1676046599977_54338117
Open/Free Access
298
حکیم حافظ خواجہ شمس الدین لکھنوی
افسوس ہے کہ گذشتہ مہینہ دو ممتاز اہل علم نے وفات پائی، حکیم حافظ خواجہ شمس الدین لکھنوی اور سید اختر علی صاحب تلہری، حکیم صاحب تنہا حاذق طبیب ہی نہیں تھے، بلکہ عربی زبان اور اسلامی علوم کے فاضل بھی تھے اور شعر و ادب کا بڑا ستھرا ذوق رکھتے تھے طب یونانی کے تو ماہر ہی تھے، اور اب لکھنؤ میں اس کی عظمت انہی کے دم سے قائم تھی، طب کی کتابوں کا درس بھی دیتے تھے جن کے پڑھانے والے اب کم رہ گئے ہیں، آداب و اخلاق میں لکھنؤ کی پرانی تہذیب اور وضعداری کا نمونہ تھے، لکھنؤ کے متعدد قومی ملی اداروں کے رکن تھے اور ان کے کاموں میں بڑی دلچسپی سے حصہ لیتے تھے، ندوہ سے خاص تعلق تھا، اور اس کی مجلس منتظمہ کے جلسوں میں بڑی پابندی سے شریک ہوتے تھے، مولانا عبدالباریؒ فرنگی محل کے شاگرد بھی تھے اور مرید بھی، اس تعلق سے ان سے بہت پرانی شناسائی تھی آخر میں تصوف کی طرف زیادہ رجحان ہوگیا تھا، اب طب یونانی کے ماہر اٹھتے جارہے ہیں، طبی درسگاہوں سے طبیب کے بجائے ’’ڈاکٹر‘‘ پیدا ہونے لگے ہیں اور خالص فن طب ختم ہوتا جاتا ہے، مرحوم لکھنؤ میں اس کی آخری یادگار تھے، ان کی موت سے فن طب اور پرانی تہذیب و شرافت کی ایک بڑی یادگار مٹ گئی۔ اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ (شاہ معین الدین ندوی،مئی ۱۹۷۱ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |