Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ڈاکٹر رادھا کرشنن

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ڈاکٹر رادھا کرشنن
ARI Id

1676046599977_54338161

Access

Open/Free Access

Pages

327

ڈاکٹر رادھا کرشنن
ڈاکٹر رادھا کرشنن گزشتہ ماہ اس دار فانی کو چھوڑ گئے، علم و فن کے فروغ دینے میں ان کا نام رابندرناتھ ٹیگور، جسے۔ سی۔ بوس۔، اور سی۔ وی۔ رمن جیسی قدآور شخصیتوں کے ساتھ لیا جائے گا ان کی وفات سے اس ملک میں بیسویں صدی کا ایک زریں علمی عہد ختم ہوگیا۔
وہ ہندو ادب کے بہت بڑے شارح تھے، فلسفہ میں بھی ان کا علم بہت گہرا تھا، اس لئے ہندو مذاہب کے عقائد و تفکرات میں فلسفیانہ موشگافی کرتے رہے، وہ گسان جیمس وارڈ، ولیم جیمس اور برٹنڈ رسل کے فلسفے سے متاثر تھے، تو خود ان کی علمی گہرائی اور فلسفیانہ ژرف نگاہی کا اعتراف طامسن من اور ایچ جی۔ ویلس جیسے مشاہیر نے کیا، کلکتہ، میسور اور مدارس کی یونیورسٹیوں میں استاد رہنے کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی کے بھی پروفیسر رہے، اندھرا اور بنارس یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر بھی بنائے گئے، بیرونی ممالک نے بھی مختلف قسم کے اعزاز اور انعامات سے نوازا جس سے ہندوستان کی عظمت و فضیلت میں بھی اضافہ ہوا، ان کی متعدد تصانیف میں ایک کتاب ’’مذہب کی حکومت جدید فلسفہ‘‘ پر ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ جدید فلسفہ خود مذاہب سے متاثر ہے، وہ بڑے خوش بیان اور باوقار مقرر بھی تھے بولتے تو معلوم ہوتا کہ فضا میں سیم وزر کی آواز کھنک رہی ہے اسی کے ساتھ سامعین محسوس کرتے کہ ان سے اخلاق اور روحانیت کا پیام مل رہا ہے۔
پنڈت جواہر لال نہرو ان کی قابلیت اور اعلیٰ سیرت سے متاثر تھے، اس لئے ان کو علم کی سند سے اٹھا کر سیاست کی مسند اعلیٰ پر بٹھایا، وہ پہلے نائب صدر جمہوریہ ہند پھر صدر بنائے گئے، جس سے خود ان دونوں عہدوں میں وزن اور وقار پیدا ہوگیا، افلاطون فلسفی حکمران کو پسند کرتا تھا، ڈاکٹر رادھا کرشنن افلاطون کے سیاسی خواب کی تعبیر تھے، بلند پایہ فلسفی، مخلص محب وطن اور مدبر ہونے کے ساتھ مذہب کو اپنی زندگی کی بیساکھی بنانے میں شرمندگی محسوس نہیں کی، ظاہری وضع قطع ہی سے مذہبی معلوم ہوئے، قشقہ بھی لگاتے، تقریروں میں بلاتکلف وید کے اشلوکوں کے حوالے بھی دیتے تھے، ان کی زندگی یہ پیام چھوڑ گئی ہے کہ مذہب سیاست میں مشکلیں پیدا نہیں کرتا، بلکہ اس سے سیاست میں روحانیت اور حقانیت پیدا ہوجاتی ہے، البتہ مذہب میں سیاست لائی جاتی ہے تو مذاہب اور سیاست دونوں میں ریاکاری اور عیاری آجاتی ہے۔
مذہب کے منکرین اسی کو ہر قسم کے جنگ و جدل کا سبب قرار دیتے ہیں مگر سیاست سے مذہب کو الگ کرنے کے بعد سیاست کے دیو بے زنجیر کی بدولت ہیروشما، برلن، ہنگری، چین، بنگلہ دیش، ویٹ نام اور کمبوڈیا میں کیا کچھ دیکھنے میں نہیں آیا، سیاسی سامریوں ہی کے لئے تو طرح طرح کے اسلحہ کی ایجاد ہورہی ہے، جن کے استعمال سے چنگیز اور ہلاکو کی ساری وحشت اور بربریت ماند پڑگئی ہے مگر ان میں، ع ایک مجرم نہیں مذہب کی طرف داری کا، سیاست کی جادوگری میں اخلاق کی بلندی کے بجائے چال بازیوں اور فریب کاریوں کے ایسے نمونے ملتے ہیں کہ:
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ
میکاولی کی مکارانہ سیاست سے یورپ پہلے تو چیخ اٹھا تھا، مگر یورپ ہی میں نہیں بلکہ ہر جگہ کی سیاست کی، موڑ پر میکاولی دکھائی دیتے ہیں، کیا انسانیت کی نجات ان میکاولیوں ہی سے ہے؟۔
انفرادی یا قومی زندگی اعلیٰ اخلاق کے بغیر راکھ کا ڈھیر ہے آلات، بخارات، امریکی اور روسی مدنیت کے فتوحات سے انسان چاند اور مریخ تک پہنچ سکتا ہے مگر ان سے اعلیٰ اخلاق کی تعمیر اور ترویج نہیں ہوسکتی، اس کی تعمیر ملک یا ضمیر یا عقل کے قانون سے بھی نہیں ہوسکتی، ملک کا قانون انسان کو اس کے نفس کی برائیوں پر ملامت کرنا نہیں سکھا سکتا، ضمیر یا عقل کے قانون سے فہم و ادراک کی انارکی کا اندیشہ لاحق رہتا ہے، کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ ایک جو کچھ اپنی عقل یا ضمیر کے مطابق کرے اور دوسرا بھی وہی کرے جب تک یا احساس نہ کہ کوئی قوت پنہاں یا مواخذہ اور باز پرس کرنے والی ہستی ضمیر یا عقل کے ہرگوشہ کو ہر طرف سے جھانک رہی ہے، یا دل کی تہ کے ہزار پردوں کو بھی دیکھ رہی ہے، وجدان، ضمیر کی آواز، اور حاسہ کے تقاضے کا نام لے کر کچھ نہیں کیا جاسکتا ہے، جس کے بعد حسن و قبح خیر و شر اور نیک و بد کا معیار قائم کرکے اس میں یکسانیت پیدا کرنا آسان نہیں، مثلاً اگر کمیونزم کے حامی کو انسانی عقل کے مطابق قرار دے سکتے ہیں، توہپی ازم کے موئد اس کو خارج ازعقل وحاسہ سمجھنے کے لئے تیار نہیں،
صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے

Eجو عقل کا غلام جو وہ دل نہ کر قبول
qاسی لئے اخلاق کا اصلی ماخذ خدا کا قانون قرار دیا گیا ہے:
ہے وہ قوت کہ حریف اس کی نہیں عقل حکیم
خدا کے قانون ہی کا نام مذہب ہے، اور بہترین مذہب وہ ہے جس کا اخلاقی دباؤ اپنے ماننے والوں پر اتنا ہوکہ وہ ان کے قدم کو اخلاق کی صراط مستقیم سے بہکنے نہ دے، اسی لئے اخلاق کی موثر تعلیم سیاستدانوں کے بجائے ان مذہبی پیشواؤں اور روحانی ہادیوں کے یہاں ملتی ہے جن کے اخلاق حسنہ کو ان کے ایمان کی پہچان قرار دی گئی ہے، اور جن کی زبان پر نہیں، بلکہ دلوں کی گہرائیوں میں یہ خیال چھایا رہتا ہے کہ قیامت کی ترازو میں حسن خلق سے زیادہ بھاری کوئی چیز نہیں ہوگی، اور وہی قوم کی مدنیت کی روح میں عفت اور اخلاق میں طہارت پیدا کرکے اس کو تباہی اور بربادی سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔
مہاتما گاندھی کی وفات ہوئی تو دارالمصنفین کے ایک رکن رکین مولانا عبدالسلام ندوی مرحوم بے ساختہ کہہ اٹھے تھے کہ آہ! اب ان کے ساتھ ہندوستان کی پالی ٹکس سے ایتھیکس بھی جاتا رہا، کیا ان کا یہ کہنا صحیح نہیں تھا؟ بھکرننگل اور دامودر دہلی کے بند سے ہمارے ملک میں بڑی مادی ترقی ہوئی، کاش یہاں کے لوگوں کے اخلاق بھکرننگل اور دامودر دہلی کے بند کی تعمیر ہوتی رہتی تو آج یہ ملک اس بحران میں مبتلا نہ ہوتا، جس سے حکومت کے مخالفین فائدے اٹھا کر اس کے خلاف تحریکیں چلارہے ہیں، مگر ان مخالفوں کو بھی ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہئے کہ وہ پالی ٹکس میں ایتھیکس لارہے ہیں، محض اقتدار کا ایک ہنگامہ ہے جس میں دراصل،
؂ نہ زندگی نہ محبت، نہ معرفت نہ نگاہ۔
(صباح الدین عبدالرحمن، مئی ۱۹۷۵ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...