Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > شاہ معین الدین ندوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

شاہ معین الدین ندوی
ARI Id

1676046599977_54338155

Access

Open/Free Access

Pages

323

آہ شاہ صاحب !
جناب شاہ معین الدین احمد ندوی ناظم دارالمصنفین اور اڈیٹر معارف جو شاہ صاحب کے نام سے یہاں یاد کئے جاتے اب اپنے پاک دل، پاک ذات اور پاک صفات کے ساتھ آغوش رحمت الٰہی میں ہیں۔ ۱۳؍ دسمبر ۱۹۷۴؁ء کو جمعہ کے روز اپنے تمام روزمرہ کے معمولات میں مشغول رہے، دس بجے دن کو بال بنوایا، غسل کیا، کھانا کھایا، جمعہ کی نماز پڑھی، ڈھائی بجے تک عاجز راقم سے ملاقات رہی، اخبار پڑھتے پڑھتے سوگئے، گہری نیند سوئے، چار بجے اٹھے، اپنے ایک دیرینہ ہم جلیس مولوی عزیز الرحمن صاحب کے ساتھ بیٹھے باتیں کرنے لگے، عصر کی نماز کے لئے وضو کا پانی منگوایا، کرسی سے اٹھ کر وضو کے لئے اٹھنا چاہتے تھے کہ زمین پر گرگئے، خیال ہوا کہ بے ہوش ہوگئے ہیں، ان کے دوست ڈاکٹر عبدالحفیظ انصاری بلائے گئے تو انھوں نے اعلان کیا کہ وہ اﷲ کو پیارے ہوئے، وہ نہ بیمار پڑے نہ سکرات کی تکلیف ہوئی، نہ کسی کو کچھ خدمت کرنے کا موقع دیا، ایسا معلوم ہو (کہ زمین پر سے یکایک اٹھالئے گئے اور دارالمصنفین کے درودیوار کو اداس نہیں، بلکہ روتا چھوڑ گئے، ان کی وصیت کے مطابق ان کی میت، ان کے وطن ردولی دارالمصنفین کے کارکنوں اور ان کے قدر دانوں کے جلو میں لے جائی گئی، جہاں وہ چودھری خلیل احمد کی مسجد کے احاطہ میں سپرد خاک کئے گئے۔ اللھم اغفرلہ و الرحمۃ و ادخلہ الجنۃ۔
ان کی رحلت دارالمصنفین کے لئے حقیقی معنوں میں جانکاہ حادثہ ہے، استاذی المحترم مولانا سید سلیمان ندوی نے دارالمصنفین کو چھوڑا تو مولانا مسعود علی ندوی کا انتظامی سلیقہ، مولانا عبدالسلام ندوی کی علمی شہرت اور اس ادارہ سے خود جناب شاہ صاحب کی شیفتگی بروے کار رہی، عاجز راقم کو بھی اس کی خدمت میں گیارہ سال گزر چکے تھے، استاذی المحترم جناب سید صاحب خوش تھے کہ انھوں نے اپنی زندگی ہی میں اپنی زندگی کے بعد کے دارالمصنفین کا نقشہ دیکھ لیا، ان کے بعد اس علمی تاج محل پر چودھویں چاند کی چاندنی تو نہیں چھٹکی، مگر یہ برقرار رہا، ۱۹۵۷؁ء میں مولانا عبدالسلام ندوی داغ مفارقت دے گئے، تو ایک بڑا خلا پیدا ہوا جو پُر تو نہ ہوسکا، لیکن دارالمصنفین کی علمی سرگرمیاں بدستور باقی رہیں، ۱۹۵۴؁ء میں مولانا مسعود علی ندوی کی صحت خراب ہوئی تو ۱۹۶۷؁ء تک ان کی علالت کا سلسلہ جاری رہا، اپنے انتظامی امور کا بار اس راقم کے دوش ناتواں پر ڈالا، وہ بھی خوش رہے کہ انھوں نے بھی اپنی زندگی کے بعد کا نقشہ، دارالمصنفین دیکھ لیا، مگر شاہ صاحب کی وفات سے دارالمصنفین ایک زبردست آزمائش میں مبتلا ہے، وہ دارالمصنفین کی دو نسلوں کی جلاکے ترشے ہوئے ہیرے بن گئے تھے، اور اس کی انگوٹھی میں نگینے کی طرح جڑے ہوئے تھے اب یہ نگینہ نکل گیا، تو انگوٹھی بے رونق ہورہی ہے، ان کی جگہ کو پر کرنے والا اب کوئی نہیں، دارالمصنفین اپنی زبان حال سے یہ کہہ رہا ہے، موت العالِم موت العالَم۔
وہ پچاس سال پہلے ۱۹۲۴؁ء میں ندوۃ العلماء لکھنؤ سے فارغ ہوکر دارالمصنفین آئے، استاذی المحترم مولانا سید سلیمان ندوی نے ان کو قلم پکڑنا سکھایا، پھر تو یہ مضمون نگار بنے، شعر، ادب کے ادا شناس بھی، صحابہ کرامؓ کے سوانح نگار بھی، مورخ اسلام بھی، دین رحمت کے شارح بھی، معارف کے اڈیٹر بھی اور جو کرسی علامہ شبلیؒ نے حضرت سید صاحب کو عطا کی تھی، اس پر ناظم دارالمصنفین کی حیثیت سے بٹھائے گئے تو شبلی و سلیمان کی علمی روح و روایت کو برقرار رکھنے میں اپنی ساری علمی و ادبی صلاحیتیں صرف کیں۔
حضرت سید صاحب ان کے ادب و انشا کے معترف رہے، انھوں نے دارالمصنفین کے سلسلۂ صحابہؓ کی تین جلدیں لکھیں جو اچھی زبان کی وجہ سے بہت پڑھی گئیں، وہ اردو شعر و ادب کے کسی پہلو پر کچھ لکھ دیتے تو یہ اس صنف کا قابل قدر اضافہ جاتا، ان کے مضامین ’’اردو شاعری میں ہندو کلچر اور ہندوستان کے طبعی و جغرافی اثرات‘‘ اور ’’اردو زبان کی لسانی، علمی اور تمدنی حیثیت‘‘ سے بڑی ادبی و تحقیقی رہنمائی ہوئی، جگرؔ، اصغرؔ، حسرتؔ، اور اقبالؔ پر جو ناقدانہ مضامین لکھے، وہ ادبی حلقے میں بہت پسند کئے گئے، ان کے ادبی مقالات کے مجموعہ نقوش ادب کو اردو کے تنقیدی ادب میں اہم جگہ حاصل رہے گی، تاریخ اسلام پہلے بھی بہت لکھی گئی، مگر ان کی چار جلدیں اپنے موثر اور دل نشین انداز کی وجہ سے اس برصغیر میں بہت مقبول ہوئیں، یہ یونیورسٹیوں کے نصاب میں داخل ہیں، دارالمصنفین کی مطبوعات میں سیرۃ النبیؐ کے بعد ان ہی کی مانگ بہت زیادہ ہے، اسلام اور عربی تمدن ایک عربی کتاب سے ترجمہ ہے، مگر محض ان کے اسلوب کی وجہ سے اصل سے کم نہیں، دین رحمت میں اسلام کی رواداری اور فراخدلی کو کچھ ایسے دلکش پیرایہ میں پیش کیا کہ اس کے ہندی ترجمے کی اجازت کئی جگہ سے مانگی گئی، آخر میں انھوں نے حیات سلیمان کی تکمیل برسوں کی محنت کے بعد کی، اس کی اشاعت پر ہرطرف سے داد و تحسین ملی، اور حیات شبلی ہی کے پایہ کی تصنیف قرار دی گئی، معارف میں ان کے کچھ مضامین ابھی چند مہینے پہلے مسائل حاضرہ پر شائع ہوئے، جو اس قدر پسند کئے گئے کہ ان کے ترجمے عربی زبان میں بھی کئے گئے۔
شبلی کا ایجاز، سلیمان کا وقار، پھر ان کی انفرادی سلاست، روانی، شگفتگی اور پختگی ان کے اسلوب کا امتیازی رنگ ہوگیا تھا، وہ اپنی تحریروں کی بے ساختگی میں عالمانہ رنگ اور عالمانہ رنگ میں وزن اور وزن میں نکھار پیدا کرتے رہے، اپنی تصنیف و تالیف میں دبستان شبلی کے انداز بیان اور مسلک کا پورا لحاظ رکھتے، اس کی نگرانی رفقائے دارالمصنفین کی تحریروں پر بھی رکھتے، مولانا عبدالسلام ندوی مرحوم کو بھی ان کی ادبی خوش مذاقی اور تصنیفی خوش سلیقگی پر بڑا بھروسہ تھا، مولانا کی مشہور اور مقبول کتاب اقبال کامل کو جامع اور دلنشین بنانے میں ان کا بڑا حصہ رہا، میری تحریروں میں بڑی بے تکلفی سے ترمیم کردیتے، جس کو غور سے پڑھ کر میں خوش ہوجاتا، ان کو اپنی تحریر کو دکھانے میں لذت ملتی، اگر پسند کرلیتے تو اسی کو اپنی محنت کا اصلی صلہ سمجھتا، پھر فکر نہ ہوتی، کہ کوئی اور کیا رائے رکھے گا۔
معارف کے معیار کو برقرار رکھنے میں اپنی دوسری تصنیفی سرگرمیاں قربان کیں اور اس کے ہر مضمون کی نوک پلک کو شروع سے آخر تک درست کرتے، بعض اوقات پورے مضمون کو ازسرنو لکھ دیتے، حک و اصلاح اور خشو و زائد کو دور کرنے میں، ان کو بڑی مہارت تھی، معارف میں ان کے شذرات شوق سے پڑھے جاتے، حضرت سید صاحب نے ان کو پڑھ کر داد دی کہ اب سید سلیمان ندوی اور شاہ معین الدین ندوی میں کوئی فرق نہیں رہا، ملک کے اخبارات و رسائل میں برابر نقل ہوتے رہتے، کبھی ان کے لکھنے میں ان کا لب و لہجہ تیز و تند ہوجاتا، مگر ان کے شگفتہ انداز بیان کی وجہ سے تلخی پیدا نہیں ہونے پاتی، بلکہ ان کی سخت رائے مخلصانہ اور تعمیری سمجھی جاتی، اہم شذرات کے چھپنے سے پہلے مجھ کو بھی دیکھنے کا اتفاق ہوتا، اس کے تیز لب و لہجہ سے اختلاف کرتا تو وہ اپنی شرافت، اخلاق سے اس میں ترمیم کردیتے، مگر خفا ہوکر کہتے کہ میری مصلحت اندیشی سے ان کا قلم رکتا ہے اور کبھی ترمیم کرنے پر یہ کہہ کر راضی نہ ہوتے کہ بعض اوقات تیز اور بے لاگ تحریر بھی مفید پڑجاتی ہے اور ضرور مفید پڑتی رہی۔
آٹھویں صدی ہجری میں صابریہ چشتیہ سلسلہ میں شیخ احمد عبدالحقؒ بہت ہی برگزیدہ بزرگ گزرے ہیں، ردولی ضلع بارہ بنکی میں ان کا مزار اقدس اب بھی مرجع عوام و خواص ہے، شاہ صاحب ان ہی کے خاندان سے تھے۔ شکل وجیہہ، چہرہ باوقار، اور داڑھی منور پائی تھی، پروفیسر خلیق احمد نظامی نے علی گڑھ میں ان کو پہلی دفعہ دیکھا تو بے ساختہ بول اٹھے کہ میں مولانا سید سلیمان ندوی کو تو نہیں دیکھ رہا ہوں، وہ جس مجلس میں شریک ہوتے محبت و عزت کی نظروں سے دیکھے جاتے، بڑی پاکیزہ زندگی بسر کی، مگر اپنی پاکیزگی میں خشکی نہیں آنے دی طبیعت کی شگفتگی برابر باقی رکھی، جب ۳۵ سال کے رہے ہوں گے، تو دوسری بیوی سے بھی دائمی جدائی ہوگئی، ۷۲ سال کی عمر پائی، مگر بقیہ زندگی تجرد میں گزار دی، دارالمصنفین ہی کو عروس بناکر اس سے ہمکنار رہے، معاملات کی صفائی کا بڑا خیال رکھتے، کسی کا حق اپنے ذمہ باقی نہیں رہنے دیتے، نجی زندگی میں تکلیف اٹھا کر ضرورت مندوں کی مالی امداد کرتے رہتے، دارالمصنفین کے ایک برآمدہ اور دو کمرے کی چھوٹی سی عمارت میں پوری زندگی بسر کردی، کہتے کہ اس میں جو راحت ملتی ہے وہ اپنے گھر میں بھی محسوس نہیں ہوتی، نماز باجماعت کی پابندی کا بڑا اہتمام کرتے، تہجد گزار بھی تھے، مناجات مقبول اور کلام پاک کی تلاوت روزانہ کرتے، موت سے سینہ سپر ہونے کے لئے ہمیشہ تیار رہے، حج کا شرف دو بار حاصل کیا، آخری بار گزشتہ سال حجاز کے شاہ فیصل کی طرف سے زیارت خانۂ کعبہ کے لئے مدعو کئے گئے، مرکزی حکومت ہند نے ان کے علم و فضل کا اعتراف عربی میں سند اور خلعت عطا کرکے کیا، اس سلسلہ میں ان کو تین ہزار سالانہ وظیفہ بھی ملتا تھا، مگر تین سال سے زیادہ نہ پاسکے ساری عمر دارالمصنفین سے جو قلیل تنخواہ ملتی اسی پر قانع رہ کر بسر کی، مدرسہ عالیہ کلکتہ اور جامعہ ملیہ دہلی سے ان کو خاطر خواہ تنخواہ پر مدعو کیا گیا، لیکن دارالمصنفین کی خدمت ہی کو اپنی زندگی کا اصل مقصد قرار دیا، سفر کرنے سے بہت گھبراتے، ملک کے مختلف حصوں سے صدارت اور بالمعاوضہ مقالہ خوانی کی دعوت آتی رہی، مگر ان کو قبول کرنے سے انکار کرتے رہے، آخر عمر میں مولانا زکریا سہارنپوری سے بیعت ہوگئے تھے، تو اورادو وظائف میں بھی مشغول رہنے لگے تھے، گزشتہ نومبر میں ان کی خدمت میں سہارنپور حاضر ہوئے تھے، وہاں سے واپسی پر اپنے وطن ردولی میں انفلوائنزا میں مبتلا ہوگئے تھے، صحت یاب ہوکر دارالمصنفین واپس آئے تو چھٹے روز اپنے قدردانوں کو روتا چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے، موت ان کے پاس ضرور آئی مگر دبے پاؤں آئی، منھ چھپائے ہوئے آئی اور ان کے بربط ہستی کے سرور سے محض ہم آغوش ہونے آئی۔
راقم دارالمصنفین ان کے یہاں آنے کے گیارہ سال بعد آیا، مگر ہم دونوں چالیس سال تک لازم ملزوم، ایک جان دو قالب بلکہ عرض و جوہر بن کررہے، یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا کہ کون ملازم ہے، کون ملزوم، کون جان ہے اور کون قالب، امیر خسرو کا ایک بہت ہی مشہور شعر ہے، جس میں انھوں نے من و تو اور جان تن کی تفریق مٹا کر من دیگرم تو دیگری کا، سوال ہی ختم کردیا ہے، ہم دونوں دارالمصنفین کی زندگی میں اسی طرح رہے، انھوں نے اپنے کو میرے لئے اور میں نے اپنے کو ان کے لئے مٹایا، ان کے غصے پر مجھ کو پیار آتا اور میرے پیار پر ان کو غصہ آتا، ان کو کبھی زیادہ جھلاہٹ آجاتی تو تھوڑی دیر کے بعد ہی معذرت کرتے جس میں اظہار ندامت کے بجائے غیرمعمولی محبت ہوتی، اس کو میں اپنی زندگی کا قیمتی سرمایہ سمجھتا رہا، وہ دارالمصنفین کے ناظم ضرور تھے، مگر نظامت کے سارے فرائض میرے ذمہ کررکھا تھا، وہ خوش رہتے کہ میرے کام میں کوئی دخل نہیں دیتے، مگر میری خوشی اس کوشش میں رہتی کہ کوئی کام ان کے مزاج کے خلاف نہ ہو، ان کی حوصلہ افزائی ہوتی اور میری عملی سرگرمی وہ کوک دے دیتے تو میں گھڑی کے پرزوں کی طرح متحرک رہتا، وہ دارالمصنفین سے کچھ دنوں کے لئے باہر چلے جاتے تو مجھ کو محسوس ہوتا کہ وہ میری ساری علمی قوت اپنے ساتھ سمیٹ کرلیتے گئے ہیں، وہ گھر جاتے تو میرے لئے بے قرار رہتے، ان کی چہیتی لڑکی ان سے کہتی کہ وہ اپنے ساتھ اپنی روح کو بھی کیوں نہیں لاتے، مجلس انتظامیہ کے بعض ارکان کہتے کہ ہم دونوں مل کر ایک آدمی بنتے ہیں، دونوں ایک دوسرے سے علیحدہ ہوکر بے جان ہوجاتے ہیں، چالیس برس تک ہم دونوں کی یہی مثالی زندگی رہی، وہ اس دنیا سے خوش گئے ہوں گے کہ مجھ سے ان کو شکایت نہیں ہوئی، اور مجھ کو فخر ہے کہ میری ذات سے ان کو آخر وقت تک کوئی تکلیف نہیں پہنچی، مگر اب ان کے بعد اپنی بقیہ زندگی میں اپنی زبان حال سے کہتا رہوں گا۔
نہ دماغ ہے ، نہ فراغ ہے ، نہ شکیب ہے ، نہ قرار ہے
وہ میرے لئے سب کچھ تھے، افسراعلیٰ، محترم بزرگ، عزیز بھائی، مشیر، رفیق کار ہمدم رمساز، دوست اور کیا نہیں، اب وہ نہیں رہے، تو میں اپنے کو کچھ بھی نہیں پاتا،
فریاد کہ غم دارم و غم خوار ندارم
اقبال کا خیال تھا کہ سوگواری کی ظلمات میں مرنے والوں کی یادوں کی، جبین اسی طرح چمکتی رہتی ہے، جس طرح اندھیری رات میں تارے چمکتے رہتے ہیں، معلوم نہیں کب تک میری آنکھیں دیکھتی رہیں گی کہ وہ آرہے ہیں، جارہے ہیں، خدا جانے کب تک میرے کان سنتے رہیں گے کہ وہ پکار رہے ہیں الجھ رہے ہیں، الجھ کر میری باتوں کو مان رہے ہیں، ان کی وجہ سے میرے لئے دارالمصنفین کی ہر صبح حسین اور ہر شام رنگین تھی، مگر اب ان کے بعد اس کی خاموش فضا بڑی غمگین اور اس کی سونی رات کی تاریکی، انتہائی اندوہ گیں ہوگئی ہے،اس کے احاطہ میں شام آتی ہے تو میرا دل مفلس کا چراغ بن کر بجھابجھا سا رہتا ہے، استاذ المحترم حضرت سید صاحب نے لکھنا پڑھنا تو سکھایا تھا، ماتم کرنا نہ سکھا سکے تھے، کیسے لکھوں کہ آہ! بزم شبلی کی قندیل کی آخری شمع بجھ گئی، سلیمان کی امانت کا بار اٹھانے والا آسمان پر اٹھایا گیا، دارالمصنفین کی شاندار رو کو سینے سے لگائے رکھنے والا سپرد خاک کردیا گیا، اور اپنے ایک ہمراز، ہم مشرب اور ہم پیالہ کی تنہائی اور بے چارگی پر دارالمصنفین کے پھول پتے، شجر اور حجر رونے کے لئے چھوڑ گئے، حالی نے اپنے استاد غالب کی وفات کے بعد بزم سلطانی تخت خاقانی، راح ریحانی، عقل رمانی، اور حسن کنعانی کو فانی پاکر ہستی کو محض سراب اور طلسم خیال پایا تھا، اب سے پہلے حالی کے ان جذبات کو محض شاعرانہ تخیل سمجھتا تھا، مگر اب محسوس ہوتا ہے کہ یہ کیفیات حقیقت بھی بن جاتی ہیں، کاش میں تھوڑی دیر کے لئے بھی متمم بن نویرہ بن جاتا تو جس طرح وہ اپنے بھائی کی موت پر مرثیہ لکھ کر خود رویا، اور گلی گلی گھوم کر دوسروں کو رلایا، اسی طرح میں بھی پردرد نوحہ لکھ کر آتا اور لوگوں کو رلاتا۔
خوں شددلِ خسروز نگہداشتن راز

9چوں ہیچ کسے محرم اسرار ندارم
F دارالمصنفین کے مستقبل کی شب تاریک اور بیم موج و گرداب سے گھبرا اٹھا تو اضطرابی کیفیت میں دو تین روز لکھنؤ جاکر مولانا ابوالحسن علی ندوی کے ساتھ رہا، صحبت اولیاء اﷲ میں جو تاثیر ہوتی ہے وہ ان کی مجلس میں پائی، ان کی حوصلہ افزائی سے بڑا سہارا ملا ان کے ساتھ مولانا عبدالماجد دریا بادی اور مولانا حافظ عمران خاں ندوی نے دارالمصنفین کی دیرینہ روایات کو برقرار رکھنے کے سلسلہ میں باہمی مشورے کئے وہاں سے ردولی آیا، مرحوم کی لڑکی اور ان کے اعزہ کو دیکھ کر پھر غم امنڈ پڑا، ان کی قبر دیکھی نہ جاسکی، حضرت شیخ عبدالحق کی لحد مبارک پر حاضری دی، فاتحہ پڑھتے وقت سکون قلب کی دعا مانگی، اس وقت وہاں کے سجادہ نشین جناب شاہ آفاق احمد صاحب سے ملاقات ہوئی، جنھوں نے مجھ کو دیکھتے ہی کہا:
اک عمر کا ساتھی چھوٹا ہے صبر آتے آتے آئیگا
یہ سن کر پھر غم تازہ ہوگیا، مگر انھوں نے یہ شعر بھی سنایا:
بہ گیتی گر کسے پایندہ بودے

3ابوالقاسم محمدؐ زندہ بودے
j اس مشہور شعر سے سوزشِ دل پر تسکین کے کچھ چھینٹے پڑے۔
انھوں نے علامہ شبلی اور سید صاحبؒ سے زیادہ عمر پائی، مگر اس وقت دارالمصنفین کو ان کی سربراہی اور رہنمائی کی شدید ضرورت اتنی ہی تھی جتنی کہ ایک محاذ پر ایک جوان سپہ سالار کی ہوتی ہے، اس لئے ان کی اچانک رحلت جوانمرگی سے کم المناک نہیں، دارالمصنفین اپنے سوزسینہ کے داغ سے بے چین اور درد و غم سے فگار ہوکر فلک سے کہہ رہا ہے کہ کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتے کوئی دن اور مگر مصلحت خداوندی اور مشیت ایزوی کا دامن تھام کر اسی کی بارگاہ میں اب صرف یہی دعا کرنا ہے کہ وہ اپنی خدا ترسی، دینداری، نیک نفسی، فرض شناسی اور اوصاف کی پاکیزگی کی بدولت کوثر کی موجوں اور تسلیم کی لہروں سے سیراب ہوں، آمین ثم آمین، الوداع اے شبلی کے علمی لشکر کے آخری رجز خواں! الوداع اے سلیمان کے کارناموں کے حدی خواں! الوداع اے جان جانان دارالمصنفین! سلام! شبلی کی روح کی طرف سے سلام! سلیمان کی سند علم کی طرف سے سلام! کارکنان دارالمصنفین کی طرف سے سلام! اور ہاں ایک مہجور مغموم، مخزوں، خستہ دل اور شکستہ خاطر رفیق کار کی طرف سے بھی سلام! ہزاروں سلام، لاکھوں سلام۔
(صباح الدین عبدالرحمن، جنوری ۱۹۷۵ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...