Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ڈاکٹر ذاکر حسین خان

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ڈاکٹر ذاکر حسین خان
ARI Id

1676046599977_54338107

Access

Open/Free Access

Pages

270

آہ ذاکر صاحب !
ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب کی ناگہانی وفات ہندوستان کا بہت بڑا قومی حادثہ ہے، وہ اسکا گوہر بے بہا تھے، ان کی موت سے وہ ایسی دولت سے محروم ہوگیا جس کی تلافی نہیں ہوسکتی، کم سے کم مسلمانوں میں ان کا بدل پیدا ہونا بہت دشوار ہے اور اب وہ اس نقصان کو محسوس کریں گے، وہ اپنے علمی کمالات ، فہم و فراست، قومی و تعلیمی خدمات، ایثار و قربانی اور اخلاق و سیرت کے لحاظ سے بہت بڑے انسان تھے، انھوں نے سیاست کے میدان میں کبھی قدم نہیں رکھا، لیکن اپنی بصیرت سے بڑی بڑی سیاسی گتھیوں کو آسانی سے سلجھا دیتے تھے، پنڈت جواہرلال نہرو کے بعد بین الاقوامی دنیا میں ہندستان کا وقار اُن ہی نے قائم رکھا۔
ان میں ابتدا سے غیر معمولی صلاحیتیں تھیں، ان کا آغاز ہی ان کے روشن مستقبل کا پتہ دیتا تھا طالب علمی ہی کے زمانہ سے ان کا قومی خدمت کا ولولہ اور ایثار و قربانی کا جذبہ تعلیم یافتہ نوجوانوں اور قومی کارکنوں کے لیے نمونہ تھا، اس زمانہ اور اس عمر میں جب ہونہار نوجوانوں کا منتہائے نظر اور ترقی کی سب سے بڑی معراج سرکاری عہدے اور تعیش کی زندگی تھی، انھوں نے ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا، اور ان کے مقابلہ میں قومی خدمت اور غربت کی زندگی کو ترجیح دی اور اس راہ میں عمر کا بہترین حصہ صرف کردیا، ان کا زندہ کارنامہ ہندوستان کی پہلی آزاد قومی درسگاہ جامعہ ملیہ ہے، گو اس کے بانی حضرت شیخ الہند حکیم اجمل خاں اور مولانا محمد علی وغیرہ تھے۔ لیکن اس کے اصلی معمار وہی تھے، اور ان ہی نے جامعہ کو جامعہ بنایا اور اپنی زندگی میں اپنے لگائے ہوئے پودے کو ایک تناور درخت بنا گئے، اور آج وہ باقاعدہ یونیورسٹی ہے، مشہور واردھا اسکیم ان ہی نے مرتب کی ہندوستان کی تقسیم کے بعد جب مسلم یونیورسٹی کا وجود خطرہ میں پڑگیا تھا، تو پنڈت جواہر لال نہرو اور مولانا ابوالکلام کی مدد سے اس کو بچایا، گو اس کی خصوصیات باقی نہ رہ سکیں، لیکن بگڑی ہوئی شکل میں اس کا وجود قائم رہ گیا اور کئی سال ڈاکٹر صاحب اس کے وائس چانسلر رہے، اور بعض حیثیتوں سے اس کو ترقی دی، اس کے علاوہ اور بہت سے مفید علمی کام کیے، وہ اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کی بنا پر جامعہ کی پرنسپلی سے مسلم یونیورسٹی کی وائس چانسلری، گورنری، جمہوریۂ ہند کی نائب صدارت اور آخر میں صدارت کے جلیل القدر منصب تک پہنچے جو ایک ہندوستانی کے لیے سب سے بڑا عہدہ اور سب سے بڑا اعزاز ہے، اور وہ اس عہدہ کی زینت رہے۔
دارالمصنفین سے ان کا تعلق بہت پرانا تھا، حضرت سید صاحبؒ ان کے بزرگ اور جامعہ کے سرپرستوں میں تھے، اور ایک زمانہ میں وہاں جاکر ایک ایک ہفتہ قیام اور اس کے اساتذہ اور طلبہ کی علمی و تعلیمی رہنمائی فرماتے تھے، ڈاکٹر صاحب بھی اس زمانہ میں ایک دو مرتبہ جامعہ کے چندے کے لیے اعظم گڈھ آئے، اس میں مولانا مسعود علی صاحب مرحوم ان کے معاون ہوتے تھے، اس لیے دارالمصنفین سے ان کا تعلق ہر دور میں قائم رہا، اس کے کارکنوں سے مخلصانہ تعلق رکھتے تھے، اسی تعلق کی بنا پر دارالمصنفین کی گولڈن جوبلی کی صدارت قبول فرمائی اور حکومت ہند سے پچاس ۵۰ ہزار کی رقم دلوائی، اور ضرورت کے وقت اس کی ہر ممکن مدد کے لیے تیار رہتے تھے، ان سے آخری ملاقات غالبؔ کے صدسالہ یادگاری جشنِ میں ایوان صدارت کے ایٹ ہوم میں ہوئی تھی، کیا معلوم تھا کہ یہ آخری ملاقات ہے اس لیے دارالمصنفین کے لیے ان کی وفات قومی کے ساتھ ذاتی حادثہ بھی ہے، دارالمصنفین کی جانب سے سید صباح الدین عبدالرحمن صاحب نے تجہیز و تدفین میں شرکت کی۔
طبعاً نہایت شریف اور جدید تعلیم کے ساتھ قدیم مشرقی تہذیب و شرافت کا نمونہ تھے ان کی وضعداری ہر دور میں یکساں قائم رہی بلکہ عہدہ میں ترقی کے ساتھ اور بڑھتی گئی، جو ان کی بڑائی کی سب سے بڑی دلیل ہے، وہ ایک سچے قوم پرور محب وطن اور عقیدہ و عمل میں پکے مسلمان تھے، ایک معتبر روایت یہ بھی ملی ہے کہ انھوں نے کلام مجید حفظ کرنا شروع کیا تھا، لیکن ان کا دل بڑا وسیع تھا، اور اس میں سارے انسانوں کی بھلائی کا جذبہ تھا، انھوں نے زندگی کی بہت سی راہوں میں قابلِ تقلید نقشِ قدم چھوڑے ہیں، ان کی جیسی جامعیت کی مثال مشکل سے ملے گی،
؂ اے تو مجموعہ خوبی بچہ نامت خوانم
لیکن بشری کمزوریوں سے کوئی انسان خالی نہیں، اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ تیرا ایک عاجز بندہ تیرے حضور میں حاضر ہے، اپنی بندہ نوازی کے طفیل میں اس کی لغزشوں اور خطاؤں سے درگذر، اس کے نیک اعمال کے صلہ میں اس کی مغفرت اور دنیا میں کامیابی کی طرح آخرت کی کامیابی سے بھی سرفراز فرما۔
اللھم اغفرلہ و ارحمہ رحمۃ و اسعہ
(شاہ معین الدین ندوی، مئی ۱۹۶۹ء)

ذاکر صاحب
ذاکر صاحب کو جن کو مرحوم لکھتے وقت قلم تھر تھرا رہا ہے، میں نے آج سے ۴۳ سال پہلے ۱۹۴۷؁ء میں مظفرپور میں پہلی دفعہ دیکھا تھا، اُس وقت میں انٹرمیڈیٹ میں تعلیم پارہا تھا، وہ حکیم اجمل خاں مرحوم کے ساتھ ایک وفد میں جامعہ ملیہ کا چندہ جمع کرنے کے لیے وہاں تشریف لائے تھے، اسی زمانہ میں وہاں ایک دینی اجتماع تھا جس میں مولانا نثار احمد مرحوم (مولانا محمد علی مرحوم کے کراچی جیل کے ساتھی) حافظ احمد سعید دہلوی مرحوم وغیرہ کے مواعظ ہورہے تھے، رات کی ایک نشست میں جامعہ ملیہ کا وفد اس اجتماع میں بھی شریک ہوا، حکیم اجمل خاں مرحوم کی ایک تقریر جامعہ ملیہ کی اہمیت پر ہوئی جس میں انھوں نے ذاکر صاحب کا ذکر خاص طور پر کیا کہ وہ برلن سے تعلیم پا کر آئے ہیں لیکن بڑی ملازمت تلاش کرنے کے بجائے ایثار خدمت کے جذبے میں جامعہ ملیہ سے منسلک ہوگئے ہیں، ان کی تقریر ختم ہوئی تو پنڈال پر ذاکر صاحب کو لاکر کھڑا کیا گیا، ان کے چہرہ پر اس وقت سیاہ داڑھی تھی چہرہ کا رنگ بہت گورا تھا، سیاہ داڑھی میں چہرہ ایسا دمکتا اور چمکتا نظر آیا، جیسے رات کی تاریکی میں برق چمکتی دکھائی دے، انھوں نے کوئی تقریر نہیں کی، ان کے لبوں پر تبسم تھا، متین بلکہ شرمگیں نظریں نیچی تھیں، مشکل سے ایک منٹ کھڑے رہے ہوں گے کہ پھر اپنی جگہ پر چپ چاپ بیٹھ گئے، میرے کچھ ساتھیوں نے ان کو دیکھ کر کہا کہ کیا یہ سحر آگیں ادائیں اور شرمگیں آنکھیں جامعہ ملیہ جیسے ادارہ کے لیے مفید ہوسکیں گی؟
اس وقت سے میری نظروں میں ذاکر صاحب برابر گھومتے رہے، اسی زمانہ میں میرے کچھ اعزہ اور ساتھی جامعہ ملیہ میں تعلیم پارہے تھے، ان کی زبانی جامعہ ملیہ کا ذکر سنتا، جس میں وہ زیادہ تر ذاکر صاحب کی بھلمنساہت اور شرافت طبع کے روزمرہ کے واقعات سناتے، اس سے اندازہ ہوتا کہ وہ بچوں سے بڑی محبت سے پیش آتے ہیں زمانہ گذرتا گیا، میں بی۔اے پاس ہوا۔ ایم۔اے کی تعلیم بھی ختم کی لیکن ان کو کہیں پھر نہیں دیکھا، اخباروں میں ان کا کوئی ذکر آجاتا تو اس کو ضرور پڑھتا، حضرت مولانا سلیمان ندویؒ وطن تشریف لاتے تو اپنی مجلسوں میں جب کبھی ان پر گفتگو کرتے تو اس کو بڑی توجہ سے سنتا، ان کو ذاکر صاحب سے بڑا لگاؤ رہا، ان کی صلاحیت، قابلیت، جذبہ، ایثار، سادگی، قناعت، استغنا کا ذکر دیر تک کرتے رہتے اور فرماتے کہ مسلمانوں کو ان ہی جیسے ایثار پسند اور خدمت گزار افراد کی ضرورت ہے۔
میری پوری طالب علمی کے زمانہ میں ذاکر صاحب کی شہرت میں چار چاند لگ گئے ہیں پٹنہ یونیورسٹی میں ایم۔اے کی تعلیم پاکر علی گڑھ ٹریننگ کالج میں داخل ہوگیا، یہاں کی ڈگری پانے کے بعد میری خواہش ہوئی کہ میں کچھ دنوں ذاکر صاحب کی صحبت میں جامعہ ملیہ جاکر رہوں، میں نے اس کا ذکر اپنے محترم استاد جناب غلام الدین صاحب سے کیا، جو اس وقت مسلم یونیورسٹی ٹریننگ کالج کے پرنسپل تھے، انھوں نے میری خواہش کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کو ایک خط لکھا جس میں انھوں نے ان کی ذات سے میری گرویدگی اور شیفتگی کا ذکر خاص طور پر کیا، میں یہ خط لیکر ان کے پاس پہنچا، جب ان کو معلوم ہوا کہ میں حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ کا عزیز بھی ہوں تو پھر مجھ سے اس طرح ملے جیسے میں ان ہی کا عزیز خاص ہوں، یہ ۱۹۳۴؁ء کا سال تھا، ان کی باتوں میں مجھ کو نرمی، محبت، اخلاص، ہمدردی کی رنگارنگی کی قوس و قزح نظر آئی، میں ان کی صحبت میں پہنچنے کو تو پہنچ گیا تھا، مگر میں جامعہ ملیہ میں داخلہ نہیں لے سکتا تھا، کیونکہ میری تعلیم کے سارے مدارج ختم ہوچکے تھے، میں وہاں ملازمت بھی نہیں چاہتا تھا، لیکن مجھ کو مشغول بھی رہنا تھا، مشکل یہ تھی کہ ذاکر صاحب کا موضوع معاشیات تھا جس سے مجھ کو کوئی مناسبت نہ تھی مجھ کو دلچسپی تاریخ اور خصوصاً ہندوستان کے مسلمانوں کے عہد کی تاریخ سے تھی، جو پروفیسر محمد مجیب صاحب کا موضوع تھا، اس لیے ذاکر صاحب نے مجھ کو ان ہی کے ساتھ کام کرنے کو کہا۔
جامعہ ملیہ اس زمانہ میں قرول باغ، دہلی میں کرایہ کے مکانات میں تھی، تمام اساتذہ کی زندگی بڑی عسرت اور تنگی میں گذرتی تھی، ان کو اپنی اس عسرت اور تنگی پر بڑا ناز تھا، ایثار پسند اساتذہ کا بڑا اچھا اجتماع ہوگیا تھا، ان ہی میں ڈاکٹر عابد حسین، پروفیسر محمد مجیب، محمد علی بی۔اے (آکسن) (مولانا محمد علی نہیں)، مولانا اسلم جیراجپوری مصنف تاریخ الامت، مولانا عبدالحئی مفسر قرآن، مس فلپس بورن، مولانا شرف الدین ٹونکی اور جناب عبدالغفار مدھولی وغیرہ تھے۔
اس زمانہ میں معاشیات کے ایک استاد محمد عاقل صاحب بھی تھے، انھوں نے ایک مکان کرایہ پر لے رکھا تھا، ان کے ساتھ حسین حسان ندوی صاحب اڈیٹر پیام تعلیم بھی رہتے تھے، ذاکر صاحب نے ان ہی دونوں حضرات کے ساتھ مجھ کو بھی رہنے کے لیے جگہ دی، اسی کے قریب ذاکر صاحب کا بھی مکان تھا، ان کی تنخواہ اس وقت ۷۵ روپے ماہانہ تھی، جو اکثر کئی مہینوں تک نہیں ملتی تھی، اس میں سے تیس روپے تو اپنے مکان کا کرایہ دیتے تھے، بقیہ ۴۵ روپے میں اپنے سارے اخراجات پورے کرتے تھے، ان کے مکان کے باہری کمرہ میں صرف تین چار مونڈھے تھے، جن کے نیچے کوئی فرش بھی نہ تھا، ان ہی مونڈھوں پر بیٹھ کر وہ اپنے ملنے والوں سے باتیں کرتے، ان کے یہاں اس زمانہ میں بھی ہر قسم کے لوگ آتے رہتے، رہنمایان قوم بھی، عہدیداران حکومت بھی، علمائے اسلام بھی، شعرا بھی مصنفین بھی مبلغین مذہب بھی، ملحدین بھی، ان کا دروازہ سب کے لیے کھلا رہتا، جو بھی آتا ان سے مل کر ان کی قناعت پسندانہ زندگی کا راگ الاپتا جاتا۔
اس زمانہ میں ان کے بھتیجے امتیاز حسین خاں مرحوم جامعہ سے بی۔اے کر کے باہر اعلیٰ تعلیم کے لیے جانے کی فکر میں تھے، وہ پاسپورٹ کا انتظار کررہے تھے، میری ان سے ملاقات ہوئی تو وہ مجھ سے بے تکلف ہوگئے، وہ اپنے خاندان والوں ہی کی طرح شکیل، مخلص، خلیق اور ملنسار تھے، ذاکر صاحب ہی کے ساتھ رہتے تھے جب کبھی ان کو موقع مل جاتا میرے کمرہ میں چلے آتے اور دیر تک بیٹھے رہتے ان کے ساتھ کبھی ذاکر صاحب کی بڑی لڑکی سعیدہ بھی آجاتیں، جو اس وقت چار پانچ برس کی محض ایک بچی تھیں، امتیاز مرحوم اپنے محبوب چچا کی گھریلو زندگی کی سادگی کا کبھی کبھی ذکر کرتے تو ہنس کر کہتے کہ سعیدہ کو شکایت ہے کہ ان کے گھر میں ڈرائنگ روم نہیں، فرش نہیں، قالین نہیں، اور کہتی ہیں کہ حیدرآباد میں چچا جان یعنی ڈاکٹر یوسف حسین خان صاحب کے ہاں بڑا اچھا ڈرائنگ روم ہے، بہت اچھے اچھے قالین ہیں، امتیاز مرحوم ہی سے معلوم ہوا کہ اس زمانہ میں ایسا بھی ہوتا کہ ذاکر صاحب کے یہاں رات کو جو روٹیاں بچ جاتیں، صبح کو گھر والے ان ہی کا ناشتہ کر کے اکتفا کرلیتے، اس سے ذاکر صاحب کی عزت میرے دل میں اور بڑھ گئی، وہ چاہتے تو ان کو بڑی سے بڑی ملازمت مل سکتی تھی، لیکن ان کو جامعہ کی عسرت بھری زندگی ہی میں عشرت حاصل تھی، اور اسی عسرت بھری عشرت میں ان کی شہرت اور عزت بڑھتی گئی، جامعہ کے لوگ خواہ اساتذہ ہوں یا طلبہ دونوں ان کو دیکھتے تو محسوس کرتے کہ وہ ایثار، اخلاق، محبت، شرافت، بے نفسی مستقل، مزاجی اور اخلاص کے قطب مینار کو دیکھ رہے ہیں۔
شیخ الجامعہ کی حیثیت سے ان کا دفتر بھی بڑا سادہ تھا، کمرہ میں فرش بچھا رکھا تھا، میز، کرسیاں نہ تھیں۔ فرش ہی پر بیٹھتے، ایک صندوق نما ڈسک پر جھک کر جامعہ کے کاغذات دیکھتے یا کچھ لکھتے رہتے، جو کوئی آتا اسی فرش پر بیٹھ کر ان سے باتیں بھی کرتا، انھوں نے جامعہ ملیہ کے اندر بالکل مشرقی اور اسلامی طرز کی زندگی برقرار رکھنے کی کوشش کی تھی، طلبہ فرش پر بیٹھ کر کھانا کھاتے، البتہ کھانا تخت پر رکھا جاتا، یہ ایرانیوں کے کھانے کا طریقہ ہے،اس زمانہ میں تمام طلبہ کے سروں پر ٹوپیاں ضرور ہوتیں۔ ذاکر صاحب کسی موقع پر ننگے سر دکھائی نہیں دیتے اسی لیے اپنے طلبہ کو بھی ننگے سر دیکھنا نہیں چاہتے تھے پانچوں وقت نماز کی بڑی پابندی کراتے، ہر ہوسٹل میں ایک بڑا کمرہ نماز باجماعت کے لیے ہوتا، جو پانچوں وقت بھر جاتا، جامعہ ملیہ چھوٹے بچوں کی تربیت کے معاملہ میں پورے ہندوستان میں مشہور ہوگئی تھی، اس لیے ہندوستان کے ہر گوشہ سے بچے آکر وہاں جمع ہوگئے تھے، ان کی نگرانی اس زمانہ میں ایک یہودی جرمن خاتون مس فلپسبورن کرتی تھیں، ذاکر صاحب کی ہدایت کے مطابق تمام بچے ان کو آپا جان کہا کرتے تھے، ہٹلر نے جرمنی سے یہودیوں کو جلا وطن کیا تو وہ ہندوستان آگئی تھیں، یہاں ذاکر صاحب نے ان کو اپنے سایہ عاطفت میں لے لیا، رفتہ رفتہ جامعہ ملیہ کے لیے بہت مفید ثابت ہوتی گئیں، سب سے بہت ہی اخلاق سے پیش آتیں، ایک روز میں بھی بچوں کے مکتب کے سامنے کھڑا ہوکر ان سے باتیں کررہا تھا، کہ یکایک میں نے دیکھا کہ ایک بظاہر گنوار لڑکا ایک صاف ستھرے لڑکے کو ایک درجہ سے دھکا دیتے ہوئے باہر نکل آیا اور اس کو پٹک کر اس کے سینے پر سوار ہوگیا، مجھ سے دیکھا نہ گیا میں نے گنوار لڑکے کو دھکیل کر صاف ستھرے لڑکے کو اس کی مار سے بچا لیا، میں نے آزدہ ہوکر مس فلپسبورن سے کہا کہ:
"Why do you allow such street unchins to came to classes"
یہ سن کر فلپسبورن برہم ہوگئیں اور ان کے چہرہ کا رنگ سرخ ہوگیا، مجھ سے مخاطب ہوکر بولیں:
"Don't say like that, We shall try to acclamatise him in our environment".
اس غیر ملکی عورت کی زبان سے یہ سن کر مجھ کو بڑی مذامت ہوئی، میں ان سے معذرت خواہ ہوا، اسی سلسلہ میں انھوں نے کہا کہ میں ہندوستان میں آکر ہندوستانی بچوں سے بہت متاثر ہوئی ہوں، ان کو جرمنی کے بچوں سے سیکڑوں گنا زیادہ ذہین پایا، اگر ان کی صحیح تربیت ہوتی رہے تو وہ یورپ کے بچوں سے زیادہ بہتر ثابت ہوسکتے ہیں، یہ سن کر میں خوش ہوا، لیکن اسی کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ جامعہ ملیہ کی تربیت سے تو وہ بہت جلد راہ راست پر آجاتے ہیں لیکن جب وہ چھٹیوں میں گھر جاتے ہیں تو پھر پہلے ہی جیسے کورے ہو کر لوٹتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے گھر کا ماحول بہت ہی مختلف ہوتا ہے۔
جامعہ ملیہ میں ذاکر صاحب کی کوشش یہی رہی کہ ہندوستانی بچے جو جرمنی کے بچوں سے سینکڑوں گنا زیادہ ذہین ہوتے ہیں، صحیح تربیت پاتے رہیں۔ اور ان کے لیے ملک کی نئی آب و ہوا ساز گار ہوتی رہے، ان کی یہ کوشش اس زمانہ میں کامیاب رہی، وہاں کے بچے دور سے پہچان لیے جاتے کہ یہ جامعہ کے ہیں۔
ذاکر صاحب کی وضعداری یہ بھی تھی کہ وہ طلبہ کے ہوسٹلوں اور اساتذہ کے گھروں میں جاکر ان سے بے تکلفانہ گفتگو کرتے میرے کمرہ میں بھی کئی بار آئے، ایک بار میں سی آف اینڈ ریوز کی تصنیف منشی ذکاء اﷲ کا مطالعہ کررہا تھا، وہ تشریف لائے تو یہی کتاب موضوع بن گئی، میں نے عرض کیا کہ کیا مناسب ہوگا اگر میں اس کتاب کا ترجمہ اردو میں کردوں، جواب میں فرمایا، پہلے ترجمہ کے ناشر کو ٹھیک کرلیجئے پھر ترجمہ شروع کیجئے، ورنہ ترجمہ کے بعد کوئی ناشر نہیں ملا تو محنت رائگاں جائے گی، پھر بزرگانہ شفقت سے کہا کہ کچھ لوگ پڑھے ہوتے ہیں، کچھ صرف لکھے ہوتے ہیں اور کم لوگ پڑھے لکھے ہوتے ہیں، آپ پڑھے لکھے ہونے کی کوشش کیجئے، پڑھیے زیادہ لکھیے کم، پڑھنا لکھنا چھپنے کے لیے نہ ہو، چھپنے کے بعد غلط راستے پر پڑجانے کا امکان زیادہ بڑھ جاتا ہے، جو چھپتے ہیں وہ لکھتے تو زیادہ ہیں لیکن پڑھتے کم ہیں، یہ بات دل میں اب تک بیٹھی ہے، ذاکر صاحب اپنی گفتگو میں تم کہہ کر بہت کم لوگوں سے مخاطب ہوتے زیادہ تر آپ ہی ان کی زبان سے نکلتا، ایک اور موقع پر اکبر پر گفتگو آگئی، میری زبان سے اس کے متعلق کچھ سخت باتیں نکل گئیں جن کو ذاکر صاحب نے ہنس کر سنا، پھر فرمایا کہ اکبر کو برا کہنا تو آسان ہے لیکن اس کو سمجھنا مشکل ہے، ہندوستان کی تاریخ میں اس کی ذات رواداری سیرچشمی اور فراخدلی کا بہت بڑا تجربہ ہے، اس کا مطالعہ اسی تجربہ کی روشنی میں کرنا چاہیے، اس سے غلطیاں اور بے اعتدالیاں ضرور ہوئیں لیکن اس کا یہ تجربہ سیاسی نفسیاتی اور عمرانی تجزیہ کا مستحق ہے یہ اور بات ہے کہ وہ اپنے تجربہ میں ناکام رہا۔
جامعہ کے قیام کے زمانہ میں ایک بار مجھ پر ملیریا کا سخت حملہ ہوا، اور اپنے کمرہ میں پڑا تھا کہ ایک کمبلی اوڑھے فقیر میرے کمرہ میں داخل ہوگیا اور مجذوبانہ باتیں شروع کردیں جن سے میں مرعوب ہوگیا میں نے اس کو ٹالنے کی خاطر دو پیسے دیے، لیکن اس نے فضا میں ان دو پیسوں کو کچھ اس طرح اچھالا کہ میری نظروں سے غائب ہوگئے، اور وہ بولا ’’میں تمہارے پاس بھیک مانگنے نہیں آیا ہوں‘‘ میں گھبرا گیا اور مودب ہوکر دو روپے نذرانے کے طور پر پیش کیے، لیکن اس نے ان دو روپیوں کو بھی فضا میں غائب کردیا اور چیخا ’’میں تمہارے ان دو روپیوں کے لیے نہیں آیا ہوں‘‘ میں اور بھی پریشان ہوا، میرے بکس میں ایک دس روپئے اور پانچ پانچ روپئے کے دو نوٹ تھے میں نے کچھ اور نذرانہ پیش کرنا چاہا، سوچنے لگا کہ پانچ کا نوٹ دوں یا دس کا، پھر پانچ کا نوٹ لے کر اس کو مودبانہ پیش کیا، وہ بولا ’’تو اس کشمکش میں تھا کہ پانچ کا دوں یا دس کا، ایسی کشمکش کا نذرانہ لے کر میں کیا کروں گا‘‘ اور پھر اس نے فضا میں پانچ روپئے کا نوٹ اس طرح اچھالا کہ میری نظر سے غائب ہوگیا، میرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہونے لگے تو میں نے دس روپئے کا نوٹ بھی اس کے حوالے کردیا، جس کو اس نے ہنس کرلے لیا، وہ بیڑی پی رہا تھا، اس کی راکھ میرے منہ میں یہ کہہ کر ڈال دی کہ یہ برکت کی راکھ ہے، یہ راکھ شکر کی ایسی میٹھی تھی پھر وہ اٹھا اور یہ کہہ کر چلا گیا کہ ’’جس ڈبہ سے تو نے روپئے نکال کر دیے ہیں وہ تجھ کو کل صبح روپیوں سے بھرا ملے گا‘‘۔ کہہ کر غائب ہوگیا، صبح کو میرا ڈبہ بھرنے کے بجائے بالکل خالی تھا، میرے اس طرح لٹ جانے کی خبر جامعہ میں پھیلی تو سب ہنسے میں بیمار تھا ہی، ذاکر صاحب میری عیادت کے لیے آئے، تو میرے لٹ جانے پر یہ کہہ کر ماتم پرسی کی، حضرت! یہ دہلی ہے، جہاں درویش ضرور رہا کرتے ہیں، لیکن یہاں درویش نما بدمعاش بھی ہیں، پھر فرمایا کہ آپ کا یہ نقصان رائگاں نہ جائے گا، اس کے پیچھے ایسے فوائد ہیں جن سے آپ کو سنبھل کر زندگی بسر کرنے میں مدد ملے گی، ان کی یہ نصیحت بڑی کارگر ہوئی۔
اس زمانہ میں جامعہ کے اساتذہ میں مولانا شرف الدین ٹونکی بھی تھے، جو ذاکر صاحب کے استاد بھی رہ چکے تھے، ذاکر صاحب ان کا بڑا احترام کرتے، ان کے سامنے مودب بیٹھتے، بلند آواز میں گفتگو نہ کرتے، مولانا شرف الدین ٹونکی کے مزاج میں بڑا اکھڑاپن تھا، جو بات ان کی زبان پر آتی وہ کہے بغیر نہ رہتے، حق اور صداقت کا اعلان کرنے میں بہت بے باک تھے، کسی سے ان کی نہ بنتی لیکن ذاکر صاحب کی وجہ سے اور لوگ بھی ان کے احترام میں فرق نہ آنے دیتے، ایک بار بچوں کی طرف سے سالانہ عید میلادالنبی کی دلچسپ تقریب تھی، اس کی صدارت مولانا ہی کرنے والے تھے، جامعہ کے اساتذہ کے علاوہ بیرونی مہمانوں میں جناب ڈاکٹر لودی کریم حیدر بھی آئے ہوئے تھے، جو مسلم یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر تھے، لیکن اسی وقت وہ مرکزی پبلک سروس کمیشن کے رکن تھے، وہ ذاکر صاحب کے یہاں برابر آتے جاتے رہتے ان کی بیوی جرمن تھیں، لیکن اسلام قبول کرلیا تھا، وہ صاحب قسم کے آدمی ہونے کے باوجود اسلامی جذبات رکھتے تھے، اس لیے اپنی بیگم کے ساتھ مذہبی جلسہ میں شریک ہوا کرتے تھے، وہ اپنی بیگم اور لڑکی کے ساتھ بچوں کی عیدالنبی کی تقریب میں آئے تو مس فلپسبورن نے ان کی پیشوائی کی، یہ تینوں خواتین جلسہ گاہ کے کنارے کرسیوں پر بیٹھیں، ان کا لباس یوروپی تھا، مولانا شرف الدین ٹونکی ان میموں کو دیکھ کر بگڑ گئے اور غصہ میں ذاکر صاحب سے کہا کہ میں ایسی تقریب کی صدارت نہیں کرتا جہاں نیم برہنہ عورتیں موجود ہوں، یہ سن کر ذاکر صاحب بہت پریشان ہوئے لیکن وہ اپنی معزز خواتین مہمان سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتے تھے، ان کی پریشانی کو مولانا اسلم جیراجپوری نے دور کیا، پہلے تو انھوں نے مولانا شرف الدین ٹونکی سے کہا ’’مولانا، اگر آپ نیم برہنہ عورتوں کی موجودگی میں صدارت کرنا پسند نہیں فرماتے تو آپ اجازت دیں تو کسی اور کو صدر منتخب کرلیا جائے، مولانا ٹونکی نے صدارت چھوڑنا پسند نہیں کیا، ان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر مولانا اسلم جیراجپوری نے کہا کہ اگر آپ صدارت کی جگہ پر اس طرح بیٹھیں کہ آپ کی نظریں ان نیم برہنہ نامحرم عورتوں پر نہ پڑیں تو میرا خیال ہے کہ شرعی قباحت دور ہوجائے گی۔ مولانا اشرف الدین ٹونکی نے فرمایا کہ یہ مشورہ صحیح ہے، اور پھر وہ صدارت کے لیے آگے بڑھ گئے، میں دوسرے دن مولانا اسلم جیراجپوری کے گھر پر حاضر ہوا تو اس واقعہ کا بھی ذکر آگیا، مولانا نے فرمایا کہ مولانا شرف الدین ٹونکی کی وجہ سے کبھی کبھی ایسی چپقلش پیدا ہوتی رہتی ہے کہنے لگے کہ ایک بار بیگم صاحبہ بھوپال تشریف لائیں، وہ برقعہ میں تھیں، اساتذہ ایک صف میں ان کی پیشوائی کے لیے کھڑے تھے، بیگم صاحبہ تشریف لائیں تو ذاکر صاحب نے سب سے تعارف کرانا شروع کیا، تعارف کے بعد بیگم صاحبہ ہاتھ بھی ملاتیں، انھوں نے جب مولانا شرف الدین ٹونکی کی طرف ہاتھ بڑھایا تو وہ دوٹوک بولے میں نامحرم عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا، اور یہ کہہ کر اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا، بیگم صاحبہ کا ہاتھ بڑھا ہوا تھا میں نے ان سے یہ کہہ کر ہاتھ ملالیا کہ میں بھی عالم ہوں، لیکن میں نامحرم عورتوں سے ہاتھ ملالیتا ہوں، یہ سن کر بیگم صاحبہ ہنسنے لگیں، ذاکر صاحب بھی اس طرح محجوب نہ ہوئے۔
اسی زمانہ میں دہلی میں آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس ہونے والی تھی، اس کے صدر جے پور ریاست کے وزیر تعلیم ہوئے، اس کے مستقل سکریٹری پرنسپل سیشادری تھے، جو اس وقت غالباً اجمیر پرنس کالج میں تھے، مجلس استقبالیہ کا کوئی صدر نہ ہوا تھا، اس کے انتخاب کی تاریخ کا اعلان ہوا، تو جامعہ والوں کی خواہش ہوئی کہ اس کے صدر ذاکر صاحب ہوں مجلس استقبالیہ کی رکنیت کی فیس ایک روپیہ تھی، ہم تمام لوگ اس کے رکن بن گئے، انتخاب کے مقابلہ میں ذاکر صاحب بھاری اکثریت سے صدر منتخب کرلیے گئے۔ انھوں نے اجلاس میں اپنا خطبہ پڑھا تو ہر طرف اسی کی دھوم تھی، جے پور کے وزیر تعلیم کا خطبہ بہت پھیکا پڑگیا، دہلی کے اخباروں میں ذاکر صاحب کا خطبہ بڑے آب و تاب سے شائع ہوا اور اس پر ہندوستان ٹائمز اور دوسرے اخباروں نے اداریے بھی لکھے۔
جامعہ میں میرے قیام کے دوران خالدہ ادیب خانم بھی وہاں اپنے توسیعی خطبات دینے آئیں، ان کے ٹھہرانے کا انتظام ڈاکٹر مختار احمد انصاری کے گھر پر کیا گیا، پروفیسر محمد مجیب ان کے یہاں ان کے خطابات پر نظرثانی کرنے کے لیے برابر جاتے، میں بھی ایک بار ان کے ساتھ گیا اور خالدہ ادیب خانم کے ساتھ دن کا لنچ بھی کھانے کا اتفاق ہوا، بڑی باوقار اور متین خاتون تھیں، انگریزی بہت بے تکلف بولتی تھیں اور جو بات کہتیں اس میں وزن اور وقار ہوتا، ان کا پہلا توسیعی لکچر جامعہ ملیہ میں ڈاکٹر مختار احمد انصاری کی صدارت میں ہوا، سامعین میں بہت سے مشاہیر تھے، جن میں راجہ گوپال اچاریہ، بھولا بھائی ڈیسائی، گووند بلبھ پنت، سروجنی نائیڈو، سیتا مورتی، لودی کریم حیدر کے نام اس وقت یاد آرہے ہیں۔ ذاکر صاحب ان سب کی پیشوائی میں مشغول تھے، ان مشاہیر سے ان کے ملنے اور باتیں کرنے کا کچھ ایسا انداز ہوتا کہ وہی ان سب پر بھاری نظر آتے ہیں اور شاید اس وقت بھی فضا میں یہ آواز گونج رہی تھی کہ کہ آگے چل کر ہندوستان کا یہ شاہین ان سب سے سبقت لے جانے والا ہے۔
اس زمانہ کا ایک وقعہ برابر یاد آتا رہا سینٹ اسٹیفن کالج میں دہلی یونیورسٹی کی طرف سے معاشیات توسیعی لکچرز پنجاب یونیورسٹی کے ایک ممتاز پروفیسر دے رہے تھے، پروفیسر مجیب اس میں شرکت کے لیے ایک تانگہ پر جارہے تھے، تو میں بھی ان کے ساتھ ہوگیا، قردل باغ سے سینٹ اسٹیفن کالج تک پورے تانگہ کا کرایہ اس وقت صرف چھ آنے پیسے تھے، پروفیسر مجیب جامعہ میں نسبتاً خوشحال زندگی بسر کرتے تھے، ان کے والد جناب محمد نسیم صاحب لکھنؤ کے بہت ہی مشہور وکیل تھے، وہ ان کی مالی امداد کرتے رہتے، اس لیے ان کو روپئے پیسے کی تنگی نہ تھی، پروفیسر مجیب کے ساتھ میں بھی کالج پہنچ کر لکچرز سننے میں مشغول تھا کہ ذاکر صاحب تقریباً ایک گھنٹہ کے بعد وہاں پہنچے اور پیچھے بیٹھ کر لکچر سننے لگے، جب لکچر ختم ہوا تو وہ لوگوں سے ملنے ملانے لگے، پھر مجیب صاحب کو مخاطب کرکے کہا کہ مجھ کو بھی اپنے ساتھ تانگہ پر لیتے چلیں، سب سے مل کر ہم تینوں رخصت ہوئے، تو ایک تانگہ چھ آنے میں طے ہوا، ذاکر صاحب نے آگے بیٹھنا پسند کیا، مجیب صاحب میرے ساتھ پیچھے بیٹھے، ذاکر صاحب بولے کہ میں دیر کر کے لکچر میں پہنچا، اس لیے کہ میرے پاس اتنے دام نہ تھے کہ میں تانگہ کا کرایہ دیتا، ایک صاحب موٹر پر گذر رہے تھے تو میں ان ہی کے ساتھ بیٹھ کر یہاں چلا آیا، واپسی کے بھی دام نہ تھے، اس لیے آپ کو روکے رکھا، یہ سن کر مجھ پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی کہ خدمت و ایثار کا یہ پیکر کیسی تنگی کی زندگی بسر کرنے میں لگا ہوا ہے اور پھر کیا معلوم تھا کہ دہلی کی ان ہی سڑکوں پر اس مرد فقیر کو وہ اعزاز حاصل ہوگا جو کسی ہندوستانی کے لیے سب سے بڑا اعزاز ہوسکتا ہے۔
ذاکر صاحب کا معمول تھا کہ وہ صبح کو قردل باغ کی پہاڑی پر جا کر ہوا خوری کرتے، ان کے ساتھ پروفیسر عاقل بھی ہوتے ایک دو بار میں بھی ساتھ رہا، اسی پہاڑی کے نیچے جھاڑیاں تھیں، جن میں وائسرائے اور ویسرائین کی شہسواری کے لیے راستے بنے ہوئے تھے، وائسریگل لاج سے دونوں یہاں آکر ہوا خوری کرتے، ذاکر صاحب کا کبھی ان سے آمنا سامنا بھی ہوجاتا، ان کو کیا خبر تھی کہ ہواخوری کرنے والا یہ پیدل ان ہی کی طرح شاہ بن کر وہاں متمکن ہوگا جہاں اس وقت ہندوستان کا کوئی پرندہ پر نہیں مارسکتا تھا۔
میں چھ مہینے جامعہ میں رہ کر حضرت الاستاذ مولانا سید سلیمان ندویؒ کی طلبی پر دارالمصنفین جنوری ۱۹۳۵؁ء میں آگیا، اُس وقت سے اب تک اس کا ادنی خدمت گذار بنا ہوا ہوں جب میں جامعہ ملیہ سے دارالمصنفین کے لیے چلا تو ذاکر صاحب کی طبیعت کی شرافت، اخلاق کی پاکیزگی اور بے سر و سامان میں مفید کام انجام دینے کی ہمت و پامردی کے بار سے دبا ہوا روانہ ہوا، ان کے اخلاص، جذبۂ ایثار، ان کی فطری، ملنساری، نرمی اور ملائمت کو نہ صرف جامعہ ملیہ کا بلکہ ملک و ملت کا راس المال سمجھنے پر مجبور تھا۔ دارالمصنفین کی صحبتوں میں ان کا ذکر برابر رہتا، میرے دارالمصنفین آنے کے فوراً ہی بعد سید صاحب خالدہ ادیب خانم کی ایک لکچر کی صدارت کے لیے جامعہ ملیہ تشریف لے گئے، جہاں اکثر و بیشتر ذاکر صاحب کے ساتھ قیام کرتے، واپسی کے بعد ذاکر صاحب کے گوناگوں اوصاف کا ذکر بڑے لطف و لذت سے کرتے، ذاکر صاحب کو بھی دارلمصنفین سے بڑا گہرا لگاؤ رہا، جب جامعہ قرول باغ کی عمارتوں میں کٹھن منزلوں سے گذر رہی تھی تو وہ اُس وقت دارالمصنفین کی ترقی اور سرگرمیوں کو جامعہ کے لوگوں کے سامنے ایک اچھی عملی مثال کی طرح پیش کرتے، میرے دارالمصنفین آنے سے پہلے ذاکر صاحب جامعہ ملیہ کے چندے وصول کرنے کے لیے دوبار اعظم گڈھ آئے اور دارالمصنفین ہی میں قیام کیا، مولانا مسعود علی ندوی مرحوم کو چندے وصول کرنے کی غیر معمولی صلاحیت تھی، انھوں نے بڑی بڑی رقمیں ذاکر صاحب کو دلوائیں، جن کا اعتراف ذاکر صاحب آخر آخر وقت تک کرتے رہے، وہ دارالمصنفین میں آکر بہت بے تکلف ہوجاتے، کھری چارپائی پر لیٹتے اور ایسے مل جل کر رہتے جیسے یہیں کے ایک فرد ہیں مولانا مسعود علی صاحب ندوی دہلی جاتے تو ذاکر صاحب ان کو اپنے یہاں مہمان رکھتے، وہ ذاکر صاحب کی بیگم صاحبہ کو پٹھانی کہتے، ان کا بیان ہے کہ کھانے کے وقت ذاکر صاحب اپنی نامشغولیتوں کی بنا پر گھر پر نہ ہوتے تو پٹھانی پردے کی آڑ میں سے سینی پر کھانا رکھ کر بڑھا دیتیں وہ کھاتے، اﷲ کا شکر ادا کرتے اور پھر سینی خود ہی بڑھا دیتے، ذاکر صاحب کی بیگم صاحبہ شروع ہی سے گھریلو خاتون بن کر چراغ خانہ بنی رہیں، انھوں نے اپنی یہ وضعداری ذاکر صاحب کے انتہائی عروج کے زمانہ میں بھی قائم رکھی۔
۱۹۳۶؁ء میں کابل کے مشہور شاعر سرور خاں گویاؔ ہندوستان کی سیاحت کے لیے آئے، وہ دہلی علی گڑھ اور لکھنؤ کے مشاہیر سے ملتے ہوئے دارلمصنفین اعظم گڑھ آئے، اثنائے گفتگو میں انھوں نے کہا ’’میں نے ہندوستان میں حسین ترین آدمی ڈاکٹر ذاکر حسین کو پایا‘‘، ہم لوگوں نے بھی اس کی تائید کی۔
میں نے دارالمصنفین کے گوشۂ عافیت میں ذاکر صاحب کی خوبیوں کی یادوں کا چراغ اپنے دل میں روشن رکھا، گو اس کا بھی احساس رہا کہ ذاکر صاحب کے میرے جیسے عقیدت مند ہزاروں ہوں گے اس لیے جامعہ سے آنے کے بعد وہ مجھے بھول چکے ہوں گے، ۱۹۳۵؁ء کے بعد معلوم نہیں کتنے سیاسی انقلاب آئے، ۱۹۳۵؁ء ایکٹ، ہندوستان چھوڑو ہنگامے، پاکستان تحریک، اسٹفورڈ کرپس تجاویز ہندو مسلمان فسادات، کانگریس لیگ کے جھگڑے سے ہندوستان کا ڈھانچہ بدل رہا تھا، ان تمام ہنگاموں میں ۱۹۴۷؁ء تک ذاکر صاحب کی مقبولیت اور محبوبیت میں کوئی فرق نہیں آیا، بلکہ ان میں اضافہ ہی ہوتا گیا، ہندو اور مسلمان دونوں ان پر اعتماد کرتے اور ان کے اخلاق و کردار کو نمونہ سمجھتے رہے، ۱۹۴۷؁ء کے سیاسی انقلاب میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ بھی متاثر ہوئی تقسیم ہند کے بعد سے ہندووں کا اعتماد ہندوستان کے مسلمانوں پر سے جاتا رہا، کیونکہ پاکستان کے حق میں ووٹ دینے میں وہی آگے تھے۔ اس بے اعتمادی کے طوفان میں مسلم یونیورسٹی کی کشتی بھی منجدھارے میں پڑ گئی، اس وقت ارباب بصیرت کی نظر ذاکر صاحب کی طرف اٹھی، کہ وہی اب اس کشتی کے کھیویا صحیح معنوں میں ہوسکتے ہیں حکومت کو بھی ان پر اعتماد تھا، اس لیے وہ ۱۹۴۸؁ء میں مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنادیے گئے، مسلم یونیورسٹی کی وائس چانسلری کرنا اور خاردار بستر پر لیٹنا دونوں برابر ہیں، وائس چانسلری کے زمانہ میں پہلی دفعہ ذاکر صاحب پر تنقیدیں سننے میں آئیں، ان میں عقلیت پسندی بھی تھی اور مذہبیت بھی، وہ اپنے خاندان اور گھر کے ماحول کی وجہ سے ایک اچھے قسم کے مسلمان تھے لیکن ۱۹۴۷؁ء کے بعد کے ہندوستان میں جب ان پر ذمہ داریاں عائد کی گئیں تو وہ اچھے قسم کے مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ حقیقت پسند مسلمان بھی ہونا چاہتے تھے، وہ بھی ہندوستان کے عام مسلمانوں کی طرح اس ذہنی الجھن میں مبتلا ہوگئے کہ مسلمانانِ ہند کا مقام ہندوستان میں ہو تو کیا ہو، ملک کے بدلے ہوئے حالات میں ان کو ایک علیحدہ قوم تسلیم نہیں کیا جاسکتا تھا، اور نہ ان میں اتنی قوت و صلاحیت باقی رہ گئی تھی کہ وہ حکومت سے ٹکر لے کر اپنی جداگانہ قومیت کو تسلیم کراسکتے تھے، وہ نہ خود مختار ہوسکتے تھے اور نہ ذہنی طور پر کسی کے زیر اقتدار ہوکر محض خاموش اور غیر متحرک شہری بننا پسند کرتے تھے، ذاکر صاحب ان الجھنوں میں جس نتیجہ پر پہنچے تھے اس کا اظہار انھوں نے اس تقریر میں کیا جو ۱۹۵۶؁ء میں سعودی عرب میں جاکر کی، انھوں نے فرمایا:
’’اسلام کی جو حیثیت عالمی زندگی میں ہونی چاہیے مسلمانوں کی وہی ہندوستانی زندگی میں ہو، جس طرح دنیا میں مسلمانوں کو اپنے مختلف اعمال و اعتقاد رکھنے والوں کے ساتھ زندگی گذارنی ہے اور اپنی مثال اپنے افکار کی بلندی، اپنے کردار کی خوبی سے ایک صالح اور صحت مندانہ زندگی کا نمونہ دوسروں کے سامنے پیش کرنا ہے، اسی طرح مسلمانان ہند پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ مشترک اور مختلف العناصر ہندی قوم میں حیات طیبہ اسلامیہ کا ایسا نمونہ پیش کریں جس سے ان کے ہم وطنوں کے دل میں ان کے لیے جگہ پیدا ہو، زندگی کی وہ اعلیٰ قدریں جن کے یہ حامل ہوں عام ہندی زندگی کو متاثر کریں اور ہم جو رحمتہ للعالمین کے نام لیوا ہیں، اپنے وطن اور اہل وطن کے لیے مثال اور رحمت کا کام دیں‘‘۔
یہ کوہ سینا کا کوئی وعظ نہیں، بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے صحیح لائحہ عمل ہے، اور اسی نصب العین پر عمل کرنے میں ان کی اجتماعی زندگی کی نجات ہے، لیکن افسوس ہے کہ ہم ہندوستانی مسلمان زندگی کے ایسے دور سے گذر رہے ہیں جس میں نہ افکار کی بلندی، نہ کردار کی خوبی، نہ حیات طیبہ اسلامیہ کی اعلیٰ قدریں ہیں، ان پر صرف یہ خوف غالب ہے کہ کہیں ہندوستانی قومیت کے سیلاب میں ان کا وجود بالکل مٹ نہ جائے یہ خوف بیجا بھی نہیں تقسیم ہند کے بعد ہندوستان کی حکومت کا تو نہیں لیکن یہاں کے اکثریتی فرقہ کے جذبات یہ ہیں کہ مسلمانوں کو جو کچھ لینا تھا وہ پاکستان کی شکل میں لے چکے ہیں، ہندوستان میں اب وہ کسی سیاسی، اقتصادی اور تعلیمی رعایت کے مستحق نہیں، ان جذبات کا اظہار جن مختلف صورتوں میں ہوتا رہتا ہے، اس سے مسلمان حکومت کی یقین دہانی کے باوجود اپنے کو ایک آزاد جمہوریہ کا آزاد شہری تصور کرنے کے بجائے ایک مجبور اور بے بس اقلیت سمجھتے ہیں، اور ملک میں آئے دن کے بلووں میں ان کا خون جو پانی کی طرح بہتا رہتا ہے، اس سے ان کا خوف بڑھتا جاتا ہے کہ ان کا تہذیبی وجود کہیں بالکل ختم نہ ہوجائے ذاکر صاحب کو مسلمانوں کے اس خوف کا احساس رہا، وہ بہار کے گورنر اور حکومت ہند کے نائب صدر ہونے سے پہلے کاشی ودیا پیٹھ میں مدعو کیے گئے تو وہاں انھوں نے اپنے خطبہ میں کہاکہ:
’’کیا ہندوستان کا قومی نظام تعلیم مسلمانوں کو اس بات کا موقع دے گا یا نہیں کہ وہ اپنی تمدنی زندگی کو اپنی تعلیم کا ذریعہ بنائیں، آپ جانتے ہیں کہ یہ مسئلہ ہماری قومی زندگی کے لیے کتنا اہم ہے، ممکن ہے کہ بعض نیک نیت اور انتہا پسند قوم پرست متحدہ ہندوستانی قومیت کی ایسی تصویر اپنے ذہن میں رکھتے ہوں جس میں مسلمانوں کو یہ حق دینا قوم کی قوت اور قوم کی ترقی کے لیے مضر ہو، مگر ہمارے ماہرین تعلیم اگر نیک نیتی سے ہندوستان کی تعلیم کا نظام بنائیں تو مجھے یقین ہے کہ وہ مسلمانوں کی اس خواہش کو خوشی سے قبول کرلیں گے کہ وہ اپنی تعلیم کی بنیاد اپنے تمدن پر رکھیں کہ صحیح تعلیم اور صحیح سیاست دونوں کا یہی تقاضا ہے آپ مجھے معاف فرمائیں گے اگر اس معزز مجمع کے سامنے میں صفائی سے یہ بات پیش کروں کہ مسلمانوں کو جو چیز متحدہ ہندوستانی قومیت سے بار بار الگ کھنچتی ہے، اس میں جہاں شخصی خود غرضیاں تنگ نظری اور آپس کے مستقبل کا صحیح تصور نہ قائم کرسکنے کو دخل ہے، وہاں اس شدید شبہ کا بھی بڑا حصہ ہے کہ قومی حکومت کے ماتحت مسلمانوں کی تمدنی ہستی کے فنا ہونے کا ڈر ہے اور مسلمان کسی حال میں یہ قیمت ادا کرنے پر راضی نہیں، اور میں بحیثیت مسلمان ہی نہیں سچے ہندوستانی کی حیثیت سے بھی اس پر خوش ہوں کہ مسلمان قیمت ادا کرنے پر تیار نہیں، اس لیے کہ اس سے مسلمانوں کو جو نقصان ہوگا سو ہوگا ہی، خود ہندوستان کا تمدن پستی میں کہاں سے کہاں پہنچ جائے گا‘‘۔
گرچہ مشلِ غنچہ دل گیریم!
گلستان میر دا گر میریم!
یہی وجہ ہے کہ سچے مسلمان ہندوستانی اپنی مذہبی روایات اپنی تاریخ، اپنی تمدنی خدمات اور اپنے تمدن سے توقعات کی وجہ سے اپنے ملّی وجود کو اپنے لیے ہی بے بہا نہیں سمجھتے بلکہ ہندوستانی قومیت کے لیے بھی نہایت بیش قیمت جانتے ہیں، اور اس کے مٹائے جانے یا کمزور کیے جانے کو اپنے ہی ساتھ ظلم نہیں بلکہ ہندوستانی قوم کے ساتھ بھی سخت خیانت سمجھتے ہیں، ہندوستانی مسلمانوں کو اپنا دیش کسی اور سے کم عزیز نہیں ہے، وہ ہندوستانی قوم کا جز ہونے پر فخر کرتے ہیں مگر وہ ایسا جز بننا کبھی گوارہ نہ کریں گے جس میں ان کی اپنی حیثیت بالکل مٹ چکی ہو‘‘۔ (یادوں کی دنیا، ص: ۲۱۱۔۲۱۰)
لیکن اسی کے ساتھ وہ مسلمانوں کو یہ بھی تلقین کرتے رہے کہ قومیت اور اسلامیت ایک دوسرے کی ضد اور نقیض نہیں، بلکہ ان کو ایک دوسرے سے تقویت حاصل ہونی چاہیے، جامعہ ملیہ میں ان کی ساری سرگرمیوں کا محور یہی رہا کہ وہ مسلمانوں کی آئندہ زندگی کا ایک ایسا نقشہ تیار کریں جس کا مرکز مذہب اسلام ہو اور اس میں ہندوستان کی قومی تہذیب کا وہ رنگ بھرا جائے جو عام انسانی تہذیب کے رنگ میں کھب جائے۔ وہ اس کا اظہار برابر کرتے رہے کہ مذہب کی سچی تعلیم ہندوستانی مسلمانوں کو وطن کی محبت اور قومی اتحاد کا سبق دے گی، اور ہندوستان کی ترقی میں حصہ لینے پر آمادہ کرے گی، اور آزاد ہندوستان اور ملکوں کے ساتھ مل کر دنیا کی زندگی میں شرکت اور امن و تہذیب کی مفید خدمت کرے گا۔ وہ سمجھتے رہے کہ تنگ نظری اور تعصب کے اس دور میں یہ تصور محض خواب و خیال ہے لیکن وہ ہمت، اخلاص، محنت اور استقلال سے اس خواب کو حقیقت کا جامہ پہنانا چاہتے تھے۔
گاندھی جی اور پنڈت جواہر لال نہرو کی طرح ان کی بھی خواہش رہی کہ آزاد ہندوستان میں باہمی دل آزاری اور بیزاری کے بجائے باہمی رواداری اور یگانگت ہو، اسلامیت اور قومیت کا حسین امتزاج ہو، اسی امتزاج کی خاطر ان سے بعض ایسی باتیں عمل میں آجاتی تھیں جن سے ان پر بڑی نکتہ چینیاں ہونے لگتی تھیں، وہ جو رواداری چاہتے تھے، اس کے لیے ہندوستان کا مزاج ابھی نہیں بنا تھا، وہ خاندانی طور پر اچھے قسم کے مسلمان تھے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شیخ الجامعہ رہ چکے تھے، اس لیے مسلمان ان میں اسلامیت چاہتے تھے، جب وہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہونے لگے تو حکومت اور اکثریتی فرقہ دونوں ان عہدوں کا معاوضہ ان کی بے داغ قومیت کی شکل میں چاہتے تھے اور وہ بھی قومیت ایسی ہو جس کا معیار انھوں نے خود قائم کیا ہے، ذاکر صاحب کو اپنے عہدوں کا معاوضہ ادا کرنا پڑا لیکن میرا اپنا خیال ہے کہ اس کے ادا کرنے میں ان کو گھٹن محسوس ہوتی رہی کیونکہ ان کے سامنے ہندوستانی قومیت کا جو تخیل تھا، وہ تقسیم ہند کے بعد باقی نہ رہا، مسلمان ان کو مسلمان دیکھنا چاہتے تھے، ہندو ان کو ہندوستانی حکومت کا ایک وفادار عہدیدار کے علاوہ کچھ اور دیکھنا پسند نہ کرتے تھے۔ کوئی ان کے حسن امتزاج کو پسندیدہ نگاہ سے دیکھنے کو تیار نہ تھا وہ سچے مسلمان اور پکے ہندوستانی بننے کا عزم رکھتے تھے، اس عزم کو اپنے اخلاص اور نیت کی پاکیزگی سے عمل میں لاکر ایک مثالی نمونہ پیش کرنے کی کوشش کرتے رہے، لیکن یہ راہ ہندوستان کی موجودہ فضا میں بڑی خاردار تھی، انھوں نے اسلامیت اور ہندوستانی قومیت کے حسن امتزاج کا جو خواب دیکھا تھا، ان کے اخلاص، محنت اور استقلال کے باوجود حقیقت میں تبدیل نہ ہوسکا، جامعہ کی زندگی میں وہ بے داغ ہیرو بن کر رہے، لیکن اپنے بڑے سے بڑے عہدوں کے زمانے میں رہیں ستم ہائے روزگار بن گئے، معلوم نہیں ان کو اپنے آخری زمانے میں کونسی زندگی قابل ترجیح نظر آتی تھی، جامعہ ملیہ کی عسرت بھری زندگی یا راشترپتی بھون کی عشرت بھری فضا۔
لیکن ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے بڑے سے بڑے عہدوں کے باوجود ہر زمانہ میں ذاکر صاحب ہی رہے، مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوئے تو کچھ عرصہ کے بعد ان پر نکتہ چینی ہونے لگی کہ وہ جامعہ ملیہ کے شیخ الجامعہ نہیں رہے، بلکہ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوگئے، ان پر ہندو نوازی کا بھی الزام آیا، ان پر یہ بھی اعتراض ہوا کہ طالبات کی بے پردگی اور آزادی ان ہی کے دور سے شروع ہوئی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلم یونیورسٹی پاکستان تحریک کا بڑا مرکز بنی ہوئی تھی، قائد اعظم محمد علی جناح اس کو اپنا Arsenal کہتے تھے، علی گڑھ کے اس رول کو حکومت اور اس کے ہم نوا فراموش کرنے کے لیے تیار نہ تھے، سیکولرزم کی آڑ میں اس کی اصلی حیثیت کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا تو اس وقت اس کو ذاکر صاحب اور صرف ذاکر صاحب ہی بچاسکتے تھے۔
انھوں نے حکومت کی تھوڑی سی مزاج داری کر کے علی گڑھ کو مجموعی حیثیت سے بچالیا، حکومت کی یہ مزاجداری کچھ لوگوں کو پسند نہ آئی، لیکن اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا، ذاکر صاحب کا یہ کارنامہ ہے کہ اس دار و گیر کے زمانے میں یونیورسٹی کے سالانہ بجٹ کو پندرہ لاکھ سے پچاس لاکھ تک پہنچا دیا، وہاں انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اور ہندوستان کے قرون وسطیٰ کی تاریخ پر تحقیق کا شعبہ اور ادب اردو کی تاریخ مرتب کرنے کی اسکیم ان ہی کی قائم کی ہوئی ہے، تار کے بنگلے کے پاس اس وقت ایک بہت ہی خوبصورت مسجد ہے، یہ ان ہی کی بنوائی ہوئی ہے، انھوں نے اس کا نقشہ ایک جرمن انجینئر کو بلاکر تیار کرایا، پھر خود کھڑے ہوکر اس کی تعمیر کی نگرانی کرتے تھے، یہ جب بن گئی تو اکثر اس میں آکر نماز باجماعت ادا کرتے تھے، یہاں ان کی خوش مذاقی کا اظہار چمن بندی اور طراحی میں بھی ہوا، میں یونیورسٹی کا طالب علم تھا، تو سوئمنگ باتھ کے پاس جو ایک لان ہے وہیں کچھ پھول نظر آتے تھے، اور ہر جگہ زمین اوسر پڑی تھی، ذاکر صاحب نے اپنی وائس چانسلری کے زمانہ میں یونیورسٹی کے احاطہ کو چمن زار بنادیا، وہ گلاب اور بوگن ولیا کے عاشق زار تھے، یونیورسٹی میں گلابوں کے جابجا چمن لگائے، جن میں نارنجی، ارعوانی، سیاہ، سبز اور فاختئی رنگ کے بھی گلاب دیکھنے میں آئے، ایس۔ ایس۔ ہال کے باہر کے کمروں کی دیواروں کو بوگن ولیا کی باڑھ سے لاد دیا، اور جب ان کے پھول کھلتے ہیں یونیورسٹی لالہ زار بن جاتی ہے، ذاکر صاحب کے بوگن ولیا کے اس شغف کو دیکھ کر یونیورسٹی کے مشہور پروفیسر جناب حبیب الرحمن صاحب (سابق پرنسپل ٹریننگ کالج) نے اس کی ایک قسم تیار کی جس کا نام ذاکریانا رکھا، اس میں گلابی اورنارنجی رنگوں کی حسین اور لطیف آمیزش تھی، ذاکر صاحب یونیورسٹی کو بھی اسلامیت کے گلابی اور ہندوستانیت کے نارنجی رنگوں کی حسین اور لطیف آمیزش کا ایک بوگن ولیا بنانا چاہتے تھے، لیکن ۱۹۴۷؁ء کے بعد مسموم فضا اس کے لیے سازگار نہ ہوسکی، اکثریت و اقلیت کے فکر و نظر کے تصادم سے وہ اپنے خواب کو حقیقت کا جامہ یہاں بھی نہ پہنا سکے، اور ان کی بہت سی تمنائیں اور آرزوئیں پروان چڑھنے سے پہلے ہی ان کی وائس چانسلری کی مدت ختم ہوگئی مگر وہ اور ان کے ساتھ بہت سے لوگ خوش تھے کہ یونیورسٹی انقلاب کی زد سے محفوظ رہ گئی، گو کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو ان کی بہت سی اصلاحات سے ناخوش بھی تھے۔
یونیورسٹی کی وائس چانسلری کے زمانہ میں ان سے میری ملاقات نہیں ہوئی، لیکن اس زمانہ میں دارالمصنفین کے لوگوں میں سے کوئی بھی علی گڑھ جاتا تو وہ اپنے دیرینہ اخلاق سے پیش آتے، ایک بار مولانا مسعود علی ندوی مرحوم اور شاہ معین الدین صاحب ندوی دونوں ساتھ وہاں پہنچے، تو ذاکر صاحب نے ان کی ایک پرتکلف دعوت کی، شاہ معین الدین صاحب انجمن ترقی اردو کے رکن ہونے کی حیثیت سے علی گڑھ برابر جاتے رہتے، ذاکر صاحب ان کو جلسہ گاہ میں لانے کے لیے اپنی موٹر بھیجتے اور ان کی قیام گاہ پر آکر دیر تک پر لطف باتیں بھی کرتے رہتے۔
۱۹۵۹؁ء میں جب وہ بہار کے گورنر تھے، تو میں پٹنہ جا کر گورنر ہاؤس میں ان سے ملا، اتنے طویل وقفہ کے بعد کی ملاقات کے بعد خیال تھا کہ وہ مجھے بھول چکے ہوں گے لیکن میرا تعلق دارالمصنفین سے بھی ہوچکا تھا، اس لیے ان سے ملا، تو ان میں جامعہ ملیہ ہی کے زمانہ کی خاکساری ملنساری، محبت اور شفقت پائی اور جب انھوں نے گفتگو شروع کی تو معلوم ہوتا تھا کہ قرول باغ کے مکان ہی میں بیٹھ کر باتیں کررہے ہیں، دارالمصنفین کے تمام لوگوں کی خیریت پوچھی، اس کی علمی سرگرمیوں کی تعریف کی، سید صاحبؒ کا وصال کراچی میں ہوچکا تھا، ان کاذکر دیر تک کرتے رہے، اور جب ان سے رخصت ہونے لگا تو گلے سے اس طرح لگایا جیسے اپنے کسی عزیز خاص کو رخصت کررہے ہیں۔
اس کے کچھ دنوں کے بعد انھوں نے حضرت سید صاحبؒ کے وطن دیسنہ کو دیکھنے کا پروگرام بنایا، جہاں ان کا بہت ہی مخلصانہ خیر مقدم کیا گیا، میں بھی اس موقع پر وہاں پہنچ گیا، جلسہ گاہ میں سپاسنامہ پڑھے جانے سے پہلے چار پانچ برس کے ایک ہریجن بچہ نے ان کو ہار پہنانا چاہا، اس کے ہاتھ ان کے گلے تک نہیں پہنچے تو انھوں نے اپنے اعلیٰ مرتبہ کا خیال کیے بغیر اس کو اپنی گود میں اٹھا لیا اور گردن جھکا کر ہار پہن لیا، اس امتیاز پر اس ہریجن بچہ کا خاندان ابھی تک فخر کرتا ہے، سپاسنامہ کے جواب میں انھوں نے سید صاحبؒ کا ذکر دیر تک کیا، اور آبدیدہ ہوکر کہا کہ جن چند بزرگوں نے ان کی ز ندگی کا رخ موڑا ہے اُن میں ایک سید صاحب بھی ہیں، اس گاؤں میں اردو کا ایک بڑا اچھا کتب خانہ تھا، تقریباً دس بارہ ہزار کتابیں رہی ہوں گی، ذاکر صاحب کو یہ کتب خانہ بہت پسند آیا، میں نے اس میں خود گاؤں کے چند مشہور مصنفوں مثلاً سید سلیمان ندوی، مولانا سید ابو ظفر ندوی اور سید نجیب اشرف ندوی وغیرہ کی تصانیف ان کو دکھائیں، تو فرمایا کہ جس گاؤں میں اتنے مشہور مصنف ہوئے ہیں اُن پر ہندوستان کو فخر ہونا چاہیے، جلسہ کی تقریب ختم ہوئی تو انھوں نے حضرت سید صاحب کا مکان دیکھنے کی خواہش ظاہر کی، میں نے عرض کیا کہ وہاں جانے میں کچھ ایسی گندی گلیاں ملیں گی جہاں پر سے آپ کا گذرنا مناسب نہیں، فوراً جواب دیا کہ میں ہر زمانہ میں گورنر نہیں رہا ہوں، ایسی ہی گلیوں میں کھیلا کودا اور پلا ہوں، اور پھر میں نے ان گلیوں میں ان کی رہبری کی۔
۱۹۴۷؁ء کے بعد یہ شاداب گاؤں ویران ہوتا چلاگیا، اس کے بیشتر باشندے پاکستان چلے گئے، کتب خانہ کا قیمتی ذخیرہ گاؤں ہی میں رہ گیا برابر ڈر لگا رہا کہ کہیں بلوے فساد میں یہ ضائع نہ ہوجائے، گاؤں کے سنجیدہ لوگ چاہتے تھے کہ اس کو پٹنہ منتقل کرکے خدا بخش خاں کی لائبریری کا ایک جز بنادیا جائے لیکن وہاں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اس کے ذریعہ گاؤں کی سیاست کا کھیل کھیلا کرتے تھے، وہ چاہتے تھے کہ یہ کہیں منتقل نہ ہونے پائے، اسی کشمکش میں مولوی سید عبدالحفیظ ندوی صاحب ناظم کتب خانہ اور جناب سید عبدالقیوم صاحب نائب ناظم نے چپکے سے ایک خط ذاکر صاحب کو لکھ دیا کہ آپ اس کو خدا بخش خاں لائبریری میں منتقل کرادیں، ذاکر صاحب کی اندرونی خواہش پوری ہوتی نظر آئی، انھوں نے فوراً پٹنہ ڈویژن کے کمشنر کو ایک خط لکھا جس کو پاتے ہی کمشنر ضلع کے کلکٹر اور دوسرے حکام دیسنہ پہنچ گئے، برسات کا زمانہ تھا، وہاں تک ٹرک جا نہیں سکتے تھے، لیکن انھوں نے سولہ ۱۶ بیل گاڑیوں پر کتابیں لدوائیں، اور پھر تھوڑی دور جاکر ٹرک پر رکھ کر پٹنہ لے اڑے، گاؤں کی دوسری پارٹی دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی، یہ کتب خانہ اب دیسنہ بلاک کے نام سے خدا بخش خاں لائبریری کا ایک حصہ ہے۔
مجھ کو اس کی خبر ملی تو خوش تھا کہ ایک قیمتی ذخیرہ ایک اچھی جگہ محفوظ ہوگیالیکن ہم لوگوں نے جس ذوق و شوق سے اس ذخیرہ کو جمع کیا تھا، اس کا خیال آیا تو محسوس ہوا کہ اس گاؤں کی اب روح نکل گئی اور اب یہ صرف بے روح کا ایک ڈھانچہ رہ گیا ہے میں نے ذاکر صاحب کو اپنے ملے جلے تاثرات کا اظہار کیا اور یہ شعر بھی لکھ بھیجا:
نشیمن پھونکنے والے ہماری زندگی یہ ہے
کبھی روئے کبھی سجدے کیے خاک نشیمن پر
ذاکر صاحب نے جو جواب لکھا اس میں گاؤں کی دوسری پارٹی کے ایک فرد کا خط بھی منسلک کردیا جو بڑی بدتمیزی سے لکھا گیا تھا، کوئی دوسرا گورنر ہوتا تو اس کو پڑھ کر معلوم نہیں غصہ میں کیا کیا کاروائیاں کرنے پر آمادہ ہوجاتا لیکن ذاکر صاحب کو شاید کبھی غصہ نہیں آیا، ان کے مخالفین اور ناقدین ان سے اشتعال انگیز باتیں بھی کرتے تو وہ ہنس کر ٹال دیتے، ان کی پوری زندگی پُرشور رہی لیکن وہ کبھی کسی سے نہیں الجھے، کسی کو کوئی سخت خط نہیں لکھا، کسی سے ترشی سے نہیں بولے، اخباروں میں متنازع فیہ بیانات شائع نہیں کیے، ان پر غلط اعتراضات ہوئے تو اس کی تردید بھی نہیں کی، ان کے بدباطن ناقد ان سے ملتے تو وہ پہلے سے بھی زیادہ لطف و کرم سے پیش آتے، اس لیے مشہور تھا کہ وہ اپنے دوستوں سے زیادہ اپنے خبیث مخالفوں کے ساتھ اچھے برتاؤ کرتے ہیں، کچھ بڑے بلکہ بہت بڑے لوگ ایسے بھی گذرے ہیں جو خبیثوں کو غلط فہمی میں مبتلا کر کے ان کی خباثت میں اضافہ کردینے ہی میں اصلی انتقام سمجھتے ہیں، ذاکر صاحب کے یہاں انتقام لینے کا تو کبھی کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوا ہے، لیکن وہ اپنے خبیث مخالفوں کو ہر قسم کی غلط فہمیوں میں مبتلا رکھنے ہی میں، اپنی فتح سمجھتے، میرے ہموطن نے ان کو جو بدتمیزانہ خط لکھا اس سے مجھ کو بڑی ندامت ہوئی، لیکن ذاکر صاحب نے اپنی طبیعت کی بلندی سے عفو و درگذر سے کام لیا۔
اس کے تھوڑے دنوں کے بعد ہی دہلی میں مولانا ابو الکلام آزاد کی یاد گار میں نئی دہلی میں جو آزاد بھون تعمیر ہوا تھا، اس کا افتتاح راجند پرشاد نے کیا، میں بھی اس میں انڈین کانسل آف کلچرل ریلیشنز کے ممبر کی حیثیت سے شریک تھا، اسی زمانہ میں دہلی میں گورنر کانفرنس ہورہی تھی، اس تقریب میں وہ سب بھی مدعو تھے، جو ایک جگہ بٹھائے گئے، ان کے بیچ میں ذاکر صاحب بیٹھے نظر آئے، مجھ کو بہت ہی بھلے معلوم ہوئے سب میں ہی سب سے زیادہ شکیل، وجیہہ، پرشکوہ اور باوقار نظر آئے، اور ان کے ساتھ جب وہ کھڑے ہوئے تو ایسا معلوم ہوا کہ یونانی سنگ تراشی کے آرٹ کا بہترین نمونہ نگاہوں کے سامنے ہے، جلسہ ختم ہوا تو وہ سب سے ایسے بے تکلفانہ انداز میں ملنے لگے جیسے وہ گورنر نہیں ہیں، مجھ پر نظر پڑی تو میری طرف بھی بڑھے اور بڑی شفقت سے فرمایا، کہئے کتب خانہ کے ہجر کا غم باقی ہے یا جاتا رہا اور گاؤں والے کا کیا خیال ہے پھر اس بدتمیزانہ خط کا بھی ذکر کیا، میں نے ان سے اپنی ندامت اور معذرت کا اظہار کیا اور عرض کیا کہ ہم تمام لوگ آپ کے ممنون ہیں کہ آپ نے ایک قیمتی ذخیرہ کو محفوظ کردیا، ایسا نہ ہوتا تو یہ علمی دولت ضائع ہوجاتی۔ (جون ۱۹۶۹ء)
(۲)
گورنری کے عہدہ سے سبکدوش ہوئے تو وہ ۱۹۶۲؁ء میں جمہوریہ ہند کے نائب صدر منتخب کرلیے گئے، ان کے اس اعزاز پر ہم دارالمصنفین والوں کو بڑی خوشی ہوئی، ان کی نائب صدارت کے زمانہ میں مجھ کو بارہا ملنے کا اتفاق ہوا، ہر موقع پر ان کی ملنساری، وضعداری، خاکساری اور محبت کو پہلے سے زیادہ پایا، وہ دارالمصنفین کی مجلس انتظامیہ کے رکن ۱۹۴۷؁ء سے تھے، اس حیثیت سے بھی دارالمصنفین کے تمام لوگوں سے محبت کرتے اور اس کے کاموں سے دلچسپی رکھتے، حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ کی رحلت کے بعد خود ہم لوگ مشکوک تھے کہ معلوم نہیں اس کا علمی و تحقیقی معیار باقی رہ بھی سکے گا کہ نہیں، ڈاکٹر صاحب سے جب ملتا، اور دارالمصنفین کا ذکر آتا تو اس کے معیار کے برقرار رہنے کی تعریف کرکے حوصلہ افزائی فرماتے، ایک بار میں نے ان کی خدمت میں ایک عریضہ ارسال کیا، جس کے شروع میں میرے قلم سے یہ نکل گیا تھا کہ ’’امید ہے آپ مجھ کو بھولے نہ ہوں گے‘‘۔ اس کا جواب اپنے ایک سرفراز نامہ مورخہ ۳؍ اگست ۱۹۶۳؁ء میں دیا، تو تحریر فرمایا کہ ’’یہ بدگمانی آپ کو کیوں ہے کہ میں آپ کو بھول گیا ہوں، حافظہ تو میرا کچھ اچھا نہیں رہا ہے، لیکن آپ کو بھلانا تو میرے حافظہ کے لیے بھی مشکل ہے‘‘۔ ان فقروں میں خود بلند مرتبہ کاتب کی شرافت طبع کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔
دارالمصنفین میں تاریخ ہند پر جو کام ہورہا تھا، اس کی پندرہ جلدیں ان کی خدمت میں مذکورہ بالا خط کے ساتھ بھیجی تھیں، ان کے متعلق لکھا ’’تاریخ ہند سے متعلق دارالمصنفین کی مطبوعات کا پورا سیٹ مجھے مل گیا ہے، کن لفظوں میں آپ کے اس کرم کا شکریہ ادا کروں، بعض کتابیں تو پہلے نظر سے گزر چکی ہیں، لیکن اس پورے سیٹ سے کام کی وسعت اور نوعیت کا وہ اندازہ ہوتا ہے جو مجھے پہلے نہ تھا، آپ نے ایک بڑا کام اٹھایا ہے، دعا ہے کہ آپ کے ہی ہاتھوں تکمیل کو پہنچے، آپ کی یکسوئی، مستعدی اور خلوص سے یقین ہے کہ اس دعا کو قبولیت نصیب ہوجائے گی‘‘۔
اسی سال میں نے تاریخ ہند کی دو نئی جلدیں اور ان کی خدمت میں بھیجیں تو اپنے ایک مکتوب مورخہ ۸؍ دسمبر ۱۹۶۳؁ء میں تحریر فرمایا ’’مطبوعات دارالمصنفین کی دو جلدیں ’’ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کے تمدنی جلوے‘‘ اور ’’ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کے تمدنی کارنامے‘‘ مجھے ملیں، جستہ جستہ دیکھ رہا ہوں، بہت خوب کام ہے، اس عہد کی تمدنی تاریخ پر بہت اچھی اور تفصیلی معلومات کا ذخیرہ ہے، یہ دونوں کتابیں آپ جس مستعدی اور یکسوئی سے اپنے استاد مرحوم کے تفویض کردہ کام کی تکمیل کررہے ہیں، اس پر بے ساختہ دل سے صدائے آفریں نکلتی ہے، مبارک ہو‘‘۔
ذاکر صاحب کی ایک بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ وہ کام کرنے والوں کو اپنی پیاری پیاری باتوں سے ان کی دبی ہوئی صلاحیتوں کو ابھارتے، بلکہ اکساکر ان کو اور بھی زیادہ مستعدی سے کام کرنے کی ہمت دلاتے، یہ تحریریں ان کی ان ہی خوبیوں کے نمونے ہیں، وہ اپنے خطوط میں مجھ کو محبی، محب گرامی، محب گرامی سید صباح الدین عبدالرحمن زاد لطفہ سے مخاطب کرتے، میں نے ان کو توجہ دلائی کہ میری حیثیت تو آپ کے ایک ادنی شاگرد کی ہے، محبی پڑھ کر شرمندہ ہوتا ہوں، تو اس کے جواب میں دو تین خطوط میں مکرم بندہ سے مخاطب فرمایا، اس سے اور بھی ندامت ہوئی، اور پھر محبی لکھنے لگے، یہ ان کی بلندی اخلاق اور خاکساری کی دلیل تھی، میں جب جب دہلی جاتا تو اعظم گڑھ سے روانہ ہوتے وقت خوش رہتا کہ دہلی میں ان سے مل کر ان کے لطف و کرم سے سیراب ہونے کا موقع ملے گا، اور ان ہی کی محبت بھری باتوں کی سوغات اعظم گڑھ لاتا۔
ایک بار جناب شاہ معین الدین صاحب ندوی بھی ہمسفر ہوئے، ہم دونوں ذاکر صاحب سے ملے، تو دیر تک بڑی بے تکلف مجلس رہی، ہم دونوں رخصت ہونے لگے تو ذاکر صاحب اپنی برساتی تک پہنچانے آئے، رات کا وقت تھا، شاہ صاحب نے رخصتی مصافحہ کیا تو ذاکر صاحب کچھ دیر تک روبرو کھڑے ہوکر ان کا ہاتھ پکڑے رہے، اوپر دونوں کے چہروں پر ایک بہت تیز بجلی کا بلب جل رہا تھا، ذاکر صاحب، شاہ صاحب کے وجیہہ چہرے کو دیکھ کر بولے ماشاء اﷲ چہرہ پر نور برس رہا ہے، شاہ صاحب نے برجستہ جواب دیا ’’جی نہیں، یہ جمال ہمنشیں کا عکس ہے‘‘، ذاکر صاحب بے ساختہ ہنس پڑے، میں نے فوراً ہی کہا ’’اگر اجازت ہو تو عرض کروں کہ کابل کے مشہور شاعر سرور خاں گویا ۱۹۳۶؁ء میں ہندوستان آئے تھے، وہ آپ سے بھی جامعہ ملیہ میں ملے تھے، پھر دہلی سے لکھنؤ ہوتے ہوئے اعظم گڑھ بھی پہنچے تھے، انھوں نے ایک گفتگو کے سلسلہ میں حضرت سید صاحب (یعنی مولانا سید سلیمان ندویؒ) سے کہا کہ ’’میں نے ہندوستان میں حسین ترین آدمی ڈاکٹر ذاکر حسین کو پایا‘‘۔ یہ سن کر ذاکر صاحب نے فرمایا ’’اخاہ! آپ نے یہ بات بہت دیر میں بتائی اگر پہلے بتائی ہوتی تو میں اس کو سند کے طور پر استعمال کرتا رہتا‘‘۔ؤ
اس پرلطف ملاقات کے بعد ہم دونوں ذاکر صاحب کی کوٹھی سے براہ راست ایک دعوت میں پہنچے جہاں ہم لوگوں کی خاطر کچھ اور معززین بھی بلالیے گئے تھے، ان میں کچھ سرکاری عہدیدار اور کچھ اخبار کے اڈیٹر بھی تھے، میری شامت آئی تو اثنائے گفتگو میں ذاکر صاحب کے یہاں جو دلچسپ باتیں ہوئی تھیں، ان کو دہرادیا، سامعین سن کر خاموش ہوگئے، انھوں نے ان باتوں سے نہ لطف لیا اور نہ ان پر تبصرہ کیا، بلکہ محض سن لیا، پندرہ منٹ کے وقفہ کے بعد ان لوگوں نے خود ذاکر صاحب کو موضوع بنایا، جن کو سن کر ہم دونوں کو اندازہ ہوا کہ یہ سب ان کے ناقدین میں سے ہیں، پھر ان کے منہ میں جو کچھ آیا سب کہہ گئے، ’’وہ ہندو نواز ہیں، ہندوؤں کو صرف خوش رکھنا چاہتے ہیں، بلوے فساد ہوتے رہتے ہیں مگر مسلمانوں کی حمایت میں کچھ نہیں کہتے‘‘ وغیرہ مجھ کو افسوس ہوا کہ میں نے اس مجمع میں ذاکر صاحب کا نام ہی کیوں آنے دیا۔
جنوری ۱۹۶۴؁ء میں انٹرنیشنل اورینٹل کانفرنس کا ۲۶ واں اجلاس دہلی میں منعقد ہوا، مجھ کو بھی ایک مقالہ اس کے اسلامک اسٹڈیز سیکشن میں پڑھنا تھا، دنیا بھر کے مستشرقین کا بڑا اچھا اجتماع تھا، میں نے دہلی جانے سے پہلے حسب معمول ذاکر صاحب کو ایک خط لکھ کر ان سے ملاقات کا وقت مانگا، اورینٹل کانفرنس کے شرکاء راشٹرپتی بھون میں صدر جمہوریہ ہند جناب رادھا کرشنن کی طرف سے ایٹ ہوم میں مدعو تھے، میں نے بھی اس میں شرکت کی، لیکن رادھا کرشنن اپنی علالت کی وجہ سے وہاں نہ پہنچ سکے، ان کی نیابت ذاکر صاحب نے کی، چائے کے بعد وہ سب سے بے تکلف ملے، مجھ سے بھی ملاقات ہوئی تو فرمایا ’’گھر پر آکر ضرور ملیے، جب رخصت ہونے لگے تو ایک اونچے تخت پر کھڑے ہوگئے، دونوں ہاتھ جوڑ کر رخصتانہ سلام کیا، اس وقت میرے پاس ایک کٹر اہل علم نیشنلسٹ مسلمان کھڑے تھے، جو آگے چل کر راجیہ سبھا کے رکن بھی ہوئے، انھوں نے ذاکر صاحب کو اس طرح ڈنڈوت کرتے دیکھا تو بولے ’’بہار سے تم لوگوں نے ذاکر صاحب کو یہی سوغات دی ہے، پہلے تو اس طرح سلام نہیں کرتے تھے، مولانا ابوالکلام آزاد نے تو کبھی بھی اس طرح سلام نہیں کیا، یہ محض ہندوؤں کو خوش کررہا ہے‘‘۔ میں اس وقت یہ سننے کو تیار نہ تھا، دل میں ایک چوٹ لگی، مگر ہنس کر ان کو تو یہ جواب دیا: غمزۂ خاص بہر گبرو مسلمان دارد
اور میں زبان حال سے کہہ رہا تھا: ذاکر کو برا کیوں کہو اچھا مرے آگے
اور جب راشٹرپتی بھون سے رخصت ہورہا تھا، تو ذہن پر یہ خیال چھایا ہوا تھا کہ لوگ اپنی محبت میں ان کو جامعہ ملیہ ہی کا مرد مومن ہرحال میں دیکھنا چاہتے ہیں، کاش ان سے کوئی بات ایسی سرزد نہ ہوتی کہ جس سے ان کی محبوبیت اور عظمت میں فرق آتا، میں پھر ان کی کوٹھی پر جاکر ملا، ان سے عرض کیا کہ اسی سال دارالمصنفین کی طلائی جوبلی منانے کا خیال ہے، آپ سے بڑھ کر اس جشن کے افتتاح کے لیے کوئی اور آدمی موزوں نہیں ہے، انھوں نے بڑی خوشی سے میری دعوت قبول فرمائی، ان سے یہی توقع تھی، کیونکہ ان کو دارالمصنفین سے بڑا لگاؤ رہا، پھر اس کو کامیاب بنانے کے لیے مختلف قسم کے مشورے دیر تک دیتے رہے، میں ان سے ایک بار پھر شاداں و فرحاں ہوکر رخصت ہوا۔
اکتوبر ۱۹۶۴؁ء میں صاحب شاہ معین الدین احمد ندوی اور میں دونوں بمبئی گئے ہوئے تھے، وہاں سے سیدھے دہلی پہنچے کہ ذاکر صاحب سے گفتگو کرکے جشن کی تاریخ مقرر کرلی جائے، وہ حسب معمول بہت ہی محبت سے ملے اور تاریخ ۲۰؍ ۲۱؍ فروری ۱۹۶۵؁ء مقرر کی، اسی اثناء میں آزاد بھون کے ایک ڈنر میں جناب عبدالکریم چھاگلا سے میری ملاقات ہوئی جو اس زمانہ میں وزیر تعلیم تھے، میں نے ان کو شبلی اکیڈمی کی جوبلی میں مدعو کیا، وہ مولانا شبلی اور شبلی اکیڈمی سے بالکل واقف نہ تھے، انگریزی میں پوچھنے لگے، مولانا شبلی کون تھے اور کیا یہ اکیڈمی آرٹ کی اکیڈمی ہے؟ میں نے اس کا ذکر ذاکر صاحب سے کیا تو ہنس کر فرمایا کہ کہہ دیا ہوتا کہ یہ رقص و سرود کی اکیڈمی ہے، چلتے وقت تین ہزار کی رقم بھی دارالمصنفین کو عطیہ کے طور پر دی، اس موقع پر اپنے پھولوں کا چمن بہت شوق سے دکھایا، جس میں گلابوں اور بوگن ولیا کی بڑی بہار تھی، ان کے چمن میں گلابوں کی چار سو قسمیں تھیں جو انھوں نے نہ صرف ہندوستان کے مختلف گوشوں بلکہ انگلستان، فرانس اور جرمنی سے بھی منگوائی تھیں، ان کے اس ذوق کو دیکھ کر گلاب کے ماہرین بھی ان کے پاس تحفے بھیجا کرتے تھے، صوبہ بہار میں دیو گھر میں گلابوں کی بہت سی قسمیں تیار ہوتی ہیں، وہاں اس کے ماہر نگراں مسٹر بھٹاچارجی تھے، وہ ذاکر صاحب سے بہار کی گورنری کے زمانے میں ملے، تو ان کے اس شوق کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اور انھوں نے گلاب کی ایک قسم کا نام ذاکر حسین ہی رکھ دیا، جواب اسی نام سے مشہور ہے، ذاکر صاحب نے اپنی کوٹھی میں ہم لوگوں کو ایک ایسا بوگن ولیا بھی دکھایا جس میں کئی رنگ کے پھول تھے، میں نے ان سے دریافت کیا کہ یہ کیسے ممکن ہوسکا تو انھوں نے فرمایا کہ آپ اس کی تحقیق نہ کیجئے، آپ اپنی علمی و تاریخی تحقیقات ہی میں رنگ برنگ کے پھول پیدا کرنے میں لگے رہیں۔
دارالمصنفین واپس آکر طلائی جوبلی کے جشن کی تیاری شروع کردی، جناب شاہ معین الدین اور میرے دونوں کے دل دھڑکتے رہے کہ اس دور افتادہ مقام میں مدعوئیں آنا مشکل ہے، اس لیے جشن کامیاب نہ ہوسکے گا، میری صحت اچھی نہیں رہتی ہے، لیکن میں نے جشن کو کامیاب بنانے میں جان کی بازی لگادی، یہاں اس شہر میں کوئی اچھا ہوٹل نہیں ہے، جہاں معزز بیرونی مہمانوں کے ٹھہرنے کا انتظام کیا جاسکتا تھا، نائب صدر جمہوریہ کے لیے بھی کوئی موزوں جگہ نہ تھی، لیکن کافی خرچ کرکے بہترے بہت خیمہ و خرگاہ شبلی کالج کے میدان میں نصب کئے گئے، پنڈال بھی خوبصورت تیار کیا گیا، ایک روز پہلے دارالمصنفین کو آراستہ و پیراستہ کرکے دلہن بنادیا گیا، جو طرح طرح کی روشنی سے جگمگانے لگا، پھر بھی ڈر تھا کہ مدعوئین نہ پہنچے تو خفت اور مالی زیر باری دونوں ہوگی، لیکن ذاکر صاحب کا اقبال روز افزوں عروج پر تھا، اس لیے ان کی آمدمیں دارالمصنفین پر بھی اقبال طاری ہوا، بیگم صاحبہ بھوپال کا تار پہنچا کہ وہ بھی تشریف لائیں گی، اترپردیش کی چیف منسٹر مسز سچتا کرپلانی کا ٹیلیفون آیا کہ وہ بھی آرہی ہیں، جناب ہمایوں کبیر وزیر حکومت ہند، سفیر شام، سفیر سعودی عرب الشیخ احمد الشبیلی، جناب افضل اقبال صاحب ڈپٹی ہائی کمشنر پاکستان کی طرف سے بھی اطلاع ملی کہ وہ بھی شرکت کریں گے، پھر جناب علی ظہیر صاحب وزیر قانون و انصاف حکومت اترپردیش، جناب مظفر حسن وزیر حکومت اترپردیش، پروفیسر محمد مجیب وائس چانسلر جامعہ ملیہ، ڈاکٹر عابد حسین دہلی، کرنل بشیر حسین زیدی سابق وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی، مولانا طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند، ڈاکٹر یوسف حسین پرو وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی، پروفیسر سعید احمد اکبر آبادی ناظم شعبہ دینیات مسلم یونیورسٹی، پروفیسر خلیق احمد نظامی مسلم یونیورسٹی، مولانا ابواللیث امیر جماعت اسلامی، مفتی عتیق الرحمن دہلی، مولانا اسعد میاں ناظم جمعیۃ العلمائے ہند، مولانا منت اﷲ امیر شریعت بہار، مولانا شاہ عون احمد صاحب خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف، مولانا قاضی محمد سجاد صاحب صدر مدرس مدرسہ فتح پوری دہلی، جناب مالک رام دہلی، جناب حیات اﷲ انصاری صاحب اڈیٹر قومی آواز لکھنو، جناب رضا انصاری صاحب فرنگی محل لکھنو، پروفیسر حسن عسکری صاحب پٹنہ یونیورسٹی، مولانا عرشی صاحب رامپوری، ڈاکٹر امیر حسین عابدی صاحب دہلی یونیورسٹی، جگن ناتھ آزاد دہلی، پروفیسر رام کمار چوبے بنارس، ضیاء الحسن فاروقی صاحب دہلی، جناب روش صدیقی صاحب، جناب عدیل عباسی صاحب بستی، جناب نیاز احمد صدیقی سابق پرنسپل محمد حسین انٹر کالج جونپور، محمد یٰسین خان صاحب جونپور، پروفیسر سید نجیب اشرف ندوی بمبئی، مولوی ریاست علی ندوی پٹنہ، پروفیسر عبدالقوی دیسنوی بھوپال، وغیرہ شریک ہوکر رونق مجلس ہوئے، دارالمصنفین کی مجلس انتظامیہ کے بیرونی اراکین میں ڈاکٹر سید محمود، مولانا عبدالماجد دریابادی، مولانا ابوالحسن علی ندوی، مولانا حافظ محمد عمران خاں صاحب ندوی، ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی، سید شہاب الدین دیسنوی بمبئی، ظہورالحسن صاحب آئی اے ایس سابق سکریٹری یوپی حکومت، مولانا اویس نگرامی ندوی اور جناب سعید انصاری جامعہ ملیہ دہلی بھی آگئے تھے، ۲۱؍ فروری کو دارالمصنفین اس کے کارکنوں کی آرزوؤں کی جنت بن گئی، اس میں معزز مہمان فرشتوں کی طرح چلتے پھرتے نظر آئے، جب ذاکر صاحب دارالمصنفین کے احاطہ میں داخل ہوئے تو ایسا معلوم ہوا کہ خداوند تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کو ساتھ لے کر جلوہ افروز ہوئے ہیں، ان کا شاندار استقبال کیا گیا، شبلی کالج کے ان سی سی نے گارڈ آف آنر دیا، دارالمصنفین کے احاطہ میں سب ان کے لیے فرش راہ ہوگئے، میں اس منظر کو دیکھ کر بے قابو ہوگیا اور اس تقریب کی شوکت سے میری آنکھوں سے مسرت کے آنسو بہنے لگے، ذاکر صاحب نے تھپکی دی اور بولے ’’آپ نے تو ایک شہر آباد کردیا ہے، اتنی تیاری کی ضرورت نہیں تھی، جوبلی منانے کا مقصد روپے کمانا بھی ہوتا ہے، کہیں مالی خسارہ نہ ہو‘‘، پھر حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا ’’خسارہ میں نہیں رہیئے گا، کچھ تحفے لایا ہوں‘‘ میں نے عرض کیا کہ ’’آپ کا آجانا ہی سب سے بڑی دولت ہے‘‘ بولے ’’میری فکر نہ کیجئے، میں دارالمصنفین کو اپنا گھر سمجھ کر آیا ہوں، مسز سچتا کرپلانی اور بیگم صاحبہ بھوپال کی ہر ممکن خاطر تواضع کیجئے‘‘۔
لنچ کے بعد ذاکر صاحب نے تھوڑی دیر تک آرام کیا، پھر تین بجے سہہ پہر کو جشن کا جلسہ ڈاکٹر سید محمود صاحب کی صدارت میں شروع ہوا، ذاکر صاحب جب ڈائس پر آکر بیٹھے تو مجھ کو وہ بہت ہی دل آویز اور پرشکوہ معلوم ہوئے، خیال ہوا کہ یونان میں افلاطون شاید اسی طرح لوگوں کی نگاہوں میں دکھائی دیتا ہو، جناب شاہ معین الدین صاحب نے جب ان کی خدمت میں سپاسنامہ پڑھا تو پڑھتے وقت ایسا معلوم ہورہا تھا کہ وہ اپنے دل و جگر کے ٹکڑے بھی ان کی نذر کررہے ہیں، انھوں نے سپاسنامہ کی ابتدا اس طرح کی:
جناب والا!
’’آپ نے نہ صرف ہندوستان بلکہ یورپ کے بڑے بڑے تعلیمی و علمی ادارے دیکھے ہیں، خود ان کے مہمان ہوئے ہیں اور ان کے فضلاء کو اپنا مہمان بنایا ہے، بڑے بڑے سلاطین اور حکومتوں کو آپ کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا ہے، آپ کی آنکھوں نے شاہانہ استقبال و میزبانی کے پرشکوہ مظاہر دیکھے ہیں، ان میں سے کوئی چیز بھی ہم بوریا نشینوں کے پاس نہیں ہے، لیکن آپ کی بڑائی ان ظواہر سے بے نیاز ہے، اور آپ کا دل بھی ان سے سیر ہے، ہمارے پاس صرف اخلاص کا ہدیہ، سادگی کی پونجی ہے جس کے آپ خود بڑے قدرشناس ہیں، اس لیے ہم کو یقین ہے کہ ہمارا ہدیہ اخلاص آپ کی نگاہ میں شان و شکوہ کے مظاہرے سے زیادہ قابل قبول ہوگا، ہمارے لیے آپ کی حیثیت تنہا ہندوستان کے وائس پریسیڈنٹ ہی کی نہیں، بلکہ ایک مفکر، ایک ماہر تعلیم اور معمار قوم کی بھی ہے، آپ نے اس زمانہ میں نوجوانوں کو ملک و ملت کے لیے ایثار و قربانی کا عملی سبق دیا، جب ان کا منتہائے نظر سرکاری عہدے اور دنیادی دولت و وجاہت تھی، آپ نے ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا، اور فقر و درویشی کی زندگی بسر کرکے قومی تعلیم کا ایک عظیم الشان ادارہ قائم کردیا جس نے انگریزوں کی غلامی کے دور میں ملک کے نوجوانوں کو درد دیا اور ان کو قوم و ملت کی راہ پر لگادیا، آپ نے مسلمانوں کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے مسلم یونیورسٹی کو بڑے نازک دور میں تباہی سے بچا کر دوبارہ زندگی بخشی، اب آپ کی ذاتی عظمت دنیاوی اعزاز سے بے نیاز ہے، آپ کے جمال و کمال کو ظاہری زینت و آرائش کی ضرورت نہیں ہے،
؂ یہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبارا
لیکن اﷲ تعالیٰ ایثار و قربانی کا صلہ ضرور دیتا ہے، اس لیے اب آپ کو ان دنیاوی انعامات سے بھی نوازا جن کی ایک بڑے سے بڑا ہندوستانی تمنا کرسکتا ہے، اگرچہ جوہر تلوار کے لیے طلائی قبضہ کی ضرورت نہیں لیکن طلائی قبضہ اس پر زیب دیتا ہے، اسی طرح آپ کی عظمت پر آپ کے جلیل القدر عہدے کا طرہ بھی زیب دیتا ہے‘‘۔
’’دارالمصنفین سے جناب کے جو گوناگوں تعلقات ہیں، ان کے اظہار کی ضرورت نہیں، ہم دونوں ایک ہی منزل کے مسافر تھے، گو راہیں جدا جدا تھیں، اس وحدت مذاق نے جو رشتہ ہمارے درمیان پیدا کردیا تھا، وہ بحمداﷲ ہر زمانہ میں قائم رہا، دارالمصنفین کی مجلس منتظمہ کو آج بھی آپ کی کیفیت کا شرف حاصل ہے، اس رشتہ کی کشش تھی جو آپ کو اعظم گڑھ کھینچ لائی، ورنہ اس ویرانہ میں ہندوستان کے نائب صدر جمہوریہ کا دورہ کون تصور کرسکتا تھا،
وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں‘‘
یہ سپاسنامہ رسمی طور پر نہیں بلکہ بہت ہی عقیدت و اخلاص سے پیش کیا گیا تھا، اس لیے ذاکر صاحب نے لطف و لذت کے ساتھ سنا اور خود بھی بہت محبت و اخلاص سے اپنا خطبہ پڑھ کر سنایا۔ جس میں انھوں نے فرمایا:
جناب صدر، بزرگو اور دوستو!
’’زبان اور اس کا ذخیرہ الفاظ یوں بھی قلب انسانی کی صحیح اور مکمل ترجمانی سے قاصر تھا، اور پھر زبان کے سرمایہ داروں نے اپنا سارا خزانہ سطحی جذبات کی نمود و نمائش میں اس بے دردی سے لٹا دیا کہ گہرے محسوسات کے لیے اچھوتے الفاظ باقی نہیں رہے، مجبوراً ہمیں گہرے اور نازک سے نازک واردات قلب کو بیان کرنے کے لیے ان ہی گھسے پٹے الفاظ سے کام لینا پڑتا ہے، جن میں اب بظاہر نہ آب و رنگ رہا ہے نہ معنویت، اس لیے اگر میں یہ کہوں کہ دارالمصنفین کے جشن طلائی میں شرکت کرنا میرے لیے فخر و مسرت کا باعث ہے، تو آپ قول کی فرسودگی اور بے رنگی پر نہ جائیے، بلکہ اس کی تہ میں قائل کے جوش و خلوص کی تازگی و تب و تاب کو دیکھئے، اور محسوس کیجئے، جی ہاں، مجھے آج فخر ہے اس پر کہ پچھلی نصف صدی میں ہمارے ملک میں سیاست کی تند و تیز آندھیوں کے درمیان میں تحقیق و تخلیق کے چراغ جلتے رہے، اور علم و ادب کی جوت جگاتے رہے اور مسرت ہے اس کی کہ ان میں سے ایک سراج منیر دارالمصنفین اعظم گڑھ ہے جس کے ساتھ مجھے کئی رشتوں سے وابستہ ہونے کا شرف حاصل ہے، اس لیے کہ یہ یادگار ہے، میرے محترم بزرگ مولانا شبلی نعمانی اور ان کے شاگردوں رشید مولانا سید سلیمان ندوی اور مولوی عبدالسلام ندوی کی، اور کارنامہ ہے میرے محترم اور شفیق بھائی مولوی مسعود علی ندوی اور عزیز دوست شاہ معین الدین احمد ندوی اور مولوی سید صباح الدین عبدالرحمن اور ان کے رفقائے کار کا، اور اس لیے کہ اس سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کا جس کی خدمت میں میں نے اپنی عمر کا زیادہ حصہ گزارا ہے، ہم خیالی اور ہم مشربی کا تعلق رہا ہے، ان ذاتی تعلقات سے قطع نظر ایک مسلمان اور ہندوستانی کی حیثیت سے مجھے یہ ادارہ جو قوم کی بیش بہا دولت ہے، دل سے عزیز ہے، اور اس کے جشن میں شرکت کرکے سچی خوشی محسوس ہوتی ہے‘‘۔
ذاکر صاحب بڑے اچھے خطیب بھی تھے، ان کا شمار ملک کے بہترین خطیبوں میں ہوتا ہے، اپنی خطابت میں فوج در فوج الفاظ یا جملوں کا سہارا نہیں لیتے، بلکہ جو کچھ کہتے ایسے سادہ، مخلصانہ مگر دل آویز انداز میں کہتے کہ معلوم ہوتا کہ اس سے بہتر طریقہ پر وہ چیز ادا نہیں کی جاسکتی ہے، ان کی تحریروں میں بھی اسی سادگی کی دل آویزی ہوتی، لیکن وہ اپنی اثر پذیری کی وجہ سے ایک خاص اسلوب بن جاتا، جو انشا پردازی کے ٹکڑے بھی بن جاتے، ان کا مذکورہ بالا خط ان کی اسی سادہ خطابت اور انشاء پردازی کا ایک نمونہ ہے، وہ دارالمصنفین کے جشن جوبلی میں اپنی شرکت کی خوشی کا اظہار کرچکے تو نہ صرف اپنے سامعین بلکہ پورے ہندوستان کو دارالمصنفین کی طرف ہمدردانہ توجہ کرنے کی ضرورت پر زور یہ کہہ کردیا:
’’آج اس مبارک موقع پر جب دارالمصنفین اعظم گڑھ اپنی زندگی کی پہلی نصف صدی پوری کرکے نصف دوم میں قدم رکھ رہا ہے، سب علم دوست اور محب وطن ہندوستانیوں خصوصاً مسلمانوں کا فرض ہے اور ہم آپ جو ملک کے مختلف حصوں سے آکر یہاں جمع ہوئے ہیں، اسے ساری قوم کی طرف سے فرض کفایہ کے طور پر ادا کررہے ہیں کہ دارالمصنفین اور اس کے موسس روحانی مولانا شبلی نعمانی کی گرانقدر علمی اور ادبی خدمات کا جس سے انھوں نے بلاواسطہ ہندوستان کے اور بالواسطہ ساری دنیا کے تہذیبی سرمایہ میں قابل قدر اضافہ کیا اور ان کی ان ملی خدمات کا جن سے انھوں نے حب وطن، آزادی اور قومی یکجہتی کی تحریکوں کو سہارا دیا، کم سے کم ایک سرسری جائزہ لیں، ان کا صمیم قلب سے شکریہ ادا کریں اور سوچیں کہ اس چشمہ فیض کو جاری رکھنے اور اس کے دامن کو وسیع کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہئے‘‘۔
اس کے بعد انھوں نے دارالمصنفین کے کارناموں پر مختصر لیکن پرمغز طریقہ پر مداحانہ تبصرہ کیا:
’’علامہ شبلی اور دارلمصنفین کا علمی اور ادبی عطیہ زیادہ تر اسلامی تاریخ و سیر، تاریخ ہند اور تاریخ و تنقید اور ادب کے میدانوں سے تعلق رکھتا ہے، اور اس کی خصوصیات میں نفس مضمون کی معروضیت لہجے کے اعتدال، زبان و بیان کی سلاست کے علاوہ اور ان سے بھی زیادہ نمایاں قلب و نظر کی وسعت ہے، اس مکتب فکر کے مصنفوں نے جہاں کہیں اسلامی تہذیب کے تعلقات یونانی، ایرانی، ہندی تہذیب سے دکھائے ہیں وہاں فصل کے بجائے وصل کے پہلو کو ابھارا ہے، اور ’’قصہ اسکندر دارا‘‘ سنانے پر ’’حکایت مہرو وفا بیان‘‘ کرنے کو ترجیح دی ہے‘‘۔
اس خطبہ کے لکھنے تک ہندوستان کے قرون وسطی پر دارالمصنفین سے سولہ جلدیں نکل چکی تھیں جو ذاکر صاحب کی نظروں سے گذری تھیں، ان پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’ہندوستان میں تاریخ نگاری کے اس تاریک دور میں جب ہمارے اکثر مورخ اپنے مجازی استاد ازل کے کہے ہوئے کو طوطی صفت دہرادیا کرتے تھے اور قرون وسطیٰ کے ہندوستان کو ایک بحرطوفان خیز بناکر پیش کرتے تھے، جس میں اسلامی تہذیب اور ہندو تہذیب کے دھارے ایک دوسرے سے الجھتے اور ٹکراتے رہتے تھے، دارالمصنفین کے مورخوں نے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ ان دونوں کا ملنا تصادم نہیں بلکہ امتزاج سنگھرش نہیں بلکہ سنگم تھا، اور کیوں نہ ہو عالمی تاریخ کی تہ کو پہنچنے تو ہر تہذیب ایک عظیم الشان منصوبہ کی تکمیل میں اپنا اپنا حصہ پورا کرتی دکھائی دیتی ہے‘‘۔
ذاکر صاحب کا خاص موضوع تو معاشیات تھا، لیکن مختلف علوم و فنون کا مطالعہ بھی برابر کرتے رہے، جس سے ان کی فکر و نظر میں ہمہ گیریت تھی، اس لیے وہ ہر موضوع پر گہری نظر ڈال کر اس میں خاص آب و تاب پیدا کردیتے تھے، چنانچہ اپنے اس خطبہ میں بھی یہ کہہ کر فاضلانہ اور مفکرانہ رنگ پیدا کردیا:
’’لین دین، تاثیر و تاثر کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے، جو ایک صالح انسانیت کی تعمیر کے لیے برابر جاری ہے، علوم و فنون کا خزانہ ہندوستان سے بغداد پہنچا، وہاں عربوں نے اس پر اپنی زبان اور تہذیب کا رنگ چڑھایا، چند صدیوں بعد یہی علوم و فنون ترکوں کے ذریعہ پھر ہندوستان واپس آئے اور اس ملک کی تہذیبی زندگی کو مالا مال کیا، اور ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ ایک وسیع تر تاریخ کا جز بن گئی، اس کا احساس وضاحت کے ساتھ امیر خسرو کے یہاں خصوصاً ان کی مثنوی نہ سپہر میں ملتا ہے صرف یہی نہیں کہ حضرت امیر خسرو نے ہندوستانی اشیاء سے متعلق اپنی گہری پسند کا اظہار فرمایا ہے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ سارے ہندوستانی تاریخی ورثے کو اپنا ورثہ سمجھتے ہیں، اس پرانے عہد کی تمام زندگی میں یہ احساس موجود تھا، خسرو نے شاعر کی حیثیت سے اس احساس کو آب و تاب کے ساتھ پیش کرکے جماعتی زندگی اور احساس کی سچی ترجمانی کا حق ادا کیا ہے‘‘۔
ذاکر صاحب اپنی قابلیت اور ذہانت سے اپنی تحریروں کو موم کے سانچے کی طرح اپنی خواہش کے مطابق موڑ کر ان میں پیچ و خم پیدا کردیتے تھے، جس میں بڑی نکتہ رسی بھی ہوتی اور گہری بصیرت بھی، امیر خسرو کے احساس وطنیت کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
’’اسلام کا نقطۂ نظر چونکہ عالمی نقطۂ نظر ہے، اس کا خطاب چونکہ ساری نوعِ انسانی سے ہے، اس لیے اس کی تعلیمات سے متاثر مورخوں سے امید کی جاسکتی ہے کہ تاریخ نگاری کو تنگ تعصبات کے بھلانے کا ذریعہ نہ بتائیں گے بلکہ انسان کو اس تقدیر سے آگاہ کرنے میں مدد دیں گے، شاید امام شافعی کا قول ہے کہ اگر صرف سورہ ’’العصر‘‘ نازل کردی جاتی تو بندوں کو ہدایت کے لیے کافی تھا، اس قول میں بڑی بصیرت پوشیدہ دکھائی دیتی ہے، اس لیے کہ اس مختصر سی سورت کے چند بولوں میں تاریخ عالم کی نہایت بلیغ توجہیہ و تعبیر موجود ہے، ذکر وہی عموم کے ساتھ انسان کا ہے اور زمانہ کی قسم سے منشا یہ ظاہر کرنا معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ انسان کے لیے جبری لزوم کی زنجیریں نہیں بناتا بلکہ عمل کے لیے شمارا مکانوں دروازہ کھول دیتا ہے، یہ تاریخ کی اخلاقی توجہیہ ہے، اس سے تاریخ انسانی اعمال کے نتائج سے عبارت ہوجاتی ہے، جو انسانی یقین اور ارادہ سے ظہور میں آتے ہیں، اور کیسا بلیغ اشارہ ہے کہ اگر فوری طور پر نیک عمل کرنے والی جماعت گھاٹے میں نظر آئے تو صبر کے ساتھ انتظار کرے، زمانہ اس گھاٹے اور نامرادی کو کامیابی میں بدل دے گا، بے یقینی اور بے عملی کے لیے تو گھاٹا ہی گھاٹا ہے‘‘۔
ذاکر صاحب نے سورہ العصر کی دل آویز تشریح کرکے جس پوشیدہ مذہبی، تاریخ اور انسانی بصیرت کی طرف اشارہ کیا ہے، وہ نہ صرف ہندوستان کے مورخوں بلکہ انسانی معرفت کے اقدار کے قدردانوں کے لیے ایک مستقل پیام ہے۔
ذاکر صاحب نے اپنے خطبہ کا رخ موڑ کر پھر دارالمصنفین کی گوناگوں خدمات کا ذکر چھیڑدیا اور فرمایا:
’’دارالمصنفین نے تاریخی تحقیق پر خاص توجہ کرکے اسلامی اور ہندوستانی تہذیبی زندگی اور ان کی معرفت انسانی اقدار کی بڑی خدمت انجام دی ہے، ملکی سیاست کے میدان سے دارالمصنفین کو بہ حیثیت ایک علمی اور ادبی ادارے کے کوئی تعلق نہیں رہا، لیکن شخصی حیثیت سے اس کے مراد و مرشد مولانا شبلی سچے اور پکے قوم پرور مسلمان تھے، اور اس کے کارساز کارپرداز مولوی مسعود علی ندوی بھی ان ہی کے نقش قدم پر چلتے رہے اور دونوں نے اتحاد اور آزادی کا ساتھ دیا، اور تفریق اور غلامی کے رجحانات کی شدید مخالفت کی، اس لیے دارالمصنفین کے گوشہ نشین کارکنوں میں قومی آزادی اور قومی یکجہتی کے جذبات روح رواں کی طرح سماگئے، اور ان کی تائید، ہمدردی، اتحاد و آزادی کے سب علمبرداروں خصوصاً قوم پرور مسلمانوں کے لیے قوت اور فیضان کے سرچشمے کا کام دیتی رہی‘‘۔
اور پھر بڑی دل سوزی سے اپنی اور ملک کی طرف سے دارالمصنفین کے لیے دعائیں کرتے ہوئے ان سطروں میں خراج تحسین پیش کیا، جس میں دارالمصنفین کو ایک سربلند سایہ دار بردمند درخت اور شجر طیبہ کہا:
’’اگر میں یہ سمجھوں تو بے جا نہ ہوگا کہ علم و ادب کے قدرشناس اور ملک و قوم کے خیرخواہ وہ بھی جو آج یہاں موجود اور اس مجلس میں شریک ہیں اور وہ بھی جو اپنی مجبوریوں کی بنا پر شرکت سے محروم رہے، میری طرح یہ احساس رکھتے ہیں کہ دارالمصنفین اعظم گڑھ کا ہندوستان کی تہذیب و تاریخ تدوین اور آزادی و یکجہتی کی تحریک میں قابل قدر اور قابل ذکر حصہ ہے، اور میرے ہم زبان ہوکر اس کے گذشتہ اور موجودہ اراکین کا ان کی بیش بہا خدمات کے لیے پرجوش شکریہ اداد کرتے ہیں، اور انھیں پرخلوص مبارکباد دیتے ہیں کہ وہ پودا جو انھوں نے اب سے پچاس برس پہلے لگا کر اسے اپنے خون سے سینچا تھا۔ آج ایک سربلند اور بردمند درخت بن گیا ہے، اور خدا سے دعا کرتے ہیں کہ اس شجرطیبہ کی جڑیں اور زیادہ مضبوط ہوں اور اس کی شاخیں اور پھلیں، اس کے پھولوں کی شادابی اور نکہت اور اس کے پھولوں کے رس اور لذت میں اور اضافہ ہو‘‘۔
ذاکر صاحب کو یہ معلوم تھا کہ اس سایہ دار بردمند درخت اور شجرطیبہ کے سینچنے میں اس کے باغبان کٹھن منزلوں سے اب تک گزر رہے ہیں اور وہ ابھی تک اسی قناعت و توکل کی زندگی بسر کررہے ہیں جو خود انھوں نے جامعہ ملیہ میں گزاری تھی، اسی لیے اس کی طرف بہت ہی حسین پیرایۂ بیان میں قوم و ملک کی توجہ دلائی:
’’مگر دارالمصنفین کے قدردانوں، معترفوں اور شکر گزاروں کو اس حقیقت کی طرف توجہ دلانا بہت ضروری ہے کہ قدردانی، تعریف اور شکر گزاری اپنی جگہ بہت اچھی چیزیں ہیں لیکن ان سے نہ انجن کی بھٹی گرم ہوتی ہے، نہ بھاپ بنتی ہے، نہ گاڑی چلتی ہے، اس عالم مادی میں ذہنی اور روحانی کاموں کے لیے بھی مادی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے، اگر ہم آپ واقعی دارالمصنفین کے قیام کو علم و ادب اور ملک و قوم کے لیے مفید اور اہم سمجھتے ہیں تو ہمارا فرض ہے اور یہ فرض کفایہ نہیں بلکہ فرض ذاتی ہے کہ قدمے اور سخنے سے آگے بڑھ کر دامے درمے اس کی مدد دل کھول کر کریں، مجھے امید ہے کہ ارباب علم و دانش زیادہ سے زیادہ تعداد میں اس کی مطبوعات کے مستقل خریدار بنیں گے اور ارباب حکومت و اقتدار کو اس پر آمادہ کریں گے، مگر انہیں مدرسوں کے کتب خانوں اور عام کتب خانوں کے لیے خریدیں، یہ کوئی احسان نہیں ہوگا بلکہ ایک اچھا، سودا جس میں چاندی کے چند ٹکوں بلکہ کاغذ کے چند پرزوں کے بدلے علم و حکمت کی دولت ہاتھ آتی ہے، جو بے بہا اور لازوال ہے‘‘۔
ذاکر صاحب نے دارالمصنفین کے حقوق کی وکالت کرنے کے بعد مخلص بزرگ، ایک وطن پرست، ایک سیاسی رہنما کی حیثیت سے اسی ادارہ کو اس کے فرائض سے بھی آگاہ کیا، ناظرین کو حسب ذیل اقتباسات میں فلسفیانہ فکر، مورخانہ نظر، ثقافتی بصیرت اور ایک مخلص رہنما کے دل کی دھڑکن کے ساتھ ادب و انشاء کی چاشنی اور لذت بھی محسوس ہوگی۔
’’آخر میں چند الفاظ دارالمصنفین کے اراکین اور رفیقوں سے کہنا چاہتا ہوں، جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے آپ کی تصنیف و تالیف کا ایک خاص میدان ہندوستان کے قرون وسطیٰ کی تاریخ اور اس کی ایک امتیازی خصوصیت قلب و نظر کی وسعت ہے، یعنی مختلف تہذیبوں اور معاشروں کی مثبت اور معروف اقدار کا اعتراف کرنا، ان کے اختلاف میں اشتراک اور اتحاد کے نقطے تلاش کرکے انھیں نمایاں کرنا آپ کی یہ خصوصیت ہمارے دور محکومی میں جب تاریخ سیاسی مصلحتوں کے ماتحت مسخ کی جارہی تھی بہت کام آئی لیکن آپ یہ نہ سمجھیے کہ اس دور آزادی میں تاریخ کو تفریقی سیاست کا آلہ کار بنانا ختم ہوچکا ہے، آج یہی رجحان باقی ہے اور خاصا قوی ہے، آج بھی دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہندومسلم تہذیبوں میں کبھی میل نہیں ہوا، ہمیشہ ٹکر ہوتی رہی اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی، جب تک ایک تہذیب دوسری تہذیب میں جذب نہ ہوجائے، اس لیے آپ کو اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہئے کہ آپ کی سعی ابھی ناتمام، آپ کا کام ابھی ادھورا ہے، آپ کو اور زیادہ محنت، ہمت اور استقلال کے ساتھ یہ جدوجہد کرنی ہے کہ تاریخ نگاری کو اس کجروی سے محفوظ رکھنے کی اور یہ واضح کرنے کی کہ گو قرون وسطیٰ میں ہندومسلم تہذیبوں کے اپنے اپنے دائرے تھے، لیکن ان میں ایک مشترک قطعہ بھی تھا، جو اس عہد میں قومی تہذیب کی حیثیت رکھتا تھا، یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے آپ زبردستی تاویل سے کام لیں، یہ نہ تو دیانتدار مورخوں کی حیثیت سے آپ کے لیے جائز ہے اور نہ آپ کو اس کی ضرورت ہے، آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ اس کے ثبوت تاریخ کے صفحوں پر بکھرے ہوئے ہیں، صرف انھیں جمع کرنے اور ترتیب دینے کی ضرورت ہے، میرا یہ پختہ خیال ہے جسے تاریخی نظر رکھنے کی جرأت نہیں کہہ سکتا، لیکن ذہنی عقیدہ کہہ سکتا ہوں کہ صرف ہندوستان میں ہندومسلم تہذیبوں ہی میں نہیں بلکہ دنیا میں کہیں بھی دو تہذیبوں میں ٹکراؤ نہیں ہوا، تہذیبیں ٹکرایا نہیں کرتیں، بلکہ وحشتیں ٹکرایا کرتی ہیں، انسان کا وجود اس دنیا میں اربوں سال سے ہے، اس میں سے تہذیب کے چند ہزار سال نکال دیجئے تو باقی سارا زمانہ وحشت کا زمانہ تھا، اس لیے آج ان افراد اور قوموں میں جنھیں ہم تہذیب کہتے ہیں، تہذیب کی ایک ہلکی سی پرت کے نیچے نہ جانیں کتنی پرتیں وحشت کی دبی ہوئی ہیں جو موقع ملنے پر ابھر آتی ہیں دو قوموں کی تہذیبیں جب تک اپنی اپنی وحشتوں کو دبائے ہوئے ہیں، آپس میں لڑائی نہیں، بلکہ گلے ملتی ہیں، اور تہذیبی قدروں کا لین دین کرتی ہیں، مگر جب ان کی وحشتیں ان کی تہذیبوں پر غالب آجاتی ہیں تو ایک تہذیب دوسری تہذیب سے بھڑجاتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کو نوچنے، کاٹنے اور بھبھوڑنے لگتی ہیں‘‘۔
ان کے خطبہ کے آخری ٹکڑے میں بڑی مخلصانہ اور ہمدردانہ اپیل تھی، جو نہ صرف دارالمصنفین کے لیے بلکہ پورے ہندوستان کے اہل علم کے لیے ہے:
آپ سے میری یہ التجا ہے کہ وحشتوں کی روداد دوسروں کے لیے چھوڑ دیجئے، آپ تہذیبوں کی کہانی لکھئے اور نئے ہندوستان کے ماضی کی روشنی میں حال کا یہ اہم ترین مسئلہ حل کرنے میں مدد دیجئے کہ کس طرح مختلف تہذیبوں کے الگ الگ رنگ و آہنگ کو ضروری حد تک قائم رکھتے ہوئے ان میں وہ ہم رنگی و ہم آہنگی پیدا کرے جو ایک متحد اور مضبوط قوم بنانے کے لیے درکار ہے اور اپنے محبوب وطن کو ایسی مہذب انسانی برادری کا گھر بنانے میں ہاتھ بٹائیے، جس کے صدر دروازہ پر حالی کی یہ رباعی رقم ہو:
ہندو سے لڑیں نہ گبر سے بیر کریں

Cشر سے بچیں اور شر کے عوض خیر کریں
=دنیا کو جو کہتے ہیں جہنم ہے یہ

Aوہ آئیں اور اس بہشت کی سیر کریں
B ان چند لفظوں کے بعد جنھیں کسی مہمان خصوصی کا رسمی خطبہ نہیں بلکہ ایک محب مخلص کے دل کی آواز سمجھیے، میں دارالمصنفین اعظم گڑھ کے جشن طلائی کا افتتاح کرتا ہوں‘‘۔
یہ خطبہ بار بار تالیوں کی گونج سے سراہا گیا، اور جب یہ ختم ہوا تو مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے فرمایا کہ یہ تمام خطبات کا تاج محل ہے، اس کا یہ فقرہ ہر شخص کی زبان پر تھا:
’’تہذیبیں ٹکرایا نہیں کرتی ہیں، وحشتیں ٹکرایا کرتی ہیں‘‘۔
ذاکر صاحب نے اس افتتاحیہ اجلاس میں دارالمصنفین کے لیے اپنی حکومت کی طرف سے پچاس ہزار کے عطیہ کا اعلان کیا، اس کے ساتھ ان کے عزیز دوست کرنل بشیر حسین زیدی نے سید ناسیف الدین طاہر کی طرف سے بارہ ہزار جناب مصطفےٰ رشید شروانی کی طرف سے تین ہزار اور حکیم عبدالحمید صاحب مالک ہمدرد دواخانہ دہلی کی جانب سے ایک ہزار کے چیک پیش کئے جو ذاکر صاحب کی خواہش ہی پر حاصل کئے گئے تھے، پھر ان ہی کی موجودگی میں مسز سچتا کرپلانی نے حکومت اترپردیش کی طرف سے دس ہزار کی گرانٹ کا اعلان کیا، بیگم صاحبہ بھوپال نے بھی دس ہزار روپے کا عطیہ دیا، سعودی عرب کے سفیر محترم نے رابطہ اسلامیہ کی طرف سے پانچ ہزار کی رقم کا اعلان کیا، دس ہزار کی گرانٹ حکومت کشمیر کی طرف سے بھی ملی، اس سے پہلے طلائی جوبلی کے سلسلہ میں بھوپال میں مولانا عمران خان صاحب ندوی نے ایک ایک ہزار کے بارہ لائف ممبر بنائے تھے، جناب سیٹھ عبدالعزیز انصاری اور سید شہاب الدین دیسنوی صاحب نے اپنی مساعی جمیلہ سے بمبئی میں ایک ایک کے چالیس ممبر بناکر اس ادارہ کو غیرمعمولی امداد پہنچائی، اسی موقع پر پاکستان کی طرف سے پچیس ہزار کی کتابوں کی خریداری کا اعلان ہوا، دو ہزار روپے کویت سے جناب ڈاکٹر عبداللطیف نے اس جشن کے لیے بھیجے، پھر ڈاکٹر حمیداﷲ نے فرانس سے ایک ہزار روپے کا عطیہ بھیجا، اس طرح ذاکر صاحب کے قدموں کی برکت سے دارالمصنفین کو تقریباً ایک لاکھ اکاسی ہزار (۱۸۱۰۰۰) کی امداد پہنچ گئی۔
جوبلی کے افتتاحیہ اجلاس کے بعد مسز سچتا کرپلانی کو اس راقم نے ایک سپاسنامہ پیش کیا، جس میں ذاکر صاحب بھی سامعین کی حیثیت سے شریک رہے، پھر شبلی منزل کے لان پرایٹ ہوم ہوا، ذاکر صاحب، مسز سچتا کرپلانی، بیگم صاحبہ بھوپال، سفرا اور وزرا کو دیکھنے کے لیے اتنا ہجوم ہوگیا تھا کہ ان کو قابو میں رکھنا مشکل تھا، لیکن ضلع کے کلکٹر شری ماڈول اور ایس، پی شری بھلا نے بڑی خوش اسلوبی سے مجمع کو قابو میں رکھا، ذاکر صاحب ان تقریبوں میں سب سے بہت ہی بے تکلفی سے ملے، کہیں سے ظاہر ہونے نہیں دیا کہ وہ نائب صدر ہیں، اعظم گڑھ کے ان لوگوں سے بھی ملے جنھوں نے تقریباً چالیس برس پہلے جامعہ ملیہ کو ان کے یہاں آنے پر چندہ دیا تھا، ایٹ ہوم کے بعد وہ اپنے خیمہ میں چلے گئے، لیکن مغرب کی اذان ہوئی تو شبلی منزل کی مسجد میں نماز باجماعت ادا کرنے کو آئے، وہ وہاں اس وقت پہنچے جب مسجد بھرچکی تھی، ان کو تقریباً نعلین کے پاس جگہ ملی اور اس جشن کا محمود ایاز کے ساتھ کھڑے ہوکر نماز ادا کررہا تھا۔
رات کو ایک سمپوزیم تھا، جس میں سعودی عرب کے سفیر، مولانا طیب مہتمم دیوبند، ڈاکٹر یوسف حسین پرو وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی، مولانا سعید احمد اکبر آبادی صدر شعبہ دینیات مسلم یونیورسٹی، افضل اقبال ڈپٹی ہائی کمشنر پاکستان کی تقریریں تھیں، ان تقریروں میں رات کافی گزرتی جارہی تھی، ذاکر صاحب کے آرام کی خاطر میں بار بار ان سے کہتا تھا کہ وہ اٹھ کر تشریف لے جائیں، لیکن وہ فرماتے کہ میں ان تقریروں سے لطف اندوز ہورہا ہوں، اور وہ آخری بیٹھے رہے، بہت رات گئے اپنے خیمہ میں سونے گئے، راکے تین بجے ہوں گے کہ سخت آندھی آئی، میری آنکھ کھلی تو خیال آیا کہ ذاکر صاحب کا خیمہ گرگیا ہوگا، ایک صاحب دوڑے آئے اور بولے ذاکر صاحب کا خیمہ گرگیا، اور وہ غسل خانہ میں پناہ لیے ہوئے ہیں، میں بے حد مضطرب ہوا کہ ساری محنت ضائع گئی، دوڑ کر خیمہ کے پاس پہنچا، اس کا ایک ستون تو ضرور جھک گیا تھا، لیکن خیمہ محفوظ تھا، اندر سے ذاکر صاحب کی کوئی آواز نہیں آئی، تو میں نے اندر جانا پسند نہیں کیا، صبح ہوئی تو مضطربانہ طور پر ان کی خیریت دریافت کرنے کے لیے حاضر ہوا، بولے کہ مجھ کو آندھی کی تو خبر بھی نہیں ہوئی اور میں بالکل غافل سویا، یہ محض ان کے اقبال کی کرامت تھی۔
صبح کو بیگم صاحبہ بھوپال کی خدمت میں جناب شاہ معین الدین صاحب نے ایک سپاسنامہ پیش کیا، ذاکر صاحب نے اس میں بھی شرکت فرمائی، اس کے بعد ایک ادبی نشست تھی، جس میں مولانا عبدالماجد دریابادی، پروفیسر محمد مجیب، ڈاکٹر سید عابد حسین، ضیاء الحسن فاروقی پروفیسر جامعہ ملیہ کالج نے اپنے اپنے مقالے پڑھے مولانا عبدالماجد دریابادی کا مقالہ مولانا شبلی پر تھا، جس کو نہ صرف عام حاضرین بلکہ خود ذاکر صاحب نے بہت پسند کیا، اور مولانا عبدالماجد دریابادی کو اس کی داد دی، ان کی روانگی اسی دن کے سہ پہر کو تھی، اس لئے میں اس نشست کے آخر میں شکریہ ادا کرنے کے لیے کھڑا ہوا، اس جشن کی کامیابی پر اتنا خوش تھا کہ میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور ان ہی آنسوؤں کی لڑیوں میں مشکل سے یہ کہہ پایا کہ میری زندگی کی تمنائیں یہ تھیں کہ مصنف بنوں، مولانا سید سلیمان ندوی کا شاگرد بن کر دارالمصنفین کا ادنیٰ خدمت گزار بنا رہوں اور دارالمصنفین کی طلائی جوبلی کا جشن اپنے محترم بزرگ ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب کی صدارت میں انجام دوں، یہ ساری تمنائیں پوری ہوگئیں، اگر ذاکر صاحب اپنے ہوائی اڈے پر پہنچ کر میری وفات کی خبر سنیں تو وہ میرے لیے کوئی غم نہ کریں۔
ذاکر صاحب کے جانے کے بعد رات کو ایک مشاعرہ بھی آنند نرائن ملا کی صدارت میں ہوا، جس میں روش صدیقی، جگن ناتھ آزاد، حبیب احمد صدیقی، عارف عباسی اور کوثر فاروقی وغیرہ جیسے منتخب شعراء شریک ہوئے، دوسرے دن صبح کو تمام مہمان رخصت ہوگئے، اس جشن میں کچھ مہمانوں کو ضرور تکلیف ہوئی ہوگی، لیکن جتنے آئے وہ سب دارالمصنفین کے مخلص اور قدرداں تھے، اس لیے کسی نے کوئی شکایت نہیں کی، شاہ معین الدین صاحب اور ہم دونوں بے انتہا خوش تھے کہ اﷲ تعالیٰ نے بڑی آبرو رکھ لی، اس جشن کو ہر طرح کامیاب کیا، یہ ذاکر صاحب کے محبت و اخلاص کا بھی نتیجہ تھا جو ان کو دارالمصنفین سے ہر زمانہ میں رہا، جشن کے دوسرے دن کے لنچ میں ایک بیرونی مہمان نے ذاکر صاحب کی موجودگی میں کہا کہ یہ جوبلی جامعہ ملیہ کی سلور جوبلی ہی کے مقابلہ کی ہے، کرنل بشیر حسین زیدی نے سن کر فرمایا، جی نہیں، اس سے بہت بڑھی ہوئی، جامعہ کی سلور جوبلی جب ہوئی تھی تو میں رامپور کا وزیراعلیٰ تھا، میں نے ریاست کا سارا سامان وہاں بھجوا دیا تھا، حتی کہ وہاں کے بہشتی اور بھنگی بھی گئے تھے، لیکن دارالمصنفین کے قناعت پسند بوریا نشینوں کی طرف سے جوبلی کی اس آرائش و زیبائش کو دیکھ کر میں خود متحیر ہوں، وہ ہر طرح کی تعریف کے مستحق ہیں۔
ذاکر صاحب گلابوں کے بڑے عاشق زار تھے، اس لیے جوبلی کے جشن کے موقع پر گلابوں کے پھولوں کی بھی ایک نمائش کا انتظام کیا گیا تھا، یہ اہتمام محبی خلیل الرب صاحب (انسپکٹر آف اسکولز) نے کیا، ذاکر صاحب نے ان میں سے بعض گلابوں کو بہت پسند کیا اور اپنے چمن کے لیے ان کے پودے مانگے جو اکتوبر ۱۹۶۵؁ء ہی میں تیار ہوگئے، میں نے یہ پودے ان کے پاس بھیجے تو ایک مکتوب مورخہ ۳۰؍ اکتوبر ۱۹۶۵؁ء میں تحریر فرمایا: ’’نوازش نامہ ملا، یاد فرمائی کا شکریہ، گلاب کے ۱۳ پودے بھی پہنچے، کس طرح شکریہ ادا کروں، کسی اور تحفہ سے جی اتنا خوش نہیں ہوتا، جتنا اس سے ہوا، خلیل الرب صاحب کا بھی میری طرف سے شکریہ ادا کردیجئے‘‘۔
ان کو گلابوں سے جو عشق رہا تو غیر شعوری طور پر وہ گلاب کی دل آویزی، رعنائی اور خوشبو زندگی کے ہر پہلو میں چاہتے تھے، اور وہ جہاں کہیں پاجاتے اس سے ایسے ہی خوش ہوتے جیسے اپنے چمن میں گلاب کی رنگینی اور خوبصورتی کو دیکھ کر ہوتے۔
جوبلی کے جشن کے منانے کے چھ مہینے کے بعد یعنی ستمبر ۱۹۶۵؁ء میں ہندوستان و پاکستان کی جنگ چھڑگئی، اس وقت سے اب تک ہندو پاکستان کا تجارتی لین دین بند ہے، اس لیے دارالمصنفین کی کتابوں کی تجارت کا توازن بالکل بگڑ گیا ہے، پاکستان کے بعض خود غرض ناشروں نے تجارتی لین دین بند ہونے کی وجہ سے اس کی بہت سی کتابیں چھاپ لی ہیں، جس سے اس پر مزید مالی ضرب کاری لگ رہی ہے، اگر اس کی جوبلی نہ ہوئی ہوتی اور ذاکر صاحب کے حسنِ وساطت سے اس کو عطیات نہ ملے ہوتے تو اس وقت تک معلوم نہیں یہ کن کن پریشانیوں میں مبتلا ہوگیا ہوتا، اس لحاظ سے بھی ذاکر صاحب اس کے بڑے محسن ہیں، ان سے جب جب ملاقات ہوئی تو اس کے مالی استحکام کی تدبیریں بتاتے رہتے، ان کا سہارا لے کر حکومت ہند سے اس کے لیے مستقل سالانہ امداد حاصل کرنا ممکن تھا، مولانا ابوالکلام آزاد کی خواہش تھی کہ یہ سالانہ گرانٹ منظور کرلے، کیونکہ انگریزوں کی طرح اب غیر ملکی حکومت نہیں ہے بلکہ قومی حکومت ہے، لیکن خواہش کے باوجود سالانہ امداد لینا منظور نہیں کیا گیا، کیونکہ اس کے بعد ادارہ کے علمی مزاج کے بدل جانے کا خطرہ رہا۔
فروری ۱۹۶۶؁ء میں ذاکر صاحب کے بھتیجے امتیاز حسین کا اچانک حیدرآباد میں انتقال ہوگیا، پہلے ذکر آچکا ہے کہ جامعہ ملیہ کے قیام کے زمانہ میں میری ان سے گہری ملاقات ہوگئی تھی، ان کی وفات سے مجھ کو بھی صدمہ ہوا، اور میں نے ایک تعزیتی خط ذاکر صاحب کو لکھا، جس کا جواب انھوں نے ۳؍ مارچ ۱۹۶۶؁ء کو بہت ہی غمناک انداز میں اسی طرح دیا جس طرح ایک سچے اور خدا ترس مسلمان کو دینا چاہئے:
’’آپ کا تعزیت نامہ ملا، آپ کی ہمدردی کا دل سے شکر گزار ہوں، خدا کی مرضی یوں ہی تھی، اس پر صابر و شاکر ہونا چاہئے، یوں صدمہ میرے لیے سخت ہے، اس لیے کہ اپنے بڑے بھائی کے انتقال کے بعد مرحوم کی پرورش میرے ہی ذمہ تھی، اور وہ مجھے بیٹے سے زیادہ عزیز تھے، لیکن جو ہونا تھا وہ ہوچکا، راضی برضا ہوں‘‘۔
ذاکر صاحب مئی ۱۹۶۷؁ء میں جمہوریہ ہند کے صدر منتخب ہوئے تو دارالمصنفین میں بھی مسرت کی لہر دوڑ گئی، ایسا معلوم ہوا کہ کوئی ہم لوگوں ہی میں صدر بنا ہے، اور ان کو اپنوں میں شمار کرنا صحیح تھا، کیونکہ وہ نہ صرف دارالمصنفین کی مجلس انتظامیہ کے بہت ہی قدیم رکن تھے، بلکہ ہم لوگوں سے بزرگانہ تعلقات بھی رکھتے تھے، میں نے دارالمصنفین کی طرف سے مبارکباد کے خط اور تار بھیجے اور اس کے بعد دارالمصنفین کی تین نئی کتابیں بھی بھیجیں، اس کا جواب اپنے ایک عنایت نامہ مورخہ ۷؍ جون ۱۹۶۷؁ء میں یہ دیا:
محب مکرم!السلام علیکم
نوازش نامہ ملا، یاد فرمائی اور دعاؤں کا شکریہ، دارالمصنفین کے اراکین اور ملازمین کا بھی ان کی دعاؤں کے لیے شکریہ ادا کرتا ہوں، خدا آپ سب کو خوش اور اچھا رکھے۔
آپ نے ازراہ نوازش جو تین کتابیں مجھے بھیجی ہیں وہ مجھے مل گئی ہیں، ان تصانیف کو میں دارالمصنفین کے بیش بہا تحائف ہی سمجھتا ہوں، ان کتابوں کے لیے بھی شکریہ قبول فرمائیں، خدا کرے مزاج بخیر ہو۔ والسلام
میں نے اپنی طرف سے بھی ایک ذاتی خط لکھا تھا، اس کا جواب اپنے مکتوب مورخہ ۲۱؍ جون ۶۷؁ء میں اس طرح دیا،
محبی صباح الدین صاحب۔ السلام علیکم
’’آپ کا نوازش نامہ مورخہ ۱۰؍ مئی ملا، یاد فرمائی کا شکریہ، میرے صدر منتخب ہونے پر آپ نے جس خلوص اور محبت کا اظہار فرمایا ہے، اس کے لیے دل سے شکر گزار ہوں، دعا فرمائیں کہ میں اپنے اس منصب کے فرائض کو پوری طرح انجام دے سکوں، اس سلسلہ میں مبارکباد کو خطوط اور تار اس کثرت سے آئے کہ ان سب کا جواب دینا جلد ممکن نہ ہوسکا، اس تاخیر کو معاف فرمائیے گا، شاہ معین الدین صاحب کو میرا سلام مسنون پہنچا دیں‘‘۔
میں اگست ۱۹۶۷؁ء میں ایک خاص کام کے لیے دہلی پہنچا، میری لڑکی عشرت افروز بھی ساتھ تھی، میں نے ذاکر صاحب سے وقت مانگا، تو مجھ کو لڑکی کے ساتھ ملنے کو بلایا، جب میں راشٹرپتی بھون پہنچا تو ملاقات کے کمرہ کے دروازہ تک لینے کو آئے، اپنی شرافت طبع اور پاکیزگی اخلاق سے میری لڑکی سے اس طرح ملے جیسے اپنی خاص عزیزہ سے مل رہے ہیں، اس کو اپنی گفتگو میں برابر بیٹی کہہ کر مخاطب فرمایا، چائے آئی تو اس سے مٹھائی اور پسٹری کھانے کے لیے اصرار کیا، ان میں راشٹرپتی بھون کی فضا کی تمکنت اور وقار کے بجائے جامعہ ملیہ ہی کا عجز اور انکسار تھا، وہ کھدر کی شیروانی اور اسی کپڑے کی ٹوپی پہنے ہوئے تھے، بعض لوگ کپڑے پہن کر خوبصورت اور بارونق معلوم ہوتے ہیں، لیکن ذاکر صاحب کے جسم پر خود لباس خوبصورت اور بارونق بن جاتا، اعلیٰ قسم کے مغربی وضع کے ڈرائنگ روم میں ان کا مشرقی مزاج چھایا ہوا تھا، وہ خود ہی ڈرائنگ روم کی زینت بنے ہوئے تھے، ان سے باتیں کرنے میں راشٹرپتی بھون کے ماحول کو ان کے قدیم رنگ کی حسین وضعداری سے دبا پایا، صدر کی حیثیت سے ان سے یہ میری پہلی اور آخری ملاقات تھی، میں نے کئی بار جلد اٹھنے کی کوشش کی، لیکن اصرار سے روکے رکھا، دارالمصنفین کی مالی حالت پوچھی، وہ جانتے تھے کہ میری صحت اچھی نہیں رہتی ہے، اس لیے صحت کو برقرار رکھنے کی نصیحت فرمائی، پھر کہا کہ شاہ معین الدین صاحب اور آپ دونوں نے مل کر دارالمصنفین کے معیار اور حیثیت کو برقرار رکھا ہے، لیکن آپ دونوں اپنے پیچھے کوئی جماعت نہیں چھوڑ رہے ہیں، میں نے عرض کیا، اب پہلے کی طرح ایثار پسند اور خدمت گزار نوجوان نہیں ملتے، فرمایا کہ ہندوستان سے ایثار اور خدمت کا جذبہ ختم ہوچکا ہے، پہلے ایثار و خدمت بڑا وصف سمجھا جاتا تھا، لیکن وہ دور جاتا رہا، اس لیے ایثار پسند نوجوانوں کی تلاش فضول ہے، ان کو وہی تنخواہیں دے کر رکھئے جو ہر جگہ ملتی ہیں، اور پھر ہنستے ہوئے فرمایا کہ ادارہ چلانے میں یہ ضرور ہے کہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائے جائیں، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ پاؤں دیکھ کر چادر بنائی جائے، آپ لوگوں کو اب ایسی ہی چادر بنانی ہے، اسی سلسلہ میں فرمایا کہ اس زمانہ میں صرف جماعت اسلامی والے ہی ایثار اور قربانی سے کام لے رہے ہیں، میں نے ان کی مطبوعات میں سے محسن انسانیت پڑھی ہے، یہ مجھ کو بہت پسند آئی، جب میں ان سے رخصت ہونے لگا تو عرض کیا، آپ کی بدولت راشٹرپتی بھون کے اندر تک پہنچ گیا، اس کا جواب بڑی محبت سے یہ دیا، مگر آپ لوگوں کی دعاؤں کی بدولت میں بھی راشٹرپتی بھون میں پہنچ گیا۔
وہاں سے آنے کے بعد ایک مرض میں مبتلا ہوگیا، جس کے اعظم گڑھ اور پٹنہ میں دو آپریشن ہوئے، میں شفا پاکر پٹنہ سے اعظم گڑھ آیا تو کسی سلسلہ میں ان کو خط لکھا تو اپنی علالت کا بھی ذکر کردیا، اس کے جواب میں اپنے ایک مکتوب مورخہ ۴؍ جنوری ۱۹۶۱؁ء میں تحریر فرمایا کہ ’’مجھ کو آپ نے اپنی علالت کی خبر نہیں دی، میں آپ کے لیے کم از کم دعائیں تو کرسکتا تھا، خدا کرے آپ عرصۂ دراز تک توانا و تندرست رہ کر دارالمصنفین کی مفید خدمات انجام دیتے رہیں، آمین‘‘۔
مارچ ۱۹۶۸؁ء میں دہلی گیا تو کچھ ایسی عجلت میں تھا کہ ان کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکا، اور ان سے ملے بغیر اعظم گڑھ واپس چلا آیا، تو ایسا معلوم ہوا کہ دہلی گیا ہی نہ تھا، یہاں آنے کے بعد دارالمصنفین کی پانچ مطبوعات کی جلدیں ان کی خدمت میں ارسال کیں اور دہلی جانے اور خدمت میں حاضر نہ ہونے کا افسوس بھی ظاہر کیا تو اس کا جواب ایک مکتوب مورخہ ۲۵؍ اپریل ۶۸؁ء میں اس طرح دیا:
محبی صباح الدین صاحب!السلام علیکم
نوازش نامہ مورخہ ۱۸؍ اپریل بھی ملا اور دارالمصنفین کی پانچ مطبوعات بھی جو آپ نے ازراہ ذاکر نوازی بھیجی ہیں، بڑی خوشی ہوئی کہ اشاعت کتب کا کام قابل اطمینان طور پر بڑھ رہا ہے، انشاء اﷲ آئندہ سال بھی ۵، ۶ کتابیں نکل جائیں گی، آپ لوگوں کی محنت اور آپ کا انہماک قابل رشک ہے۔
یہ آپ مجھ سے ملنے کیوں نہیں آئے؟ کہیں میرے دفتر سے تو وقت دینے میں کوتاہی نہیں ہوئی یا اس کوتاہی کے خیالی اندیشہ سے آپ نے وقت ہی نہیں چاہا، آپ دہلی آئیں اور ملاقات نہ ہو، یہ تو اچھا نہیں لگتا، سب ساتھیوں کو میرا سلام پہنچا دیجئے۔ والسلام۔ مخلص ذاکر حسین۔
اس مکتوب کے بعض فقروں میں دل نوازی کی کیسی شمیم انگیزی ہے، جس سے معلوم نہیں میری طرح کتنے مکتوب الیہ معطر ہوتے رہے۔
مئی ۱۹۶۸؁ء میں راشٹرپتی بھون میں نذر ذاکر کے نام سے دو جلدیں پیش کی گئیں، اس میں میرا بھی ایک مقالہ تھا، خلاف توقع ذاکر صاحب کا ایک مکتوب مورخہ ۲۲؍ مارچ ۱۹۶۹؁ء ملا، میرا خیال ہے کہ یہ ایک مشترکہ مکتوب ہے جو انھوں نے نذر ذاکر کے ہر مقالہ نگار کو لکھا تھا، یہ دلچسپ ہے اور میرے نام ان کا آخری مکتوب ہے، اس لیے ذیل میں درج ہے:
مکرم بندہ!تسلیم
یہ شکریہ کا ناچیز ہدیہ آپ کی خدمت میں بہت دیر سے پہنچ رہا ہے، جس کے لیے دل سے معذرت خواہ ہوں، آپ نے ازراہ ذاکر نوازی ’’نذر ذاکر‘‘ میں اپنا گراں قدر مضمون شامل فرما کر جو کرم فرمایا تھا اس کا دلی شکریہ تقریباً ایک سال بعد پیش خدمت کررہا ہوں، یہ کتاب سال بھر سے پہلے میری سالگرہ کی تقریب میں دوستوں نے مجھے عنایت فرمائی تھی، عمر بھر اپنی سالگرہ نہیں منائی تھی لیکن اب دوستوں نے ایک صحیح یا غلط تاریخ کا تعین فرما کر اس کا سلسلہ شروع کردیا ہے، کتاب جب ملی تو اسے پڑھنا شروع کیا، ایک دوست میری میز سے وہ نسخہ اٹھالے گئے اور حسب معمول واپس کرنا بھول گئے اور میں بھول گیا کہ وہ کون دوست میری میز سے وہ نسخہ اٹھالے گئے ، اس لیے انگریزی میں مضامین دینے والے دوستوں کا شکریہ تو پہلے ادا کرچکا اور اردو کا ایک دوسرا نسخہ جب مالک رام صاحب نے عطا فرمایا تو یہ معذرت نامہ لکھنے کا موقع نکلا، میں اس تاخیر کی معذرت چاہتا ہوں، اور دل سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں‘‘۔
دارالمصنفین کی طرف سے انڈین کانسل آف کلچرل ریلیشنز کے رکن کی حیثیت سے اس کے سالانہ جلسہ میں دہلی بارہ برس سے جایا کرتا ہوں، اس سال اس کا جلسہ ۳؍ مئی ۱۹۶۹؁ء کو طے پایا، میں نے حسب معمول اس میں شرکت کا ارادہ کیا تو خیال ہوا کہ اس مرتبہ ذاکر صاحب کی خدمت میں ضرور حاضر ہوں گا، ۲۱؍ اپریل ۶۹؁ء کے ایک خط میں ان سے ملنے کی تاریخ طلب کا طلبگار ہوا، وہ ان ہی دنوں آسام کے دورہ پر جانے والے تھے، اس لیے اس خط میں یہ بھی لکھ دیا کہ ٹیلیفون سے دریافت کرلوں گا کہ کون سی تاریخ اور وقت میں حاضر خدمت ہونا ہے، ۲۰؍ مئی کو دہلی پہنچا اور محبی پروفیسر ڈاکٹر امیر حسن عابدی صدر شعبہ فارسی دہلی یونیورسٹی کے یہاں ٹھہرا، ۳؍ مئی کو دس بجے خانہ ایران میں ایران کے کلچرل کونسلر جناب ہاشم کردوش سے ایک ملاقات ملے تھی، ان سے ملنے کے بعد تقریباً پونے گیارہ بجے وہیں سے راشٹرپتی بھون ٹیلیفون کیا کہ مجھ کو کس روز اور کس وقت طلب کیا گیا ہے، سکریٹری نے بتایا کہ میرا خط فائل میں رکھا ہوا ہے، اب وہ راشٹرپتی سے پوچھ کر مجھ کو تھوڑی دیر میں تاریخ اور وقت بتادیں گے، میں نے ان سے کہا کہ وہ وقت اور تاریخ دریافت کرلیں میں چار بجے ٹیلیفون سے دریافت کرلوں گا، اس کے بعد میں اپنی قیام گاہ پر چلا آیا۔
انڈین کانسل آف کلچرل ریلیشنز کے جلسہ کے لیے آزاد بھون روانہ ہورہا تھا کہ محبی ڈاکٹر امیر حسین عابدی نے اچانک یہ خبر سنائی کہ حرکت قلب کے بند ہوجانے سے ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب کا انتقال ہوگیا، ایسا معلوم ہوا کہ مجھ پر بجلی گر پڑی دل و دماغ پر تاریکی چھاگئی، کسی طرح آزاد بھون پہنچ گیا، جہاں اور بھی نمائندے آئے ہوئے تھے، سب ہی سوگوار تھے، جلسہ جناب صدر بی،ان کھوسلا اور جناب ہردے ناتھ کنزرو کی تعزیتی تقریروں کے بعد ملتوی کردیا گیا، دونوں نے ان کو سیکولرزم کا اعلیٰ نمائندہ بتایا، حیدرآباد سے اس جلسہ کے لیے ڈاکٹر عبدالمعید خان صدر شعبہ عربی عثمانیہ یونیورسٹی بھی آئے تھے، ان کو بھی ذاکر صاحب سے بڑا گہرا لگاؤ تھا، ہم دونوں ساڑھے پانچ بجے تک راشٹرپتی بھون پہنچ گئے، کسی نے خبر دی تھی کہ میت پانچ بجے اس کے دربار ہال میں لاکر رکھ دی جائے گی، وہاں پہنچنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ سات بجے رکھی جائے گی، اندر باہر بڑا ہجوم تھا، وزراء اور سفراء اور معززین تعزیت کے لیے برابر آرہے تھے، پھر اتنی بھیڑ ہوئی کہ ڈاکٹر عبدالمعید خان نے کہا کہ اب میت کو دیکھنا ممکن نہ ہوسکے گا، اس لیے ہم دونوں آخری دیدار سے محروم ہوکر واپس ہوگئے۔
۴؍ مئی ۱۹۶۹؁ء کو میں جماعت اسلامی کے دفتر پہنچا، تو مولانا ابواللیث امیر جماعت اسلامی کو بھی سوگوار پایا، وہ ذاکر صاحب کی بعض خوبیوں کے بڑے معترف تھے، وہاں سے راشٹرپتی بھون عبدالعظیم صاحب ٹونکی کے ساتھ چلاگیا، میت کی زیارت کرنے والوں کا بڑا ہجوم تھا، تقریباً ایک میل کی قطار لگی ہوئی تھی، بڑی مشکل سے دربار ہال پہنچا، میت گلاب کے پھولوں سے ڈھکی ہوئی تھی، دیکھ کر آنکھیں غمناک ہوگئیں کہ ہندوستان کا گل سرسبد، سیکولرازم کا گل لالہ، راشٹرپتی بھون کا پیر رعنا نہیں بلکہ مغل گارڈن کا گلِ رعنا آج ٹوکریوں پھولوں کے نیچے بے جان پڑا ہے، چہرا کھلا تھا، اس کی طرف نظر اٹھی، لیکن جھک گئی، جس شکیل اور وجیہہ چہرہ پر شروع میں مقصد حیات کی بلندی، قلندری کا بانکپن، محبت کی قوس و قزح، اخلاص کی شفق، علم کی گہرائی اور آخر میں شاہانہ ماحول میں پرازعظمت انکسار دیکھا تھا، اس کو بے حس و حرکت دیکھا نہیں گیا، انھوں نے اپنی زندگی کا آغاز کانٹوں کے سیج پر لیٹ کرکیا تھا، دنیا ان کو پھولوں کے سیج پر سلا کر ہمیشہ کے لیے رخصت کررہی تھی، میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے، لیکن اس وقت رونے والوں کی کمی نہ تھی، جو میرے آنسوؤں کی کوئی قیمت ہوتی، میت کے پاس قرآن خوانی ہورہی تھی، میں بھی شریک ہوگیا، عصر کا وقت آیا تو ہال میں اذان دی گئی، نماز باجماعت ادا کی گئی، اس دربار ہال میں کبھی تکبیر کی آواز بلند نہیں ہوئی ہوگی، کلام پاک بھی نہ پڑھا گیا ہوگا، نماز کی برکت سے بھی متبرک نہ ہوا ہوگا، لیکن ذاکر صاحب کی بدولت یہ ہال کئی روز تک کلام الٰہی سے گونجتا رہا، ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں نے بھی اپنے اپنے مذہبی گیت گائے، لاش کی نگرانی ذاکر صاحب کے بڑے داماد خورشید احمد صاحب کررہے تھے، بے انتہا مغموم تھے، میں نے ان سے اظہار تعزیت کرنا چاہا، لیکن میری تعزیت کی کیا قدر ہوسکتی تھی، جب دنیا کے مشاہیر کے تعزیتی پیام ان کے پاس پہنچ رہے تھے، پھر بھی بے اختیار ہوکر ان کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا، مشکل سے ایک دو جملے کہہ پایا، وہاں سے لوٹا تو جماعت اسلامی کے اخبار دعوت کے اڈیٹوریل پر نظر پڑی جس کے کچھ ٹکڑے یہ تھے:
’’ڈاکٹر صاحب کے افکار سے بہت سے لوگوں کو اختلاف رہا ہوگا، یہ کوئی معیوب بات بھی نہیں، لیکن ان کی مرنجاں مرنج طبیعت ان کی ملنساری اور تواضع، ان کا علمی وقار اور تہذیبی انکسار، تعمیری کاموں سے ان کی لگن، جس چیز کو صحیح سمجھا اس کے لیے ایثار اور قربانی کی راہ اپنالی مرحوم کی یہ خوبیاں تھیں جنھیں ان کے بعد بھی یاد رکھا جائے گا․․․․․․ ابھی آپ ناگالینڈ اور آسام پرگئے ہوئے تھے، اس موقع پر گوہاٹی میں اپنے ایک شاگرد حسنین سید سے ملاقات کے موقع پر جو بات چیت کی وہ آپ کی دین پسندی کے رجحان کی شاہد ہے، حسنین سید صاحب نے ملاقات کے موقع پر آپ سے شکایتہ کہا کہ آج جمعہ کا دن ہے، یہ صحیح ہے کہ مسافر پر جمعہ واجب نہیں ہے، پھر بھی مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کا پروگرام آپ بنالیتے تو لوگوں کو بھی قریب سے دیکھنے کا موقع مل جاتا، آپ نے شاگرد کی شکایت سن کو جواب دیا، ’’افسوس کیا بتاؤں میرے دونوں گھٹنوں میں تکلیف رہتی ہے،التحیات و درود پڑھنے کے لیے جس طرح بیٹھا جاتا ہے، میں نہیں بیٹھ سکتا، اپنی قیام گاہ پر چوکی پر بیٹھ کر پاؤں لٹکا کر نماز پڑھ لیتا ہوں، مسجد میں یہ صورت نہیں ہوسکتی، سال میں عیدین کے موقع پر جب عیدگاہ میں نماز پڑھنے جاتا ہوں تو بڑی تکلیف سے نماز ادا کرتا ہوں‘‘۔ (روزنامہ دعوت، مورخہ ۴؍ مئی ۱۹۶۹؁ء)
ذاکر صاحب کے بہار کی گورنری کے زمانہ کے ایک سکریٹری کا بھی ایک تعزیتی بیان شائع ہوا کہ وہ جب تک وہاں گورنر کے عہدہ پر فائز رہے، پانچوں وقت کی نماز پابندی سے ادا کرنے کے عادی رہے۔
ان کی وفات پر بے شمار بیانات نکلے، تمام اخباروں نے اڈیٹوریل لکھے، مضامین شائع کیے، بڑے بڑے جلسے ہوئے، مؤثر اور دل گداز تقریریں ہوئیں، لیکن اوپر صرف ایک اداریہ اور ایک بیان کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ دنیا میں تو ان کو ہر قسم کا اعزاز ملا، سفر آخرت کے لیے بھی ان کو زاد راہ چاہئے تھا، جس سے وہ غالباً خالی نہیں گئے۔
۵؍ مئی کو پانچ بجے سہ پہر کو راشٹرپتی بھون میں جنازہ کی نماز کا اعلان ہوا، بڑا ہجوم تھا، فوجوں کا زبردست پہرہ تھا، میں بھی مولانا ابواللیث امیر جماعت اسلامی اور ان کے ہمراہیوں کے ساتھ بڑی مشکل سے راشٹرپتی بھون پہنچا جس کا میدان سواروں، فوجیوں اور دنیا کے مختلف ملکوں کے نمائندوں اور حکومت اور حکومت کے وزیروں اور عہدیداروں سے بھرا پڑا تھا، اس سرکاری تقریب میں کلمہ طیبہ کی آواز بھی فضا میں گونج رہی تھی، دربار ہال سے جنازہ باہر آیا، سرکاری قاعدہ کے مطابق اکیس توپوں کی گونج میں سواروں نے سلامی دی، جنازہ کی نماز دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث مولانا فخرالدین صاحب نے پڑھائی، اور جب جنازہ سرکاری اعزاز کے ساتھ بحری، بری اور ہوائی فوج کے جلو میں روانہ ہوا تو فضا یہ کہ رہی تھی کہ یہ صرف صدر جموریہ ہند کا جنازہ نہیں بلکہ صحیح معنوں میں انسانی قدروں کی معرفت حاصل کرنے والے مشرق مغرب کی خوبیوں کو اپنے میں سمونے والے، اسلامیت اور قومیت کے حسین امتزاج کا خواب دیکھنے والے، ہندومسلم کا اتحاد دل سے چاہنے والے، رواداری، فراخدلی اور یکجہتی کے لیے قلب و جگر میں تڑپ رکھنے والے، شرافت، اخلاق کو اپنی وضعداری اور شائستگی سے جلا دینے والے، لینت، محبت اور اخلاص میں نکھار پیدا کرنے والے کا بھی جنازہ ہے۔
۷؍ مئی ۱۹۶۹؁ء کی شام کو مولانا ابواللیث صاحب امیر جماعت اسلامی کے ساتھ جامعہ نگر جاکر ان کے مرقد پر حاضری دی، وہاں جامعہ ملیہ کے بہت سے لوگ موجود تھے، ان میں سب سے زیادہ مغموم ڈاکٹر عابد حسین صاحب تھے، جو ذاکر صاحب کے بہت ہی قدیم دوست اور ساتھی ہیں، انھوں نے جامعہ ملیہ کے پرانے دور کی تنگی اور عسرت کے کچھ واقعات سنائے اور جب میں قبر کے پاس کھڑا ہوکر فاتحہ پڑھنے لگا تو دل کہہ رہا تھا کہ وہ جب تک زندہ رہے ان میں درشاہوار کی آب و تاب رہی، بلکہ وہ کوہ نور بن کر چمکے، وہ تہذیب و ثقافت کے ایک شاندار باب بھی تھے، بہت سی حسین اداؤں کے ایک گلدستہ بھی، زندگی کی رعنائیوں کے ایک چمن بھی، لیکن آہ! اب مٹی کے تودوں کے نیچے ابدی نیند سورہے ہیں، ان کی زندگی کی الف لیلیٰ تو ختم ہوگئی لیکن وہ اپنے پیچھے اپنی یادوں کی ایک انجمن چھوڑ گئے ہیں، جس میں معلوم نہیں، ان کی کتنی نیکیوں اور خوبیوں کی شمع برابر فروزاں رہے گی، انھوں نے اپنی زندگی میں جامعہ ملیہ میں اسلامی اور قومی قدروں کے نور کے جوت جگائے تھے، امید ہے کہ ان کی زندگی کے بعد بھی ان کا مرقد جامعہ ملیہ کے لیے روشنی کا مینا رہ بنا رہے گا، اسی کے پاس ان کے ایک اور پرانے ساتھی ارشاد حسین صاحب سابق رجسٹرار جامعہ ملیہ نے بتایا کہ انھوں نے آخر زمانہ میں کلام پاک بھی حفظ کرنا شروع کردیا تھا، یہ سن کر خوشی ہوئی کہ ان کے سفر آخرت کے زاد راہ کا بھی شائد پورا انتظام ہے۔
۸؍ مئی کی صبح کو جناب سید حسین صاحب ایم،اے علیگ کے ساتھ ذاکر صاحب کے بھائی ڈاکٹر یوسف حسین صاحب سے ملا، جو اپنے چھوٹے بھائی ڈاکٹر محمود حسین کی تیمارداری کے لیے ولنگڈن اسپتال میں تھے، موخرالذکر کراچی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں، اپنے محبوب بھائی اور فخر خاندان کے جنازہ میں شرکت کے لیے دہلی آئے تو میت دیکھ کر ایسے بے قرار ہوئے کہ ان پر قلب کا شدید دورہ پڑا کہ جان کے لالے پڑگئے، یہ تحریر لکھتے وقت خدا کے فضل و کرم سے بہتر ہیں، ڈاکٹر یوسف حسین کے دل میں اپنے مرحوم بھائی کی جو عزت و محبت تھی، اس کا اندازہ ان کی حسب ذیل تحریروں سے ہوگا جو ذاکر صاحب کی زندگی ہی میں ان کی دلچسپ تصنیف ’’یادوں کی دنیا‘‘ میں لکھی گئیں:
جس کسی نے انھیں راتوں کو کلام پاک کی تلاوت کرتے سنایا دیکھا ہے وہ ان کے خشوع و خضوع سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، وہ اپنی دینداری کو چھپاتے ہیں، اپنے قریب ترین عزیز سے بھی، نہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی انھیں عبادت کرتے ہوئے دیکھے، میں سمجھتا ہوں یہ ان کے اخلاص و عقیدت اور بے تصنع زندگی کا اقتضاد ہے،․․․․․․ ذاکر میاں کی نجی زندگی ہمیشہ آئینہ کی طرح پاک صاف رہی ہے، اس میں ہر بات ظاہر ہے، کوئی چیز ڈھکی چھپی نہیں، جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں، ان کی سیرت کے اوصاف پبلک زندگی اور نجی زندگی دونوں ہی میں یکساں ہیں، وہی سادگی، وہی بے ساختگی، وہی نمائش سے گریز، وہی ملنساری، وہی محبت کا نبھاؤ، وہی وضعداری اپنوں سے بھی اور پرایوں سے بھی، وہ ایک شفیق باپ، ایک دردمند بھائی، ایک مخلص دوست ہیں، ہر حالت میں آدمی ان پر بھروسہ کرسکتا ہے،․․․․․․ انھوں نے جس طرح فقر میں شاہی کی، بلندنگاہی نہیں چھوڑی، اسی طرح شاہی میں فقر کے آداب کا احترام کرتے ہیں، جہاں بھی رہے مقبول اور محبوب رہے، جو ان سے ایک مرتبہ مل گیا، ان کی دلنواز شخصیت سے مسحور ہوگیا،․․․․․․ بلاشبہ ذاکر میاں فخر خاندان تو ہیں ہی، لیکن اس سے بڑھ کر بھی بہت کچھ ہیں، ان کی شخصیت کی حدود خاندان کے باہر بہت دور تک پھیلی ہوئی ہیں، ان کی روح کی روشنی سے بہت سارے دل اور بہت سی محفلیں منور ہیں، اگر انھیں فخر قوم کہا جائے تو یہ زیادہ موزوں اور مناسب ہوگا، وہ اپنی ذات سے انجمن ہیں، اور بہت سی انجمنیں ان کی ذات سے فیضان حاصل کررہی ہیں، ہمیں اس بات پر بجاطور پر فخر ہے کہ یہ چراغ جس سے بہت سی انجمنیں روشن ہیں، ہمارے گھر کا چراغ ہے، بقول شاعر:
یک چراغیست دریں خانہ کہ پرتوآں
ہر کجامی نگری انجمنے ساختہ داند‘‘۔
۹؍ مئی کو دارالمصنفین واپس آیا تو جناب شاہ معین الدین احمد ندوی کے ساتھ یہاں کے ہر فرد کو سوگوار اور مغموم پایا، اس لیے کہ وہ اس کی مجلس انتظامیہ کے نہ صرف بہت ہی قدیم رکن تھے، بلکہ اس کے بہت بڑے محسن بھی تھے، یہ تحریر ختم کرتے وقت دل سے دعائیں نکل رہی ہیں کہ بار الٰہا! ان کو اپنی آغوش رحمت میں لینا، تیری بنائی ہوئی دنیا میں عاجز بندوں ہی سے نہیں بلکہ بڑے بڑے حکمرانوں، رہنماؤں اور مصلحوں سے بھی خطائیں ہوتی رہی ہیں، لیکن تیری ستاری اور غفاری میں کمی نہیں ہوتی، تجھ کو بعض اوقات چھوٹی چھوٹی باتیں پسند ہوجاتی ہیں، ان ہی سے تیری رحیمی اور کریمی حرکت میں آجاتی ہیں، حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اﷲ علیہ کی روایت ہے کہ بزرگوں نے سلطان محمود غزنوی کو اس کی وفات کے بعد خواب میں دیکھا، پوچھا اﷲ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ کیا معاملہ کیا، جواب دیا ایک رات میں کسی قصبہ میں مہمان تھا، جس مکان میں ٹھہرا تھا وہاں طاق میں قرآن شریف کا ایک ورق رکھا ہوا تھا، میں نے خیال کیا، یہاں ورق مصحف رکھا ہوا ہے، سونانہ چاہئے، پھر دل میں خیال آیا کہ ورق مصحف کو کہیں اور رکھوادوں، اور خود یہاں آرام کروں، پھر سوچا کہ بڑی بے ادبی ہوگی، اگر اپنے آرام کی خاطر ورق مقدس کی جگہ تبدیل کروں، اس ورق کو دوسری جگہ نہ بھیجا، تمام رات جاگتا رہا، میں نے کلام پاک کے ساتھ جو ادب کیا، اسی کے بدلے حق تعالیٰ نے مجھ کو بخش دیا۔ (دلیل العارفین، مجلس پنجم)۔ ہندوستان کے غلام خاندان کا حکمران شمس الدین ایلتتمش بڑا دیندار بادشاہ گذرا ہے، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کی روایت ہے کہ لوگوں نے اس کی وفات کے بعد اس کو خواب میں دیکھا اور اس سے پوچھا کہ خداوند تعالیٰ نے تمھارے ساتھ کیا کیا، تو اس نے جواب دیا کہ میری بخشایش اس حوض کی بدولت ہوئی جو میں نے دہلی میں لوگوں کو شیریں پانی فراہم کرنے کے لیے کھدوایا (فوائد الفواد، ص۱۱۹)۔ بارالٰہا! ذاکر صاحب سے ضرور بشری لغزشیں ہوئیں، ممکن ہے کہ ان سے تیرے احکام کی خلاف ورزی بھی ہوئی ہو، لیکن تیرے بندوں کی نگاہوں میں ان میں بہت سی نیکیاں، خوبیاں اور اچھائیاں تھیں، اے بندوں کی خطاؤں اور لغزشوں کو درگزر کرنے والے آقا! تو بڑا ہی غفورالرحیم ہے، دعا ہے کہ ان کی بھی کوئی ادا، کوئی بات تیری بارگاہ میں قبول ہوگئی ہو اور وہ تیری رحمتوں کی کوثر، برکتوں کی تسنیم اور شان کریمی کی سلسبیل سے سیراب ہورہے ہوں۔ آمین ثم آمین۔
(’صباح الدین عبدالرحمن، جولائی ۱۹۶۹ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...