Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > چودھری محمدعلی ردولوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

چودھری محمدعلی ردولوی
ARI Id

1676046599977_54338042

Access

Open/Free Access

Pages

249

چودھری محمد علی صاحب ردولوی
افسوس ہے کہ ہماری قدیم تہذیب کی یادگاریں ایک ایک کر کے اٹھتی جاتی ہیں اور پرانی محفل اجڑتی جاتی ہے، ان ہی یادگاروں میں ایک چودھری محمد علی صاحب مرحوم ردولوی بھی تھے، وہ امراؤ شرفائے اودھ کی تہذیب کا نمونہ تھے، ان کی شخصیت بڑی دلکش و دلپزیر تھی، بڑے خوش مذاق، زندہ دل، بذلہ سنج حاضر جواب اور علم مجلسی کے بڑے ماہر تھے، ان کی ہر چیز میں خوبی و لطافت اور زبان وقلم دونوں میں بڑے دلکشی تھی، تحریر میں صاحب طرز ادیب اور خوش گفتاری میں ہزار داستان تھے، جس محفل میں بیٹھتے تھے اپنی خوش بیانی سے چھاجاتے تھے، ان کی تحریر میں سادگی کے ساتھ بڑی تازگی اور بے ساختگی تھی، اس طرز میں وہ منفرد تھے، اہل زبان حضرات میں بھی اس طرز میں لکھنے والا کوئی نہ تھا، مگر ان کی تحریر اور گفتگو دونوں میں اودھ کا پرانا بے فکری کا تفریحی مذاق غالب تھا اس لیے تحریر کا دائرہ ادب و افسانے تک محدود تھا، اور اسی میں ان کا طرز تحریر کھلتا بھی تھا سنجیدہ علمی و ادبی مباحث سے ان کو زیادہ دلچسپی نہ تھی، اگر کبھی بھولے سے اس کوچہ میں نکل آتے تھے تو اس میں بھی تفریحی رنگ پیدا ہوجاتا تھا، یہی حال ان کی گفتگو کا تھا، ان کی سنجیدہ گفتگو بھی لطائف و ظرائف سے خالی نہ ہوتی تھی۔
ان کی عمر اسی (۸۰) کے قریب تھی مگر ان کی طبیعت سدا بہار تھی، اسلئے اس زمانہ میں بھی نہ وہ کسی سوسائٹی کے لیے اجنبی ہوئے تھے اور نہ کوئی سوسائٹی ان کے لیے اجنبی تھی، ہر عمر ہر مذاق اور ہر طبقہ کے لوگوں سے ان کے یکساں تعلقات تھے، اور جس مجمع میں بیٹھتے اس میں گھل مل کر اس طرح اس کے مذاق کی باتیں کرتے تھے کہ اسی کے ایک فرد معلوم ہوتے تھے۔ ان کی صحبت زعفران زار ہوتی تھی جس سے ہر مذاق کا آدمی لطف اندوز ہوتا تھا، وہ آج سے نصف صدی پیشتر کے لکھنے والے تھے لیکن ان کی تحریر کی تازگی میں اب بھی فرق نہیں آیا تھا، ان کا مطالعہ وسیع تھا، اسلامیات پر بھی ان کی نظر تھی اور آج کل کے بہت سے پڑھے لکھے لوگوں سے زیادہ معلومات رکھتے تھے اور کسی موضوع پر بھی بند نہ تھے، انگریزی و اردو کا ایک مختصر کتب خانہ بھی ان کے پاس تھا جس مین انگریزی کی بعض اچھی کتابیں تھیں، ان کے ورثہ میں ان کے بعد ان کا کوئی قدردان نہیں ہے، خدا معلوم اس کا انجام کیا ہو۔
وہ مذہباً شیعہ تھے، مگر بڑے معتدل اور شیعہ سنی اتحاد کے بڑے علمبردار تھے، اس سلسلہ میں انھوں نے ’’میرا مذہب‘‘ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی تھی، عرصہ سے محرم کی بدعتوں کو ترک کردیا تھا، ایک زمانہ میں بڑے آزاد خیال وسیع المشرب اور رنگین مزاج تھے لیکن عمر کے ساتھ ساتھ مذہبی رجحان بڑھتا گیا تھا اور ادھر چند برسوں سے بڑے مذہبی ہوگئے تھے، اور ان کے دل میں بڑا سوز و گداز پیدا ہوگیا تھا، حضرت امام زین العابدینؓ کی دعاؤں کا ایک مجموعہ ان کے ورد میں رہتا تھا اور اپنی گذشتہ زندگی کو یاد کرکے اکثر رویا کرتے تھے اور آنے جانے والوں سے اپنی دعائے مغفرت کی درخواست کرتے تھے، اﷲ تعالیٰ کی شان رحمت سے پوری توقع ہے کہ وہ ان کی مغفرت فرمائے گا، جس طرح ان کی زندگی میں شیعہ و سنیوں سے ان کے یکساں تعلقات تھے، اسی طرح ان کی وفات کے بعد بھی ان کی وصیت کے مطابق دونوں نے الگ الگ ان کی نماز جنازہ پڑھائی، چودھری صاحب جس تہذیب کی یادگار تھے، اب وہ تہذیب مٹ چکی ہے، اس لئے ان کی موت سے ایک پورے دور کا خاتمہ ہوگیا اور اب ایسے نمونے پیدا نہ ہوں گے۔
یادگارِ زمانہ تھے یہ لوگ سن رکھو تم، فسانہ تھے یہ لوگ
(شاہ معین الدین ندوی، اکتوبر ۱۹۵۹ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...