Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ڈاکٹر عبدالحق

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ڈاکٹر عبدالحق
ARI Id

1676046599977_54338030

Access

Open/Free Access

Pages

234

ڈاکٹر عبدالحق
ادھر عرصہ سے کوئی مہینہ خالی نہیں جاتا جب سینہ ملت کو کوئی نہ کوئی تازہ داغ نہ اٹھانا پڑتا ہو۔ ابھی مولانا مدنی اور مولانا ابوالکلام کا غم تازہ تھا کہ افضل العلماء مولانا ڈاکٹر عبدالحق صاحب نے داعی اجل کو لبیک کہا، وہ مدراس کے تھے، اس لیے شمالی ہند کے خواص کے علاوہ عام لوگ کم ان سے واقف تھے، وہ اپنے اوصاف و کمالات کے اعتبار سے بہت بڑی شخصیت رکھتے تھے اور آج مسلمانوں میں جیسے مرد مومن کی ضرورت ہے اس کا نمونہ تھے، ان میں علم و عمل کے سارے کمالات جمع تھے، دینی علوم کے بھی باضابطہ عالم تھے اور علوم جدیدہ کے بھی فاضل تھے، انھوں نے عربی کی تکمیل کے بعد انگریزی پڑھی اور آکسفورڈ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، اس علم و فضل کے ساتھ بڑے دیندار اور عملی انسان تھے، انتظامی قابلیت بھی ان میں اعلیٰ درجہ کی تھی، مدراس کے مسلمانوں کی انھوں نے بڑی خدمت کی، تنہا اپنی کوشش سے مسلمانوں کے کئی ڈگری کالج قائم کیے اور وہ بجاطور پر مدراس کے سرسید کہلاتے تھے، مختلف اوقات میں بڑے بڑے تعلیمی عہدوں پر ممتاز رہے۔
اب سے چند سال پیشتر مسلم یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر بھی رہے تھے، اور اپنی قابلیت، دینداری اور حسن انتظام سے یونیورسٹی کی فضا بدل دی تھی، مگر اس سیکولر دور میں پھر مسلم یونیورسٹی جیسے مسلم ادارہ میں اس کی گنجائش کہاں، اس لیے تھوڑے ہی دنوں کے بعد مدراس پبلک سروس کمیشن کے ممبر بنادیئے گئے، اس وقت اس کے چیرمین تھے، مگر ان کی قابلیت اور تعلیمی تجربات کی بناء پر ممبر کی حیثیت سے یونیورسٹی کی مختلف تعلیمی اور انتظامی کمیٹیوں سے برابر ان کا تعلق قائم رہا اور وہ اس سے عملی دلچسپی لیتے رہے، حقیقۃً وہ مسلم یونیورسٹی کی وائس چانسلری کے لائق تھے، وہ صحیح معنوں میں اس کو مسلم بنادیتے، سیکولر نقطہ نظر سے ان میں یہی نقص تھا، افسوس ہے کہ یونیورسٹی کی قسمت میں ان سے فائدہ اٹھانا نہ تھا۔
ان کمالات کے ساتھ ایسی سادگی اور دینداری کی مثالیں کم ملتی ہیں، ان میں ایک مرد مومن کی پوری شان تھی، ظاہری وضع قطع بھی خالص اسلامی تھی، دو مرتبہ حج و زیارت کے شرف سے مشرف ہوئے، اس سال بھی حج کے لیے جانے والے تھے کہ پیام اجل آگیا، عرصہ ہوا ایک مرتبہ دارالمصنفین بھی آئے تھے، ان کی قابلیت اور سادگی کو دیکھ کر حیرت ہوتی تھی، ان سے بہت سی توقعات وابستہ تھیں۔ افسوس ہے کہ موت نے ان سب کا خاتمہ کردیا، اﷲ تعالیٰ اس مرد مومن کو عالم آخرت کے مدارج عالیہ سے سرفراز فرمائے۔ (شاہ معین الدین ندوی، اپریل ۱۹۵۸ء)

ڈاکٹر عبدالحق
( پروفیسر رشید احمد صدیقی)
مدراس کے ریلوے اسٹیشن پر ایک اجنبی مسلمان اس فکر میں مضطرب پھررہا تھا کہ رات بسر کرنے کے لئے کوئی جگہ مل جائے، اسٹیشن کے چھوٹے بڑے اہلکار کسی سبب سے اس کی طرف متوجہ نہ ہوئے، اتنے ہی میں ایک طرف سے ایک ہندو نوجوان نمودار ہوا، اجنبی کی پریشانی دیکھ کر قریب آیا، وجہ دریافت کی، صورت حال معلوم ہونے پر اسے ایک جگہ اطمینان سے بیٹھ جانے کو کہا اور خود دیر تک آفسوں کا چکر لگاتا رہا، کبھی بابوؤں سے رد و قدح کرتا، کہیں منت سماجت، بالآخر واپس آیا اور مسلمان کو مطلوبہ جگہ پر پہنچا دیا، مسلمان نے حیرت سے شکر گزاری کے ساتھ ہندو دوست سے متعارف ہونا چاہا تو بڑے اصرار کے بعد اس نے بتایا، مجھ پر ایک زمانہ بڑے آلام و افلاس کا گزرا ہے، نہ کوئی سہارا دینے والا تھا نہ دلاسا۔ اس مایوسی اور بے بسی کے عالم میں ڈاکٹر عبدالحق کی خدمت میں پہنچا اور اپنی مصیبت بیان کی، سب کام چھوڑ کر بڑی شفقت سے پیش آئے، امید بندھائی اور روزگار کا ایسا بندوبست کردیا کہ میری زندگی کی کایا پلٹ گئی، میں نے ان کے احسان کو اس طرح محسوس کیا جیسے مجھ پر بڑی اچھی صلاحیتیں ابھر آئی ہوں اور مایوسی و بیزاری سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا مل گیا ہو، پھر میں نے ایک عہد کیا کہ جب تک جیوں گا جس مسلمان کو تکلیف اور تردد میں دیکھوں گا حتی الوسع اس کی مدد کروں گا۔
پچھلے سال کا ذکر ہے میری لڑکی اور داماد ایک طویل سیاحت سے فارغ ہوکر جاپان سے سیلون پہنچے، خط بھیج کر مجھ سے خواہش ظاہر کی کہ کوئی ایسا انتظام کردوں کہ ایک دور روز مدراس میں قیام کرکے وہاں کی سیر کرلیں، میں نے ڈاکٹر صاحب کو لکھا، سب جانتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کا شمار مدراس کے مصروف ترین لوگوں میں ہوتا تھا، پبلک سروس کمیشن کی ذمہ داریوں کے علاوہ اپنے یا دوسروں کے معلوم نہیں کتنے اور کام اپنے ذمہ لے رکھے تھے، اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ ان کی کوٹھی پر چھوٹے بڑے طرح طرح کے لوگ طرح طرح کے کاموں سے صبح سے رات تک برابر آتے جاتے رہتے اور ڈاکٹر صاحب ان سب سے بڑی توجہ اور تلطف سے پیش آتے، جیسے کسی معالج کا مطب ہو جہاں ہر مریض کا علاج مفت کیا جاتا ہو اور مطب صبح سے رات گئے مسلسل کھلا رہتا ہو، یہی نہیں بلکہ علاج کی نوعیت بھی جداگانہ ہو، مثلاً دوا، دعا، گنڈا تعویذ، دان پن، سعی سفارش، رشتہ ناتا، اتنا ہی نہیں بلکہ بیچ بیچ میں آؤٹ ڈور پریکٹس پر بھی نکل جاتے، کسی سے چندہ مانگنے کے لیے، کسی سے سفارش کرنے، کہیں تقریر کرنے، کہیں شادی غمی میں شریک ہونے، کبھی کسی مہمان کو مدراس کی سیر کرانے۔
ڈاکٹر صاحب کسی ضروری کام سے مدراس سے باہر جانے والے تھے، میرا خط ملا تو پروگرام ملتوی کردیا، جہاز کے اڈے پر پہنچے اور دونوں کو اپنے گھر لائے، ڈاکٹر صاحب کے لئے بالکل آسان تھا اور اس میں نزاکت یا قباحت کا کوئی پہلو نہیں نکلتا تھا کہ گھر والوں کو ضروری ہدایات دے کر دورے پر چلے جاتے، جانتا ہوں مہمانوں کی خاطر مدارات میں کسی طرح کی کمی نہ آتی، اس لیے کہ بیگم صاحبہ اور بچوں کی عزت اور محبت کے سلوک سے میں خود ایک بار بہرہ مند ہوچکا تھا، اس وقت کس حسرت سے وہ موقع یاد آتا ہے جب میرے لیے ہر طرح کی سہولت فراہم کرکے ڈاکٹر صاحب نے پہلے پہل مدراس بلایا تھا، میری اس ’’زحمت فرمائی‘‘ سے ان کو کتنی مسرت ہوئی تھی، جیسے ’’زفرق تا بقدم‘‘ شاداب و شادماں ہوگئے ہوں! اخلاص اور اخلاق برتنے کا ڈاکٹر صاحب کا ٹکنک جداگانہ تھا، وہ اپنے الطاف و کرام کا پورا اندوختہ کامل اعتماد اور افتخار سے پہلے ہی بار ہر اس شخص پر لگادیتے تھے، جس کو اس کی ضرورت ہوتی، ان کے اس طریقہ کار سے جرمنوں کے اس معروف اصولی جنگ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے، جہاں بتایا گیا ہے کہ دشمن کے کمزور پہلو پر حرب و ضرب کی اپنی پوری طاقت یکبارگی مرکوز کردو!
ڈاکٹر صاحب نے اسی پر اکتفا نہ کی، اپنے گھر پر ان کے لیے ایک طرح کی پکنک کا انتظام کیا، میری لڑکی، داماد اور نواسہ نیز اپنے لڑکے لڑکیوں کو پاس بٹھایا، انگیٹھی منگائی، کھانے پکانے کی طرح ڈالی، پکاتے جاتے اور بتاتے جاتے کہ مدراس میں مسلمانوں کے یہ کھانے اور مٹھائیاں نوابوں کے دور حکومت سے مشہور چلی آتی ہیں، یہ چیزیں کھانے کی میز پر دوسری چیزوں کے ساتھ چنی جائیں۔ اصرار سے کھلاتے اور ان کی لذت اور لطافت بیان کرتے، کبھی سبھوں کو ساتھ لے کر مدراس کی سیر کو نکل جاتے، مختلف مقامات کی تاریخی اہمیت بتاتے، اپنے جمع کیے ہوئے طرح طرح کے تاریخی نوادر مسلمانوں کے عہد کی قلمی کتابیں، نقاشی، وصلیاں، مغربی مصوری کے بعض شاہکار دکھاتے اور ان کی صراحت اس لطف سے کرتے جیسے تاریخی حقائق نہیں بلکہ لطیفے بیان کررہے ہوں۔
باوجود ان باتوں کے مجھے نہیں لکھا کہ انھوں نے میری خواہش کس خلوص اور خوبی سے پوری کردی تھی، اپنا کتنا ہرج کیا تھا یا پھر اس طرح کی فرسودہ رسمی معذرت کرتے کہ انھوں نے کیا ہی کیا تھا، گھر میں جو دال دلیا تھا، وہ پیش کردیا، بہت کم قیام کیا، مہمان کو بڑی تکلیف ہوئی امید ہے کہ معاف فرمائیں گے وغیرہ! مدراس میں قیام اور ڈاکٹر صاحب کی مہمان نوازی اور شفقت کی تفصیل مجھے اپنی لڑکی سے معلوم ہوئی جس نے علی گڑھ پہنچتے ہی سب سے پہلے ڈاکٹر صاحب اور ان کے گھر والوں کی ثناخوانی شروع کردی جیسے ڈاکٹر صاحب کے نہیں بلکہ اپنے کارنامے کا ذکر کررہی ہو۔
اتفاق یہ کہ ڈاکٹر صاحب کو جلد ہی ایگزیکٹو کونسل کی میٹنگ میں شرکت کے لیے علی گڑھ آنا پڑا، جس دن تشریف لائے اس سے ایک روز پہلے لڑکی داماد علی گڑھ چھوڑ چکے تھے، سنا تو متاسف ہوئے، ان کے متاسف ہونے کا معصوم بزرگانہ متبسم انداز نہیں بھولتا، فرمایا، اس دفعہ علی گڑھ آنے کا شوق یوں اور زیادہ تھا کہ سبھوں سے یہاں ملتا، میں نے کہا کہ سب آپ کی بیگم صاحبہ اور بچوں کی بڑی تعریف کرتے تھے، کہنے لگے ارے یہی تو ان کو بتانے آیا تھا کہ میرے گھر والے ان سب کو کتنا یاد کرتے ہیں۔
عبدالحق صاحب کو ذاکر صاحب یہاں کی پرووائس چانسلری پر بڑے اصرار اور اعتماد سے لائے تھے، میرا خیال ہے کہ کسی اور کے کہنے سے وہ اپنے طرح طرح کے پھیلے ہوئے کاموں کو چھوڑ کر جن سے ان کو بڑا شغف تھا، یہاں آنے پر رضا مند نہ ہوتے اس لیے اور کہ ان کاموں کو سنبھالنے اور ترقی دینے والا اس نواح میں ان کے سوا کوئی اور نہ تھا، آئے تو ذاکر صاحب نے اپنا مہمان بناکر رکھا، اس زمانے میں یونیورسٹی ایک نازک دور سے گزر رہی تھی، پرانی بساط اٹھ رہی تھی، نیا نظام استوار نہیں ہو پایا تھا، ذاکر صاحب یہاں کے دروبست پر حاوی نہیں ہوپائے تھے کہ بیمار ہوگئے، طویل علالت کے بعد صحت بحال ہوئی تو امریکہ جانا پڑا عبدالحق صاحب نے وائس چانسلری کا کام سنبھالا۔
اس حصہ ملک اور اس یونیورسٹی میں ڈاکٹر عبدالحق اجنبی نہ تھے تو کچھ زیادہ معروف بھی نہ تھے۔ البتہ خاص حلقوں میں لوگ اتنا جانتے تھے کہ مدراس میں مسلمانوں کے لیے ہر طرح کی تعلیمی سہولت فراہم کرانے میں ڈاکٹر صاحب کا بڑا حصہ ہے، اسلامی علوم و ادب پر اچھی نظر ہے، علوم جدیدہ سے بھی آشنا ہیں اور ہر جماعت میں وقعت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔
یہاں آئے تو لوگوں نے دیکھا کہ شکل صورت، وضع قطع، رہن سہن، شرعی مسلمانوں جیسی پرانی چال کی ترکی ٹوپی سرپر، داڑھی، ڈنڈا، اٹنگا پاجامہ، پان کھانا، حقہ پینا، مصافحہ کرنا، جو جہاں بلائے بے تکلف چلے جانا ہر مجلس میں ہر چھوٹے بڑے سے ہنسنا بولنا، کسی نے میلاد پڑھنے کو کہا وہ پڑھ دیا، کسی نے وعظ کہنے پر اصرار کیا وہ کہہ دیا، کسی نے بچہ کی بسم اﷲ کرادینے کی درخواست کی وہ پوری کردی، ذاکر صاحب کی خوبصورت خوردسال نواسی (نیلوفر) بہت مانوس ہوگئی تھی، کاموں سے فرصت ہوتی تو اسے کبھی گود میں لیے ہوئے کبھی انگلی پکڑ کر صبح شام لان پر ٹہلتے ہوئے اس کی خاطر تفریح کی باتیں کرتے رہتے، کبھی وہ فرط مسرت سے بے اختیار ہوکر داڑھی پکڑ کر پوری طاقت سے کھینچتی تو اسے خوش کرنے کے لیے کراہتے اور ہنستے، کہتے ارے اب معلوم ہوا تیری ہی ڈر سے تیرے نانا نے داڑھی چھوٹی رکھی ہے کہ تو کھینچ نہ پائے، اچھا رہ جا اب تجھے گود میں نہ لوں گا، پیٹھ پر بٹھاؤں گا، پھر دیکھوں تو میری داڑھی پر کیسے قبضہ کرتی ہے ان کا یہ مشغلہ اور مذاق برابر جاری رہتا چاہے ملنے کے لیے کوئی طالب علم آجاتا یا اسٹاف کا ممبر یا ضلع کا افسر یا شہر یا مضافات کا کوئی رئیس، ملنے والے سے بھی باتیں کرتے جاتے اور بچی کی تفریح بھی بنے رہتے۔
ایک طرف نیلوفر جیسی خوبصورت چنچل ذہین بچی تھی، دوسری طرف ڈاکٹر صاحب کی نورانی شکل اور لطف و مرحمت سے لبریز آزمودہ کار محکم شخصیت میں جب کبھی بچی کو ڈاکٹر صاحب کی گود میں یا ان کی انگلی پکڑے لان پر ٹہلتے دیکھتا تو محسوس کرتا جیسے قدیم، جدید کو زندگی اور زمانے سے روشناس کرارہا ہو، نیز پرانی اور نئی قدروں کا ایک دوسرے سے کس سطح پر کیا رشتہ ہے، ادھر یہ قصہ تھا، ادھر یہ بات پھیلی کہ ڈاکٹر عبدالحق تو قال اﷲ وقال الرسول قسم کے مولوی تھے، علی گڑھ کو کیا جانیں اور ماڈرن یونیورسٹی کے طور طریق کو کیا سمجھیں، کچھ ایسے لوگ جو دنیا کو ہر لعنت سے پاک اور ہر نعمت سے بہرہ یاب کرنے پر اپنے آپ کو مامور اور دوسروں کو صرف فتورعقل و نیت میں مبتلا سمجھتے تھے، ڈاکٹر صاحب سے ملے اور اس طرح گفتگو شروع کی جیسے ان پر علوم جدیدہ کے بصائر و معارف کے وہ دریچے کھول رہے تھے جن تک ڈاکٹر صاحب کی رسائی نہ تھی یا عالمی نظم و نسق کے وہ نکتے واضح کررہے تھے، جن سے ڈاکٹر صاحب بے بسرہ تھے یہ بھی کافی نہ سمجھ کر کہیں کہیں خیرہ چشمی کی بھی جھلک دکھا دیتے، ڈاکٹر صاحب یہ ساری باتیں بڑے تحمل اور شفقت سے سنتے، کبھی مسکراتے، کبھی داد دیتے، ایک آدھ کلمے ایسے بھی کہہ دیتے جس میں مسلمانوں کی اخلاقی روایات اور وقت کے مطالبات کے علاوہ یونیورسٹی کے تحفظ اور ترقی کے مسائل کی طرف اشارے ہوتے۔
وقتاً فوقتاً اس طرح کے انٹرویو ہوتے رہے اور فضا کچھ اس طرح بدلنے لگی کہ وہ لوگ جو اسلامی روایات کو قصہ ماضی سمجھتے تھے ڈاکٹر صاحب کی ذات میں ان اقدار اور روایات کو ناقابل تسخیر سمجھنے لگے، یہاں تک کہ بعض نے پچھلے طرز عمل پر اظہار پشیمانی کیا اور معافی کے خواستگار ہوئے کچھ دنوں بعد جب ڈاکٹر صاحب یہاں سے تشریف لے جاچکے تھے، یہ فرمائش کی گئی کہ اسٹریچی ہال میں انگریزی میں تقریر فرمائیں موضوع بحث کچھ اس طرح تھا، کیا فقہ اسلامی رومن لاسے ماخوذ ہے، داکٹر صاحب فرمائش پوری کرنے پر آمادہ ہوگئے ایک ایک دن کے وقفے سے غالباً تین لکچر دیئے، اسٹریچی ہال حاضرین سے لبریز ہوتا، بغیر کسی یادداشت کے سہل اور شستہ انگریزی میں بے تکلف تقریر کرتے، کتنی مدلل، پرمغز اور فکر انگیز وہ تقریریں تھیں، جہاں تک مجھے معلوم ہے، قانون کا ڈاکٹر صاحب کا کوئی خصوصی مطالعہ نہ تھا، اس تقریر نے ان کی قابلیت اور شخصیت کا نقش لوگوں کے دلوں پر ہمیشہ کے لیے بٹھادیا، کتنے خوش ہوتے تھے جب کوئی طالب علم کسی علمی ضرورت پر ان سے رہنمائی کا خواستگار ہوتا۔ دقیق سے دقیق مسائل کی تشریح آسان سے آسان طریقوں اور مثالوں سے کرتے کم لوگ ایسے ہوں گے جن کا علم اور اخلاق طلبہ کو اس طرح ’’اڑکر لگتا ہو‘‘ جتنا کہ ڈاکٹر صاحب کا!
ڈاکٹر صاحب کو میں نے علی گڑھ میں بھی کام کرتے دیکھا اور مدراس میں بھی عجیب بات یہ تھی کہ وہ کام بہت زیادہ کرتے تھے لیکن مصروف بالکل نہیں نظر آتے تھے، برخلاف دوسروں کے جو کام بہت کم کرتے ہیں یا بالکل نہیں کرتے لیکن ’’مصروف‘‘ ہمہ وقت نظر آتے ہیں۔ وجہ یہ بتاتے ہیں کہ مصروفیت کام سے نہیں ہے، احساس ذمہ داری سے ہے، یہ احساس اپنی ذمہ داری سے متعلق نہ ہو تو دوسرے کی ذمہ داری سے سہی! عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ کوئی شخص کام کرتے کرتے تھک گیا ہو، اور اٹھنا چاہتا ہو، اسی وقت کوئی دوسرا کام یا صاحب غرض آجائے تو وہ قدرۃً جھنجھلا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب پر یہ حالت کبھی طاری نہیں ہوئی، کتنا ہی کام کتنا ہی دیر تک کیوں نہ کرچکے ہوں، کوئی اور کام یا صاحب غرض آجائے تو وہ اس سے اسی تازہ رُوئی سے متوجہ ہوجاتے تھے جیسے وہ اس سے پہلے صرف تفریح کررہے تھے، کام اب شروع کریں گے۔ یہ بات میں نے بہت کم لوگوں میں پائی، کہا کرتے تھے کہ مجھے نہ کام کھلتا ہے نہ صاحب غرض! کام کا نہ کھلنا تو سمجھ میں آتا ہے، اس لیے کہ صحت اور سکون میسر ہو تو کام کرنا اور کرتے رہنا زندگی کے نعائم میں سے ہے لیکن بہ ثبات ہوش و حواس جس پر صاحب غرض نہ کھلتا ہو اس کو میں اولیاء اﷲ کے طبقے میں جگہ دیتا ہوں، صاحب غرض سے یہاں میری مراد خود غرض سے ہے، اہل حاجت سے نہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں علم اور دین کا چرچا تھا، اس عہد میں علم کا سرچشمہ دین تھا، ہر دین کا مقصد خدا کی اطاعت اور خلق کی خدمت ہے یہ فضا جو ہر قابل کے لیے یوں ہی کیا کم سازگار ہوتی ہے کہ اس پر معاشی تنگ حالی سونے پر سہاگے کا کام کرگئی، ابتدائے زندگی میں تنگ دستی سے بہتر اور سستی تربیت گاہ میں نے آج تک نہ دیکھی، بشرطیکہ تنگ دستی کا یہ زمانہ محنت اور ایمانداری سے کاٹ دینے کی اﷲ توفیق دے، اس پر ایک عزیز نے طنزاً فرمایا کہ اﷲ کی توفیق ہی درکار ہو تو محنت مزدوری کے بجائے براہ راست دولت اور فراغت ہی کی دعا کیوں نہ مانگی جائے، میں نے کہا کہ بات ٹھیک ہے لیکن اﷲ کے لیے عافیت اس میں ہے کہ وہ مجھے محنتی اور ایماندار بناکر خود کفیل بنادے اور میری طرف سے بے فکر ہوجائے، آپ کو دولت و فراغت براہ راست دے کر وہ اپنی نت نئی مشکلات میں اضافہ کرنا کیسے پسند کرے گا۔
علم اور دین کے مطالبات ڈاکٹر صاحب نے تمام عمر جس پابندی اور خوبصورتی سے پورے کیے وہ مجھے کہیں اور کم نظر آئی، میری تقدیر کو بنانے میں اسلام کو بڑا دخل ہے، اسلام کا جو تصور پیش کیا گیا ہے یا جو میری سمجھ میں آسکا ہے اس سے بڑا تصور انسان کے ذہن و تخیل میں نہیں آسکتا، انسان اور اپنے شایان شان اس پیمانے پر صرف خدا سوچ سکتا تھا، باایں ہمہ مجھے کوئی ایسا مسلمان نہ ملا جس کو میں اس اسلام کا نمونہ پاتا جو میرے ذہن میں تھا، اسلام ہی نہیں میں ہر مذہب کا بڑا احترام کرتا ہوں اور اپنے اس عقیدے کو اپنی بڑی جیت سمجھتا ہوں، لیکن مجھے اچھے مذہبی آدمی نہ ملے، بیشتر یہی محسوس ہوا جیسے مذہبی آدمی اپنے کو دوسرے سے علیحدہ اور ممتاز سمجھتا ہو، جیسے اس میں ’’برہمنیت‘‘ راہ پاگئی ہو اور وہ اپنے آپ کو مامور من اﷲ سمجھتا ہو، لیکن وہ اتنی معمولی سی بات سے بے خبر ہوتا ہے کہ اگر وہ خدا کی طرف سے مامور کیا گیا ہے تو اس کا مامور ہونا، اس کی آزمائش پہلے ہے فضیلت بعد میں، فضیلت برہمن کے حصے میں اور آزمائش شودر کے نصیبے میں آئے، یہ کہیں اور ہوتا ہو تو ہو اسلام میں نہیں ہوتا، مامور من اﷲ ہونے کی ذمہ داری لینا یوں بھی کوئی دانشمندی نہیں ہے۔
اس گفتگو کا مقصد یہ بتانا تھا کہ ڈاکٹر عبدالحق کیسے انسان اور کیسے مسلمان تھے، ان کو دیکھ کر میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہوتی تھی کہ کاش میں بھی ایسا مسلمان ہوتا اور یہ میں نے اس لیے کہا کہ تمام عمر بے شمار مسلمانوں سے ملنے اور ان کو دور اور قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا، کوئی مسلمان ایسا نہ ملا جس کو دیکھ کر میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی کہ ایسا مسلمان میں بھی ہوتا! اس کے ساتھ اس حقیقت کا بھی یہاں اعتراف کرتا ہوں کہ بہت ممکن ہے میرا سابقہ ایسے مسلمان سے اب تک نہ ہوا ہو، ورنہ ایسے مسلمان بے شمار ہوں ممکن ہے اس کا سبب یہ بھی ہو کہ ڈاکٹر عبدالحق نے بحیثیت انسان اور مسلمان مجھے غیر معمولی طور پر متاثر کیا ہو دوسرے اس حد تک متاثر نہ ہوئے ہوں، یہ سب صحیح ہے لیکن اس کو کیا کیا جائے کہ میں ذاتی پسند اور ناپسند کو بہت بڑی حقیقت سمجھتا ہوں۔ انقلابی حقیقت! مجھے تو یہاں تک محسوس ہوا ہے کہ جو لوگ مسلمان نہیں ہیں شاید وہ بھی ڈاکٹر عبدالحق جیسا مسلمان بننا پسند کرتے ہوں! اچھے مسلمان اور اچھے انسان کو میں نے ہمیشہ ایک دوسرے سے اتنا قریب پایا کہ کم سے کم میرے لیے اکثر ان میں امتیاز نہ کرنا دشوار ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے دین کے معاملہ میں کوئی سمجھوتا نہ اپنے آپ سے کیا تھا نہ کسی دوسرے سے جیسا کہ ہم آپ اکثر کرلیا کرتے ہیں یعنی عقائد و اعمال کی ذمہ داریوں سے بقدر ستر فیصدی اپنے آپ کو مستثنیٰ قرار دیے جانے کا رزولیشن باختیار خود پاس کردیتے ہیں، ستر فیصدی غالباً یوں کہ مسلمانوں کو ہر نیکی کا اجر عموماً ستر گنا ہی ملتا ہے! وہ اسلام کے بتائے ہوئے عقائد پر کامل یقین رکھتے تھے اور ظاہر و باطن دونوں اعتبار سے ان پر عامل تھے، باایں ہمہ وہ اتنے خوش مزاج، زود آمیز، مخلص، ہوشمند اور ہمدرد تھے جیسے ہمارا آپ کا کوئی عزیز بے تکلف دوست، وہ کسی حال میں محتسب نہیں معلوم ہوتے تھے بلکہ سر سے پاؤں تک محب و مشفق تھے، جیسے ان سے دوریا علیٰحدہ رہنا بدنصیبی اور انکا اعتبار حاصل نہ کرنا محرومی ہو، ان کے مخالفوں کے لیے بڑی مشکل یہ تھی کہ ان کو متعصب قرار دے کر اپنا مطلب نکال سکتے تھے، نہ پرانے خیال اور پرانی چال کا آدمی کہہ کر ان کو نظر انداز کرسکتے تھے، ان کی نظر جتنی علوم دین تاریخ اور سیر پر تھی، اس سے کچھ کم واقفیت دینوی علوم سے نہ تھی، یونیورسٹیوں کے قواعد و قوانین اور سرکاری تعلیمی دفاتر کے آئین و ضوابط پر ان کو پورا عبور تھا، ان سے کوئی یہ کہہ کر بازی نہیں لے جاسکتا تھا کہ اس ملک یا کسی دوسرے ملک کا جدید ترین اصول نظام یا نصاب تعلیم یہ یا وہ تھا جس سے وہ آشنا نہ تھے۔ ڈاکٹر صاحب کو چھوٹی بڑی ہر طرح کی تعلیم گاہوں کے تمام مدارج اور معلومات سے گہری اور عملی واقفیت تھی۔
ڈاکٹر صاحب نے ایک جگہ کالج میں تعلیم شروع کرنے کا اپنا بڑا دلچسپ اور عبرت انگیز قصہ لکھا ہے، بیان کرنے میں طوالت ہوگی، اس لیے نظر انداز کرتا ہوں، یہ اسی حادثے کا فیضان ہے کہ انھوں نے دوسروں کے لیے تعلیم کو آسان اور ارزاں بنانے میں تمام عمر اپنی اچھی سے اچھی صلاحیتیں صرف کیں، علوم مشرقیہ سے قطع نظر جہاں تک علوم جدیدہ کو مسلمانوں کے لیے آسان اور ارزاں بنانے کی کوشش اور کامیابی کا تعلق ہے اور اس غرض سے انھوں نے جتنے کالج قائم کیے، وہ ایسا کارنامہ ہے جس میں ڈاکٹر صاحب کا ہمسر ریاست مدراس میں (شاید باہر بھی) نہ پہلے کوئی گزرا ہے نہ آج موجود ہے ان کے کاموں میں میں نے جتنی برکت دیکھی بہت کم کہیں اور نظر آئی، اچھے کاموں میں وہ تائید غیبی کے قائل تھے، اور اس کی بعض ایسی آپ بیتی سنایا کرتے کہ عقل دنگ رہ جاتی، ہراچھا اور بڑا آدمی تائید غیبی پر ایمان رکھتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کو میں نے کبھی مایوس، مغموم یا منعغمی نہیں پایا سو ایک بار کے جب وہ متفکر نظر آئے تمام دن ان پر یہ کیفیت طاری رہی، دوسرے روز حسب معمول ہشاش بشاش نظر آنے لگے، صورت حال کچھ اس طرح کی پیش آئی تھی کہ اس کو جوں کا توں رہنے دیا جاتا تو اس ادارے کے ایک بنیادی مقصد کو نقصان پہنچتا تھا، دوسری طرف اس کو دور کرنے یا بدلنے کی کوشش میں اس کا خدشہ تھا کہ کہیں دوسرے کی شہرت نہ مجروح ہوجائے فرماتے تھے، دن بھر اس فکر میں غلطاں پیچاں رہا، رات کو کھانے اور نماز عشاء سے فارغ ہوکر اس مسئلے کا حل سوچنے بیٹھا، تمام شب ادھیڑ بن گزر گئی، فجر ہوتے حل سمجھ میں آیا اور اس کا فارمولا مرتب کرسکا، میں نے عرض کی فارمولے میں ایک آدھ جگہ فارمولا کم جرأت زیادہ نظر آتی ہے، فرمایا کہ آپ نے ٹھیک کہا لیکن ہر مؤثر اور کارآمد فارمولے میں دو تہائی سوجھ بوجھ اور ایک تہائی جرأت کا ہونا ضروری ہے حسب ضرورت آپ اس تناسب کو گھٹا بڑھا سکتے ہیں، لیکن یہ چاہیں کہ بغیر جرأت کے کام بن جائے تو یہ ممکن نہیں!
ایک صاحب کا بیان ہے کہ ذاکر صاحب امریکہ سے واپس آرہے تھے، ڈاکٹر صاحب ان کو لینے دہلی گئے ایک صاحب اور ساتھ تھے، جہاز سے اترتے ہی ذاکر صاحب نے علی گڑھ کا حال پوچھا، جو صاحب ساتھ تھے انھوں نے حالات اور واقعات کو مایوسانہ انداز میں بیان کرنا شروع ہی کیا تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے بات کا رخ بدل دیا اور اپنے مخصوص انداز خوش دلی و خود اعتمادی سے بولے نہیں․․․․․․․ صاحب حالات ایسے نہیں ہیں کہ فکرمند ہوا جائے۔ یہ تو زندگی کے معمولات میں سے ہیں، جہاں اتنے تعلیم یافتہ نوجوان اکٹھا رہتے ہنستے کھاتے پیتے پڑھتے لکھتے کودتے پھاندتے ہوں وہاں اس طرح کے واقعات پیش آتے ہی رہیں گے۔ اور اب تو ذاکر صاحب آگئے ہیں، سارے معاملات یوں بھی روبراہ ہوجائیں گے، یہ کہہ کر ذاکر صاحب کو موٹر میں بٹھایا اور علی گڑھ واپس آگئے اور ذاکر صاحب نے دیکھا کہ صورت حال وہی تھی جو ڈاکٹر صاحب نے بیان کی تھی۔
ڈاکٹر صاحب عربی فارسی کے عالم متبحر اردو شعر و ادب کے شیدائی اور انگریزی اردو کے بڑے اچھے مقرر تھے، ان کی تقریریں دلنشیں بے تکلف اور پر مغز ہوتی تھیں۔ ان کا مطالعہ اتنا وسیع معلومات اتنی متنوع ذہن اس درجہ رسا اور طبیعت ایسی شائستہ اور شگفتہ تھی کہ وہ کسی موضوع پر برجستہ بھی تقریر کرتے تو ایسا معلوم ہوتا جیسے یہ موضوع ان کے مدتوں کے مطالعہ کا نتیجہ تھا، اردو یا انگریزی میں گفتگو یا تقریر کرتے تو لب و لہجہ سے ظاہر ہوتا جیسے انھوں نے تمام عمر مدراس اور اس کے نواح میں نہیں بلکہ دہلی، لکھنؤ یا اس کے آس پاس بسر کی تھی۔
تقریر میں ڈاکٹر صاحب فلسفہ یا سائنس کے اسرار و غوامض کو دخل نہ دیتے، خطابت کے فن سے واقف ہونے کے باوصف اس کے حربوں سے کام نہ لیتے، نہ کسی شخص یا جماعت کا مذاق اڑاتے، نہ کسی کو رلانے ہنسانے کی کوشش کرتے، غرض آرائش گفتار کے لیے جو باتیں درکار ہوتی ہیں ڈاکٹر صاحب ان میں سے کسی کے محتاج نہ تھے، سیدھی سادی بات کہتے لیکن ان کے کہنے کا انداز ایسا تھا اور اعتماد اور اعتبار کی ایسی فضاء پیدا کردیتے تھے کہ بات دلوں کی گہرائی میں اتر جاتی اور خبر نہ ہوتی، ایسا کچھ احساس ہوتا جیسے چونکہ ڈاکٹر صاحب کہہ رہے ہیں اس لیے اس کے صحیح اور معقول ہونے میں شک نہیں کیا جاسکتا۔
میرے نزدیک کسی شخص کا دلی یا لکھنؤ کا ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس کا، اردو کا لب و لہجہ بھی معیاری ہوگا گفتگو میں صحت زبان ہی کافی نہیں ہے لب و لہجہ کا شستہ اور ناشایستہ ہونا بھی ضروری ہے، دلی کے بعض مشہور اشخاص یا گھرانوں سے قطع نظر دلی والوں کا لب و لہجہ بالعموم خشک اور خشن ہوتا ہے، اس کا سبب غالباً یہ ہے کہ اردو چونکہ ’’کھڑی بولی‘‘ پر بنی ہے اس لیے دلی اور اس کے اطراف کے رہنے والوں کا لب و لہجہ بھی کھرا اور کھڑا ہوتا ہے، دوسری طرف جو لوگ کھڑی بولی کے علاقے سے علیحدہ لیکن متجانس پراکرتوں کی سلاست اور شیرینی سے آشنا ہیں وہ اردو کے مناسب حال لب و لہجہ پر زیادہ قدرت رکھتے ہیں، شمالی ہند کی پراکرتوں کے علاوہ چونکہ اودو کا گہرا ربط فارسی زبانوں سے بھی ہے، اس لیے بحیثیت مجموعی اردو لب و لہجہ کے لوازم ایسے ہیں کہ ان سے عہدہ برآ ہونا یوں بھی آسان نہیں ہے، بتوں کی مانند اردو لب و لہجہ کے بھی ایسے کتنے شیوے ہیں جن کو اب تک نام نہیں دیا جاسکا ہے۔ ڈاکٹر صاحب مدراس کے ہوتے ہوئے صحیح اور فصیح اردو بولتے تھے، یہاں تک کہ تلفظ کی کوئی ’’ضرب خفی یا جلی‘‘ ایسی نہ ہوتی جس سے اس کا شبہ ہوسکتا کہ وہ شمالی ہند کے اس خطے سے تعلق نہیں رکھتے تھے جہاں کا اردو کا لب و لہجہ معیاری ہے۔
کسی ماضی کی اہمیت کا مدار محض اس کے ماضی ہونے پر نہیں بلکہ اس پر ہے کہ کس حد تک وہ حال اور مستقبل کی صحیح اور صحت مند رہبری کرسکتا ہے حال و مستقبل کی اہمیت اس بناء پر ہے کہ دونوں ماضی کے بطن سے پیدا ہوتے ہیں، اس لیے اصولاً یا کلیۃً ماضی سے روگردانی نہیں کرسکتے، ڈاکٹر صاحب کے دل میں اسلام اور مسلمانوں کے گذشتہ دینی، علمی اور تہذیبی کارناموں کا بڑا احترام تھا، یہ بات کچھ تو ان کے مطالعے اور مشاہدے کا براہ راست تھی، اور کچھ اس خلقی ورثے کا تصرف تھا جو ان کو اپنے خاندان کے اکابر سے ملا تھا، اپنے ان تصورات کی تشکیل میں وہ طرح طرح سے کوشاں رہتے، چنانچہ ۱۹۴۲؁ء میں محمڈن کالج کی سلور جوبلی کے موقع پر انھوں نے اسلامی تہذیب و تمدن کی ایک نمائش ترتیب دی تھی، جس میں ایسے تاریخی شواہد اور نوادر اس سلیقے اس پیمانے پر پیش کیے گئے تھے کہ اس سے پہلے کہیں اور دیکھنے میں نہیں آئے تھے۔ اس نمائش کی تفصیلی روئداد معارف کے صفحات میں شائع ہوچکی ہے۔ وہ نمائش تو اب میسر نہیں لیکن چاہتا ضرور ہوں کہ اسلامی تہذیب و تمدن کے طالب علم اس نمائش کی تفصیل کا مطالعہ معارف کے متذکرہ شمارے میں کریں۔
مجھے جوشے یا شخص اچھا نظر آتا ہے جی چاہنے لگتا ہے کہ وہ علی گڑھ کا ہوجائے۔ اس سلسلے میں ایک بار عرض کیا تھا، ڈاکٹر صاحب مدراس کے سب سے اچھے آدمی کو (جہاں تک مجھے علم ہے) علی گڑھ نے پالیا، اب اتنا اور چاہتا ہوں کہ آپ کی یہ نمائش بھی کسی طرح علی گڑھ آجائے، میری دانست میں یونیورسٹی کے ادارہ علوم اسلامیہ کا سے ایک مستقل اور ممتاز جزو ہونا چاہئے۔ رفتہ رفتہ یہ شعبہ اسلامی تہذیب و تمدن کے ایک اعلیٰ درجے کے میوزیم کی حیثیت اختیار کرسکتا ہے بہت خوش ہوئے، فرمایا تجویز نہایت مفید اور مناسب ہے، اس کے لیے تھوڑا بہت سرمایہ فراہم کرنا پڑے گا۔ دوڑ دھوپ درکار ہوگی، شخصی اثرات کو کام میں لانا پڑے گا، ہندوستان سے باہر دوسرے ممالک سے بھی مدد لینی پڑے گی، کچھ دنوں کی مسلسل کوشش کے بعد جو چیز آپ کے ذہن میں ہے وہ عملاً سامنے آسکے گی۔ پھر داکٹر صاحب علی گڑھ سے چلے گئے، اور اب جبکہ وہ اس جہاں ہی میں نہ رہے۔ اس اسکیم کی حیثیت ایک خواب سے زیادہ نہیں رہ گئی ہے!
ڈاکٹر صاحب کے پاس عربی، فارسی اردو کتابوں کا بڑا نادر قلمی اور مطبوعہ ذخیرہ تھا، اس طرح کے نوادر پر ان کی معلومات نہایت وسیع تھیں، میں نے ان صحبتوں میں بھی ان کو دیکھا ہے جہاں مخطوطات کے اچھے اچھے ’’اصحاب خبر و نظر‘‘ موجود ہوتے۔ سب ہی ڈاکٹر صاحب کی وسیع اور تفصیلی معلومات پر متعجب ہوتے، ایک بار کچھ اسی طرح کا تذکرہ تھا، فرمانے لگے تعلیم حاصل کرنے انگلستان گیا تو وہاں دو ہی باتوں کی زیادہ فکر رہتی۔ ایک یہ کہ عربی، فارسی، اردو کے نوادر کہاں کہاں محفوظ ہیں، دوسرے یہ کہ مشہور مستشرقین کون کون تھے اور ان تک رسائی کیونکر ہو۔
فرمانے لگے ہندوستان میں مخطوطات تک پہنچنے میں چند باتوں نے میری رہبری کی، اس طرح کے مخطوطے والیان ریاست یارؤسا تک کھنچ کر پہنچ جاتے کیونکہ زمانہ حال تک یہی لوگ اصحاب علم و ہنر کے مربی ہوتے یا پھر اس طرح کے نوادر خانقاہوں میں یا سجادہ نشینوں کے ہاں ملتے، اس لیے کہ یہ بزرگان دین خود صاحب علم و فضل ہوتے اور اس طرح کے لوگوں کا ماویٰ و ملجا بھی۔ امور دین کی تلقین بھی اردو ہی میں کرتے تھے، اس لیے ان کے فرمودات بیاضوں میں محفوظ ہوتے، میرے خاندان کے بزرگوں کا تعلق مختلف اور متعدد خانقاہوں اور سجادہ نشینوں سے کسی نہ کسی حیثیت سے رہا ہے، اس لیے اس طرح کے علمی اندوختوں سے مجھے واقفیت رہی ہے، ایک بات اور ہے جس پر لوگ بہت کم توجہ کرتے ہیں، مسلمانوں کے عہد حکومت میں ہندو حکمراں اور رؤسا بھی اس طرح کے مخطوطات کے شائق ہوگئے تھے، چنانچہ بعض بڑے قیمتی اور نایاب قلمی اور مطبوعہ نسخے ان کے کتب خانوں میں آج بھی مل جائیں گے۔ مگر ان کے تلف ہوجانے کا امکان اب بہت بڑھ گیا ہے۔
ایک بار میں نے پوچھا، ڈاکٹر صاحب عربی فارسی سے آپ کا شغف تو سمجھ میں آتا ہے، اس کی سیاحی میں معلوم نہیں کتنی پشتیں گزری ہیں، یہ اردو کا شوق کہاں سے آیا۔ فرمایا مدراس اور اس کے نواح میں اردو کا چرچا قدیم الایام سے رہا ہے۔ یہاں کے مسلمان جب تک اردو میں دستگاہ نہ پیدا کرلیتے تعلیم اور تہذیب میں اپنے کو کامل نہ سمجھتے، اردو میں شاعری کرنا مہذب اور تعلیم یافتہ ہونے کی نشانی سمجھتے ہیں جس طرح مسلمانوں کے بعض قبائل میں یہ دستور ہے کہ جب تک کوئی نوجوان حج کرکے نہ آجائے قبیلے میں شادی کا مستحق نہیں قرار پاتا۔ البتہ اس مرتبے کے شاعر ادھر نہیں ہوئے، جیسے شمالی ہند میں ہوئے، پھر بھی اردو شاعری کی وہاں بڑی وقعت اور قبول عام نصیب رہا ہے، مسلم یونیورسٹی نے اردو کی ایک جامع تاریخ لکھنے کا اہتمام کیا ہے۔ مدراس اور ارکاٹ کے مصنفین اور شعراء اور ان کی تصانیف کے بارے میں میں آپ کو بڑی مفید اور اہم معلومات فراہم کردوں گا، ایک زمانے میں وہاں کی اردو تاریخ لکھنے کا ارادہ ہوا تھا، اس کے لیے کافی مواد بھی دستیاب ہوگیا، لیکن پھر دوسرے کاموں میں ایسا پھنسا کہ ادھر متوجہ نہ ہوسکا۔ میٹریل کے علاوہ بہت سی باتیں ذہن میں محفوظ ہیں، پھر ہنس کر فرمایا اگر پبلک سروس کمیشن مدراس کی مستقل صدارت نہ ملی ۱؂ تو کمیشن سے مستعفی ہوکر اس تاریخ کا کام کروں گا۔
سوچتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب نے علی گڑھ میں کم و بیش چھ ماہ قیام کرکے ہمارے دلوں میں جب اپنے لیے اتنے پاکیزہ اور قابل احترام خیالات و جذبات پیدا کرلیے جو اتنی کم مدت میں علی گڑھ میں آج تک کوئی اور نہ پیدا کرسکا تو ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جن میں رہ کر اور جن کے لیے انھوں نے تمام عمر کام کیا۔ تعلیمی اور عملی ہی نہیں، معلوم نہیں کتنے اور کام! یہ بات اور زیادہ احترام اور اچنبھے کی اس وقت معلوم ہونے لگتی ہے جب ہم یہ بھی جانتے ہوں کہ علی گڑھ کے لوگ کسی سے ’’راضی و خوشنود‘‘ ہونے میں ذرا دیر لگاتے ہیں، بہ نسبت مدراس اور نواح مدراس کے مسلمانوں کے جو زیادہ سیدھے سادے اور بہت جلد عقیدت اور احسان مندی کے جذبات سے متاثر ہوجاتے ہیں، ڈاکٹر صاحب کے یوں دفعتہ وفات پاجانے سے ان پر کیا عالم گذار ہوگا!
کسی آدمی کے بڑے ہونے کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ اس کو غریبوں اور بچوں سے کتنی محبت ہے، ڈاکٹر صاحب کو ان دونوں سے بڑا شغف تھا، صاحبزادی کی شادی کی تو اسی دن اور اسی وقت بستی کی سات غریب لڑکیوں کی بھی شادی کرائی، ہر طرح کی مالی امداد پہنچائی اور ان کی برابر خیر گیری کرتے رہے، ڈاکٹر صاحب یقینا دولت مند نہ تھے، لیکن اچھے کاموں میں روپیے صرف کرنے کا بڑا حوصلہ رکھتے تھے، ایک بار کچھ اسی طرح کا ذکر آگیا تو فرمانے لگے، میں بڑا دولت مند ہوں اس لئے کہ میری اپنی دولت کے علاوہ دوستوں اور عزیزوں کی دولت بھی میرے لئے وقف رہتی تھی!
سائنس کانگرس کے سالانہ اجلاس میں ہندوستان کی تقریباً تمام یونیورسٹیوں کے نمائندے شریک ہوتے ہیں، اس کا گزشتہ اجلاس مدراس میں منعقد ہوا تھا، حسب دستور مسلم یونیورسٹی کے نمائندے بھی شریک ہوئے تھے، ڈاکٹر صاحب کی وہاں موجودگی علی گڑھ کے لوگوں کے لیے مزید کشش کا باعث تھی، جن کی خاطر تواضع، آرام و تفریح کو ڈاکٹر صاحب نے اپنی ذمہ داری قرار دے لیا تھا، زیادہ سے زیادہ جتنے اصحاب کی گنجائش ڈاکٹر صاحب کے گھر میں ہوسکتی تھی وہ وہاں ٹھہرے، بقیہ کا انتظام دوسرے تمام شرکاء کے ساتھ کانگریس نے علیحدہ کیا تھا، پبلک سروس کمیشن کی مصرفیات اور دوسرے کاموں سے تھوڑی سی بھی مہلت مل جاتی تو وہ علی گڑھ کے دوسرے نمائندوں کی خیر خیریت لینے نکل جاتے جیسے ان سب کے میزبان مدراس میں وہی تھے، ایک دن علی گڑھ کے تمام لوگ ڈاکٹر صاحب کے ہاں پر مدعو تھے، معلوم ہوا کہ دو چار اصحاب جو دور مقامات پر ٹھہرے ہوئے تھے، غالباً سواری کا انتظام نہ ہونے کے باعث آنہ سکے، ڈاکٹر صاحب بڑے مضطرب ہوئے اور گاڑی لے کر روانہ ہوگئے، سب کو ڈھونڈ دھونڈ کر لائے، کھانا ختم ہونے کے بعد ان کو ان کی قیام گاہ پر چھوڑ آئے اور طرح طرح سے بار بار معذرت کرتے رہے کہ ان کے ذہن میں یہ بات کیوں نہیں آئی کہ ان مہمانوں کے لیے سواری کا انتظام کرنا تھا۔
ڈاکٹر صاحب کو علی گڑھ میں جو منزلت اتنی جلدی میسر ہوئی اس کے میرے نزدیک بعض واضح اسباب ہیں، باوجود ہمہ وقت کام میں مصروف رہنے کے وہ چھوٹے بڑے ہر شخص کے لئے اتنے ہی ارزاں اور سہل الحصول تھے جتنی سانس لینے کے لیے ہوا، ہمیشہ محبت اور عزت سے پیش آتے تھے، لوگوں کے دکھ درد کو حتی الامکان دور ورنہ کم کرنے کی کوشش کرتے، ان پر لوگوں کو بھروسہ تھا کہ وہ کسی شخص یا جماعت کی ناواجب پاسداری نہ کریں گے۔ لوگ جانتے تھے کہ قاعدہ قانون سے نہ صرف پورے طور پر واقف تھے بلکہ ان کی پابندی سمجھداری اور ہمدردی سے کرتے تھے کوئی شخص خواہ کتنا ہی مفسد اور متفنّی کیوں نہ ہو ڈاکٹر صاحب کو بدنام نہیں کرسکتا تھا، نہ عوام میں نہ خواص میں وہ ہم میں کسی سے علم میں کم نہ تھے، عمل میں سب سے ممتاز تھے، وہ ان علوم کے عالم باعمل تھے، جن سے ہم لوگ بہت کم آشنا ہیں اور جن پر عمل کرنے والا شاید کوئی نہیں، یعنی دین اور اخلاق کا علم! کبھی کبھی کچھ اسی طرح کا بھی احساس ہونے لگتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں ڈاکٹر صاحب کی شخصیت میں علی گڑھ بالکل ایک نئے تجربے یعنی ’’مرد مومن‘‘ سے دوچار ہوا ہو۔ (جولائی ۱۹۵۸ء)

۱؂ آہ، کسے معلوم تھا کہ جس دن یہ صدارت تفویض ہوئی اسی دن ڈاکٹر صاحب کے لبوں پر دفعتاً وہ تبسم نمودار ہوا، جسے اقبال نے ’’نشان مرد مومن‘‘ بتایا ہے، اصغر مرحوم کا یہ شعر آج کتنے دنوں کے بعد یاد آیا ہے۔
کائناتِ دہر کیا روح الا میں بیہوش تھے زندگی جب مسکرائی ہے قضا کے سامنے
زندگی کی کوئی آزمائش ڈاکٹر صاحب سے ان کی خلقی مسکراہٹ چھین نہ سکی، لیکن ان کی مسکراہٹ نے زندگی سے اس کی ہر آزمائش چھین لی، بعض دوستوں، عزیزوں کی وفات ایسی ہوتی ہے کہ خود اپنا جیتا رہنا بے غیرتی معلوم ہوتا ہے، ڈاکٹر صاحب کی بے رحلت کی خبر سن کی اسی طرح کے بے غیرتی کا احساس ہوا!
اس موقع پر رجزع دفزع، صبروشکر، ایمان و یقین کے کتنے فقرے بے ارادہ یاد آتے ہیں لیکن کسی ایک کو لکھنے کاجی نہیں چاہتا۔ خاکم بدہن! حادثہ اتنا بڑا میں اتنا چھوٹا توازن کیسے قائم رہے خوشی میں کبھی توازن نہیں کھوتا، غم میں قائم نہیں رکھ سکتا، اﷲ تعالیٰ معاف فرمائے، وہ تو جانتا ہے اس طرح کا غم مجھ ناتواں کے لیے کیسی بے پناہ آزمائش ہے!

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...