Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا مسعود علی ندوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا مسعود علی ندوی
ARI Id

1676046599977_54338097

Access

Open/Free Access

Pages

267

مسعود علی ندوی
کاروان شبلی کا آخری مسافر
دارالمصنفین کے تین معمار تھے، حضرت سید صاحب رحمۃ اﷲ علیہ، مولانا عبدالسلام صاحب ندوی اور مولانا مسعودی ندوی اول الذکر دونوں بزرگ بہت پہلے اس دنیا سے اٹھ چکے تھے، اس قافلہ کے آخری مسافر مولانا مسعود علی صاحب ندوی نے بھی ۲۷؍ اگست کو جنت کی راہ لی، ان تینوں نے مل کر دارالمصنفین کو پروان چڑھایا تھا، حضرت سید صاحب اور مولانا عبدالسلام صاحب نے علمی حیثیت سے دارالمصنفین کا نام اونچا کیا، اور اس کی شہرت کو عالمگیر بنایا اور مولانا مسعود علی صاحب نے انتظامی حیثیت سے اس کو ترقی دی اور اس کا مقامی وقار قائم کیا۔
مرحوم سراپاقوت وعمل تھے، انھوں نے اپنے دور میں بڑے بڑے عملی کام کئے اور مولانا شبلی سے نسبت رکھنے والے اداروں کو فائدہ پہنچایا، دارالمصنفین کی تمام عمارتیں، دارالعلوم ندوۃ العلماء کی عالیشان مسجد، شبلی کالج کا وسیع کانووکیشن ہال انہی کے ذوق تعمیر کی یادگار ہیں، جب تک یہ عمارتیں قائم ہیں، ان کا نام زندہ رہے گا، ایک زمانہ میں سیاسی اور قومی کاموں میں بھی سرگرمی سے حصہ لیا، خلافت اور ترک موالات کی تحریک کے زمانہ میں سید صاحب کی شخصیت اور مولانا مسعود علی صاحب کی عملی جدوجہد نے دارالمصنفین کو سیاسی کاموں کا مرکز بنادیا تھا، اس زمانہ کا کوئی بڑا لیڈر ایسا نہیں ہے جس نے دارالمصنفین کا طواف نہ کیا ہو، ان سب سے مولانا کے دوستانہ تعلقات تھے، پورے ضلع میں ان کا طوطی بولتا تھا، یہاں کے سارے کاموں کے روح رواں وہی تھے، ان کے بغیر کسی تحریک میں جان نہیں پڑتی تھی، اب تو زمانہ بہت آگے بڑھ گیا ہے، ایک زمانہ میں وہ اعظم گڑھ میں تہذیب کے بھی معلم سمجھے جاتے تھے، انھوں نے یہاں کا تہذیبی معیار بلند کردیا تھا، غرض ایک عرصہ تک وہ اعظم گڑھ کی پوری زندگی پر چھائے رہے، ان کے یہاں ہر وقت ایک دربار لگا رہتا تھا۔
ان میں فطری دبدبہ تھا، عملی کاموں میں ان کی انتظامی قابلیت سے زیادہ ان کا دبدبہ کام دیتا تھا، بڑے خوش سلیقہ، خوش مذاق اور خوش گفتار تھے، جس محفل میں بیٹھتے تھے اپنی باتوں سے چھا جاتے تھے، رکھ رکھاؤ ایسا تھا کہ بڑی سے بڑی شخصیت سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے اور نہ دب کر ملے، ادھر دس بارہ سال سے ان کی علالت کا سلسلہ چل رہا تھا اور وہ دارالمصنفین کے کاموں سے بھی معذور ہوگئے تھے، کئی سال سے بالکل صاحب فراش تھے، آخری چند مہینوں میں ہوش و حواس نے بھی جواب دے دیا تھا اور وہ زندگی کا محض سایہ رہ گئے تھے لیکن یہ سایہ بھی بہت غنیمت تھا، افسوس ہے کہ وہ بھی ختم ہوگیا اور وہ دارالمصنفین کے عہدگل کی آخری یادگار بھی مٹ گئی، والبقاء ﷲ وحدہ، اﷲ تعالیٰ ان کے اعمال حسنہ کے صلہ میں ان کی مغفرت فرمائے۔ (شاہ معین الدین ندوی، ستمبر ۱۹۶۷ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...