1676046599977_54338166
Open/Free Access
330
پروفیسر سید مسعود حسن
ابھی یہ سطور تمام نہیں ہوئی تھیں کہ پروفیسر سید مسعود حسن کی وفات کی اطلاع ملی، افسوس ہے کہ اردو کے پرانے خدمت گزار اٹھتے جارہے ہیں اور کوئی ان کی جگہ لینے والا نظر نہیں آتا ہے، مسعود صاحب نے درس و تدریس اور تصنیف و تالیف دونوں میدانوں میں بڑا قابل قدر کام کیا ہے، وہ صاحب زبان تھے اور صاحب قلم بھی، وہ بات کرتے تو ادب کے پھول جھڑتے، درس دیتے تو طلبہ ان کے علم سے مرعوب اور حسن بیان سے مسحور ہوجاتے اور قلم ہاتھ میں لیتے، تو تحقیق کے موتیوں سے کاغذ کا دامن بھردیتے وہ سرسری مضمون نویسی کے عادی نہ تھے، لکھنے سے پہلے موضوع کے تمام پہلوؤں پر غور کرتے، سارا مواد جمع کرتے اور پوری چھان بین کے بعد قلم ہاتھ میں لیتے اور پھر تحقیق کا شاہکار پیش کرتے، ممکن ہے ان کے نتائج تحقیق سے کسی کو اختلاف ہو مگر ان کی وسعتِ علم دقتِ نظر اور تلاش و تفکر سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا، وفور علم کے ساتھ وہ بڑے خلیق، وضع دار اور بامروت تھے، ہر مذہب و ملت کے لوگوں سے ان کے تعلقات تھے، یہی وجہ تھی کہ سب ان کے غم میں اشکبار تھے، وہ شیعہ تھے، مگر سنیوں میں بھی اتنے مقبول تھے کہ فرنگی محل کے نامور عالم مولانا ہاشم کی امامت میں سنیوں نے بھی جنازہ کی نماز پڑھی، اﷲ ان کی نیکیوں کو قبول فرمائے اور ان کے عزیزوں اور شاگردوں کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (عبد السلام قدوائی ندوی، دسمبر ۱۹۷۵ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |