Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مجاہدِ ملت مولانا حفظ الرحمن

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مجاہدِ ملت مولانا حفظ الرحمن
ARI Id

1676046599977_54338062

Access

Open/Free Access

Pages

257

مجاہد ملّت مولانا حفظ الرحمن
(جمعیۃ علمائے ہند کی آخری شمع بجھ گئی)
جس حادثہ کا دھڑکا عرصہ سے لگا ہوا تھا، بالآخر وہ پیش آہی گیا، اور مجا ہد ملت مولانا حفظ الرحمن صاحب ۲؍ اگست ۱۹۶۲؁ء کو صبح صا دق کے وقت اپنے رب کے حضور میں حاضر ہو گئے، موت کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں، ہر وقت اس کا بازار گرم ہے، روزانہ ہزاروں لاکھوں انسان مرتے رہتے ہیں، مگر کسی کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا، لیکن بعض موتیں وہ ہو تی ہیں جن سے ایک قوم اور ایک ملت کی پوری عمارت متزلزل ہوجا تی ہے، مولانا حفظ الرحمن صاحب کی وفا ت بھی انہی میں سے ہے:
فما کان قیس ھلکہ ھلک واحد ولکنہ بنیان قوم تھدما
ان کی موت سے ہماری قو می و ملی عما رت کا بہت بڑا ستون گرگیا، مولانا کی پوری زندگی اور زندگی کا ہر لمحہ ملک وملت کی خدمت میں گذرا حتیٰ کہ مرضِ الموت میں بھی اس سے غافل نہ رہے اور اپنی ان تھک محنت سے اس راہ میں جان تک دیدی، اس لیے اگر زندگی میں وہ مجاہد ملت تھے تو موت کے بعد شہید ملت ہیں۔
ان کی پوری زندگی ایک سعی پیہم اور جہد مسلسل تھی، جس سے ان کو ہندوستان کی آزادی کے بعد بھی نجات نہیں ملی، آزادی نے جنگ آزادی سے بھی زیادہ مشکل اور پیچیدہ مسائل پیدا کردیے تھے، ایک طرف فرقہ پروری کا سیلاب تھا جو آزادی کے اصل مقصد ہی کو خس وخاشاک کی طرح بہائے لیے جارہا تھا، دوسری طرف مسلمانوں کے سنگین مسائل تھے، تیسری جانب ملکی و وطنی مصالح اور صحیح جمہوری اور سیکولر بنیادوں پر آزاد ہندوستان کی تعمیر تھی، اس بحرانی دور میں ان سب سے عہدہ برآ ہونا آسان نہ تھا، فرقہ پروری نے بڑے بڑے قوم پروروں کے قدم اکھاڑ دیے تھے، مگر اس وقت بھی مولانا صحیح قومی اصولوں پر قائم رہے، اور ان سارے فرائض کو اس خو ش اسلوبی سے ادا کرتے رہے کہ ان کا کوئی مخالف بھی حرف گیری نہیں کرسکتا۔
مسلمانوں کی اس بسی کے دور میں مولانا کی ذات بہت بڑاسہارا تھی، اور اس راہ میں ان کے کارنامے بے نظیر ہیں، ان کے بعد کوئی ایسی شخصیت نظر نہیں آتی جو مسلمانوں کی مظلومیت اور حق تلفی پر اس جرأت و بے باکی کے ساتھ آواز بلند کرسکے اور وہ مؤثر بھی ہو، یوں تو زبانی شور و غوغا کرنے والے بہت ہیں لیکن اس کی حیثیت صدبصحرا سے زیادہ نہیں ہے، مولانا ہندوستان کی جنگ آزادی کے ممتاز سپہ سالاروں میں تھے، انھوں نے چوٹی کے لیڈر وں کے دوش بدوش کام کیا تھا، ان کا دامن فرقہ پرستی کے داغ سے بالکل پاک تھا، ان کی پشت پرخدمات اور قربانیوں کی ایک پوری تاریخ تھی، اس لیے ان کی آواز میں قوت بھی تھی، اور ایک حد تک اثر بھی تھا، ان کے بعد کوئی ایسی شخصیت باقی نہیں ہے، ہر طرف سنا ٹا نظر آتا ہے۔
افسوس کز قبیلۂ مجنوں کسے نمامذ
اس لیے ان کی موت ملک وملّت خصوصاً مسلمانوں کا ایسا نقصان عظیم ہے جس کی تلافی نہیں ہوسکتی، اﷲ تعالیٰ اس مجاہد ملت کی خدمات کو قبول اور عالمِ آخرت کی سر بلندیوں سے سرفراز فرمائے۔ اللھّٰم صبب علیہ شأبیب رحمتک و رضوانک۔
(شاہ معین الدین ندوی،اگست ۱۹۶۲ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...