Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ڈاکٹر محمد اسحق

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ڈاکٹر محمد اسحق
ARI Id

1676046599977_54338111

Access

Open/Free Access

Pages

292

ڈاکٹر اسحق مرحوم
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو نام و نمود کے لیے سرگرداں رہتے ہیں، لیکن یہ ان سے گریزاں رہتی ہے، کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس کے خواہاں تو نہیں ہوتے لیکن یہ ان کے پیچھے لگی رہتی ہے اور وہ نہ صرف اپنے معاصروں اورہم چشموں میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں بلکہ اپنی وفات کے بعد بھی محبت سے یاد کیے جاتے ہیں، ڈاکٹر محمد اسحق (جن کو مرحوم لکھتے وقت دلی رنج ہوتا ہے) ایسے ہی لوگوں میں تھے۔
وہ ۱۲؍ ستمبر ۱۹۶۹؁ء کو کلکتہ میں حرکت قلب کے بند ہوجانے سے اﷲ کو پیارے ہوئے، ان کا کوئی سوانح نگار ان کے سوانح حیات لکھنے بیٹھے تو ان کی روداد زندگی کو طویل اور ضخیم تو نہیں بناسکتا لیکن ان کے کارنامے کچھ ایسے ہیں جن کو قلمبند کرنے میں ان کی روداد حیات اگر طویل نہیں ہوسکتی ہے تو دلنشین ضرور ہوجائے گی۔
وہ کلکتہ میں ۱۸۹۸؁ء میں پیدا ہوئے، وہاں کے مدرسہ عالیہ اور ہیر اسکول میں تعلیم پائی، پھر اسکاٹش چرچ کالج سے ۱۹۲۱؁ء میں بی ایس سی کیا، سائنس کی تعلیم پانے کے بعد ایم، اے میں عربی لے لی، ۱۹۲۳؁ء میں کلکتہ یونیورسٹی سے اس مضمون میں فرسٹ کلاس پایا، ۱۹۲۴؁ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں عربی اور اسلامیات کے لکچرار مقرر ہوئے، ۱۹۲۶؁ء میں کلکتہ اسلامیہ کالج میں عربی و فارسی دونوں مضامین کے لکچرار ہوکر اپنے مولد واپس آگئے، ۱۹۲۷؁ء میں کلکتہ یونیورسٹی کے لکچرار ہوگئے، جہاں ۳۳ سال کی خدمت کے بعد اسی یونیورسٹی سے عربی اور فارسی کے ریڈر اور صدر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ ان کے علمی ذوق کے تنوع کا اندازہ اس سے ہوگا کہ سائنس کی تعلیم پانے کے باوجود عربی اور فارسی کا ذوق بہت اچھا رکھتے تھے، عربی میں ایم،اے کی ڈگری حاصل کی لیکن فارسی پڑھاتے رہے، اس زبان کی جو خدمت انجام دی ہے، وہ ان کی زندگی کا نمایاں کارنامہ ہے، وہ اپنی ملازمت کے زمانہ میں ۱۹۳۸؁ء میں لندن گئے وہاں پروفیسر ولڈ امیر منورسکی کی نگرانی میں اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز میں کام کرتے رہے اور جدید فارسی شاعری پر ایک مقالہ لکھ کر پی، ایچ، ڈی کی ڈگری پائی، پھر سوئزرلینڈ، فرانس اور اٹلی کی بھی سیاحت کی، ہندوستان واپس آئے تو ایرانی زبان و ادب پر ان کی واقفیت کی شہرت بڑھتی گئی، مشہور مستشرقین رینالڈ نکالسن اور ال، لوک ہارٹ سے ان کے تعلقات پیدا ہوئے، اسی شہرت کی بنا پر فردوسی کی ہزار سالہ برسی کے جشن کے موقع پر ایران کی حکومت نے ان کو مدعو کیا، وہ طہران اور طوس گئے تو بغداد، بصرہ، کربلا اور نجف کی بھی سیاحت کی۔
فارسی زبان و ادب سے ان کو فطری دلچسپی تھی، اس لیے ایران کے قیام کے زمانہ میں وہاں کے معاصر شعرا سے متاثر ہوکر ایک کتاب ’’سخنوران ایران درعصر حاضر‘‘ دو جلدوں میں قلمبند کی، جو ۱۳۵۱؁ھ اور ۱۳۵۵؁ھ میں شائع ہوئیں، یہ علمی حلقہ میں بہت پسند کی گئیں، جو مقبول اور کئی لحاظ سے مفید بھی ثابت ہوئیں، ان دونوں جلدوں کو ایران کی جدید فارسی شاعری کا خزینہ ازریں سمجھنا چاہئے، ہندوستان کا ادبی حلقہ تو ایران کے قدیم شعراء سے اچھی طرح واقف تھا، لیکن وہاں کے جدید شعراء سے بیگانہ ہوگیا تھا، اس کتاب کے ذریعہ وہ ہندوستان میں روشناس ہوئے، جس سے ہندوستان و ایران کے پرانے ثقافتی تعلقات کی تجدید بھی ہوئی، ہندوستان کے مغل حکمرانوں کے زمانے میں تو ہندوستان و ایران فارسی زبان کے شعراء کے لیے ایک ہی مکان کے دو صحن تھے، لیکن برطانوی حکومت میں لندن تو ہندوستان سے قریب ہوگیا، مگر ایران دور ہوگیا۔ ڈاکٹر اسحق کی اس کتاب کی اشاعت کے بعد ہندوستان سے ایران کی دوری بہت حد تک کم ہوگئی اور ہندوستان کے ادبی حلقہ میں ایران کے جدید شعراء سے دلچسپی پیدا ہونے لگی۔
ان دونوں جلدوں میں تقریباً ۸۳ شعرا کا تذکرہ ہے، شروع میں ان کے مختصر حالات ہیں، پھر ان کے کلام پر تبصرہ اور ان کے نمونے ہیں، ڈاکٹر اسحق نے یہ دونوں جلدیں جدید فارسی میں لکھی ہیں، ایران کے دانشور سبک ہندی کو پسند نہیں کرتے، اسی لیے وہ ہندوستان کی فارسی نثرو شاعری کی تعریف کرنے میں بخل سے کام لیتے ہیں لیکن ڈاکٹر اسحق نے اپنی دلنشین تحریروں کے ذریعہ سے ان کو اپنی طرف مائل کیا، اور ان سے خراج تحسین بھی حاصل کیا، ایران کے آقای سید محمد علی جمال زادہ نے اس کتاب کی ابتدا میں تقریظ و تشکر کے عنوان سے ایک تحریر لکھی ہے، اس کے شروع میں وہ لکھتے ہیں:
’’جمع اور ندہ کتاب مستطاب، سخنوران ایران اور عصر حاضر‘‘ آقای محمد اسحق از فضلائے ہندوستان ومعلم در دارالعلوم کلکتہ بسابقہ علاقمندی بایران و ادبیات فارسی چندی قبل بایران آمدہ و مدت مدیدی دراطراف و اکناف مملکت ماسیر و سیاحت نمودہ درضمن نیز ہرکجا اتفاق یاری کردہ بابزرگان نظم و نثر ایران آشنانی و نشست و برخاست نمودہ و بدین وسیلہ گلچیں گلچیں ہمانظور کہ خود ایشان در مقدمہ کتاب باعباراتی شیریں و مضامینی دلنشین اشارہ فرمودہ انداز گلستان مرزدبوم فردوسی و سعدی و حافظ ہموطنان خویش و مشتاقان علم و ادب راہ امنے پراز گل و دیحان و معنی و عرفان از ایران ارمغان آوردہ اند برما ایرانیان فرض است کہ از علوحمت ایشان و دل بستگی کہ بادبیات ماداند سپاسگذاری نمودہ و مسلست نمائیم کہ توفیقات یزوالی شامل حامل ایشان باشد‘‘۔
اور پھر ڈاکٹر اسحق نے جس محنت اور سلیقہ سے اس کتاب کی ترتیب دی ہے، اس کی تعریف کرتے ہوئے سید محمد علی جمال زادہ رقمطراز ہیں:
’’بندہ نگارندہ بااجازہ ضمنی از جانب کلیہ ہموطنان و ادباو فضلای ایران و اشخاص بیگانہ کہ باادبیات فارسی تعلق خاطر و دل بستگی دار ندوہ واج آنر اخواستار مشوق می باشند از مولف محترم صمیمانہ تشکر نمودہ و برہمت عالی ایشان آفریں می خوانم‘‘۔
اس کتاب کی اشاعت پر آقای میرزا محمد علی خان فروغی ذکاء الملک (رئیس الوزرای سابق ایران) نے ایک مکتوب میں ڈاکٹر اسحق کو یہ لکھ کر مبارک باد دی:
’’از دریافت کتاب سخنوران ایران اور عصر حاضر بسیاء خوشنود شدم وبرمراتب اخلاصم نسبت بآں دوست دانشمند بسی افزود‘‘۔
خود حکومت ایران نے ڈاکٹر اسحق کی اس ادبی خدمت کو نشان علم کا تمغہ عطا کرکے سراہا، جو ایک ہندوستانی کے لیے بڑا امتیاز ہے۔
ڈاکٹر اسحق نے اپنے مقدمہ میں ایران کی جدید شاعری کا تجزیہ بھی کیا ہے، ان کا بیان ہے کہ ایران کے جدید دور میں کچھ ایسے شعرا ضرور ہیں جو پرانے اساتذہ کی تقلید میں غزلیں، قصیدے اور مراثی لکھتے ہیں لیکن اس جدید دور میں ایسے شعرا بھی ہیں، جو روایتی شاعری سے بغاوت کرکے زیادہ تر ایسی نظمیں لکھتے ہیں جن میں وطن کی محبت کا تو اظہار ہوتا ہے لیکن پرانی چیزوں پر استہزاء بھی ہوتا ہے، وہ مذہبی موضوعات پر نظمیں نہیں لکھتے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مذہب سے بیگانہ ہوتے جارہے ہیں، وہ زیادہ تر سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی مسائل کو اپنی شاعری کے موضوعات بناتے ہیں، گو اپنے انداز بیان کو سلیس اور عام فہم بھی بناتے ہیں لیکن اس ادبی انقلاب سے ڈاکٹر اسحاق خوش نہ تھے، چنانچہ اس سلسلہ میں وہ لکھتے ہیں:
’’ایں انقلاب ادبی معایبی نیز در برداشت کہ شاید اگر بدقت سنحیدہ شوباید گفت ادبیات ایران دریں معاملہ چنداں سوہ نبردہ است‘‘۔
ڈاکٹر اسحق کو اس بات سے بھی دکھ ہوا کہ اہل ایران اپنی شاعری اور روزمرہ کی گفتگو میں فرانسیسی اور دوسری یورپین زبانوں کے الفاظ بہت استعمال کرنے لگے ہیں، اس دکھ کا اظہار وہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’نمنی توانستم تصور کنم کہ ادبای ایران بدست خویش تیشہ برویشہ زبان خودی زنند و درفنا و اضمحلال ایں زبان شیریں ادبی می کوشند‘‘۔
لیکن ان نکتہ چینیوں کے ساتھ انھوں نے جدید شعرا کے کمالات پر دل کھول کر داد بھی دی ہے یہاں پر ان کی داد کے کچھ نمونے اس لیے بھی ہم پیش کرتے ہیں تاکہ فارسی میں ان کے طرز تحریر کا بھی اندازہ ہوجائے،
ادیب نیشاپوری (پیدائش، ۱۲۸۱؁ھ) در شاعری بدواً پیروقاأنی بود، وبعداً شیوۂ ترکستانی راتعتیب نمودہ و ورعین حال خود دارامی سبک مخصوصی است و حقیقتاً درحقیقت در شاعری کمترکسی پبایہ ادی رسد انتخاب الفاظ و انسجام ترکیبات و اظہار معانی دقیقہ و عواطف دردنی ازمرآیای اشعار اوست‘‘۔
ایرج میرزا (المتوفی ۱۳۴۳؁ھ) اشعار ایرج مرزا تقریباً می تواں بہترین نمونہ ادبیات جدید ایران شمرد زیر اعلادہ برابنکبہ و دلچسپ و شامل مضامین بدیع و شیواست داری استحکام و متانت کلام قدمامت نہ چوں پیردان متقدمین نکتہ چیں کلمات عرب است ونہ چوں متجددین دشمن علم و ادب است‘‘۔
بدیع الزماں خراسانی (پیدائش، ۱۳۱۸؁ھ) درخطابہ و نطق نیز مقام مہمی راحائیز است اشعار اوبسبک ترکستانی و دارای مضامین دل نشین می باشد‘‘۔
پرویں اعتصامی (پیدائش، ۱۳۲۸؁ھ) افکار ایں گویندہ متجدو فصائح و اندوز است کہ بوسیلہ افسانہ ہائے دلکش و شیریں بیان شدہ، ولمجنس راجع باجتماعیات و وطن قطعات بسیاری بطرز جدید و قدیم ساختہ است، غزل کمتر از دیدہ شدہ‘‘۔
محمود خاں افشاز (پیدائش، ۱۳۱۳؁ھ) اشعارش بسبک قدما امابہ مضامین جدید و وضعی بسیاء مطبوع و شیریں می باشد‘‘۔
روحانی۔ فکاہیات بسبکی خاص و اسلوبی سادہ کہ ہم مطبوع طبع عامہ است وہم ورنزد ارباب ادب مطلوب و دل پسند‘‘۔
میرزا حسین خاں عطا (پیدائش، ۱۲۹۳؁ھ) عطا منشی زبردست شاعر و توانائی می باشد در شاعری بیشتر پیر دسبک شعرای عراق است ودرشعر مضامین دقیق و کلمات رقیق بسیاء دارد دردی ہم رفتہ شاعر بسیار حساس درقیق القلبی باشد و طبع اوبعرفان بہترمائل است‘‘۔
ملک الشعراء بہار (پیدائش، ۱۳۰۴؁ھ) بہار بدوں اختلاف امروز از بزرگ ترین شعراء نوسیدگان محسوب․․․․․․․ راہ عراق رانہ پیمودہ، است، چہ درفن نظم و نثر شیوا بنایت مہارت رادر درمبدع و مبتکر و پیشر و ادبیات جدید ایران است۔
ڈاکٹر اسحق ان ایرانی شعراء کی تعریف کرتے وقت سبک ہندی سے مجبوب یا شرمندہ ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے، بلکہ انھوں نے اپنی کتاب کی ابتدا ادیب پیشاوری (پیدائش درمیان سال ۱۲۵۰؁ھ، ۱۲۶۰؁ھ) کے تذکرہ سے کی ہے، اس ہندی الاصل شاعر نے ایران والوں سے اپنا لوہا منوالیا تھا۔ چنانچہ مرزا محمد قزوینی نے اپنی کتاب بست مقالہ میں ان کو بقیۃ الفضلاء خاتمۃ الادباء اور بابغہ عصر کہا ہے، ان کا ذکر ڈاکٹر اسحق نے بھی بہت فخر سے کیا ہے، پھر وہ حیدر علی کمالی اصفہانی (پیدائش، ۱۲۸۸؁ھ) کے ذکر میں لکھتے ہیں:
اشعار کمالی بااینکہ دار ای سبک اشعار شعرای فارس و عراق است معہذانہ حیث لطافت و دقت فکر بابہترین اشعار سبک ہندی برابری وارد‘‘۔
اس کے یہ معنی ہیں کہ سبک ہندی میں جو لطافت اور دقت فکر ہوتی ہے، ڈاکٹر اسحق اس کے نہ صرف قائل تھے، بلکہ سبک ایرانی اور سبک عراقی میں شاید نہ پاتے تھے لیکن سبک ہندی سے تعلق خاطر رکھنے کے باوجود وہ سبک ایرانی کے بھی معترف رہے، ان کی اس رہ داری کی وجہ سے ایران کے ممتاز شاعر اور ادیب مثلاً ملک الشعراء تقی بہار پروفیسر پور داؤد، ڈاکٹر لطف علی صورت گر اور ڈاکٹر علی اصغر حکمت، سید محمد علی جمال زادہ اور میرزا محمد علی فروغی ان کے دوست اور قدرداں رہے، موجودہ شہنشاہ ایران اعلیٰ حضرت محمد رضا پہلوی آریا مہر بھی ان کی عزت کرتے تھے، اسی لیے ایران میں دو مرتبہ ان کے حضور میں باریاب ہوئے۔
فارسی شاعری سے ڈاکٹر اسحق کے شغف کا اظہار انگریزی میں ان کی کتاب ایران کی چار مشہور خواتین شاعر سے بھی ہوتا ہے، اس میں انھوں نے قزدر کی رابعہ، گنجہ کی مہستی، قرۃالعین اور پروین اعتصامی کی شاعری پر فاضلانہ تبصرہ کیا ہے، مہستی کا وہی زمانہ تھا جو رودکی (المتوفی، ۳۲۹؁ھ) کا تھا، وہ ایک غلام سے عشق کرنے کے سلسلہ میں موت کے گھاٹ اتاری گئی، مگر اس کا ذکر تذکروں میں احترام سے کیا جاتا ہے، حتی کہ ملا جامی نے اس کا ذکر فضحاالانش میں کیا ہے (ص۶۵، ۵۶۴ لکھنؤ اڈیشن) ڈاکٹر اسحق نے اس کی بہت سی رباعیاں اپنی کتاب میں جمع کردی ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ اس کے عشقیہ اشعار واردات قلبی کی عکاسی کرتے ہیں اور بعض رباعیوں میں قدرتی مناظر کی بڑی اچھی مرقع آرائی ہے، جن میں دل آویز انداز بیان کے ساتھ روانی بھی ہے اور تشبیہات اور تلمیحات کی برجستگی بھی، مہستی کا زمانہ کا صحیح تعین ڈاکٹر اسحق نہیں کرسکے ہیں، انھوں نے دو مختلف روایتیں بیان کی ہیں، ایک سے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ سلطان سنجر (۵۵۲، ۵۱۱؁ء۔ ۱۱۵۷، ۱۱۱۷؁ھ) کے دربار کی شاعرہ تھی اور دوسری روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سلطان محمود غزنوی کے زمانہ میں تھی، ڈاکٹر اسحق نے اس کی بہت زیادہ رباعیاں جمع کردی ہیں، اس کے عشقیہ اشعار کو وہ غیر سنجیدہ قرار دیتے ہیں لیکن اس کے خمریات کے بارہ میں لکھتے ہیں کہ وہ خیام کی یاد تازہ کرتے ہیں، ڈاکٹر اسحق یہ بھی لکھتے ہیں کہ وہ فی البدسیہ اشعار کہتی اور حاضر جوابی میں بہت مہارت رکھتی تھی، ڈاکٹر صاحب نے بانی مذہب کی مشہور مبلغہ قرۃالعین (پیدائش، ۱۲۳۰-۳۱؁ھ۔ ۱۸۱۴-۱۵؁ء) کے اشعار بھی جمع کیے ہیں، گو وہ خود ان کو اس کے اشعار سمجھنے میں شامل ہیں لیکن ان کو پیش کرتے وقت انھوں نے کچھ ایسا انداز بیان اختیار کیا ہے کہ ناظرین مشکوک تو ضرور ہوجاتے ہیں، مگر ان اشعار کو رد کرنے میں ہچکچاہٹ بھی محسوس کرتے ہیں، ڈاکٹر اسحق نے پروین اعتصامی کے کلام پر تبصرہ نسبتاً زیادہ تفصیل کے ساتھ کیا ہے، اس لایق شاعرہ نے زندگی کم پائی ۱۹۱۰؁ء میں پیدا ہوئی اور ۱۹۴۰؁ء میں وفات پاگئی لیکن اس نے اپنی زندگی کی اس مختصر مدت میں پانچ ہزار اشعار کہے۔ ڈاکٹر اسحق نے اپنی پہلی کتاب سخنوران ایران اور عصر جدید میں اس کا ذکر مختصر طریقہ پر کیا تھا لیکن اپنی انگریزی تصنیف میں اس کی وفات پر دلگیر ہوکر اس کی شاعری کا گہرا مطالعہ کیا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ وہ تجدد پسند شاعرہ ضرور رہی لیکن اس کے کلام میں وہ عشقیہ اور رومانی جذبات نہیں جن سے فارسی شاعری پر ہے، عورت ہونے کے باوجود اس نے اپنے کلام میں طبقہ نسواں کی فلاح و بہبود میں کچھ بھی نہیں کیا، اس نے زیادہ تر مناظرہ کے رنگ میں نظمیں کہی ہیں جو بعض تو بہت اچھی ہے لیکن زیادہ تر وہ طویل اور خشک ہیں، البتہ کہیں کہیں سوال و جواب دلچسپ اور دلآویز ہیں، اس کی اخلاقی نظمیں موثر ہیں، جن کو قصوں سے دلچسپ بھی بنادیا ہے، اس نے ان نظموں میں رحم دلی اور طبیعت کی صفائی اور پاکیزگی پر زیادہ زور دیا ہے، وہ مزدوروں کی بھی حامی رہی، ان کی حمایت میں رنج برکے عنوان سے ایک پرزور نظم لکھی جس کا مطلع یہ ہے:
تابکے جان کندن اندر آفتاب اے رنجبر رنجتن ازہرنان ازچہرہ آب اے رنجبر
ان چاروں خواتین پر ڈاکٹر اسحق کا قلم چلا تو ان کو فارسی کی اور دوسری خواتین شاعرہ بھی یاد آگئیں، انھوں نے اسی کتاب کے ایک ضمیمہ میں ایران اور ہندوستان کی تقریباً سو شاعرہ کا ذکر کرکے ان کے کلام کے نمونے دیئے ہیں، اس کا مطالعہ ایسے ناظرین کے لئے مفید ہوگا جو سرسری طور پر ایسی باکمال خواتین کے متعلق کچھ جاننا چاہتے ہیں، لیکن اس ضمیمہ کی روشنی میں ان خواتین پر پوری ایک کتاب تیار ہوسکتی ہے، اس لحاظ سے ڈاکٹر اسحق کی یہ محنت بڑی کارگر ثابت ہوگی۔
انھوں نے ۱۹۶۳؁ء میں بنگال ایشیاٹک سوسائٹی کے لیے امین احمد رازی کی ہسنت اقلم (ج۳) کو ایڈٹ کیا، جس میں ہندوستان، ایران اور دوسرے ممالک کے ۲۹۷ فارسی شعراء کا ذکر ہے، ایشیاٹک سوسائٹی کے لئے روحنۃ الجنات فی اوصاف مدینۃ الہرات کو بھی ایڈٹ کیا اور اس کے عربی مخطوطات کی فہرست بھی تیار کی، اپنی آخری زندگی میں علی قلی داغستانی کی ریاض الشعراء کو بھی ایڈٹ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، اور غزنوی عہد کے فارسی شعراء پر ایک کتاب بھی لکھ رہے تھے لیکن ان کی زندگی نے وفا نہ کی اس لیے یہ دونوں کام پورے نہ ہوسکے۔
ان علمی سرگرمیوں کے ساتھ انھوں نے ۱۹۴۴؁ء میں کلکتہ میں ایران سوسائٹی قائم کی، جو ان کی زندگی کا اصلی راس المال ہے، اس کی جو تاریخ ہے وہ گویا ان کی تاریخ زندگی ہے، اس کے ذریعہ سے گذشتہ پچیس سال کے اندر جو علمی و ادبی کام ہوا ہے وہ دراصل ان ہی کے زریں کارنامے ہیں۔ یہ سوسائٹی ہندوستان کے علمی حلقہ کے لیے ایک ایسی مثال ہے کہ علم و فن کا ایک خدمت گذار اپنے اخلاص و محنت سے بے سروسامانی کی حالت میں بھی علمی سرگرمیوں اور تحقیق کاوشوں کا ایک ایسا مرکز قائم کرسکتا ہے جو نہ صرف اس ملک بلکہ اس سے باہر کے ارباب علم کے لیے بھی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے، ڈاکٹر اسحق نے جب اس کی بناڈالی تو ان کے پاس جذبہ و اخلاص کے سوا کوئی اور سرمایہ نہ تھا لیکن اب اس کے پاس ایک ایسی عمارت ہے جو کئی لاکھ کی ہے، اس کا اپنا کتب خانہ بھی ہے، اس کی علمی سرگرمیوں سے ملک کے ثقافتی سرمایہ میں بڑا قیمتی اضافہ ہوتا جارہا ہے، گذشتہ پچیس برس میں اس کی طرف سے جو کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ ان میں سے کچھ کے نام یہ ہیں:
(۱)البیرونی یادگار جلد۔ یہ کتاب ۱۹۵۲؁ء میں البیرونی کی ہزار سالہ برسی کے موقع پر شائع ہوئی، اس میں امریکہ، یورپ، ایران اور ہندوستان کے اہل قلم کے گرانقدر مضامین ہیں، ۳۰۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ (۲)ہندوستانی جغرافیہ سے متعلق البیرونی کی معلومات از ڈاکٹر بی،سی،لا۔ (۳)البیرونی۔ سوانح حیات از ریوزنڈ فارد دی۔ کورتے۔ (۴)البیرونی اور پنڈت از ایضاً۔ (۵)ایران کی چار مشہور خواتین شاعرہ از ڈاکٹر محمد اسحق۔ (۶)فرد۔ بہار کا ایک گمنام فارسی شاعر از پروفیسر مسعود الحسن۔ (۷)بوعلی سینا، یادگار جلد ۱۹۵۶؁ء میں بوعلی سینا کی ہزار سالہ برسی کے موقع پر شائع کی گئی، اس میں بھی مختلف ممالک کے اہل قلم کے مضامین ہیں، ۳۲۴ صفحے پر مشتمل ہے۔ (۸)کشمیر سلاطین کے عہد میں۔ از پروفیسر محب الحسن۔ (۹)دیوان کاہی از ڈاکٹر ہادی حسن۔ (۱۰)فارسی ادب کی ایک ایک جھلک، از ڈاکٹر علی اصغر حکمت۔ (۱۱)نقش پارسی، براجحاہند، از ڈاکٹر علی اصغر حکمت۔ (۱۲)الادویۃ القبلیہ مصنفہ بوعلی سینا مترجمہ حکیم عبداللطیف۔ (۱۳)ہدیۃ السلطانیہ مصنفہ قاضی محمد یوسف بلگرامی، مرتبہ مولانا فضل الرحمن باقی۔ یہ ساری کتابیں ڈاکٹر اسحق مرحوم کی مساعی جمیلہ میں شائع ہوئیں، ایران سوسائٹی کی طرف سے ملا صدر خمیرازی کی چار سو سالہ برسی کا جشن منایا گیا اور پروفیسر ایڈورڈ براؤن کی بھی صدسالہ سالگرہ منائی گئی، ان دونوں مشاہیر پر قابل قدر لٹریچر شائع کیا گیا۔
اس سوسائٹی کی طرف سے انگریزی میں ایک سہ ماہی رسالہ انڈوایرانیکا بھی نکلا کرتا ہے جس کی اب تک ۲۴ جلدیں نکل چکی ہیں، ان جلدوں کے مطالعہ سے معلوم ہوگا کہ ان کے ذریعہ سے ہندوستان اور ایران کے تعلقات کو کس قدر خوشگوار کرنے کی کوشش کی گئی ہے، پھر اس میں ہندوستان کے فارسی لٹریچر پر اتنے مفید اور گرانقدر مضامین نکلے ہیں کہ ان سے نہ صرف علمی سرمایہ میں اضافہ ہوا ہے بلکہ سب ہندی کی طرف اہل ایران کی بھی نظر اٹھنے لگی ہیں، اگر اس میں اسی طرح کے مضامین شائع ہوتے ہیں تو سبک ہندی کے خلاف سبک ایرانی کے حامیوں کے تعصب میں بڑی کمی ہوجائے گی، اور خود ہندوستان والے اس علمی و ادبی ورثہ پر فخر کرنے لگیں گے، جس کے بعد ان کو ڈاکٹر اسحق مرحوم کے کارناموں کا یہ دل سے شکر گزار ہونا پڑے گا، کیونکہ انڈوایرانیکا ان ہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
ڈاکٹر اسحق نے ایران سوسائٹی اور رسالہ انڈوایرانیکا کو اپنا قلب و جگر بنارکھا تھا، ان ہی کے لیے وہ زندہ رہے اور مرے، جب اس سوسائٹی کے پچیس سال ہوئے تو اس کی سلور جوبلی اعلیٰ پیمانہ پر منانے کی فکر میں تھے اور انڈوایرانیکا ایک سلور جوبلی نمبر ترتیب دے رہے تھے، مگر یکایک وہ جنت کو سدھادے، ان کی یہ آرزو میں ان کی زندگی میں پوری نہ ہوئیں، وہ سوسائٹی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار رہتے، اس جذبہ اخلاص کو دیکھ کر اہل ثروت ان کی خاطر سوسائٹی کو بڑے سے بڑا سرمایہ دیتے ہیں پس و پیش نہ کرتے۔ سوسائٹی کی موجودہ عمارت کو خریدنے کے لیے ان کے پاس کچھ بھی سرمایہ نہ تھا، لیکن اس کے صدر جناب ام ، راے، راے کاشانی نے ان کو تین لاکھ روپے کا قرض کسی شرط کے بغیر دے دیا، جس سے یہ عمارت خرید لی گئی، مولانا ابوالکلام آزاد اور پورفیسر ہمایوں کبیر نے اپنی وزارت کے زمانہ میں سوسائٹی کو حکومت ہند کی طرف سے سالانہ امداد دلاتے رہے، ان کے بعد یہ امداد بند ہوگئی تو ڈاکٹر اسحق مرحوم کی جبیں پر شکن نہ آئی، مغربی بنگال کی حکومت کلکتہ کارپوریشن اور کبھی کبھی حکومت ایران سے جو تھوڑی بہت مالی مدد مل جاتی اسی سے سوسائٹی کا کام حسب دستور جاری رکھا، ان کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ کام کرنا جانتے تھے، اس لیے کام لینا بھی جانتے تھے، انڈوایرانیکا کے لیے اہل قلم کے مضامین ایسے شفقت آمیز خطوط لکھ کر طلب کرتے کہ پھر مضمون لکھ کر بھیجنے کے سوا کوئی اور چارہ نہ ہوتا، ان ہی کی محبت بھرے خطوط کی وجہ سے میں نے بھی اس رسالہ مضامین میں لکھنے شروع کیے اور برابر لکھتا رہا، وہ مجھ کو بہت ہی اخلاص اور شفقت سے خطوط لکھتے، اگر میرے جواب جانے میں دیر ہوتی تو تروہ اور پریشانی کا اظہار کرتے، جب وہ کلکتہ یونیورسٹی سے ریٹائر ہوئے تو مجھ کو اپنی محبت میں کلکتہ یونیورسٹی کے اسٹاف میں دیکھنا چاہتے تھے، تاکہ میری قربت ان سے اور بھی زیادہ ہوجائے، اس کے لیے مجھ کو ایک پرزور خطوط لکھا، مگر دارالمصنفین کے کاموں سے میری دلچسپی ایسی زیادہ ہوگئی ہے کہ میں نے ان خط کے جواب میں لکھ بھیجا:
چسکا لگا ہے جام کا شغل ہے صبح شام کا اب میں تمھارے کام کا ہم نفسو نہیں رہا
یہ جواب پاکر آزدہ خاطر ہونے کے بجائے میرے لیے بہت دعائیں کیں، میں اکتوبر ۶۹؁ء میں ڈھاکا جانے والا تھا، ان کا اصرار تھا کہ جب میں کلکتہ آؤں تو ان کے ساتھ قیام کروں، چنانچہ ستمبر کے شروع میں ان کو لکھا کہ ڈھاکہ جاتے وقت ان کے ساتھ قیام کرنے کی سعادت حاصل کرنے کا ارادہ ہے۔ اس کے جواب میں ان کی اہلیہ کی طرف سے ایک مکتوب ملا تو دل پکڑ کر گیا، ۱۲؍ ستمبر کو وہ وہاں پہنچ گئے جہاں آخر میں سب کو جانا ہے، ان کی رحلت کی خبر پاکر ایسا معلوم ہوا کہ اپنے خاندان کا ایک شفیق بزرگ کھوبیٹھا ہوں۔
وہ یاد آئیں گے اور اکثر یاد آئیں گے۔ انھوں نے تو سب کو بھلادیا، مگر ان کو دل سے بھلائے گا کون؟ ان کی بے لوث علمی خدمت ان کے نام کو زندہ رکھے گی، ان کے کام کرنے کا طریقہ اور سلیقہ ان کے معاصروں کے لیے چراغ راہ ہے، ان کے رفقائے کار محض اس اخلاص و محبت کی خاطر جس کے وہ اعلیٰ نمونہ تھے، ان کے چھوڑے ہوئے کاموں کو اور آگے بڑھائیں گے اور جب وہ ان کو یاد کریں گے تو زبان حال سے کہہ رہی ہوں گے کہ آہ! تو اس دنیا میں نہیں رہا، لیکن اخلاص سے بھری ہوئی تیری علمی سرگرمیوں، تیری نیکیوں اور تیری خوبیوں کی شمع تیرے جاننے والوں کے دلوں میں روشن رہے گی، تیری تربت پر اﷲ تعالیٰ کی برکتوں اور رحمتوں کی بارش ہوتی رہے اور تجھے کروٹ کروٹ جنت نعیم عطا ہو، آمین ثم آمین۔
ان سطروں کے چھپنے کے وقت ڈاکٹر اسحق مرحوم کے بے لوث رفقائے کار جناب خواجہ محمد یوسف ایڈوکیٹ نائب صدر ایران سوسائٹی اور جناب ام عبدالمجید صاحب ایکٹنگ جنرل سکریٹری کی کوششون سے اس سوسائٹی کی سلور جوبلی دھوم دھام سے منائی جارہی ہوگی۔ ڈاکٹر اسحق مرحوم کی روح خوش ہورہی ہوگئی کہ جو آرزو ان کی زندگی میں پوری ہونے سے رہ گئی تھی، وہ ان کے بعد ان کے دست راست رفقائے کار کے ذریعہ پوری ہوگئی، اب دونوں علم دوست اور مخلص حضرات سے امید کامل ہے کہ مرحوم کے چھوٹے ہوئے کاموں کو اسی لگن اور دھن کے ساتھ انجام دیتے رہیں گے، جس طرح کہ خود مرحوم دیتے رہے۔ (’صباح الدین عبدالرحمن، مارچ ۱۹۷۰ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...