Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > پروفیسر سید احتشام حسین

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

پروفیسر سید احتشام حسین
ARI Id

1676046599977_54338139

Access

Open/Free Access

Pages

318

پروفیسر سید احتشام حسین
پروفیسر سید احتشام حسین صدر شعبۂ اردو الٰہ آباد یونیورسٹی کی ناگہانی وفات علمی و ادبی دنیا کا بڑا سانحہ ہے، مرحوم اس دور کے چوٹی کے ادیبوں اور نقادوں میں تھے، ترقی پسند ادب کے تو معلم و رہنما تھے، اس دور کے نوجوان ادیبوں کی پوری نسل ان سے متاثر ہوئی، جدید ادب کے ساتھ قدیم ادبیات پر بھی ان کی نظر بڑی گہری، اور مبصرانہ تھی، اور وہ اس کی اچھی روایات کے بھی قدرشناس تھے، لسانیات سے بھی واقف تھے، انھوں نے سیکڑوں ادبی و تنقیدی مضامین اور بعض مستقل کتابیں لکھیں، اگرچہ وہ ترقی پسندوں کے امام تھے لیکن ان کے خیالات میں بڑا اعتدال و توازن اور زبان و قلم دونوں میں بڑی شایستگی تھی، اس لئے جدید کے ساتھ قدیم طبقہ میں بھی ان کی بڑی قدر تھی، وہ ابتداء میں لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے لکچر مقرر ہوئے اور تقریباً ۱۵- ۱۶ سال اس عہدہ پر رہے، پھر الٰہ آباد یونیورسٹی اردو کے صدر ہوگئے تھے، اردو کی تمام اہم مجالس کے ممتاز رکن تھے، کوئی اہم ادبی اجتماع ان کے بغیر کامیاب نہ سمجھا جاتا تھا، انھوں نے مختلف حیثیتوں سے اردو کی بڑی قیمتی خدمات انجام دیں اور ہر محاذ پر اردو کے مخالفین کا مقابلہ کیا۔
ان علمی کمالات کے ساتھ وہ طبعاً بڑے متین، سنجیدہ، شریف اور وضعدار تھے، ان کے علم سے زیادہ ان کے اخلاق و شرافت کا اثر پڑتا تھا، دارالمصنفین سے ان کو دہرا تعلق تھا، ایک علمی و ادبی دوسرا وطنی، ماہل ضلع اعظم گڑھ ان کا وطن تھا، ہائی اسکول تک ان کی تعلیم بھی اعظم گڑھ میں ہوئی تھی، اسی زمانہ سے ان کو دارالمصنفین سے تعلق تھا، جو ہر زمانہ میں یکساں قائم رہا، جب تک وہ لکھنؤ میں رہے، اکثر ان سے ملاقات ہوتی رہتی تھی، الٰہ آباد جانے کے بعد کسی ہندوستانی اکیڈمی کے جلسہ میں اور کبھی اردو کی دوسری مجالس میں ملاقات ہوجاتی تھی، جب ملاقات ہوتی تو اپنی طالب علمی کے زمانہ کے دارالمصنفین کے تمام لوگوں کو فرداً فرداً پوچھتے، اپنے اعظم گڑھ کے شاگردوں کو دارالمصنفین سے استفادہ کی برابر تاکید کرتے رہتے، اور ہر مرتبہ آنے کا وعدہ کرتے جس کے پورے ہونے کی نوبت نہ آئی، ان کی موت سے اردو کا بہت بڑا ستون گرگیا، اور تہذیب و شرافت کا ایک نمونہ اٹھ گیا، اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔
(شاہ معین الدین ندوی، دسمبر ۱۹۷۲ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...