Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ڈاکٹرسید عبدالعلی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ڈاکٹرسید عبدالعلی
ARI Id

1676046599977_54338053

Access

Open/Free Access

Pages

253

ڈاکٹر سید عبدالعلی
افسوس ہے کہ آج قلم کو ایک ایسی برگزیدہ شخصیت کا ماتم کرنا پڑرہا ہے جو تنہا ایک شخص کا نہیں بلکہ علم و عمل کا ماتم ہے، دین و تقویٰ کا ماتم ہے، اخلاق و شرافت کا ماتم ہے، اس شخصیت کو دنیا ڈاکٹر سید عبدالعلی ناظمِ ندوۃ العلماء کے نام سے جانتی ہے، وہ تنہا ڈاکٹر یا ندوۃ العلماء کے ناظم نہ تھے، بلکہ اس زمانہ میں اپنے اوصاف، خصوصیات اور دینی و اخلاقی کمالات میں یگانہ تھے، ان کا نسبی تعلق مشہور عارف باﷲ حضرت سید شاہ علم اﷲ رحمتہ اﷲ علیہ رائے بریلوی کے خاندان سے تھا جس میں علم و عمل، دین و تقویٰ، فقر و تصوف اور ارشاد و ہدایت کی روایات صدیوں سے چلی آرہی تھیں، حضرت سید احمد شہید رحمتہ اﷲ علیہ اسی دووانِ عالی کے گوہر شب چراغ تھے۔
خاندان کی یہ ساری روایات ڈاکٹر صاحب مرحوم کے حصہ میں آئی تھیں، ان کے والد بزرگوار مولانا حکیم سید عبدالحئی صاحب رحمتہ اﷲ علیہ اپنے زمانہ کے مشہور عالم، نامور طبیب، اہل قلم فاضل اور صاحب زہد و تقویٰ بزرگ تھے، ڈاکٹر عبدالعلی صاحب ان کے خلف الصدق تھے، ان کی ذات قدیم و جدید تعلیم کا سنگم تھی، انہوں نے پہلے عربی اور طب کی تحصیل کی، اس کے بعد انگریزی پڑھی اور ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کی، یہ وہ زمانہ تھا جب ڈاکٹروں کی زندگی مغرب زدگی اور انگریزی طرز معاشرت کا نمونہ ہوتی تھی، مگر ڈاکٹر عبدالعلی صاحب کی فطرت ایسی صالح و سلیم تھی اور ان کی رگوں میں ایسے بزرگوں کا خون تھا کہ جدید تعلیم کے مادی اثرات سے ان کا دامن بالکل پاک رہا، حتیٰ کہ ان کی ظاہری وضع قطع بھی خالص اسلامی رہی ناواقف لوگ ان کو دیکھ کر گمان نہیں کرسکتے تھے کہ ان کو جدید تعلیم یا ڈاکٹری کے پیشے سے کوئی تعلق ہے ان کے مریض ان کی ڈاکٹری سے زیادہ ان کی بزرگی کے قائل تھے۔
ان کے باطنی محاسن کا پلہ ظاہری محاسن سے بھی بھاری تھا، وہ لکھنؤ کے بڑے مشہور و مقبول ڈاکٹر تھے، مگر دولت دنیا کی ان کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں تھی اور انہوں نے حصول دولت کی کبھی فکر نہیں کی اور جو کچھ بھی کمایا سب مستحقین پر خرچ کردیا، اگر وہ چاہتے تو شہری زندگی اور جدید طرز معاشرت کے سارے لوازم آسانی سے مہیا کرسکتے تھے، مگر انہوں نے اس کی جانب کبھی توجہ نہیں کی، ان کی زندگی بڑی سادہ تھی، حتیٰ کہ لکھنؤ میں رہ کر مکان نہیں بنوایا اور سواری تک نہیں رکھی اور پوری زندگی پرانے طرز کے کرایہ کے مکان میں گذار دی، وہ صحیح معنوں میں زاہد اور مرد مومن تھے، ان کی فطرت اسقدر معصوم اور پاکیزہ تھی کہ اس کا نور ان کے چہرے پر جھلکتا تھا، اور دیکھنے والے کو ان کے چہرے سے ان کی پاکیزگی کا یقین ہوجاتا تھا، ان کو دنیاوی فہم و فراست سے بھی وافر حصہ ملا تھا، انہوں نے ندوے کو جن نازک حالات سے نکال کر جس بام عروج پر پہنچایا وہ ان کے تدبر اور ہوشمندی کا ثبوت ہے۔
ان کی دینی تعلیم و تربیت کا سب سے بڑا اور مثالی نمونہ مولانا سید ابوالحسن علی سلمہ اﷲ تعالیٰ کی ذات ہے، ان کی تربیت تمام تر انہی کے دامن شفقت میں ہوئی، اس لئے ان کے محاسن و کمالات میں ان کی ذاتی صلاحیت اور فطری سعادت کے علاوہ ان کے برادر بزرگ کی تربیت کو بھی بڑا دخل ہے ڈاکٹر صاحب مرحوم نے اپنے اکلوتے لڑکے اور اپنی لڑکیوں کو بھی خالص دینی تعلیم دی جس کا اس زمانہ میں کوئی ڈاکٹر تصور بھی نہیں کرسکتا، مرحوم کو دینی کاموں سے بڑا شغف تھا، قومی و ملی کاموں میں بھی عملی مگر خاموش حصہ لیتے تھے، دارالعلوم ندوۃ کے تو روح رواں تھے، اور آخر دم تک اس کی خدمت کرتے رہے، یہ انہی دونوں بھائیوں کے اخلاص اور حسن نیت کا نتیجہ ہے کہ دارالعلوم نے ان کی نظامت اور معتمدی کے زمانہ میں جس قدر ترقی اور جو شہرت و مقبولیت حاصل کی وہ اس کی تاریخ کے کسی دور میں حاصل نہیں ہوئی تھی، غرض ڈاکٹر صاحب کی ذات ہر حیثیت سے ایمان و عمل کا ایک مثالی نمونہ تھی، اﷲ تعالیٰ اس مرد مومن کی مغفرت اور مدارج عالیہ عطا فرمائے ۔ اللھم اغفرلہ و ارحمہ و صبب علیہ شأبیب رحمتک و رضوانک یا ارحم الراحمین۔
(شاہ معین الدین ندوی، مئی ۱۹۶۱ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...