Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > پنڈت جواہر لال نہرو

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

پنڈت جواہر لال نہرو
ARI Id

1676046599977_54338076

Access

Open/Free Access

Pages

261

آہ جواہر لال
ہندوستان کی عظمت کا آفتاب غروب ہوگیا
جس نازک وقت کا خطرہ کروڑوں دلوں کو مضطرب کیے رہتا تھا بالآخر پیش آکر رہا اور جو آواز تقریباً نصف صدی تک ہندوستان کے در و دیوار میں گونجتی رہی ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی وہ حیات آفریں جس نے ہندوستان کی مردہ رگوں میں زندگی کی روح پھونکی، خود موت کے آغوش میں سوگیا۔ وہ آفتاب جس کی ضیاباریوں نے نہ صرف ہندوستان کو منور کیا بلکہ دوسرے ملکوں تک اس کی روشنی پھیلی، ۲۷؍ مئی کو عین دوپہر کے وقت ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ پنڈت جواہر لال کی موت ایسا حادثہ نہیں جس کو زمانہ کی گردش بھلاسکے، ان کا جسم گوخاک میں مل چکا ہے لیکن ان کی روح ہندوستان میں ہمیشہ زندہ رہے گی اور اس کے ذر ے ذرے پر ان کا نام ثبت رہے گا۔
وہ آزاد ہندوستان ہی کے بانی اور اس کے معمار نہ تھے، بلکہ پورے ایشیا کی آبرو اور دنیا کی عظیم شخصیتوں میں تھے، ہندوستان نے اب تک جتنی بڑی شخصیتیں پیدا کیں ان میں بعض قدیم مذہبی پیشواؤں کو چھوڑ کر پنڈت جواہر لال کا درجہ سب میں بلند تھا، انھوں نے نصف صدی تک ہندوستان کی مسلسل اور ان تھک خدمت کی، وہ جنگ آزادی کے سپہ سالار بھی تھے، آزاد ہندوستان کے معمار بھی اور اس کے محبوب لیڈر بھی، اس لیے انھوں نے دلوں پر حکمرانی کی اور کل سترہ سال میں جو قوموں اور ملکوں کی عمر کے لحاظ سے نہایت قلیل مدت ہے، ہندوستان کا درجہ ساری دنیا میں بلند کردیا۔
پنڈت جواہر لال کی جیسی تاریخ ساز شخصیتیں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں اور اپنا نام صفحہ عالم پر ہمیشہ کے لیے ثبت کرجاتی ہیں، ان میں جتنے اوصاف جمع تھے مشکل ہی سے کسی ایک انسان میں ان کا اجتماع ہوتا ہے، وہ اس دور کے بہت بڑے مدبر اور مفکر تھے، ان کی شخصیت اتنی عظیم تھی کہ جو آواز ان کے منہ سے نکلتی تھی، ساری دنیا میں گونج جاتی تھی، وہ ایشیا کا مرکز ثقل تھے اس لیے دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں ان کی دوستی کے لیے مسابقت کرتی تھیں، ان میں اتنی عظمت و کشش تھی کہ بڑی سے بڑی شخصیت کو متاثر اور مخالفین کو مسحور کرلیتی تھی، وہ اس ایٹمی دور میں امن و آزادی کے بڑے علمبردار تھے، محکوم قوموں کی آزادی کی حمایت میں ان کا قدم سب سے آگے تھا، ا ن کی آواز نے ایشیا کی آزادی پر بڑا اثر ڈالا، اس اعتبار سے وہ پورے ایشیا کے لیڈر تھے۔
اتنی طویل مدت تک پوری مقبولیت کے ساتھ حکومت اور ملک و قوم کی خدمت کی مثال دنیا کے موجودہ لیڈروں میں نہیں مل سکتی، انھوں نے قانون کی قوت سے نہیں بلکہ اپنی مقبولیت سے دلوں پر حکمرانی کی ان کے خیالات بہت بلند اور دل بڑا وسیع تھا، اس کا دروازہ بلا امتیاز رنگ و نسل اور مذہب و ملت ہر شخص کے لیے کھلا ہوا تھا، وہ پرانی مشرقی تہذیب کی یادگار تھے، ان میں اس کی تمام شرافتیں اور وضعداریاں جمع تھیں، اپنے پرانے دوستوں اور ادنیٰ ادنیٰ درجہ کے ملنے والوں کے ساتھ تعلقات کو جس طرح نباہا اس کی مثال اس درجہ کے آدمیوں میں کم ملے گی، غرض جس پہلو پر بھی نظر ڈالی جائے۔ جواہر لال ہندوستان کے ایک انمول جوہر تھے اور ان کی وفات تنہا ہندوستان کا نہیں، بلکہ عالم انسانیت کا حادثہ ہے، اور ان کی ذات پر تاریخ کا ایک دور ختم ہوگیا، آئندہ ہندوستان میں اتنی بڑی اور ایسی جامع اوصاف شخصیت کے پیدا ہونے کی امید نہیں۔
دارالمصنفین کے لیے پنڈت جی کی وفات قومی نہیں بلکہ ذاتی حادثہ بھی ہے، دارالمصنفین سے ان کے اور پنڈت موتی لال کے تعلقات بہت قدیم تھے، خلافت اور نان کو اپریشن (Non-cooperation) تحریک کے زمانہ میں اور اس کے بعد ایک عرصہ تک دارالمصنفین قومی و سیاسی تحریکوں کا ایک بڑا مرکز رہا، مولانا سید سلیمان ندوی اور مولانا مسعود علی ندوی اس زمانہ کے ممتاز لیڈروں میں تھے، سید صاحب تو کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کے رکن بھی تھے، اس لیے اس زمانہ کے بڑے لیڈروں میں سے کوئی ایسا نہ تھا جو دارالمصنفین نہ آیا ہو، پنڈت موتی لال اور پندٹ جواہر لال جب اعظم گڑھ کے دورے پر آتے تھے تو دارالمصنفین ہی میں قیام کرتے تھے، پنڈت جواہر لال نہرو کی آخری آمد ۱۹۴۶؁ء کے الیکشن میں ہوئی تھی، وزارت کے زمانہ میں اس کی کوئی تقریب نہ پیدا ہوسکی خیال تھا کہ دارالمصنفین کی پچاس سالہ جوبلی میں ان کو شرکت کی دعوت دی جائے گی، لیکن افسوس،
آں قدح بشکست و آں ساتی نہ ماند
پنڈت جی نے ان تعلقات کو آخر عمر تک نباہا، وہ دارالمصنفین کے لائف ممبر بھی تھے، ان کی ممبری کا یہ سبق آموز واقعہ قابل ذکر ہے کہ لائف ممبری کی فیس ایک ہزار روپے ہے۔ مولانا مسعود علی صاحب نے جب ان کو ممبر بنایا تو انھوں نے اس کی پہلی قسط ڈھائی سو روپے کی دی، مولانا مسعود علی صاحب نے ان سے کہا کہ آپ ہندوستان کے وزیراعظم ہوکر ایک ہزار یکمشت نہیں دے سکتے، انھوں نے کہا کہ مجھ کو جو تنخواہ ملتی ہے اس میں سب کٹ کٹا کر دو ہزار ماہوار کے قریب میرے ہاتھ میں آتا ہے، اس میں ایک ہزار یکمشت دینے کی گنجائش کہاں، یہ واقعہ ان کی عظمت کا کتنا بڑا ثبوت اور ہمارے بہت سے وزراء کے لیے کس قدر سبق آموز ہے، ہندوستان کی تقسیم کے بعد جب دارالمصنفین مالی مشکلات میں مبتلا ہوا تو مولانا ابوالکلام نے پنڈت جی کی تائید بلکہ تحریک سے وزارت تعلیم کی جانب سے ساٹھ ہزار روپے کی امداد دی، اس وقت مولانا ابوالکلام سالانہ امداد دینے کے لیے بھی تیار تھے، لیکن دارالمصنفین کے کارکنوں نے اس کو منظور نہیں کیا، اس لیے پنڈت جی دارالمصنفین کے محسن بھی تھے اور ان کی وفات سے اس کا ایک بڑا قدردان اُٹھ گیا، ان کے جانشینوں میں یہ وضعداری کہاں، ان کے بعد کی نسل بلکہ ان کے بہت سے معاصر تو دارالمصنفین کو شاید جانتے بھی نہ ہوں گے۔ پنڈت جواہر لال کی وفات پر ان کے دارالمصنفین میں قیام کے زمانہ کا پورا نقشہ نگاہوں کے سامنے آگیا اور ان کے اور پنڈت موتی لال نہرو کے بہت سے دلچسپ واقعات اور لطائف یاد آگئے، جو کسی موقع پر پیش کیے جائیں گے۔
(شاہ معین الدین ندوی،جون ۱۹۶۴ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...