1676046599977_54338143
Open/Free Access
319
غلام احمد فرقتؔ کاکوروی
دوسرا حادثہ غلام احمد فرقت کاکوروی مرحوم کی درد ناک موت کا ہے، انھوں نے عالم مسافرت میں بڑی بیکسی میں جان دی، بہار کے کسی مشاعرے سے واپس آرہے تھے کہ راستہ میں دفعتہ انتقال ہوگیا، مغل سرائے اسٹیشن پر ٹرین میں لاش ملی، ڈائری سے مرحوم کے نام کا پتہ چلا، پولیس نے ضروری کارروائی کے بعد لاش بنارس کی ایک اسلامی انجمن کے حوالہ کردی جس نے اس مشہور ادیب کو لاوارثی میں دفن کیا، اس دردناک حادثہ پر جتنا بھی رنج والم کا اظہار کیا جائے کم ہے۔
فرقت مرحوم فطری ظریف اور طنز و ظرافت میں شوکت تھانوی کا مثنّٰی تھے، مگر ان کی ظرافت محض ہنسنے ہنسانے کا سامان نہ تھی، بلکہ اکبر کی شاعری کی طرح اصلاحی تھی، اور اس سے انھوں نے بڑے مفید کام لیے، اور اس دور کے ادبی اور سماجی فتنوں کا اپنے رنگ میں بھرپور مقابلہ کیا، اس لحاظ سے وہ ادیب ملت تھے، ان کے قلم میں اتنی طاقت تھی اور انداز بیان اتنا دلکش اور موثر تھا کہ ان کے حریف بھی ان کا لوہا مانتے تھے، وہ ان کے طنز پر تڑپ اٹھتے تھے، مگر اس سے لطف لینے پر بھی مجبور تھے، ان کو لکھنؤ کی ٹکسالی زبان پر بھی قدرت تھی، اور لکھنؤ کی پرانی سوسائٹی کی مصوری میں بھی کمال حاصل تھا، اﷲ تعالیٰ ان کی مسافرت کی موت اور اصلاحی خدمات کے صلہ میں ان کی مغفرت فرمائے۔
(شاہ معین الدین ندوی، فروری ۱۹۷۳ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |