Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > نواب اسمٰعیل خاں

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

نواب اسمٰعیل خاں
ARI Id

1676046599977_54338033

Access

Open/Free Access

Pages

241

نواب اسمٰعیل خاں مرحوم
یہ سطور زیر تحریر تھیں کہ نواب اسمٰعیل خاں مرحوم کی وفات کی خبر ملی، مرحوم ایک بڑے باپ نواب اسحق خاں کے لڑکے اور ایک نامور دادا نواب مصطفے خاں شیفتہ کے پوتے اور خود بھی بہت سے اوصاف سے متصف، قدیم تہذیب و شرافت کا نمونہ تھے، قومی و ملکی سیاست سے بھی ان کو دلچسپی تھی، چنانچہ خلافت کی تحریک کے زمانہ میں وہ کانگریس کے ساتھ اور ہندوستان کی جنگ آزادی میں عملاً شریک رہے، مگر اس زمانہ میں بھی ان میں بڑی دینی و ملی حمیت تھی، غالباً اسی بناء پر پاکستان کے قیام کی تحریک کے بعد مسلم لیگ میں شامل ہوگئے، وہ اس کے مقتدر رہنما اور فطرۃً نہایت سنجیدہ متین اور باوقار تھے، اس لئے ہر زمانہ میں ان کی روش معتدل رہی اور وہ جس جماعت میں بھی رہے ان کی حیثیت امتیازی رہی اور ان کا خاص وزن و وقار رہا، گو وہ لیگ کے لیڈر تھے، مگر ہندوستان کی تقسیم کے بعد انھوں نے پاکستان کی راہ نہیں لی، بلکہ ہندوستان ہی میں رہ کر یہاں مسلمانوں کے درد دکھ میں شریک رہے، کچھ دونوں تک مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے تھے، ان کی موت سے ہماری قدیم تہذیب و شرافت کی ایک باوقار یادگار مٹ گئی، اﷲ تعالیٰ اس خادم ملک و ملت کو اپنی رحمت و مغفرت سے نوازے۔
(شاہ معین الدین ندوی، جولائی ۱۹۵۸ء)

نواب محمد اسمٰعیل خاں مرحوم
( پروفیسر رشید احمد صدیقی)
نواب محمد اسمٰعیل خاں، نواب محمد اسحق خان کے بیٹے اور نواب مصطفےٰ خاں شیفتہ کے پوتے تھے، شیفتہ کو دیکھا نہیں، لیکن ان کی غیر معمولی ذہنی اور اخلاقی خوبیوں کا حال کتابوں میں پڑھا ہے، شیفتہ کی بڑائی میں کیا شک جب حالیؔ اس پر گواہی دیتے ہوں۔
نواب اسحق خاں یوپی میں سیشن جج تھے، ان کے ہم عصر نواب محمد علی بھی، دونوں کے بارے میں مشہور تھا کہ انگریزوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، اس زمانے کے انگریزوں کو، انگریز حکام کا کتنا ہی دباؤ کیوں نہ پڑے فیصلے بے لاگ دیتے تھے، مسلمان نوکری پیشہ طبقے میں ان کے نام فخر و مسرت سے لیے جاتے تھے، جیسے یہ ان کے ہیرو ہوں۔
کہنے کو تو کہا جاسکتا ہے کہ دونوں انگریزی سرکار کی ملازمت میں تھے، لیکن انصاف سے دیکھا جائے تو ان کا درجہ ان لوگوں میں بہتوں سے کم نہ تھا، جو اس زمانہ میں لیڈر کہلاتے تھے، بلکہ بعض اعتبار سے ان کی دلیری کا زیادہ قائل ہونا پڑتا ہے، اس لیے کہ حکومت کی ملازمت میں ہوتے ہوئے ایمان و انصاف کے معاملے میں حکومت کے عتاب کی پروا نہیں کرتے تھے، پنشن پاکر دونوں نے ایم اے او کالج کا انتظام سنبھالا اور اسی خدمت کے دوران میں جان جاں آفریں کے سپرد کردی۔
نواب وقار الملک کے بعد نواب محمد اسحق خاں آنریری سکریٹری ہوئے، ان کے عہد کے چند واقعات آج تک یاد آتے ہیں، ایک کلیات خسروؔ کی تدوین اور طباعت، دوسرا نظام آصف جاہ سادس کا علی گڑھ میں دورہ ، تیسرے کالج کے یورپین اسٹاف کا متحد ہوکر استعفیٰ دینا اور اس کا منظور کرلیا جانا، نواب صاحب ہی کی سکریٹری شپ کے زمانے میں مسز سروجنی نیڈو علی گڑھ تشریف لائیں اور اسٹریچی ہال میں وہ مشہور تقریر کی اور ان کے خیرمقدم میں مولانا سہیل نے وہ نظم پڑھی جو اب تک ہمارے دلوں میں تازہ ہے۔
دہلی کے مشہور داستاں گو میر باقر علی کو فن کا کمال دکھانے کے لیے پہلے پہل علی گڑھ میں نواب صاحب ہی نے دعوت دی تھی، پکی پارک کے صحن میں رات کو محفل سجائی گئی تھی، عزت اور محبت کے الفاظ میں نواب صاحب نے باقر علی کا تعارف کرایا تھا، جس کا آخری فقرہ اب تک یاد ہے، ’’میر باقر علی آج داستان سنائیں گے، کل خود داستان بن جائیں گے!‘‘ باقر علی تھے کہ نواب صاحب کے ہر فقرے اور ہر لفظ پر بچھے جارہے تھے اور طلباء کا انداز پذیرائی دیکھ کر جیسے پھولے نہ سماتے تھے۔
داستان شروع کی تو یہ عالم تھا کہ کبھی اس طرح محفل سناٹے میں آجاتی جیسے دور دور کوئی متنفس موجود نہ ہو، اور کبھی تحسین و آفریں کے نعروں کا یہ عالم ہوتا کہ دور دور تک کے لوگ چونک پڑتے، کیسے شریف، شائستہ، صحیح المذاق، زندگی کی صحت مند توانائیوں سے لبریز اور تہذیبی روایات سے آراستہ نوجوان طلبہ کا اجتماع تھا، پھر پکی پارک کی وہ فضا جس میں خود کتنی داستانیں کس کس روپ میں کہاں کہاں خوابیدہ یا بیدار تھیں۔
داستاں گوئی یوں تو ایک معمول سے بات معلوم ہوتی ہے، لیکن اس رات میر باقر علی کی داستان گوئی کا کمال دیکھ کر یقین آگیا کہ افسانہ طرازی اور افسانہ طراز کیا ہوتے ہیں اور کیا کرسکتے ہیں، ایسے فنکار کو آپ کیا کہیں گے جو ماضی کو مستقبل کے لیے ہمیشہ زندہ رکھ سکے۔
معاف کیجئے گا ماضی کی یاد نے ماضی سے بھی دور کہیں پھینک دیا! ماضی کو میں اپنا کارنامہ نہیں قرار دیتا، یہ بھی نہیں چاہتا کہ آپ قرار دیں، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ اپنے آپ کو کبھی کبھی ماضی کا کارنامہ سمجھنے لگتا ہوں! کہنا یہ تھا کہ نواب اسحق خاں ہم لوگوں کو لطف اندوز ہوتے دیکھ کر خود بڑے خوش ہوتے تھے، رہ رہ کر قہقہے لگاتے، بوڑھے داستان گو کی پیٹھ تھپکتے، باقر علی فرط مسرت و افتخار سے کھڑے ہو ہوکر تعظیم بجا لاتے، اور عالم کیف و جذب میں پہنچ کر اس طرح داستان سنانے لگتے جیسے آج کی رات آخری تاریخ تھی، اس کے بعد نہ یہ فن رہے گا، نہ فنکار، نہ اس کے قدرداں!
نواب محمد اسحق خاں کے خوش ہونے اور قہقہے لگانے کا ذکر خاص طور پر اس لیے کیا گیا کہ نواب اسمٰعیل خاں بھی اپنی خوشی اور خوشنودی کا اظہار اسی طرح سے کرتے تھے، یہ بات نواب صاحب کے مخلص اور معتبر ہونے کی ایک واضح علامت تھی، ان سے مل کر آپ اس تذبذب میں نہیں مبتلا ہوسکتے تھے کہ انھوں نے آپ کا اعتبار کیا یا نہیں، جو بات ان کے دل میں ہوتی وہی زبان پر آتی، اس سے ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے میں نہ صرف سہولت ہوتی بلکہ لطف آتا اور حوصلہ بڑھتا۔
نواب صاحب ہم سب پر بڑے مہربان تھے اور ہم پر بھروسہ کرتے تھے، دلیر اور حوصلہ مند تھے، کوئی نازک موقع آن پڑتا اور بات یونیورسٹی سے باہر پہنچنے والی ہوتی تو وہ ہماری فروگذاشت کو اپنی فروگذاشت بنالیتے اور ہم پر کسی طرح کی آنچ نہ آنے دیتے، ہماری عزت کو اپنی عزت سمجھنے والے تو بہت سے مل جاتے ہیں، گو میرا ساتھ ایسوں سے بھی پڑا ہے جو ہماری عزت کو اپنی توہین سمجھتے تھے، نواب صاحب ذلت کو بھی اپنی ذلت سمجھتے تھے! قبیلے کا سردار ہونے کی ان میں بڑی نشانیاں ملتی تھیں۔
نواب صاحب عرصے تک یونیورسٹی کے ٹریزرر رہ چکے تھے، ملک تقسیم ہوا تو مستقل وائس چانسلر ہوئے، یہ وہ زمانہ تھا جب اطرافِ ملک میں مسلمانوں کی آبرو جان اور مال کی تباہی و تاراجی کا وہ عالم تھا کہ اتنے دن گذر جانے کے بعد آج بھی ان کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، یہ قوم بھی جسے مسلمان کہتے کبھی کبھی شرم آنے لگتی ہے، کیسی کیسی ہولناکیوں سے جانبر ہوچکی ہے، لیکن اب تاریخی کارناموں کے بجائے تاریخی رسوائیوں کی خوگر ہونے لگی ہے، قرآن پاک میں اس موقع کے لیے غالباً کوئی وعید آئی ہے، جو یاد نہیں آتی ورنہ ضرور لکھ دیتا۔
نواب صاحب جس ذہنی اور روحانی کرب میں مبتلا تھے، اس کا اندازہ کرنا ان لوگوں کے لیے مشکل ہے، جو نہ ان کے قریب تھے نہ صورت حال سے براہ راست واقف، ہر وقت اس کا خطرہ رہتا کہ کہیں یونیورسٹی کا وہی حشر نہ ہو جو دوسری مسلمان بستیوں کا ہوچکا تھا، ہر طرف سے وحشت ناک خبریں آرہی تھیں، غارتگروں کا جتھا علی گڑھ کے آس پاس منڈلا رہا تھا، نواب صاحب جس لیگ کے ارکان اعلیٰ میں سے تھے اس کی لائی ہوئی تباہیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے اور کچھ کر نہیں پاتے تھے، اس پر مستزادیہ کہ مسلمانوں کی متاع گراں بہا مسلم یونیورسٹی کو بچانے کی ذمہ داری ان کے سر تھی، مقامی حکام سے بروقت امداد کی توقع موہوم تھی، وہ جو انگریزی میں ایک مثل مشہور ہے کہ فلاں شخص غم یا غیرت کا ایسا شکار ہوا کہ پھر تمام عمر نہیں مسکرایا، کم و بیش یہی کیفیت نواب صاحب کی تھی۔
یہاں پہنچ کر قائل ہونا پڑتا ہے کہ آخرکار منصب نہیں بلکہ شخصیت فیصلہ کن ثابت ہوتی ہے، ملک تقسیم ہوا ہے تو کانگریس اور مسلم لیگ کی عداوت انتہا کو پہنچ چکی تھی، لیکن کانگریس کے ہر طبقے میں نواب صاحب کی ساکھ قائم رہی، جس کا ثبوت راج گوپال اچاریہ بالقابہ گورنر جنرل ہند کی وہ تقریر ہے جو انھوں نے مسلم یونیورسٹی کے اسی سال کے کنووکیشن میں کی تھی، اور نواب صاحب کی خدمات اور خوبیوں کا برملا اعتراف کیا تھا، کانگریس حکومت کے اتنے ذمہ دار اور مقتدر شخص کا مسلم لیگ کے اتنے ممتاز رکن کو اس زمانے میں علی گڑھ آکر سراہنا معمولی بات نہ تھی۔
مسز سروجنی نیڈو یوپی کی گورنر تھیں، علی گڑھ تشریف لائیں، ممدوحہ کے اعزاز میں نواب صاحب نے یونیورسٹی کے کچھ لوگوں کو شب میں اپنے ہاں شعروسخن کی ایک مختصر اور منتخب محفل میں مدعو کرلیا تھا، موصوفہ جہاں موجود ہوں وہاں کی گرمیٔ محفل کا کیا کہنا، اس موقع پر اپنے خلوص اور خوش گفتاری سے ایسا کام لیا اور حاضرین میں سے ہر ایک کی فرداً فرداً ایسی دلنوازی کی کہ ایسا محسوس ہونے لگا جیسے فضا ہی بدل گئی ہو، نواب صاحب کو اپنی اور اپنی حکومت کی طرف سے یونیورسٹی کی حفاظت اور حرمت کا اطمینان دلایا، اس زمانے میں حکومت کا شائد ہی کوئی اتنا بڑا آدمی باستثناء چند علی گڑھ کی تالیف قلب میں اس جرأت اور مرحمت کا نمونہ پیش کرنے کی ہمت کرسکتا تھا۔
سوچتا ہوں مسزنیڈو ۱۷-۱۶ء میں نواب محمد اسحق خاں کی آنریری سکریٹری شپ میں ان کی دعوت پر علی گڑھ تشریف لائیں اور اپنی بے مثل خطابت سے بقول سہیل مرحوم،
شکست رنگ ساحری چو زد نواے شاعری
نمود سحر سامری اگر در خطاب زد!
کا کیسا سماں پیدا کردیا تھا، پھر تیس بتیس سال گذر جاتے ہیں، نواب اسحق خاں کے فرزند علی گڑھ کے وائس چانسلر ہوتے ہیں، ملک میں تقسیم کا تہلکہ مچا ہوا ہے، مسلمان خاک و خون میں ملائے جانے لگتے ہیں، علی گڑھ نرغے میں آجاتا ہے تو وہی مسز نیڈو کسی کے بلائے بغیر علی گڑھ پہنچتی ہیں اور اپنی شرافت اور مرحمت سے نواب صاحب اور ہم سب کو ڈھارس دیتی ہیں اور اس ادارے کو تاراج ہونے سے بچانے میں گرانقدر حصہ لیتی ہیں، آج بھی جبکہ صورت حال بہت کچھ بدل چکی ہے، مسز نیڈو اور اس صوبے میں ان کی گورنری اکثر بے اختیار یاد آتی ہے اور محزوں بنا جاتی ہے، قانون کہتا ہے گورنر کیا کرسکتا ہے، قانون کا یہ کہنا سچ ہے، اس لیے کہ اپنے بارے میں کچھ کہنے والا اس سے زیادہ مستند اور کون ہوسکتا ہے لیکن یہ بھی تو ممکن ہے کہ قانون بنانے والوں اور خود قانون کو یہ نہ معلوم ہوکہ شخصیت کیا کرسکتی ہے۔
یادوں کے سلسلے میں باتیں بھی کہاں کہاں پہنچیں! نواب صاحب کو سب سے پہلے غالباً ۱۹۲۰؁ء میں ان کے دولت کدہ مصطفےٰ کاسل میرٹھ میں دیکھا تھا۔ اس زمانے میں میرٹھ میں ایک پروفیشنل ٹینس ٹورنامنٹ ہوتا تھا، جس میں شرکت کرنے کے لئے کالج سے ٹیم گئی تھی اور نواب صاحب کی مہمان ہوئی تھی، ان ہی دنوں مسعود ٹامی ۱؂ مرحوم میرٹھ میں غالباً نائب تحصیلدار تھے، مسعود ٹامی کو خبر لگ جائے کہ علی گڑھ سے طلبہ آئے ہوئے ہیں تو ملنے کے لیے فرط محبت سے بے قرار ہوجاتے تھے، موٹر لے کر مصطفےٰ کاسل پہنچے اور نواب صاحب سے کہا، نواب صاحب، کلکٹر صاحب سے آج کی چھٹی لے لی ہے، آپ بھی ان لڑکوں کو چھٹی دے دیجئے، سب کو پکنک پر سردھنے کا گرجا دکھانے لے جاؤں گا۔ کھانا ساتھ ہے، لنچ اورسہ پہر کی چائے وہیں ہوگی، شام تک سب کو واپس پہنچا جاؤں گا، نواب صاحب نے فرمایا لے جاؤ، خاطر مدارات خوب کرنا، صرف اپنی عادتیں نہ سکھانا، یہ کہہ کر ایک قہقہہ لگایا، ٹامی مرحوم بھی ہنس پڑے اور بولے نواب صاحب کاش عادت سکھا دینا اتنا ہی آسان ہوتا جتنا آپ کو اندیشہ ہے! پھر دونوں نے قہقہے لگائے اور ہم سب مسعود ٹامی کے قبضے میں چلے گئے۔
اب کیا بتاؤں اور کیونکر بتاؤں کہ مسعود ٹامی ہم سب کو لے کر چلے ہیں تو ان کی سرخوشی کا کیا عالم تھا، جیسے زندگی کی کوئی بہت بڑی آرزو دفعتہ پوری ہوگئی ہو! علی گڑھ اور علی گڑھ کے طلبہ پر مسعود ٹامی کی حد تک فریفتہ میں نے کسی اور کو اب تک نہ پایا، ہر اعتبار سے کتنا حسین مردانہ پیکر سرخ سپید رنگت، بالکل جیسی اس زمانے میں انور پاشا کی روغنی تصویر جابجا آویزاں ملتی تھی، ہر وقت خوش رہنا اور ساتھیوں کو خوش رکھنے کی کوشش کرنا، کیسا ذہین اور محبت کرنے والا شخص، باربار علی گڑھ کا ذکر اور ہم پر نوازشہاے پیداو پنہاں‘‘!
آج کے مصطفےٰ کاسل کو دیکھ کر چالیس برس یا اس سے بھی پہلے کے مصطفےٰ کاسل کا اندازہ لگانا مشکل ہے، کتنی خوبصورت شاندار عمارت، وسیع باغ، کیسے کیسے اور کتنے گھنے تناور درخت جو کبھی کبھی اتنے درخت نہیں معلوم ہوتے تھے، جتنے پرانے زمانے کے سورما اور ان کی داستانہائے رزم و بزم‘‘۔ ایسے دیوپیکر درخت اتنی تعداد میں اس قرینے سے یکجا وسط شہر میں میں نے اس سے پہلے نہیں دیکھے تھے، عمارت کے وسط میں ایک مختصرسا عجائب خانہ تھا جس میں طرح طرح کے نوادر قرینے سے سجائے گئے تھے ایک چیز اب تک یاد ہے، ہاتھی دانت میں ایک نسوانی پیکر تراشا گیا تھا، جس کی اونچائی غالباً ۱۰-۸ انچ ہوگی، اس وقت اس کو دیکھ کر کچھ اس طرح کا خیال گذار تھا کہ عورت میں کشش کی جتنی باتیں فطرت نے ودیعت کی تھیں، یا ابتداء سے آج تک اچھے اور بڑے شعراء نے دریافت کی تھیں، ان کے بعد بھی کچھ باقی رہ گیا تھا، جس کو مجسمہ ساز نے پورا کردیا تھا۔مدتوں بعد یاد نہیں آتا کسی سلسلے میں ایک دفعہ پھر مصطفےٰ کاسل جانا ہوا، نقشہ ہی بدلا ہوا تھا، عمارت، باغ، درخت سب کہنگی، ویرانی اور افسردگی کی زد میں تھے، سوا نواب صاحب کی شفقت اور شگفتگی کے جو زمانے کی لائی ہوئی کسی زبونی اور ابتری سے متاثر نہ تھی، آج دفعتہ سننے میں آیا کہ نواب صاحب رحلت فرماگئے! مصطفےٰ کاسل ڈھے گیا جس میں کتنی اور کیسی کیسی یادیں دفن ہوگئیں، محبت و مروت کی یادیں، مہمان نوازی اور وضعداری کی یادیں، غیرت و حمیت کی یادیں، شرافت اور شفقت کی یادیں! ایک شخص کے زندہ رہنے سے کتنی اقدار اور روایات کو فروغ تھا، اس کے اٹھ جانے سے کتنی شمعیں بے نور اور محفلیں سونی ہوگئیں!
کہاں ہے آج تو اے آفتاب نیم شبی!
تقسیم ملک سے پہلے کی تقریباً تیس بتیس سال کی قومی سرگرمیوں میں نواب صاحب کی خدمات کا مسلسل اور معتدبہ حصہ رہا ہے، خلافت کی تحریک میں پیش پیش تھے، مسلم لیگ کے اعیان و اکابر میں سے تھے، مسلم یونیورسٹی کے ٹریزرر اور وائس چانسلر رہے، کوئی غیر معمولی سیاست داں، ماہر تعلیم، عالم فاضل یا کسی فن میں یگانۂ، روزگار نہ تھے، لیکن ایسی شخصیت کے مالک تھے جس کے بغیر یہ تمام سرگرمیاں نامکمل اور ناقابل اعتبار ٹھہرتی ہیں!
مسلم لیگ کے آزمودہ کار اور مقتدر رکن ہونے کے باوجود مسلم لیگ میں اتنے قابل اعتناء نہیں سمجھے گئے، جتنے کہ وہ مستحق تھے، سبب یہ تھا کہ سیاست میں شخص کو نہیں مصلحت کو دیکھتے ہیں، لیگ کی مصلحت اور طریقۂ کار سے بحیثیت مجموعی نواب صاحب کی سیرت و شخصیت ہم آہنگ نہ ہوسکی، نواب صاحب نے اپنے لیے ایک سطح مقرر کرلی تھی، جس سے وہ کسی حال میں نیچے اترنا گوارا نہیں کرسکتے تھے، ان کی زندگی میں اکثر ایسے مواقع آئے جہاں اپنے اس اصول، مزاج یا طریقۂ کار کی خاطر ان کو نقصان اٹھانا پڑا اور حریفوں نے اس سے فائدہ اٹھایا، لیکن نواب صاحب اس طرح کی شکست کو اپنی فتح سمجھتے تھے، اس لیے بددل اور بیزار ہونے کے بجائے ہمیشہ شگفتہ اور شادماں رہے، نواب صاحب پارٹی نہیں بناسکتے تھے اور پارٹی بنائے بغیر پبلک لائف کے نشیب و فراز سے عزت اور عافیت سے گزرنا تقریباً ناممکن ہے۔
جیسا کہ اس سے پہلے عرض کیا جاچکا ہے، نواب صاحب مدتوں علی گڑھ سے وابستہ رہے اور بڑے ذمے دار عہدوں پر فائز، اس میں شک نہیں اس زمانے میں (تقسیم ملک سے پہلے) مسلم یونیورسٹی کا کاروبار اتنا پھیلا ہوا نہ تھا، اور نت نئے مسائل کا اتنا سامنا نہ تھا، جتنا آج ہے، پھر بھی انتظامی دشواریاں کچھ کم نہ تھیں، یونیورسٹی کی آمدنی بہت کم تھی، ایک ترقی پذیر معیاری ادارے کے لیے مالی دشواری بہت بڑی مصیبت ہے، اسٹاف کی کمی، سامان کی کمی، عمارات کی کمی، گرانی کے سبب سے ملازموں کی تنخواہوں میں اضافے کی ضرورت، اس قسم کے کتنے اور مسائل تھے، جن کا یونیورسٹی کو سامنا تھا، بایں ہمہ نواب صاحب کی شرافت، بے لوثی اور حسن سلوک کا ایسا اثر تھا کہ کسی دشواری نے پیچیدگی یا ناگواری کی صورت کبھی نہیں اختیار کی، ادنیٰ ملازمین سے لے کر اعلیٰ عہدے داروں تک سبھی تو نواب صاحب پر بھروسا کرتے تھے، اور خود نواب صاحب سب سے عزت اور محبت سے پیش آتے تھے، کسی کے پاس حاجت لے کر جائے تو نفس کو بالعموم غیرت کا احساس ہوتا ہے، لیکن نواب صاحب اس وقار سے ملتے تھے، اور اس دلسوزی سے پرسش احوال کرتے اور مدد پر آمادہ ہوجاتے تھے کہ ذلت کی بجائے آدمی اپنے آپ کو گرامی محسوس کرنے لگتا تھا، نواب صاحب اتنے اچھے تھے کہ کوئی برا شخص بھی اپنے آپ کو آسانی سے اس پر راضی نہیں کرسکتا تھا کہ ان کی برائی پر آمادہ ہوجائے۔
ایک دن نواب صاحب کلکٹر ضلع کے ہاں لنچ پر مدعو تھے، شاید کسی منسٹر کے اعزاز میں یہ تقریب تھی، اس زمانے میں شاید یونیورسٹی کی اپنی کوئی کار نہ تھی، معلوم نہیں کہاں سے ایک خستہ و خوار جیپ آئی، وقت تنگ تھا، نواب صاحب عجلت میں تھے، کوٹھی سے نکلے ہی تھے کہ ایک صاحب آتے ہوئے نظر آئے، موٹر روک دی، معلوم ہوا کہ عارضی ملازم تھے، تنخواہ کے روپے ملنے میں کوئی پیچیدگی پڑگئی تھی اور آفس والوں نے ان کو چکر میں ڈال رکھا تھا، نواب صاحب نے ان کو گاڑی میں ساتھ بٹھالیا، وکٹوریہ گیٹ پر لائے اور کہا کہ اوپر جاکر متعلقہ کلرک کو بلا لائے، وہ آئے تو وہیں آرڈر لکھ کردیا اور فرمایا کہ ٹریزرر صاحب سے میرا سلام کہنا اورچیک پر دستخط کراکے ان صاحب کے حوالے کردینا، اتنے ہی پر اکتفا نہیں کیا، لنچ سے واپسی پر پھر گیٹ پر آئے اور دریافت کرایا کہ چیک دے دیا گیا یا نہیں، اطمینان ہوگیا تو کوٹھی پر واپس آئے۔
نواب صاحب نے اپنے ٹریزررشپ کے عہد میں یہ اسکیم پیش کی تھی کہ یونیورسٹی کے اساتذہ اور اعمال کو یونیورسٹی کی حدود میں ذاتی مکان بناکر مستقلاً آباد ہوجانے کے لیے قطعاتِ زمین دیے جائیں اور مناسب سہولتیں فراہم کی جائیں، مقصد یہ تھا کہ ملازمت سے سبکدوش ہونے پر بھی اساتذہ کا بالواسطہ تعلق اس ادارے سے رہ سکے، ان کی ہمہ وقت موجودگی سے طلبہ کو ہر طرح کا فائدہ پہنچے گا، اور یونیورسٹی میں ایسی فضا پیدا ہوجائے گی، جو یہاں کی علمی، تعلیمی اور تہذیبی روایات کو صحت مند اور تازہ کار رکھے گی، ہندوستان کی اقامتی درسگاہوں میں مسلم یونیورسٹی کا یہ اقدام اپنی نظیر آپ تھا، خیال کیا جاتا تھا کہ اس منصوبے کے بروئے کار آنے پر اس درسگاہ کی دیرینہ اقامتی حیثیت کو اور زیادہ فروغ نصیب ہوگا، یونیورسٹی نے اس اسکیم کو منظور کرلیا، چنانچہ مقررہ شرائط پر کافی لوگوں نے بڑے شوق اور حوصلے سے قطعاتِ زمین لیے اور مکان بنوائے، پھر معلوم نہیں کیا صورت پیش آئی کہ کچھ دنوں بعد اس اسکیم کو ختم کردیا گیا، ۱۹۴۷؁ء کے رستاخیز میں وہ لوگ بھی ادھر ادھر ہوگئے جنھوں نے مکان بنوالیے تھے، چنانچہ اس اسکیم سے جو فوائد مرتب ہونے والے تھے وہ نہ ہوسکے۔
اس زمانے میں اسٹاف کے لوگ یونیورسٹی کے اس اقدام پر بہت خوش ہوئے تھے، اور اس کا عام چرچا تھا کہ نواب صاحب کو ادارے کے اساتذہ اور عمال کا کتنا خیال تھا، ان کے لیے ان کے قلب میں کتنی وسعت تھی، اور جہاں تک یونیورسٹی کی فلاح و بہبود کا تعلق تھا، ان کی نظر کتنی دور رس تھی۔نواب صاحب بڑے سیرچشم تھے، ان کا دسترخوان بڑا وسیع تھا، اپنے مہمانوں کے ساتھ کھانے پر بیٹھے ہوتے تو ایسا معلوم ہوتا جیسے مہمانوں کی موجودگی، شرف اور شادمانی کی کوئی تقریب تھی، کھانے انواع اقسام کے ہوتے، کھانے والے بھی ہر طرح کے ہوتے، یہ نہیں کہ ہر روز معزز مہمانوں ہی کا مجمع ہوتا، ہر روز تو معزز مہمان کسی کے ہاں نہیں ہوتے، نواب صاحب کے ہاں کا دستور یہ تھا کہ خود ان کے یا سرکاری جتنے ملازم یا کام کرنے والے ہوتے اور آس پاس ان کے بیوی بچے ہوئے تو وہ سبھی نواب صاحب کے مطبخ سے کھانا کھاتے، یہی نہیں بلکہ کھانے، ناشتے کا وقت ہوا اور کوئی کلرک یا چپراسی پہنچ گیا جو نواب صاحب کے کلرک یا چپراسی کا شناسا ہوا تو وہ بھی کھانے میں شریک ہوگیا، اس طور پر نواب صاحب ہی نہیں ان کے ملازمین اور متوسلین کا دسترخوان بھی کچھ کم وسیع نہ ہوتا! صورت حال کچھ اس طرح کی تھی کہ نواب صاحب کی میزبانی تو ’’شرح معین‘‘ تھی، ملازمین اور متوسلین کی حیثیت ’’شکمی میزبان‘‘ کی ہوتی۔
یہ وصف ان کا خاندانی تھا، اور جاگیرداری یا سرمایہ داری سے وابستہ نہ تھا، جس نے وفا نہ کی، مہمان نوازی اور وضعداری کے اوصاف نے نواب صاحب کا ساتھ مرتے دم تک دیا، ان اوصاف کا نباہنا ہر شخص کے بس کے بات نہیں، نواب صاحب شروع سے آخر تک مالی دشواریوں میں مبتلا رہے، جوں جوں دن گذرتے گئے، یہ دشواریاں بڑھتی گئیں، آخر میں تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ کسی وقت بھی پانی سرسے اونچا ہوسکتا تھا، لیکن حیرت اس پر ہے کہ نواب صاحب کی کسی بات سے کبھی یہ ظاہر نہیں ہوا کہ ان پر کیا گذر رہی ہے، تنگ حال ہونا اور اس کا اظہار نہ ہونے دینا اتنا ہی مشکل ہے، جتنا اقتدار کو پہنچنا اور آپے میں رہنا۔
نواب صاحب بڑے اونچے درجے کے ارسٹوکریٹ تھے، جس کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ کیسی ہی تکلیف یا پریشانی میں کیوں نہ مبتلا ہو اس کا اظہار اس کی کسی بات سے نہ ہو، ہمارے ہاں ادنی درجے کی بھی ارسٹوکریسی ملتی ہے، لیکن جس بات کی طرف میں اشارہ کررہا ہوں وہ یونان کے عہداولین کی ارسٹوکریسی (اشراقیت) ہے جو وہاں کے دیوتاؤں کا درجہ اختیار کرچکی تھی۔
مہمانوں کی تواضع و تکریم، اولاد کی تعلیم و تربیت گھر کی زندگی کو خوبصورتی اور خیر و برکت سے مالا مال رکھنے میں نواب صاحب کی بیگم صاحبہ کو بڑا دخل تھا، پردہ نشین، باوقار، خدا ترس، خوش مزاج، اور بڑی نفاست پسند بی بی تھیں، یونیورسٹی میں غریب عورتوں کا سہارا تھیں، آج تک یہاں کے نچلے طبقے کے ملازمین، ان کی بیوی بچے بیگم صاحبہ کی دلنوازی اور داد و دہش کا ذکر بڑی محبت اور حسرت سے کرتے ہیں، موقع آئے تو ان میں کسی نہ کسی کو یہ کہتے ضرور سنیں گے کہ کھانے پینے اور عزت و آرام کے مزے تو نواب اسمٰعیل خاں صاحب کی بیگم صاحبہ کے زمانے میں اٹھائے! کہنے کو تو کہا جاتا ہے کہ اولاد کی تقدیر بنانے میں والدین کو بڑا دخل ہوتا ہے، گو اب یہ بھی کہا جانے لگا ہے کہ والدین کی تقدیر بگاڑنے میں اولاد کا دخل کچھ کم نہیں ہوتا، لیکن جہاں تک نواب صاحب کی اولاد کا تعلق ہے، یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اس وقت ان کی زندگی میں جو ہمہ جہت شہرت اور وقعت نصیب ہے، اس میں نواب صاحب اور بیگم صاحبہ کے فیض تربیت اور خاندان کی اعلیٰ روایات کا بڑا حصہ ہے۔
نواب صاحب مجھ پر کتنا کرم کرتے تھے اور میرے بچوں اور عزیزوں سے کس محبت اور عزت سے پیش آتے تھے، جی چاہتا ہے اس کا تذکرہ تفصیل سے کروں، اس سے نواب صاحب کی شفقت، حق پسندی اور وضعداری کی کیسی قابل قدر مثالیں سامنے آسکتی ہیں، لیکن کرتا ہوں تو اس کا احساس ہوتا ہے کہ اس میں خود ستائی اور خودنمائی کا بھی پہلو نکلتا ہے، جو ممکن ہے کسی اور موقع پر گوارا کرلیتا، یہاں اس کی کسی طرح ہمت نہیں ہوتی اور نہ کروں تو غیرت دامنگیر ہوتی ہے کہ وہ حق نہیں ادا کررہا ہوں جو نواب صاحب کا مجھ پر ہے۔نواب صاحب کی فرد اعمال تو خدا کے علم میں ہے، اور نجات أخروی کا سر رشتہ بھی اس کے ہاتھ میں ہے لیکن نواب صاحب کی محبت و منزلت سے میرا دل جس قدر معمور ہے اس سے امید کرتا ہوں کہ مرحوم کو خدا اپنی بے پایاں بخششوں سے ضرور نوازے گا، میرا کچھ اس طرح کا عقیدہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کبھی کبھی اپنی بخشش کی بشارت اس محبت سے بھی دیتا ہے جو وہ اپنے نیک بندوں کی طرف سے اپنے بعض گنہگار بندوں کے دل میں ڈال دیتا ہے۔ (ستمبر ۱۹۵۸ء)

۱؂ مسعود ٹامی کی بذلہ سنجی، شوخی اور تفریحی شرارتوں کے قصے اس زمانہ میں ہر علی گڑھ والے کی زبان پر تھے، ایک دن یونین کا جلسہ تھا، اچھے اچھے مقرر موجود تھے، مسعود ٹامی بھی کہیں سے آنکلے، حاضرین نے بے اختیار نعرہ لگایا، کہ مسعود ٹامی بھی تقریر کریں، وائس پریسیڈنٹ (اب پریسیڈنٹ )نے کہا کہ مسعود صاحب سب سے آخر میں تقریر فرمائیں گے تاکہ وہ دوسری تمام تقریروں پر تبصرہ فرماسکیں، وقت آنے پر مسعود صاحب ڈائس پر تشریف لائے اور ’’ڈمب شو‘‘ شروع کردیا، یعنی ہر مقرر کے سراپا اس کی تقریر اور انداز تقریر کو زبان سے نہیں بلکہ اعضا و جوارح کی حرکات و سکنات سے دکھانا بتانا شروع کیا، جیسے اسکرین پر خاموش تصاویر دکھائی جاتی ہیں، گانے اور ناچنے کے فن کے ماہر آواز اور حرکت سے مختلف کیفیات کا اظہار شائد اس خوبی سے نہ کر پائیں، جیسی مسعود ٹامی نے اس موقع پر تقریر کرنے والوں کی خاموش نقل ہم کو دکھائی تھی، حاضرین کس طرح سے لطف اندوز ہوئے ہوں گے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...