Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > سید نجیب اشرف ندوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

سید نجیب اشرف ندوی
ARI Id

1676046599977_54338102

Access

Open/Free Access

Pages

269

سید نجیب اشرف ندوی
افسوس ہے کہ دارالمصنفین کی پرانی بزم کے ایک ممتاز رکن اور ندوہ کے نامور فرزند سید نجیب اشرف صاحب ندوی نے ۴؍ستمبر کو بمبئی میں انتقال کیا، مرحوم دارالمصنفین کے ابتدائی دور کے رفقاء میں تھے، سید صاحب رحمتہ اﷲ علیہ کے ہم وطن اور قریبی عزیز تھے، ان کی ندوہ کی مدرسی کے زمانہ میں دارالعلوم میں داخل ہوئے، مگر ابتدائی تعلیم کے بعد ہی انگریزی کی طرف چلے گئے، پھر خلافت اور نان کو اپریشن کی تحریک کے زمانہ میں تعلیم ترک کرکے ۱۹ یا ۲۰ء میں دارالمصنفین آگئے اور ان تحریکوں میں سرگرم حصہ لیا، ان کے خاتمہ کے بعد کلکتہ میں تعلیم کی تکمیل کی اور فارسی میں ایم۔اے کیا، وہ بڑے ذہین اور ہونہار تھے، ان کی اٹھان بہت اچھی تھی، چنانچہ کلکتہ کے قیام کے زمانہ میں سرجدو ناتھ سرکار کی زیر نگرانی اورنگزیب کے رقعات جمع اور مرتب کیے اور اس پر ایک مبسوط اور ضخیم مقدمہ لکھا، جو مقدمہ رقعات عالمگیر کے نام سے ایک مستقل جلد میں شائع ہوا، اس میں فن انشاء اور شاہانہ احکام و مراسلات کی تاریخ اور عالمگیر کی انشاء کی خصوصیات وغیرہ پر روشنی اور اس کی شہزادگی سے لے کر برادرانہ جنگ کے زمانہ تک کے واقعات و سوانح پر ان مکاتیب کی روشنی میں تنقیدی نگاہ ڈالی گئی ہے، اس لیے یہ مقدمہ اس دور کی اورنگزیب کی مستند ترین تاریخ ہے، اس کے بعد اصل کتاب رقعات کا پہلا حصہ رقعات عالمگیر جلد اول کے نام سے شائع ہوا جو اورنگزیب کی شاہزادگی کے زمانہ سے لے کر برادرانہ جنگ کے زمانہ تک کے خطوط پر مشتمل ہے باقی جلدوں کا مواد بھی اکٹھا کرلیا تھا، جس کی ترتیب کا موقع تعلیمی زندگی اختیار کرلینے کی وجہ سے نہ مل سکا، دارالمصنفین کے قیام کے زمانہ میں معارف کی سب اڈیٹری کے فرائض بھی انجام دئے، اس دور کے بہت سے مضامین ان کی یادگار ہیں۔
۱۹۳۰؁ء میں احمد آباد کے کسی کالج میں فارسی کے لکچرر مقرر ہوگئے، پھر دو ہی تین سال کے بعد اندھیری بمبئی کے اسمٰعیل کالج میں چلے گئے، اس سے ریٹائر ہونے کے بعد اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ انجمن اسلام کے ڈائرکٹر مقرر ہوگئے۔جہاں اردو کے ریسرچ اسکالروں کی رہنمائی کرتے تھے اور اس کے رسالے نوائے ادب کے اڈیٹر بھی تھے، اور کبھی کبھی اس کے لیے مضامین بھی لکھتے تھے اسمٰعیل کالج سے ریٹائر ہونے کے بعد اندھیری میں ایک پرفضا مقام پر ایک چھوٹا سا خوبصورت بنگلہ بنوالیا تھا، اور بمبئی میں مستقل سکونت اختیار کرلی تھی، انھوں نے یہاں ایک علمی حلقہ بھی پیدا کرلیا تھا لیکن بعد میں بجھ سے گئے تھے، ادھر کئی سال سے ان کی صحت خراب رہتی تھی اور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا کام عملاً ان کے لائق شاگرد اور جانشین عبدالرزاق صاحب قریشی انجام دیتے تھے بعض خانگی حوادث نے ان کی صحت اور گرادی تھی، اسی میں انتقال کیا، مرحوم بڑے ذہین و طباع تھے، ان کا مطالعہ نہایت وسیع تھا، مگر افسوس ہے کہ تعلیمی لائن میں آنے کے بعد تصنیفی شغل قائم نہ رکھ سکے، ورنہ ان کا شمار ہندوستان کے چوٹی کے مصنفین میں ہوتا، جس پر ان کی کتاب مقدمہ رقعات عالمگیر شاہد ہے، جو ان کی نوجوانی کی تصنیف ہے طبعاً بڑے مرنجا مرنج اور شگفتہ مزاج تھے، مزاج میں ایک معصوم لڑکپن تھا، جو آخر عمر تک قائم رہا، جب ان سے ملاقات ہوتی تھی تو ان کی باتوں سے پرانی صحبتیں یاد آجاتی تھیں، آخری مرتبہ سفر حج کے موقع پر ۶۶؁ء میں ملاقات ہوئی تھی، کیا معلوم تھا کہ یہ آخری ملاقات ہے، عمر میں مجھ سے چند سال بڑے تھے، دارالمصنفین سے ان کے گوناگوں تعلقات تھے، اس لیے ان کی موت ہم سب، خاص طور سے ان کے لڑکوں اور ان کے لائق بھانجے شہاب الدین دیسنوی پرنسپل صابو صدیق ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ کے لیے بڑا سانحہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت اور جملہ متعلقین کو صبر و سکون عطا فرمائے۔
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
(شاہ معین الدین ندوی، ستمبر ۱۹۶۸ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...