Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ڈاکٹر فریدی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ڈاکٹر فریدی
ARI Id

1676046599977_54338151

Access

Open/Free Access

Pages

321

آہ ڈاکٹر فریدی
جس حادثہ کا دھڑکا عرصہ سے لگا ہوا تھا وہ بالآخر پیش آکر رہا اور جس کے ہاتھوں سے اﷲ تعالیٰ نے ہزاروں مایوس مریضوں کو شفا بخشی تھی۔ اس نے بھی گزشتہ ۱۹؍ مئی کو جان جاں آفریں کے سپرد کردی، مرحوم فریدی کے کن کن اوصاف کو یاد کیا جائے۔
اے تو مجموعۂ خوبی بچہ نامت خوانم
وہ ایک حاذق طبیب، بے غرض مخلص اور جری لیڈر اور سراپا انسانیت اور شرافت تھے، قومی و ملی مفاد کے مقابلہ میں کسی طاقت کو خاطر میں نہ لاتے تھے، اس کے لئے آخر وقت تک حکومت سے جنگ کرتے رہے، اور اپنی دولت، صحت اور زندگی کسی چیز کی بھی پروا نہ کی اور ایک بہادر سپاہی کی طرح اس راہ میں جان تک دے دی، انھوں نے قوم و ملت کے لئے جو قربانیاں کیں اس دور کے مسلمانوں میں مشکل سے اس کی مثال مل سکتی ہے، ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے مسلمانوں سے خوف و ہراس اور احساس کمتری دور کرکے ان میں جرات و ہمت پیدا کی، ان کا دامن فرقہ پروری سے بالکل پاک تھا، انھوں نے اقلیتوں اور پسماندہ طبقوں کے مفاد کے لئے مختلف سیکولر پارٹیوں سے مل کر اس کا عملی نمونہ پیش کیا، اگرچہ وہ مسلم مجلس کے بانی اور اس کے صدر تھے، لیکن کانگریسیوں سے بھی ان کے تعلقات تھے، اور وہ بھی ان کی عزت کرتے تھے، ان کی موت پر مختلف طبقوں کے اکابر اور جن کو ان کی سیاست سے اختلاف تھا، انھوں نے بھی جو تاثرات ظاہر کئے ہیں وہ ان کی مقبولیت کے شاہد ہیں۔
اس دور میں وہ تنہا شخص تھے، جس نے سیاست سے کسی قسم کا ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ اپنا کھویا، اگر وہ چاہتے تو حکومت کا بڑے سے بڑا عہدہ حاصل کرسکتے تھے، لیکن اس کی طرف انھوں نے آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا، ان کے پیشہ کی آمدنی بڑے بڑے وزراء کی تنخواہ سے کئی گنا زیادہ تھی، اس کو انھوں نے بڑی فیاضی سے قوم و ملت کی راہ میں صرف کیا اور اپنی سیاسی مشغولیتوں کی وجہ سے ہزاروں روپیہ کا نقصان اٹھایا، ان کی زندگی شاہانہ تھی، مگر قوم کی خاطر انھوں نے اپنے کو سادہ اور سخت زندگی کا عادی بنالیا تھا، جس نے ان کی صحت کو نقصان پہنچایا۔
مریضوں کو ان کی صداقت پر اتنا عقیدہ تھا کہ ان کے پاس پہنچ کر ان کو اپنی صحت کا یقین ہوجاتا تھا، آدھا مرض تو وہ اپنی باتوں سے دور کردیتے تھے، وہ جس پایہ کے ڈاکٹر تھے اگر وہ چاہتے تو ان کی آمدنی دونی ہوسکتی تھی لیکن صبح سے دوپہر تک وہ مریضوں کو مفت دیکھتے تھے، اور بہت سے غریبوں کو دوا بھی اپنے پاس سے مفت دیتے تھے، ان کی شخصیت میں بڑی کشش تھی، ان کی سروقامتی، ہنستا ہوا شگفتہ و شاداب چہرہ، ان کی جامعہ زیبی، ان کا حسن اخلاق ہر چیز دامن دل کھینچتی تھی، وہ عملاً دیندار اور راسخ العقیدہ بلکہ خوش عقیدہ مرد مومن تھے، اس سلسلہ میں ایک واقعہ یاد آگیا، ایک مرتبہ وہ علی میاں سے ملنے کے لئے ندوہ آئے، اتفاق سے میں بھی موجود تھا، کسی سلسلہ میں داڑھی کا ذکر آگیا، ڈاکٹر صاحب کلین شیو تھے، میں نے اس کی سند جواز میں یہ واقعہ سنایا کہ مولانا حمیدالدین فراہیؒ، ایک زمانہ میں داڑھی منڈوں سے مصافحہ نہ کرتے تھے، مگر جب حج سے واپس آئے تو مصافحہ کرنے لگے، لوگوں نے پوچھا حضرت اس تبدیلی کا کیا سبب ہے، فرمایا حج میں ایسے داڑھی منڈے ترکوں سے ملاقات ہوئی جن کے جسم پر جہاد کے کئی کئی زخم تھے، جو ایمان کی سب سے بڑی کسوٹی ہے، اس وقت مجھے خیال آیا کہ ایمان داڑھی پر موقوف نہیں ہے، یہ واقعہ سناکر میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ آپ بھی ان ہی مجاہدین میں ہیں، اس پر انھوں نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور جھک کر سلام کیا۔
ان سے آخری ملاقات گزشتہ الیکشن میں اعظم گڑھ کے دورے کے موقع پر اور اس سے چند مہینے پیشتر لکھنؤ میں ہوئی تھی، اس وقت ان کی صحت گرچکی تھی، دو چار قدم چلنے میں سانس پھولنے لگتی تھی، میں نے ان سے کہا ’’ڈاکٹر صاحب اگر آپ کو قوم و ملت کی خدمت کرنا ہے تو اپنی صحت پر رحم کیجئے‘‘۔ زیادہ دوڑ دھوپ نہ کیا کیجئے، جواب دیا اب میری زندگی کا کوئی اعتبار نہیں معلوم نہیں کب وقت آجائے اس لیے چاہتا ہوں کہ جو مہلت بھی ہے اس میں جتنا کام بھی ہوسکے کرلیا جائے، آج ان کا یہ جواب بے اختیار یاد آرہا ہے، اس میں کتنی بلندی اور بڑائی ہے۔
دارالمصنفین سے ان کا تعلق بڑا مخلصانہ تھا، وہ اس کے محسن اور اس کی مجلس انتظامیہ کے رکن تھے، اس لئے ان کی موت دارالمصنفین کا ذاتی حادثہ اور قحط الرجال کے اس دور میں بہت بڑا قومی حادثہ ہے، جس کی تلافی مدتوں نہ ہوسکے گی، ان کے غم میں ہزاروں آنکھیں اشکبار اور ہزاروں زبانیں دعائے مغفرت میں مصروف ہیں، اﷲ تعالیٰ ان کو قبول فرمائے اور مرحوم کے نیک اعمال کے صلہ اور اپنے حبیب پاک کے طفیل میں ان کو دنیا کی طرح آخرت کی سرخروئی اور سربلندی عطا فرمائے، اللھمہ اغفرلہ وارحمہ رحمۃ واسعۃ۔ ڈاکٹر صاحب اس دنیا سے اٹھ گئے، مگر ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔
ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شدبہ عشق

;ثبت است برجریدۂ عالم دوام ما
%(شاہ معین الدین ندوی، جون ۱۹۷۴ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...