Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی
ARI Id

1676046599977_54338039

Access

Open/Free Access

Pages

247

مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی
افسوس ہے کہ گذشتہ مہینہ ہماری جماعت کے ممتاز رکن اور ندوہ کے نامور فرزند مولانا عبدالرزاق صاحب ملیح آبادی نے وفات پائی، انھوں نے متوسطات تک ندوہ میں تعلیم پائی، اور تکمیل جامعہ ازہر مصر میں کی تھی، علامہ رشید رضا کے خاص شاگردوں میں تھے، ان کا ذوق ابتدا سے سیاسی بلکہ انقلابی تھا، چنانچہ مصر کے قیام کے زمانہ میں قسطنطنیہ جاکر انور پاشا سے ملے، ان کی ملاقات نے سیاست اور آزادی کا نشہ اور تیز کردیا، پہلی جنگ عظیم کے بعد ہندوستان واپس آئے، اور کچھ دنوں تک مولانا عبدالباری فرنگی محلی رحمتہ اﷲ علیہ کے ساتھ رہے، جن کی ذات اس زمانہ میں مسلمانوں کی سیاست کا مرکز تھی، مگر مولانا عبدالرزاق کے خیالات اس زمانہ کی سیاست سے بہت آگے تھے، اس لئے زیادہ دنوں تک یہ ساتھ نہ رہ سکا۔
حسن اتفاق سے اسی زمانہ میں مولانا ابوالکلام کو ایک علمی و سیاسی رفیق کار کی تلاش تھی، اس کے لئے ان کی نگاہ انتخاب مولانا عبدالرزاق پر پڑی اور ان کو انھوں نے کلکتہ بلالیا، اس وقت سے وہ مولانا کے دامن سے ایسے وابستہ ہوئے کہ مرتے دم تک ان کا ساتھ نہ چھوڑا، وہ برسوں مولانا ابوالکلام کے سیاسی اور علمی کاموں میں ان کے دست راست رہے، چنانچہ دوسرے دور کے البلاغ اور ۱؂ مشہور عربی اخبار الجامعہ کے اڈیٹر مولانا ابوالکلام برائے نام تھے، ان کا پورا کام مولانا عبدالرزاق انجام دیتے رہے، الجامعہ ہندوستان میں عربی کا پہلا معیاری اخبار تھا، جس کی شہرت عرب ملکوں تک تھی، ہندوستان کے مسلمانوں میں عربی ادب و انشاء کا صحیح ذوق پیدا کرنے اور عرب ملکوں سے ان کا رابطہ استوار کرنے میں اس اخبار کا بڑا حصہ ہے، ان علمی و صحافتی مشاغل کے ساتھ سیاسی تحریکوں میں بھی علمی حصہ لیتے رہے، اور اس راہ میں قید و بند کی مصیبتیں جھیلیں، ہندوستان کی جنگ آزادی کے سلسلہ میں جب مولانا ابوالکلام کی مشغولیتیں زیادہ بڑھ گئیں اور وہ اپنے علمی و صحافتی مشاغل چھوڑنے پر مجبور ہوئے تو مولانا عبدالرزاق صاحب نے مختلف اوقات میں پیغام ہند اور آزاد ہند وغیرہ متعدد اخبار نکالے، آزاد ہند اب تک جاری ہے، بنگال کے مسلمانوں کی بیداری اور ہندوستان کی تحریک آزادی میں الہلال اور البلاغ کے بعد اس اخبار کا نمایاں حصہ ہے۔
ہندوستان کی آزادی کے بعد مولانا ابوالکلام نے مولانا عبدالرزاق کو دلی بلالیا اور وہ حکومت ہند کے ثقافتی تعلقات کے شعبہ کے عربی رسالہ ثقافتہ الہند کے اڈیٹر اور آل انڈیا ریڈیو اسٹیشن دہلی کے شعبۂ عربی کے انچارج مقرر ہوئے اور کئی سال تک دونوں کام انجام دیتے رہے، پھر مولانا ابوالکلام کی وفات کے بعد ایسے دل برداشتہ ہوئے کہ ملازمت چھوڑ کر کلکتہ چلے گئے، ان کو ایک مرتبہ حلق میں کینسر کی شکایت ہوچکی تھی مگر علاج سے افاقہ ہوگیا تھا، چند دنوں کے بعد پھر یہ مرض ابھر آیا، اس مرتبہ علاج سے کوئی فائدہ نہیں ہوا، اور اسی مرض میں گذشتہ مہینہ وفات پائی، وفات کے وقت ۶۴۔ ۶۵سال کی عمر رہی ہوگی۔
مولانا عبدالرزاق خالص افغانی پٹھان تھے، اس لئے پٹھانوں کی خوبیاں اور خامیاں وہ دونوں ان کے حصہ میں آئی تھیں وہ کہنہ مشق صحافی تھے، ان کی پوری عمر صحافت میں گذری عربی اور اردو دونوں کے ادیب تھے، نہایت فصیح و سلیس عربی اور اردو لکھتے تھے، اخبارات کے علاوہ انھوں نے مختلف اوقات میں اردو کے کئی رسالے نکالے اور ان کے ذریعہ اسلامی تاریخ اور عربی تہذیب و ثقافت سے متعلق خاصہ لٹریچر اردو میں پیدا کردیا، وہ طبعاً انتہاپسند، انقلابی اور آزاد خیال تھے، اس کا اثر ان کے سیاسی اور مذہبی خیالات میں نمایاں تھا، سیاسی خیالات میں وہ کمیونسٹ تھے، اور مذہب میں غیر مقلد اور ترقی پسند تھے، تقلید جمود اور بدعات کے سخت مخالف تھے، ابتدا میں اسی اثر کے ماتحت انھوں نے ابن تیمیہ اور ابن قیم کے بہت سے رسائل کا اردو میں ترجمہ کیا، مگر بعض اوقات ان کی آزاد خیالی صحیح مذہب کی حدود سے بھی آگے نکل جاتی تھی۔
طبعاً نہایت شریف، مخلص دوست نواز متواضع، بے تکلف، فیاض، سیرچشم، خوش مزاج اور بذلہ سنج انسان تھے، روپیہ پیسہ کی ان کی نگاہ میں کوئی وقعت نہ تھی، انھوں نے جو کچھ پیدا کیا سب صرف کردیا، حکومت ہند میں ڈیڑھ ہزار ماہوار پاتے تھے، مگر ایک حبہ نہیں بچتا تھا، ان کی فیاضی سے ان کا ہر ملنے والا مستفیض ہوتا تھا، اور لطف یہ کہ ان کی زندگی نہایت سادہ بلکہ طالب علمانہ تھی، ان کی بے سرد سامانی دیکھ کر کوئی شخص یہ یقین ہی نہیں کرسکتا تھا کہ وہ اتنی بڑی تنخواہ پاتے ہیں۔ مولانا ابوالکلام کے ساتھ برسوں رہے، ان کے ہمدم و ہمراز اور انیس جلوت و خلوت تھے، ان سے زیادہ مولانا سے قریب اور ان کا واقف کار دوسرا شخص نہیں نکل سکتا، مولانا بھی ان کی بڑی قدر اور ان پر بڑا اعتماد کرتے تھے۔
ان کی پوری زندگی قوم و ملت، ملک و وطن اور علم و ادب کی خدمت میں گذری ان کے مضامین کے علاوہ تصانیف کی تعداد دو درجن سے کم نہ ہوگی، دہلی کے قیام کے زمانہ مین عربی اردو کاایک مبسوط لغت مرتب کررہے تھے، جس کا ایک حصہ لکھ بھی چکے تھے، اور مولانا ابوالکلام کی ایک سوانحعمری بھی لکھی تھی، جس کے متعلق ان کا بیان تھا کہ اس میں ایسے اہم واقعات ہیں جن کا کسی کو بھی علم نہیں، اس لئے یہ کتاب ان کی یا مولانا کی وفات کے بعد شائع ہوگی، یہ سوانح عمری غالباً اس سوانح عمری سے مختلف ہے جو انھوں نے مولانا کی وفات کے بعد مولانا کی روایت سے شائع کی ہے، ان کتابوں کے علاوہ اسلام اور رسول اﷲ صلی علیہ وسلم سے متعلق بعض اور تصانیف بھی ان کے پیش نظر تھیں جن میں سے غالباً بعض کتابیں انھوں نے شروع بھی کردی تھیں یقین ہے کہ ان کی غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے ان کے لایق فرزند عزیزی احمد سعید خاں صاحب کے پاس محفوظ ہوں گے، اور وہ ضائع نہ ہونے پائیں گے، مولانا عبدالرزاق نے اپنے قلم سے عرصہ تک مذہب و ملت کی خدمت کی ہے، اﷲ تعالیٰ اس کے صلہ اور اپنی رحمت کے طفیل میں ان کی بشری لغزشوں سے درگذر کر کے اپنی رحمت و مغفرت سے سرفراز فرمائے، اللھم اغفرلہ وارحمہ رحمۃً واسعۃً۔
(شاہ معین الدین ندوی،جولائی ۱۹۵۹ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...