1676046599977_54338098
Open/Free Access
268
مولانا شاہ وصی اﷲ رحمۃ اﷲ
حضرت مولانا شاہ وصی اﷲ رحمۃ اﷲ کی وفات سے رشد و ہدایت کا ایک روشن چراغ گل ہوگیا، وہ اس دور کے بڑے شیخ طریقت اور سالکین کی اصلاح و تربیت میں اپنے مرشد حضرت مولانا تھانویؒ کا مثنی تھے، ان کی وفات کے بعد ان کی ذات طالبین کا مرجع بن گئی تھی، ان سے ایک مخلوق فیضیاب ہوئی، ان کی اصلاح و تربیت سے ہزاروں بگڑی ہوئی زندگیاں سنور گئیں، گم کر وہ راہوں کو راہ راست اور تاریک دلوں کو ایمان کی روشنی ملی ادھر چند برسوں سے جب مولانا نے اپنے وطن فتح پور تال ترجا کا گوشۂ عافیت چھوڑ کر الٰہ آباد کا قیام اختیار فرمایا، آپ کا فیض پورے ہندوستان میں پھیل گیا تھا، جدید تعلیم یافتہ طبقہ کا مرجوعہ خاص طور سے بہت بڑھ گیا تھا اور اس کی خصوصیت سے زیادہ فائدہ پہنچا۔
حضرت مولانا خلقۃً نحیف و ناتواں تھے، عمر کے تقاضے اور فالج کے اثر نے اور کمزور کردیا تھا، اس کے باوجود آپ کے معمولات اور فیض رسانی میں فرق نہ آیا تھا، اسی حالت میں گزشتہ شعبان میں حج کا قصد فرمایا، مگر وقت موعود آچکا تھا، جہاز کی روانگی کے کل دو دن بعد ۲۵؍ نومبر کی شب کو تہجد کی نماز سے فراغت کے بعد اور فجر کی نماز سے پہلے روح مبارک عالم قدس میں پہنچ گئی، جہاز کے قاعدہ کے مطابق ہر متوفی کی لاش تجہیز و تکفین کے بعد سمندر کی موجوں کے حوالے کردی جاتی ہے، مگر جس دربار سے طلبی ہوئی تھی، اسی نے اس کا انتظام بھی کردیا کہ لاش کو جدہ لے جانے کی اجازت مل گئی، اور یقین ہے کہ اس وقت تک جسدِ خاکی کو جنتُ البقیع کی مقدس سرزمین میں سپرد خاک کردیا گیا ہوگا۔
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا،
حضرت مولانا کی وفات سے رشد و ہدایت کی ایک بڑی مسند خالی ہوگئی، اﷲ تعالیٰ ان کے مدارج بلند فرمائے، آپ کے متوسلین ’’معرفتِ حق‘‘ کے نام سے ایک پرچہ نکالتے ہیں، حضرت مولانا کی اصلاحی تقریریں ملفوظات اور اصلاح و تربیت کے متعلق سوالات و جوابات شائع ہوتے ہیں، یہ ملفوظات اصلاح و تربیت کے نصاب کی حیثیت رکھتے ہیں، اس لئے ضرورت ہے کہ حضرت مولانا تھانویؒ کے مواعظ و ملفوظات کی طرح ان کو بھی کتابی شکل میں شائع کیا جائے تاکہ ان کا افادہ مستقل قائم رہے۔
(شاہ معین الدین ندوی، دسمبر ۱۹۶۷ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |