1676046599977_54338054
Open/Free Access
254
سید احمد حسین امجدؔ حیدرآبادی
افسوس ہے کہ حکیم الشعراء سید احمد حسین امجد حیدرآبادی نے بھی اس جہاں فانی کو الوداع کہا، ان کی وفات محض دنیائے شاعری کا نہیں بلکہ دنیائے دل کا حادثہ ہے، وہ تنہا شاعر ہی نہیں اس سے زیادہ حکیم و عارف اور صاحب دل صوفی تھے، اردو کے نامور شاعروں سے آج بھی ہندوستان خالی نہیں، مگر امجد اپنے رنگ میں یگانہ تھے، ان کے کلام میں طور کی تجلی اور وادی یمن کے شراروں کا عکس ہے، خصوصاً رباعی گوئی میں اس زمانہ میں ان کا جواب نہ تھا، ان کی رباعیات حکمت و بصیرت کا دفتر ہیں، وہ صحیح معنوں میں اس دور کے سرمد اور ابوسعید ابو الخیر تھے، ان کی ذات بظاہر عارفانہ شاعری کا خاتمہ نظر آتا ہے۔
انھوں نے فطرۃً بھی حکیمانہ نظر اور درد آشنا دل پایا تھا، اور ان کو حوادث بھی ایسے پیش آئے جنھوں نے ان کو سراپا سوز اور حقیقت نگر بنادیا، وہ نثر بھی سادہ سلیس، بے تکلف، اور مؤثر و دلنشین لکھتے تھے، چھوٹے چھوٹے سادہ بلیغ فقروں میں بڑی حکیمانہ اور سبق آموز باتیں کہہ جاتے تھے، ان کی نظم و نثر کی تصانیف کی تعداد ایک درجن سے زیادہ ہوگی، دارالمصنفین سے ان کے دیرینہ تعلقات تھے، حضرت سید صاحب رحمۃ اﷲ علیہ ان کے اور ان کے کلام کے بڑے قدر دان تھے، حکیم الشعراء کا لقب ان کو انہی نے دیا تھا، ایک مرتبہ امجد مرحوم دارالمصنفین بھی آئے تھے، ان کی سادہ مگر پر تاثیر شخصیت اب تک نگاہ میں ہے ایک زمانہ میں ان کا کلام معارف میں بکثرت چھپتا تھا، مگر ادھر عرصہ سے ان چیزوں سے اس قدر مستغنی اور بے نیاز ہوگئے تھے کہ اپنا کلام رسالوں میں بھیجنا چھوڑ دیا تھا، افسوس ہے کہ شاخِ طوبیٰ کا یہ بلبلِ خوشنوا ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا، اللھّم اغفرْلہٗ وَاَرْحمَہٗ۔ (شاہ معین الدین ندوی، جون ۱۹۶۱ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |