Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > جگرؔ مرادآبادی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

جگرؔ مرادآبادی
ARI Id

1676046599977_54338050

Access

Open/Free Access

Pages

252

جگرؔ مراد آبادی
افسوس ہے کہ بزم شاعری کی وہ شمع جو ایک عرصہ سے جھلملا رہی تھی، بالآخر خاموش ہوگئی، جناب جگرؔ مراد آبادی نے ۹؍ ستمبر کو گونڈہ میں انتقال کیا، وہ صحیح معنوں میں اس دور کے رئیس المتغزلین تھے، غزل مدتوں سے جسم بے جان ہورہی تھی، سب سے پہلے حسرتؔ کی مسیحائی نے اس میں جان ڈالی پھر فانیؔ، اصغرؔ اور جگرؔ نے اس کو سنوارا، یہ چاروں غزل کے ارکان اربعہ تھے، لیکن جگر نے اس کا رنگ ایسا نکھارا کہ ان کا طرز تعزل غزل گوئی کا معیار قرار پایا، انھوں نے تغزل کو اس درجہ تک پہنچادیا ہے کہ مستقبل قریب میں ان کے جیسا غزل گو پیدا ہونے کی امید نہیں، ان کا طرز اس قدر مقبول ہوا کہ نئے شعراء کی پوری نسل اس سے متاثر ہوئی اور نہ صرف تغزل بلکہ جگر کے ترنم، وضع قطع حتی کہ شاعرانہ لاابالی پن کی بھی تقلید کی جانے لگی اردو شاعری کی تاریخ میں کسی شاعر کو اپنی زندگی میں شائد ہی اتنی مقبولیت حاصل ہوئی ہو اور اس کا اتنا ہمہ گیر اثر پڑا ہو۔
اخلاقی حیثیت سے بھی جگر اتنے شریف، وضعدار، بلند نظر اور عالی ظرف انسان تھے کہ اس دور کے شاعروں میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے، اعظم گڑھ اور دارالمصنفین سے ان کا تعلق بہت قدیم تھا، ان کا تعارف یہیں سے ہوا اور ان کی شہرت نے یہیں سے پرپرواز نکالے آج سے پینتیس سال پہلے جب وہ چشمہ کے تاجر کی حیثیت سے اعظم گڑھ آتے تھے اس وقت مرزا احسان احمد صاحب نے ۱۹۱۹؁ء میں مخزن میں پہلی مرتبہ ان کا تعارف کرایا، پھر ۱۹۲۱؁ء میں ان کا پہلا دیوان ’’داغ جگر‘‘ اپنے مقدمہ کے ساتھ شائع کیا، یہ مجموعہ معارف پریس میں چھپا تھا، اسی زمانہ سے ان کی غزلیں معارف میں شائع ہونے لگیں، ان کے دوسرے دیوان ’’شعلۂ طور‘‘ پر حضرت سید صاحبؒ نے تعارف لکھا اور معارف میں اس پر مفصل تبصرہ لکھا گیا، جگر نے ان تعلقات کا ہمیشہ لحاظ رکھا، اپنی شہرت کے شباب کے زمانہ میں جب اعظم گڑھ آتے تو مرزا احسان احمد صاحب ہی کے یہاں ٹھہرتے اور دارالمصنفین ضرور آتے اور اکثر بغیر فرمائش کے بھی اپنا کلام سناتے اور کہتے یہاں سنانے میں جی لگتا ہے۔
ایک زمانہ تک جگر ایسے رندبلانوش رہے کہ ان کو اپنا ہوش بھی نہیں رہتا تھا، لیکن ان کا دل ہمیشہ مومن رہا اور ہر زمانہ میں وہ راسخ العقیدہ مسلمان رہے، بزرگوں کی صحبت بھی پائی تھی، حضرت شاہ عبدالغنی صاحب بنگلوری سے بیعت تھے، اصغر صاحب کی صحبت سے ان کو زیادہ فائدہ پہنچا، ادھر چند برسوں سے عملاً بھی دیندار ہوگئے تھے، شراب مطلق ترک کردی تھی، فرائض کے پابند تھے، حج و زیارت کے شرف سے بھی مشرف ہوئے۔ چہرہ پر شرعی نورانی داڑھی بھی تھی، اس لئے عملی اعتبار سے بھی ان کی زندگی کا آخری دور بہت اچھا گزرا اور اس پر جمعہ کے مبارک دن صبح صادق کے وقت ان کا خاتمہ ہوا، جو انشاء اﷲ ان کے حسن خاتمہ کی دلیل ہے، اللھُّم اغفرْلہٗ وَاَرْحمَہٗ۔ (شاہ معین الدین ندوی،اکتوبر ۱۹۶۰ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...