1676046599977_54338032
Open/Free Access
241
سید عبدالحکیم دیسنوی
سیدی صاحب کے متعلقین میں دوسرا حادثہ عبدالحکیم صاحب دیسنوی کی وفات کا ہے، وہ رشتہ میں سید صاحبؒ کے چچا ہوتے تھے، مگر دونوں میں حقیقی چچا بھتیجے جیسے تعلقات تھے، دونوں ایک دوسرے کو بہت مانتے تھے، مرحوم سید صاحبؒ کی ہر ترقی اور ہر اعزاز پر بے انتہا مسرور ہوتے تھے، سید صاحبؒ بھی اپنے تمام نجی حالات اور علمی و قومی مشاغل کی اطلاع برابر ان کو دیتے رہتے تھے۔ اس لیے سید صاحبؒ کے مکاتیب کا سب سے بڑا ذخیرہ ان ہی کے پاس تھا۔ دونوں میں ۱۹۰۴-۵ء سے لے کر سید صاحبؒ کی وفات ۱۹۵۴ء یعنی تقریباً نصف صدی تک خط و کتابت رہی، یہ سارے خطوط سید عبدالحکیم صاحب نے محفوط رکھے اور سید صاحب کی وفات کے بعد دارالمصنفین کے حوالہ کردیئے جو اس کا بڑا قیمتی سرمایہ ہیں۔
سید عبدالحکیم صاحب کی تعلیم بہت معمولی تھی، لیکن ذوق علمی رکھتے تھے اور کتابوں کے مطالعہ سے انھوں نے اچھی خاصی استعداد بہم پہنچائی تھی، ان کا سب سے بڑا کارنامہ دیسنہ کا اردو کتب خانہ ہے، یہ کتب خانہ اس لحاظ سے ہندوستان میں بے مثل ہے کہ اس میں اردو کی اکثر مطبوعہ کتابیں اور پرانے اخبارات و رسائل کے مکمل فائل موجود ہیں جو دوسرے کتب خانوں میں مشکل سے مل سکتے ہیں، یہ کتب خانہ زیادہ تر سید عبدالحکیم صاحب کی کوشش کا نتیجہ ہے۔ انھوں نے اس کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا تھا، اردو کے شائقین اور اس کے ریسرچ اسکالر دور دور سے اس کو دیکھنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے جاتے ہیں۔ سید صاحبؒ سے تعلق کی بناء پر مرحوم کو دارالمصنفین سے بڑا گہرا تعلق تھا، اگرچہ وہ اس کے کوئی عہدہ دار یا رکن نہ تھے لیکن اس کی ہواخواہی میں سب سے بڑھ کر تھے۔ وفات کے وقت نوے سال کی عمر رہی ہوگی، اﷲ تعالیٰ ان کو عالم آخرت کی بخششوں سے نوازے۔ (شاہ معین الدین ندوی،جولائی ۱۹۵۸ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |