Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولوی عبدالحق

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولوی عبدالحق
ARI Id

1676046599977_54338057

Access

Open/Free Access

Pages

255

بابائے اردو مولوی عبدالحق
بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کی وفات دنیائے اردو کا سب سے بڑا حادثہ ہے، علمی و ادبی حیثیت سے اردو کے خدمت گذاروں کی کمی نہیں ہے، لیکن جس نے ہر پہلو سے اس کی خدمت کی اور اس کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کردی اور اس کی راہ میں اپنا تن من دھن سب نثار کردیا، وہ تنہا مولوی عبدالحق کی ذات تھی، مولوی صاحب مرحوم سے پہلے اردو کی خدمت کا دائرہ محض اردو کی انفرادی علمی و ادبی تصانیف تک محدود تھا، اجتماعی کوشش اور تاریخی لسانی اور سیاسی حیثیت سے اس کی خدمت کی صرف بنیاد پڑی تھی، مولوی صاحب نے اس کا عظیم الشان قصر تعمیر کردیا، اور اردو کی خدمت کی ایک عام لگن پیدا کردی، ان کی خدمات اردو کی تاریخ میں ناقابل فراموش ہیں، اور جب تک اردو زبان باقی ہے ان کا نام بھی زندہ و پائندہ رہے گا۔
ان سے پہلے انجمن ترقی اردو کا کوئی وجود نہ تھا، مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا ایک شعبہ اردو کی خدمات بھی تھا، وہ بھی برائے نام اس کی کوئی عملی حیثیت نہ تھی، ۱۹۱۲؁ء میں جب مولوی صاحب اس شعبہ کے سکریٹری مقرر ہوئے تو اس ’’نام‘‘ کو اپنے ساتھ اورنگ آباد لے گئے اور اپنی ان تھک کوششوں سے چند دنوں میں اس کو ایک آل انڈیا ادارہ انجمن ترقی اردو بنا دیا، اس نے اردو زبان کی جو گوناگوں خدمات انجام دیں ہیں، ان سے ہر صاحب علم واقف ہے، حقیقت یہ ہے کہ اگر انجمن ترقی اردو نہ ہوتی تو اردو کو علمی زبان بننے میں بڑی دیر لگتی۔
مولوی صاحب کو اردو سے والہانہ عشق تھا، انہوں نے اس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا تھا، ان کو سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے، اسی کی دھن رہتی تھی، اور ان کو اردو کی خدمت کے جو موقع بھی ملے ان سے انہوں نے پورا فائدہ اٹھایا، اردو کی پہلی یونیورسٹی مرحوم جامعہ عثمانیہ کی تشکیل میں بھی ان کا ہاتھ تھا، پھر اس کے شعبۂ تالیف و تراجم کے سکریٹری اور آخر میں جامعہ عثمانیہ کے شعبہ اردو کے صدر مقرر ہوئے اور ان سب میں انہوں نے اردو کی خدمت اور ترقی کی نئی نئی راہیں پیدا کیں، جامعہ عثمانیہ سے ریٹائر ہونے کے کچھ دنوں بعد انجمن ترقی اردو کو دہلی لے آئے یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان کی آئندہ مشترک زبان کی بحث چھڑ چکی تھی، مولوی صاحب اردو کے لیے سینہ سپر ہوگئے، اور بالآخر ہندوستانی زبان پر سمجھوتا ہوا، جو عبدالحق راجندر پیکٹ کے نام سے موسوم ہے، اور جس کو ہندوستان کی آزادی کے بعد طاقِ نسیاں کے حوالہ کردیا گیا۔
ہندوستان کی تقسیم کے بعد مولوی صاحب کو ان کے حوصلہ کے مطابق ہندوستان میں اردو کی خدمت کا میدان تنگ نظر آیا، اس لئے پاکستان چلے گئے، اور وہاں نئے سرے سے انجمن ترقی اردو کا ٹھاٹھ قائم کیا، اور اسی شان سے رسالہ اردو نکالا، گودستوری حیثیت سے پاکستان کی زبان اردو ہے، لیکن وہاں بھی بڑے پیچیدہ لسانی مسائل ہیں، اس لئے پاکستان میں بھی ان کو اردو کے لئے جنگ کرنا پڑی، اور آخر تک لڑتے رہے، اردو کے مسئلہ میں پاکستان میں جو کامیابی بھی ہوئی، اس میں دوسرے حامیانِ اردو کی تائید و حمایت کے ساتھ مولوی صاحب کی کوششوں کو بھی بڑا دخل ہے، ان کے پیش نظر ایک اردو یونیورسٹی کا قیام بھی تھا، اس میں تو وہ اپنی زندگی میں کامیاب نہ ہوسکے، لیکن ایک اردو کالج قائم کردیا، جو ان کی آخری آرام گاہ بنا۔
خالص علمی و ادبی حیثیت سے بھی ان کی خدمات بڑی گرانقدر رہیں، اردو کی تاریخ کی طرف سب سے پہلے انہی نے توجہ کی اور اس کی کڑیاں فراہم کیں، دکنی نوادر کا سراغ لگایا اور ان کی اہمیت واضح کی، اردو شعرا کے دواوین اور قدیم تذکروں کو تصحیح تحشیہ اور مبسوط مقدمات کے ساتھ شائع کیا، بہت سی کتابوں پر مقدمے لکھے جو افادی پہلو سے مستقل تصنیف کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ صاحب طرز ادیب تھے، ان کی تحریر سادگی و سلاست میں سہل ممتنع کی حیثیت رکھتی ہے، اور سادگی کے باوجود خوشگوار ادبی چاشنی سے خالی نہیں ہوتی، ان کے ادبی مضامین، تحریر کی سادگی و پرکاری کا نمونہ ہیں، غرض انھوں نے اردو کی خدمت کا کوئی پہلو اور کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا، اب اردو کے ایسے باعمل فدائی نہ پیدا ہوں گے، اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔
(شاہ معین الدین ندوی، ستمبر ۱۹۶۱ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...