Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > عبدالمجید خواجہ

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

عبدالمجید خواجہ
ARI Id

1676046599977_54338067

Access

Open/Free Access

Pages

258

عبدالمجید خواجہ
افسوس ہے کہ گذشتہ مہینے دوسری دسمبر کو ہماری پرانی قومی بزم کی ایک یادگار عبدالمجید خواجہ نے انتقال کیا، خواجہ صاحب مرحوم کی شخصیت بڑی جامع تھی، ان کی ذات میں دین و سیاست، قومیت وطنیت اور اسلامی غیرت و حمیت کا بڑا متناسب اجتماع تھا، ان کی پوری زندگی ملک و ملت کی خدمت میں گذری، طرابلس اور بلقان کی جنگ سے لے کر ہندوستان کی آزادی تک ہر قومی و ملی تحریک میں ان کا نمایاں حصہ رہا، اس دور کے لیڈروں میں ان کا ممتاز مقام تھا، ایک طرف وہ پکے قوم پرور اور وطن دوست تھے، مسلمان فرقہ پروروں کا ہمیشہ مقابلہ کرتے رہے، دوسری طرف راسخ العقیدہ مسلمان تھے اور ان کا دل اسلامی غیرت و حمیت سے معمور تھا، اس لئے ہندوستان کی آزادی کے بعد کے حالات سے بہت بددل تھے، اور اس سلسلہ میں نئے ارباب سیاست اور ارکان حکومت سے بہت صاف اور کھری باتیں کہتے تھے، پنڈت جواہر لال تک ان کا لحاظ کرتے تھے، مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ سے بہت قدیم اور گہرا تعلق تھا، جامعہ کے تو معماروں میں تھے، آخر وقت تک اس کے چانسلر رہے۔ مسلم یونیورسٹی کے بھی رکن رکین تھے، آزادی کے بعد یونیورسٹی میں جو غیر اسلامی رجحانات پیدا ہوگئے ہیں ان کی اصلاح کے لئے برابر کوشش کرتے رہے۔
خواجہ صاحب علی گڑھ کے اس دور کی پیداوار تھے جب انگریزیت اور تجدد اس کا طغرائے امتیاز تھا۔ بیرسٹری کی تعلیم کے سلسلہ میں ان کا قیام عرصہ تک لندن میں رہا، لیکن ان کا مزاج ابتدا سے مذہبی تھا، اس لئے وہ ہر دور میں عملاً مسلمان اور پابند مذہب رہے، اور عمر کے ساتھ ساتھ ان کی مذہبیت بڑھتی گئی تھی، ان کا مذہبی مطالعہ وسیع تھا، مذہبی گفتگو میں آیات و احادیث ان کے نوک زبان رہتی تھیں، علمی اور ادبی مذاق بھی ستھرا رکھتے تھے، طبعاً بڑے خلیق اور شگفتہ مزاج تھے، پرانے بزرگوں کی تمام وضعداریاں ان میں جمع تھیں، وہ موروثی طور پر صاحب ثروت تھے، اس لئے بیرسٹری عرصہ سے ترک کردی تھی اور زیادہ وقت قومی کاموں میں صرف کرتے تھے، ادھر چند برسوں سے ضعف پیری اور امراض کی وجہ سے بالکل عزلت نشین ہوگئے تھے، مولانا محمد علیؒ و شوکت علی کے ہم قافلہ مسافروں میں صرف دو بزرگ رہ گئے تھے، خواجہ صاحب مرحوم اور ڈاکٹر سید محمود صاحب، خواجہ صاحب نے جنت کی راہ لی، ڈاکٹر صاحب کا حال یہ ہے کہ ’’اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے‘‘، لیکن ان کا وجود بہت غنیمت ہے اﷲ تعالیٰ ان کا سایہ عرصہ تک قائم رکھے اور خواجہ صاحب مرحوم کو اپنی رحمت و مغفرت اور عالم آخرت کی خواجگی سے سرفراز فرمائے۔ (شاہ معین الدین ندوی، جنوری ۱۹۶۳ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...