن کی نظموں میں۔ جو عیسوی تصوراتِ مذہب کی رہین منت ہیں۔ ان مشہور عالم شعراء کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انھوں نے جنت اور جہنم کے اسلامی تصورات سے بھی خوشہ چینی کی ہے۔ کلام پاک کی تعلیمات اور تصورات کو اردو میں اس بصیرت، زیبائی و برنائی کے ساتھ پیش کرنا کہ وہ اﷲ کا کلام ہی نہیں بندوں کا عمل صالح بھی معلوم ہو، معمولی ذہن و دماغ کا کام نہیں، اردو میں یہ کارنامہ مولانا آزاد کا ہے۔
عربی زبان کے معیار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دنیا کے دور دراز گوشوں میں آغاز اسلام سے آج تک یکساں بلند ہے جس کا سب سے بڑا سبب کلام پاک کی غیرمتبدل زبان و بیان اور اس کے معانی و مطالب کا عالمگیر اثر و نفوذ ہے۔ ان قوموں سے قطع نظر جن کی مادری زبان عربی ہے بے شمار ایسے مسلمان ہیں جن کی مادری زبان کچھ اور ہے لیکن کلام پاک کی تلاوت و ترتیل اور اوراد و وظائف کے التزام مذہبی فرائض بجا لانے اور شعوری یا غیرشعوری طور پر روزانہ کی زندگی میں عربی فقروں کے زبان زد ہوتے رہنے سے عربی ان کی زندگی میں دخیل اور ان کے ذہنوں میں پیوست ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے چھوٹے بڑے بے شمار عربی مدارس ہیں جہاں قدیم زمانے سے آج تک اس کی مکمل تعلیم دی جاتی ہے۔ اب سے پہلے ہندوستان میں مسلمانوں کی علمی، تصنیفی اور ادبی زبان بھی عربی تھی۔ ایک حد تک فارسی کو بھی یہی درجہ حاصل ہے۔
یہاں عربی اور فارسی زبانوں کی خوبیوں پر تفصیل سے گفتگو کرنا مقصود نہیں ہے۔ بتانا صرف اتنا ہے کہ عربی میں کلام پاک کا ہونا عربی زبان کی شہرت اور بقاکی ایسی ضمانت ہے جس کو زوال نہیں اور اس زبان کا صحیح عمل دخل جہاں کہیں جس زبان اور قوم میں ملے گا ان میں حسب استعداد عربی زبان اور عرب قوم کی تازگی اور توانائی بھی ملے گی۔ فارسی اور عربی شعر و ادب پر مولانا کو جو غیر معمولی عبور تھا اور ان کا ذوق جس طرح ان کے ذہن و فکر میں رس بس گیا تھا۔ وہ مولانا کے قلم اور زبان سے اردو میں سہ آتشہ ہوکر نمودار ہوا۔
یہ بات صرف عربی فارسی زبانوں تک محدود نہیں ہے، زبان کے معیار کو بلند اور کارآمد رکھنے میں الہامی اور کلاسکی زبانوں کی اہمیت مسلم ہے، بشرطیکہ اور یہ بہت بڑی شرط ہے کہ ان زبانوں کا اثر اور ان کی افادیت بولنے اور لکھنے والوں کی عملی زندگی میں مسلسل اور مؤثر طریقے پر ملتی ہو، زبان نہ اپنے حسب نسب کے اعتبار سے ترقی کرتی ہے نہ زبان کے بے وقوف دوستوں کے حسب نسب سے۔ وہ ترقی کرتی ہے بولنے اور لکھنے والوں کی ہر طرح کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھنے سے۔
سرسید، شبلی، حالی، نذیر احمد، محمد حسین آزاد سب کے انداز میں لکھنے والے ہمارے یہاں مل جائیں گے لیکن مولانا کا پیرو ایک نہ ملے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پیرو کا نہ ملنا مولانا کی بڑائی میں کوئی اضافہ ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ مولانا کا اسٹائل ادب اردو کے لیے کچھ زیادہ مفید نہیں یا اس کی فائدہ رسانی کی عمر ختم ہوچکی یا مولانا کی تحریروں میں اسٹائل کا غلبہ اور مواد کی کمی ہے یا مولانا کے مضامین کا ترجمہ کسی ایسی زبان میں، جو عربی فارسی کی جینئس (Genius) سے ناآشنا ہو، کامیاب نہ ہوگا تو میں اس سے ’’جدال سعدی‘‘ قسم کی تفریح پر بھی آمادہ نہ ہوں گا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ یہ بے مثل اسلوب جس میں ’’عجم کا حسن طبیعت اور عرب کے سوزدروں‘‘ کے ساتھ ’’شکوہ ترکمانی، ذہن ہندی، نطق اعرابی‘‘ بھی ملتا ہے۔ مولانا پر ختم ہوگیا۔ ایک جگہ عرفیؔ نے اپنے انداز خاص سے ماتم کیا ہے کہ تمام شہرودیار چھان ڈالے لیکن ’’نیا فتم کہ فروشند بخت در بازار‘‘ نصیبے کی طرح اسٹائل کا بھی یہی حال ہے بالخصوص مولانا کے اسٹائل کا۔
صحافت کو ادب میں جگہ نہیں دی گئی ہے۔ اس کی سرگرمیاں بالعموم روزمرہ کے حالات و حوادث پر رائے زنی تک محدود ہوتی ہیں۔ مسائل حاضرہ پر تبصرہ اور خبریں پڑھ کر ہم دوبارہ اخبار کی طرف التفات نہیں کرتے۔ اخبار کے بارے میں کبھی کبھی ایک کہاوت بھی سننے میں آجاتی ہے یعنی اتنا باسی جتنا کہ گزرے ہوئے دن کا اخبار ہمارے بعض بڑے اچھے شاعر اور نثرنگار صحافت کے نشے یا طلسم میں ایسے اسیر ہوئے کہ آخر تک نکل نہ پائے اور ان کی تحریریں ’’صحافتی‘‘ قرار پائیں۔
مولانا کا ابتدائی عہد (جنگ بلقان سے پہلی جنگ عظیم تک) اردو صحافت کا زریں دور تھا۔ گزشتہ پچاس سال میں اردو کے اچھے سے اچھے اخبار اور ان کے مدیر قوم اور ملک سے روشناس ہوئے، جنھوں نے اردو جرنلزم کو بڑی ترقی دی، لیکن سوائے مولانا کے کسی اور کو ایڈیٹر کی حیثیت سے ادب کی صف اول میں جگہ نہ ملی اور صرف الہلال اور البلاغ کے مضامین کو علمی اور ادبی درجہ نصیب ہوا۔
بذات خود میں نہ مولانا کو متداول معنوں میں صحافی سمجھتا ہوں نہ الہلال اور البلاغ کو صرف اخبار۔ مولانا کسی مسئلہ پر نہ سرسری طور سے غور کرتے تھے نہ اظہار خیال ۔بلکہ اس کا التزام رکھتے تھے کہ جو بات کہی جائے وہ مسلمات کی روشنی کی تاب لاسکے، کسی بڑی حقیقت سے رشتہ رکھتی ہو اور علمی و ادبی معیار پر صحیح اترے۔ ادارت کے مصروف پروگرام اور گریزپا لمحات میں اس التزام کا نباہنا تقریباً ناممکن ہے، صرف مولانا ایسا کرسکتے تھے۔ اردو صحافت کو مولانا نے کلاسکس کا درجہ عطا کیا۔ مولانا کی تحریر صحافتی نہیں تصنیفی ہوتی تھی، نظر حکیمانہ، انداز خطیبانہ اور آہنگ ملہمانہ! ان کی تحریروں، تقریروں نیز ان کے سراپا کا جب کبھی خیال آتا ہے تو ایسا محسوس ہونے لگتا ہے جیسے ازمنہ، قدیمہ میں یونان کے زندہ جاوید رزمیہ نگار مصروف کار ہوں۔ اپنے زمانے اور اپنے دیار میں مولانا یونانی دیوتاؤں سے کم نہ تھے۔
مولانا کے ہاں انشا پردازی کے ایک سے زیادہ اسالیب ملتے ہیں۔ الہلال میں دعوت دار و رسن ہے۔ تذکرے میں دعوت دیدوشنید، غبار خاطر میں دعوت نوش و نشید، تفسیر قرآن کا لب و لہجہ علمی اور عالمانہ ہے۔
ہے رنگ لالہ و گل و نسریں جدا جدا !
غالباً الہلال اور تذکرہ ہی کے زمانے میں مولانا نے تفسیر کا کام شروع کردیا تھا۔ کلام پاک کا ترجمہ کرنا آسان نہیں ہے لیکن تفسیر کا کام بدرجہا مشکل اور نازک ہے، اس لیے کہ اس میں عربی زبان و بیان پر عبور ہونے کے علاوہ اقوام عالم کی تاریخ پر نظر، عقیدے کی محکمی اور سیرت کی پختگی و پاکیزگی لازمی شرائط ہیں۔ تفسیر میں مفسر کے نقطہ نظر کا راہ پا جانا جتنا نا مناسب ہے، اتنا ہی ناگزیر بھی ہے، تفسیر میں ایسے مقامات اکثر آتے ہیں جہاں تاویل و تعبیر کے ایک سے زیادہ پہلو نکلتے ہیں، چنانچہ الہامی اور مذہبی کتابوں پر معتقدین اور منکرین نے بربناے اعتقاد یا انتقاد اب تک جتنے متضاد خیالات کا اظہار کیا ہے وہ شاید ہی کسی اور نوعیت کی کتاب کے بارے میں دیکھنے میں آئیں۔
تفسیر لکھنے والوں کا کبھی کبھی مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے نقطہ نظر کی تاویل کلام الٰہی میں پالیں۔ مولانا نے اپنی تفسیر میں (جو شاید تکمیل کو نہ پہنچ سکی) اس کا لحاظ رکھا ہے کہ کلام الٰہی میں اپنے نقطہ نظر کا جواز نکالنے کے بجائے کلام پاک ہی کے نقطہ نظر کو پانے اور پیش کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ کام بڑی دیانت اور جرأت کا ہے۔
قلعہ احمد نگر کے ایام اسیری میں مولانا کا غبار خاطر لکھنا ایک دلچسپ مطالعہ ہے۔ غبار خاطر کہنے کو تو مولانا کے خطوط ہیں اور نواب صدر یار جنگ مرحوم کے نام لکھے گئے ہیں لیکن مولانا کے انداز طبیعت کو مدنظر رکھتے ہوئے اکثر ایسا یہ محسوس ہوا جیسا مولانا نے یہ خطوط دراصل اپنے ہی نام لکھے ہوں اس لیے کہ یہ اتنے خطوط نہیں معلوم ہوتے جتنی خود کلامی، مولانا اپنے سوا کسی سے اتنے بے تکلف نہیں ہوسکتے تھے کہ اس کو ایسے خطوط لکھتے، اپنے سے بھی مولانا بڑی مشکل سے بے تکلف ہوتے تھے۔
یہاں پہنچ کر کچھ اس طرح کا احساس ہونے لگتا ہے جیسے کسی نے اپنے عزیز یا دوست سے دانستہ یا نادانستہ تمام عمر بے التفاتی برتی ہو لیکن آخر میں تلافی مافات کا خیال آئے تو اس پر نوازشوں کی بارش کردے۔ مولانا نے سیاست کے خارزار اور قومی زندگی کی بے آب و گیاہ وادی میں تمام عمر اپنے نفس کو ہر لذت سے محروم اور ہر محرومی سے دوچار رکھا لیکن آخر زمانے میں جب اس فروگزاشت کا خیال آتا تو اس پر اپنے اعتماد کا اظہار کرنا شروع کردیا۔ چنانچہ یہ خطوط ایک طور پر نتیجہ ہوسکتے ہیں مولانا کے اپنے نفس سے بدلے ہوئے خوش گوار رویے کا۔
دوسری بات جو مولانا کی انشاپردازی کے بارے میں ان خطوط سے منکشف ہوتی ہے وہ ان کی طبیعت کا انبساط اور شگفتہ، شاداب اور صحت مند انشاء پردازی پر ان کی غیرمعمولی قدرت ہے، غبار خاطر میں مولانا کی حسن طبیعت کا وہ اظہار ملتا ہے جو رقعات غالب میں غالب کا ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ غبار خاطر سے پہلے مولانا کی انشا پردازی پر ابتدا سے جو خطیبانہ اور ملہمانہ رنگ طاری تھا اس کا فشاراگر بالکل دور نہیں تو بہت کچھ ہلکا ہوگیا تھا۔ غبار خاطر وجود میں نہ آتا تو مولانا کی شخصیت اور انشا پردازی کا ایک بڑا دل آویز پہلو ہماری نظروں سے اوجھل رہتا۔
الہلال اور تذکرہ کے عہد میں مولانا کا جو اسلوب تحریر ملتا ہے وہ اقتضا ئے زمانہ کے مطابق تھا، اور اپنی خوبی اور خوبصورتی کے باوجود زمانے کے ساتھ ہی ختم ہوگیا لیکن غبار خاطر کا اسلوب اردو میں نامعلوم مدت تک زندہ رہے گا۔ اکثر بے اختیار جی چاہنے لگتا ہے ،کاش اس اسلوب کے ساتھ مولانا کچھ دن اور جئے ہوتے۔ پھر ہمارے ادب میں کیسے کیسے نسرین ونسترن اپنی بہار دکھاتے اور خود مولانا کے جذبہ تخیل کی کیسی کیسی کلیاں شگفتہ ہوتیں۔
ملک کی آزادی کی تحریک میں مسلمان اکا برکو اسیری نصیب ہوتی تو بالعموم ان کا ذہن مذہبی کتابوں کے مطالعہ کی طرف مائل ہوتا۔ ان میں سے اکثر اپنے تاثرات بھی قلم بند کرتے۔ آزاد فضا کی حشرزائیوں کے بعد جیل کی ساکن، بے رنگ اور ویران زندگی کے معمولات کا سامنا ہو تو اسیروں کا افکار اور جذبات کی اپنی بنائی ہوئی بے کنار و بوقلموں دنیاؤں میں پناہ لینا فطری ہے، جو ان کو پہلے نصیب نہ ہوتی۔ مسلمانوں ہی پر موقوف نہیں، یہ صورت حال سب پر گزری ہے۔ کسی نے لڑکی کو خطوط لکھے، کسی نے بیوی کو، کسی نے اپنے آپ کو!
قیاس یہ ہے کہ جس زمانے میں مولانا رانچی میں نظربند تھے، تفسیر کا کام جس کی ابتدا الہلال اور البلاغ کے صفحات سے ہوچکی تھی، بڑی تندہی سے شروع کردیا تھا۔ ان دنوں مولانا کی سرگرمیاں تمام تر سیاسی مذہبی یا مذہبی سیاسی نوعیت کی تھیں، یعنی کبھی کشتی سیاسی ہوتی بادبان مذہبی ہوتے اور کبھی اس کے برعکس جہاں تک خیال ہے، یہ تفسیر ناتمام رہی اور صرف دو جلدیں شائع ہوئیں۔ رانچی سے احمدنگر تک کی مدت اتنی تھی کہ یہ کام مکمل ہوسکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا اور آخری اسیری کا زمانہ مولانا نے کتاب الٰہی کی تفسیر لکھنے کے بجائے ’’کتاب دل‘‘ کی تفسیر لکھنے میں صرف کیا۔ ایسا تو نہیں کہ زندگی کے آخری دور میں مولانا ’’لازمانی‘‘ اور ’’لامکانی‘‘ کے بجائے ’’زمینی و زمانی‘‘ ہوگئے ہوں، اگر ایسا ہے تو یہ تبدیلی بڑی مبارک اور انقلابی تھی۔
جیسا کہ اس سے پہلے ظاہر کرچکا ہوں، تقسیم ملک کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں کے وہ تنہا سہارا رہ گئے تھے۔ حکومت کے بڑے اہم منصب پر فائز رہ کر اور بے شمار نزاکتوں میں گھرے ہونے کے باوجود مولانا نے یہ فرض جس خوبی سے انجام دیا وہ بیان سے باہر ہے۔ مولانا کے اٹھ جانے کے بعد کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ منصب ان پر ختم ہوگیا ہو۔
یہاں پہنچ کر یہ بات بھی دل میں آتی ہے کہ حکومت کیسی ہی ہو، آزادی اور تندہی سے قوم کی خدمت کا کام حکومت سے باہر ہی رہ کر زیادہ موثر طور پر انجام دیا جاسکتا ہے کچھ اور نہیں تو اس بناء پر کہ حکومت میں رجعت پسندی اور عامۃ الناس میں ترقی پسندی کی استعداد خلقی ہے۔ اول الذکر کی تقدیر سکونی ہے، مؤخرالذکر کی حرکی۔
قطع نظر اس سے کہ مولانا حکومت سے کس درجہ وابستہ ہوگئے تھے، اس سے باہر نکل سکتے بھی تھے یا نہیں، ان کو نکلنے بھی دیا جاتا یا نہیں یا ان کی صحت اس کی کہاں تک متحمل ہوتی۔ کبھی کبھی یہ بات ذہن میں آتی ہے، کاش وہ حکومت کے محدود اور گلوافشار حلقے سے باہر نکل کر ہندی جمہوریہ کی دستور میں ہندی مسلمانوں کو وہ مشکل لیکن مہتمم بالشان مقام دلاسکتے جو مسلمانوں کا حق بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔
جی ایسا کیوں چاہتا ہے، شاید اس لیے کہ اس وقت ہندوستان میں مسلمانوں کا کوئی سردار دور دور ایسا نظر نہیں آتا، جس کے سپرد ہندوستانی مسلمانوں کی حمایت و ہدایت کی ذمہ داری اعتبار و افتخار کے ساتھ کی جاسکے۔
اﷲ رے سناٹا آواز نہیں آتی ! (دسمبر ۱۹۵۸ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...