1676046599977_54338071
Open/Free Access
260
مولانا عبدالغنی پھولپوریؒ
افسوس ہے کہ گزشتہ مہینہ مولانا عبدالغنی پھولپوریؒ نے کراچی میں انتقال فرمایا۔ مولانا مرحوم حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ کے اجل خلفاء میں تھے اور اس صوبے کے مشرقی اضلاع خصوصاً اعظم گڑھ میں ان کا علمی اور حافی فیض نصف صدی سے زیادہ جاری رہا، انھوں نے مرشد کی تعلیمات اور ملفوظات و مواعظ کو ایسا جذب کیا تھا کہ ان کی تحریر اور گفتگو میں اس کا عکس نظر آتا تھا، ان میں جذب و سلوک دونوں کی شاخیں تھیں، اہتمام شریعت اور مریدین متوسلین کی تعلیم و تربیت میں سالک تھے اور اپنی نجی زندگی میں مجذوب، ان میں عجیب سادگی اور دارستگی تھی۔ ضروریات زندگی میں سے کسی چیز میں بھی اہتمام نہ تھا۔ وہ صحیح معنوں میں زاہد تھے۔ ان کی سادگی بلکہ بے سامانی کو دیکھ کر ان کے ایک خواجہ تاش بزرگ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ ان کے یہاں نئی کیا پرانی روشنی کا بھی گزر نہیں ہے۔
مولانا نے عربی کے دو مدرسے قائم کیے تھے، ایک سرائمیر میں، دوسرا پھولپور میں، پھولپور کے مدرسے کی حیثیت اب مکتب کی رہ گئی ہے، مولانا کی تعلیم و تربیت عملی تھی، اس لیے تالیف و تصنیف کی طرف ان کی توجہ نہ تھی، آخر عمر میں چند رسالے اور ایک ضخیم کتاب معیت الٰہیہ کے نام سے لکھی تھی جو سالکین راہ طریقت کے لیے بہت مفید ہے، حضرت مولانا اشرف علیؒ صاحب سے حضرت سید صاحبؒ کی ادارت کے بعد مولانا مرحوم کو دارالمصنفین کے لوگوں سے خاص تعلق ہوگیا تھا اور وہ یہاں اکثر تشریف لایا کرتے تھے، دو تین سال ہوئے پاکستان چلے گئے تھے، چند مہینے ہوئے کہ فالج کا حملہ ہوا، اس کے اثر سے ۱۱؍ اگست کو کراچی میں انتقال فرمایا۔ نوے سال کے قریب عمر تھی۔
اﷲ تعالیٰ عالم آخرت میں ان کے مدارج بلند فرمائے۔ ان بزرگوں میں سے جو بھی اٹھتا ہے، اس کی جگہ ہمیشہ کے لیے خالی رہ جاتی ہے۔ مولانا پھولپوری کے انتقال کے بعد نواح میں صرف مولانا وصی اﷲ صاحب کی ایک ذات رہ گئی ہے، جس سے ارشاد و ہدایت کا چراغ روشن ہے، اﷲ تعالیٰ ان کا سایہ عرصہ دراز تک قائم رکھے۔
(شاہ معین الدین ندوی، ستمبر ۱۹۶۳ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |