Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ڈاکٹر محمد زبیر صدیقی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ڈاکٹر محمد زبیر صدیقی
ARI Id

1676046599977_54338171

Access

Open/Free Access

Pages

332

ڈاکٹرمحمد زبیر صدیقی
علمی اور اسلامی حلقے ڈاکٹر محمد زبیر صدیقی سے خوب واقف ہیں، ان کا عربی زبان اور اسلامی علوم کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ ان کے مقالات اور کتابیں اہلِ علم کے حلقہ میں قدر کی نظر سے دیکھی جاتی تھیں، تدوین حدیث پر ان کی کتاب السیر الحثیث بڑی محققانہ سمجھی جاتی ہے، تصنیف و تالیف کے ساتھ ان کی زندگی کا بڑا حصہ تعلیم و تدریس میں گزرا، پہلے کئی برس لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبۂ عربی سے وابستہ رہے، پھر کلکتہ چلے گئے، اور تقریباً ۳۳ سال تک اسلامی تاریخ و تہذیب اور عربی و فارسی زبانوں کی تدریس و تحقیق میں مصروف رہے، عرصہ تک مدرسۂ عالیہ کے صدر، ایشیاٹک سوسائٹی کے نائب صدر اور ملک کی بہت سی یونیورسٹیوں اور علمی اداروں کے رکن بھی رہے، افسوس کے ۱۸؍ مارچ کو علم کا یہ چراغ گل ہوگیا، اﷲ تعالیٰ انہیں اپنی رحمتوں اور نوازشوں سے سرفراز فرمائے، اور ان کے عزیزوں، دوستوں اور شاگردوں کو صبر عطا فرمائے، اور ان کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (عبد السلام قدوائی ندوی، اپریل ۱۹۷۶ء)

ڈاکٹر محمد زبیر صدیقی
( پروفیسر مسعود حسن)
ایتھا النفس اجملی جزعا اِن ماتخذرین قد وقعا
اوس بن حجر کا یہ شعر سیکڑوں بار پڑھا ہوگا، لیکن استاذ محترم ڈاکٹر محمد زبیر صدیقی کی وفات ہوئی تو معلوم ہوتا تھا کہ شاعر نے اسی موقع کے لئے کہا ہے۔
ڈاکٹر صاحب ایک متبحر عالم قرآن و حدیث کے بالغ نظر نکتہ شناس وسیع النظر محقق، تجربہ کار ماہر تعلیم، بے مثل، استاد اور بلند مرتبت اور پروقار شخصیت کے انسان تھے۔
مرحوم بیماری اور کبرسنی کی وجہ سے بے حد کمزور ہوگئے تھے، اور کئی سال سے خانہ نشین تھے، گزشتہ سال اپریل میں ان کی حالت ایسی تشویش ناک ہوگئی تھی کہ نرسنگ ہوم میں داخل کرنا پڑا، مگر اﷲ نے دو ہفتے میں صحت یاب کردیا، اسی سال مارچ کے پہلے ہفتے میں گردے میں مہلک خرابی پیدا ہوئی۔ پانچ چھ دن بیہوش رہے، اور آخر ۱۸؍ مارچ ۱۹۷۶؁ء یوم پنچ شنبہ کی سہ پہر کو ساڑھے ۳ بجے ان کی شمع حیات ہمیشہ کے لیے گل ہوگئی، وفات کے وقت ان کی عمر تقریباً نوے سال تھی، اسی دن شب کو ساڑھے ۱۰ بجے جنازہ ان کی کوٹھی کے سامنے پارک سرکس میدان میں لایا گیا، عزیزوں، دوستوں، عقیدت مندوں اور شاگردوں کی کثیر تعداد ساتھ تھی نماز جنازہ کے بعد ان کا جسد خاکی قبرستان لے جایا گیا، اور تقریباً بارہ بجے مخلصوں کی دعائے نیم شبی کے درمیان سپردخاک کردیا گیا۔
اے تیرہ خاک خاطر مہماں نگاہ دار کیں نورچشم ماست کہ دربر گرفتہ ای
اﷲ ان کی تربت پر رحمت کے پھول برسائے، اور دنیا کی طرح عقبیٰ بھی انہیں اونچا مقام عطا فرمائے، ڈاکٹر صاحب اب ہمارے درمیان موجود نہں۔ مگر ان کے عظیم الشان کارنامے ہمیشہ نظروں کے سامنے رہیں گے، اوران کی محبت و احترام سے ہمارے دل ہمیشہ لبریز رہیں گے۔
جمالک فی عینی وحبک فی قلبی
وذکرک فی فمی فاین تغیب
ڈاکٹر صدیقی صاحب صوبۂ بہار کے ایک معزز علمی اور مذہبی خانوادے کے چشم و چراغ تھے، آباؤ اجداد کا قدیم مسکن ایک چھوٹا گاؤں کمہرار تھا، جو پٹنہ (بانکی پور) کے جنوب میں کئی میل کے فاصلے پر واقع ہے، خاندان کے بعض بزرگ پٹنہ سٹی کے ایک محلہ منگل تالاب میں منتقل ہوگئے تھے، اور یہیں ان کی ولادت ہوئی، پدربزرگوار، حافظ حکیم مولوی محمد اسحق صاحبؒ شہر کے مشہور طبیب اور مقدس بزرگ تھے، ان کا مزار اب تک مرجع خاص و عام ہے، ڈاکٹر صاحب کی ابتدائی تعلیم والد ماجد کی نگرانی میں ہوئی، پھر درسیات کا اچھا خاصہ حصہ بخشی محلہ پٹنہ کے مدرسۂ حنفیہ میں پورا ہوا، جسے قاضی عبدالودود صاحب کے والد ماجد قاضی عبدالوحید مرحوم نے قائم کیا تھا اور وہی اس کے اخراجات کے کفیل تھے، عرصہ ہوا یہ مدرسہ ختم ہوگیا ہے، یہاں انھوں نے طب یونانی کی تعلیم بھی حاصل کی، یہاں کے اساتذہ میں مولانا عبداﷲ صاحب پنجابی، مولانا حکیم عبدالعزیز صاحب منطقی سہارنپوری اور مولانا حکیم محمد نجم الدین صاحب دانا پوری خاص طور سے قابل ذکر ہیں، ان ہی دنوں مولانا عبدالعزیز صاحب کا تقرر مدرسۂ عالیہ رام پور میں ہوگیا، اور ڈاکٹر صاحب اسلامیات، اور طب کی تکمیل کے لئے ان کے ساتھ رام پور بھیج دیئے گئے، یہاں دوسرے صاحب نظر اساتذہ کے ساتھ انھیں مولانا فضل حق رامپوری سے استفادہ کا بھی موقع ملا اس مدرسہ سے فراغت کے بعد وہ لاہور کے اورینٹل کالج میں داخل ہوئے، جو ان دنوں مشرقی علوم کا بڑا اہم مرکز تھا، اور جہاں پروفیسر محمد شفیع اور پروفیسر اقبال جیسے فضلائے روزگار موجود تھے، ۱۹۱۲؁ء میں انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان درجۂ اول میں پاس کیا، اور وطن واپس آگئے، ۱۹۱۴؁ء میں کلکتہ یونیورسٹی کے میٹریکولیشن کے امتحان میں بھی اول درجہ میں کامیاب ہوئے، پھر بہار نیشنل کالج سے آئی۔اے اور بی۔اے کے امتحانات اور پٹنہ یونیورسٹی سے بی۔ایل اور ایم۔اے (فارسی) کے امتحانات امتیاز و تخصص کے ساتھ پاس کئے ایم۔اے کے امتحان میں ایسی شاندر کامیابی حاصل کی کہ حکومت بہار و اڑیسہ نے یورپ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ان کو ایک گرانقدر وظیفہ عطا کیا، انگریزی کی تکمیل کے بعد انھوں نے پٹنہ میں ایک سال وکالت کی۔ ان کے بچپن کے ایک رفیق کا، جن کا ذکر بعد میں آئے گا بیان ہے کہ کچھ دنوں انھوں نے اپنے والد مرحوم کی رہنمائی میں طبابت بھی کی، طب کی باقاعدہ تعلیم وہ پہلے ہی حاصل کرچکے تھے، علاج و معالجہ اور تشخیص امراض کی مشق، اور ایک کامل فن کی تربیت نے ان کے اندر تمام صلاحیتیں پیدا کردیں جن کی بناء پر آگے چل کر طب ان کی تحقیقات علمی کا ایک خاص موضوع بن گیا۔
۱۹۲۶؁ء میں وہ ولایت تشریف لے گئے اور ان کی علمی مشغولیتوں اور تحقیقی کاوشوں کا سب سے اہم دور شروع ہوا، وہاں ان کا داخلہ کیمبرج یونیورسٹی کے کنگز کالج میں ہوا، انھوں نے یورپ کے مشہور مستشرق پروفیسر ایڈورڈ جی۔براؤن کی نگرانی میں عربی زبان میں ’’طبی ادب کا ارتقاء‘‘ کے ارتقاء کے موضوع پر ایک محققانہ مقالہ لکھا جس پر یونیورسٹی نے ان کو پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری عطا کی، اس دوران میں پروفیسر براؤن کی تحریک اور اصرار پر عربی زبان کی ایک قدیم ترین اور اہم کتاب فردوس الحکمۃ بھی ایڈٹ کی اور اس پر عربی میں فاصلانہ مقدمہ لکھا یہ کتاب ۱۹۲۸؁ء میں ان کے ہندوستان آنے کے بعد شائع ہوئی، اور اس نے ان کو علمی دنیا میں ایک فاضل محقق کی حیثیت سے روشناس کیا۔
ابھی وہ ولایت ہی میں تشریف رکھتے تھے کہ لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبۂ عربی و علوم مشرقی کے پروفیسر اور صدر کی جگہ کے لئے ایک لائق استاد کی تلاش ہوئی، اور پروفیسر براؤن سے اس سلسلہ میں مشورہ کیا گیا۔ انھوں نے ڈاکٹر صاحب کو نامزد کیا اور ڈاکٹر صاحب نے ہندوستان واپس آکر ۱۹۲۶؁ء میں اس عہدے کا چارج لیا، لکھنؤ یونیورسٹی میں ابھی دو سال بھی اپنے فرائض انجام نہیں دے سکے تھے کہ کلکتہ یونیورسٹی کے شعبۂ عربی و فارسی کے صدر کی جگہ ان کا تقرر ہوگیا، ڈاکٹر صاحب کی علمی اور تعلیمی زندگی کا سب سے بڑا اور اہم حصہ اسی یونیورسٹی میں گزرا ہے، یہاں رہ کر پورے ۳۳ سال تک (۱۹۲۹؁ء تا ۱۹۶۲؁ء) وہ نہ صرف یونیورسٹی بلکہ پورے صوبہ میں عربی، فارسی، اردو اور اسلامیات کی تعلیم کے اہم مسائل طے کرنے میں پیش پیش رہے، اسی زمانہ میں ان کی متعدد تصنیفات حلیۂ طبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آئیں، انھوں نے بے شمار علمی مقالے لکھے، ہندوستان اور بیرون ہند کی بہت سی علمی اور تعلیمی کانفرنسوں میں شرکت فرمائی، اور خطبات پڑھے، ان کے تبحر علمی کی بناء پر اسلامک کلچر اور شعبۂ عربی و فارسی کا اعتبار سارے ملک میں قائم ہوا، جب ۱۹۴۰؁ء میں سرعزیزالحق وائس چانسلر کلکتہ یونیورسٹی کی کوششوں سے یونیورسٹی میں اسلامی تاریخ و ثقافت کا نیا شعبہ قائم ہوا، تو اس کی صدارت بھی ڈاکٹر صاحب کو تقویض کی گئی، اور کئی سال تک وہ اس کے بھی صدر رہے، اس کے علاوہ وہ یونیورسٹی کی ملازمت کے زمانے میں سینٹ اور سنڈیکیٹ کے ممتاز ممبر بھی رہے، اور یونیورسٹی کے تمام کاموں میں نمایاں حصہ لیتے رہے، وہ یونیورسٹی میں ہمیشہ ہر حلقہ میں نہایت عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ بنگال کے علاوہ پورے ہندوستان کے علمی اور تعلیمی حلقے آپ کے فضل و کمال کے معترف تھے۔ حکومت ہند نے عربی، فارسی اور سنسکرت کے علماء کے اعزاز کے سلسلے میں جو اسکیم تیار کی، اس کے ماتحت عربی کا پہلا اعزاز ۱۹۵۰؁ء میں آپ کو ملا۔ یہ ایک سند علمی، ایک خلعت اور تاحیات وظیفہ پر مشتمل تھا، ۱۹۷۲؁ء میں آپ حج بیت اﷲ سے بھی مشرف ہوئے۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم نے اپنے بعد ہندوستان اور ہندوستان کے باہر بے شمار شاگردوں، دوستوں، عقیدت مندوں اور عزیزوں کو سوگوار اور اشکبار چھوڑا اعزہ میں محترمہ بیگم صدیقی صاحبہ، تین صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں خاص طور پر ہمدردی کے مستحق ہیں، بیگم صاحبہ بہار شریف کے ایک ممتاز خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، میں نے ڈاکٹر صاحب کو اکثر ان کے حسن انتظام اور ان کی خوش سلیقگی کے باب میں رطب اللسان پایا۔ بڑے صاحبزادے ڈاکٹر محمد خالد صدیقی کلکتہ کے مشہور اور کامیاب ماہر امراض قلب ہیں، منجھلے محمد شاہد صدیقی اور چھوٹے محمد کامل صدیقی امریکہ میں اعلیٰ تعلیم پارہے ہیں، دو صاحبزادیاں بڑی اور منجھلی شادی شدہ ہیں، سب سے چھوٹی جو ڈاکٹر صاحب کو اپنی اولاد میں بہت عزیز تھی، زیر تعلیم ہے۔
ڈاکٹر صاحب جہاں بھی رہے پوری یکسوئی اور جگر سوزی کے ساتھ علمی تحقیقی اور تعلیمی کام انجام دیتے رہے، وہ ملکی اور غیرملکی علمی کانفرنس میں شریک ہوتے اور سارے ہندوستان کے علمی اداروں اور یونیورسٹیوں کے انتظامی اور تعلیمی امور میں مشورے دیتے جب تک ان کی صحت نے ساتھ دیا، ان خدمات کا سلسلہ جاری رہا، ان کے علمی انہماک کا یہ عالم تھا کہ ضعف بصارت کی وجہ سے جب لکھنے پڑھنے میں کافی دقت ہونے لگی، تب بھی ان کی علمی مشغولیت میں کوئی فرق نہیں آیا کسی شاگرد کو پکڑلیتے اس سے کتابیں پڑھواتے، اس کو املا کراتے، اسے اپنی کار میں لائبریری لے جاتے، اور وہاں اس سے مدد لیتے، آخری زمانے کا واقعہ ہے، ایک دن راقم ان سے ملنے کے لئے گیا، اس وقت انھیں تنفس کی سخت تکلیف تھی، میں نے عرض کیا کہ بے کاری میں آپ کو بہت بے لطفی محسوس ہوتی ہوگی، انھوں نے فرمایا میں تو کام کرتا رہتا ہوں، پھر سامنے کی الماری پر ایک جرمن یا فرانسیسی کتاب کی دو ضخیم جلدوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے ’’میں ان دونوں جلدوں کا انگریزی میں ترجمہ کرنا چاہتا ہوں‘‘، میں نے عرض کیا کہ اس میں تو بہت وقت لگ جائے گا۔ انھوں نے فرمایا ’’اس میں صرف دو مہینے‘‘۔ پیرانہ سالی کے باوجود ان کی یہ جوان ہمتی دیکھ کر مجھے اپنے آپ پر شرم آنے لگی۔
استاد مرحوم کی چند اہم تصنیفات و تالیفات کی فہرست درج ذیل ہیں:
(۱) فردوس الحمکۃ (فی الطب) یہ ابوالحسن علی بن سہل بن الطبری کی ایک اہم تصنیف ہے۔ جو ۸۵۰؁ھ میں لکھی گئی تھی یہ عربی میں طب کی قدیم ترین کتاب ہے، جس میں اس دور تک کے سارے طبی معلومات جمع کردیئے گئے ہیں اس کتاب کی طرف سب سے پہلے پروفیسر براؤن نے توجہ کی جو تاریخ، ادبیات، فارسی کے مصنف ہونے کے علاوہ عربی زبان میں طبی معلومات کے موضوع پر ایک ماہر مستشرق کی حیثیت سے بڑی شہرت کے مالک ہیں، پروفیسر موصوف نے اس کتاب کا ایک حصہ ایڈٹ بھی کرلیا تھا، مگر بعض مجبوریوں کی بناء پر اس کام کو جاری نہ رکھ سکے۔
جب ڈاکٹر صاحب کیمبرج یونیورسٹی میں داخل ہوئے تو انھوں نے یہ اہم کام ان کے سپرد کیا، یہ کام بڑا مشکل اور بے حد محنت طلب تھا کوئی اور ہوتا تو گھبرا جاتا، مگر ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب کو نہ صرف ایڈٹ کیا اور اس پر فاضلانہ مقدمہ لکھا، بلکہ ایک ہندوستانی مخطوطے کی مدد سے اس کے نامکمل حصے کو مکمل بھی کیا یہ کتاب برلن سے گب میموریل ٹرسٹ کے زیر اہتمام ۱۹۲۰؁ء میں شائع ہوئی۔
(۲) السیر الحثبث فی تاریخ تدوین الحدیث۔ یہ ڈاکٹر صاحب کا وہ عربی مقالہ ہے، جو انھوں نے تاریخ علم الحدیث پر دائرہ المعارف حیدرآباد کے ایک جلسہ میں ۱۹۳۹؁ء میں پڑھا تھا، اور جو بعد میں مطبع دائرۃ المعارف سے ۱۳۵۸؁ھ میں شائع ہوا تھا۔ اس مقالے میں فن حدیث کی تاریخ اور حدیث نبوی کے اہم مسائل سے بحث کی گئی ہے۔
(۳) تاریخ نامۂ ہراۃ۔ یہ ہرات کی تاریخ ہے جسے فاضل مورخ سیف بن محمد بن یعقوب الہروی نے ملک غیاث الدین کرت کی فرمائش پر لکھا، یہ چنگیز خان کے حملۂ ہرات سے لے کر غیاث الدین کرت کے عہد تک کی ایک مستند تاریخ ہے، اس کا واحد مخطوطہ امپیرئل لائبریری (موجودہ نیشنل لائبریری) کے بوہار سیکشن میں محفوظ تھا، لائبریری کے سابق ناظم خان بہادر خلیفہ محمد اسد اﷲ مرحوم کی تحریک پر ڈاکٹر صدیقی صاحب نے بڑی محنت اور عرق ریزی کے بعد اس کو ۱۹۴۴؁ء میں ایڈٹ کیا اور اس پر انگریزی میں ایک بسیط اور پراز معلومات مقدمہ لکھا۔
(۴) اسٹڈیز ان عربک اینڈ پرشین میڈیکل لٹریچر (Studies in Arabic and Persian Medical Literature) یہ کتاب ڈاکٹر صاحب کی ایک اہم تصنیف ہے، اس میں انھوں نے عربی اور فارسی زبانوں میں آغاز اسلام سے ابتدائے عہد بنی عباس تک طبی سرمایہ کا جائزہ لیا ہے، اور مختلف اہم طبی مسائل پر عالمانہ بحث کی ہے۔ ڈاکٹر بی۔سی راے سابق وزیراعلیٰ مغربی بنگال نے اس پر پیش لفظ لکھا ہے یہ کتاب کلکتہ یونیورسٹی کے زیر اہتمام ۱۹۵۹؁ء میں شائع ہوئی۔
(۵) حدیث لٹریچر۔ (Hadith Literature) طب کی طرح فن حدیث سے بھی ڈاکٹر صاحب کو گہری دلچسپی رہی ہے، چنانچہ انھوں نے اسی موضوع پر مختلف تحقیقی مضامین اردو اور انگریزی میں شائع کئے، سالہا سال کی اس محنت کے نتائج ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب میں محفوظ کردیئے ہیں، یہ انگریزی زبان میں فن حدیث کی سب سے پہلی مستند اور جامع کتاب کہی جاسکتی ہے، یہ کتاب بھی کلکتہ یونیورسٹی کے اہتمام سے ۱۹۶۱؁ء میں شائع ہوئی۔
(۶) دی سوشل پوزیشن آف وومین تھرو دی ایجیز (The Social Position of Women Through The Ages) یہ دراصل ڈاکٹر صاحب کے وہ تین انگریزی خطبات ہیں جو انھوں نے سرعبداﷲ میموریل لکچرر کی حیثیت سے ۲۹؍ ستمبر اور پہلی اور تیسری اکتوبر ۱۹۶۴؁ء کو کلکتہ یونیورسٹی میں دیئے تھے، پہلے خطبے میں عورت کی حیثیت زمانۂ قدیم میں، دوسرے خطبے میں اس کی حیثیت زمانۂ وسطیٰ کے مغربی معاشرے میں اور تیسرے خطبے میں ’’عورت کی حیثیت اسلام میں‘‘ پر مفصل بحث کی گئی ہے، یہ خطبات بھی کلکتہ یونیورسٹی کی طرف سے ۱۹۷۱؁ء میں شائع ہوگئے ہیں۔
اپنی پچاس سالہ علمی زندگی میں ڈاکٹر صاحب نے ہندوستان کے مختلف علمی رسائل و مجلات مثلاً معارف، اسلامک کلچر، کلکتہ ریویو اور اسلام اور عصر جدید میں بے شمار علمی و تحقیقی مضامین لکھے جن سے ڈاکٹر صاحب کے علم کی گہرائی، تنوع اور مطالعہ کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔
اسلامیات کے متعلق ہندوستان کا شاید ہی کوئی ادارہ ہوگا جس سے ان کا گہرا تعلق نہ ہو، ندوۃ العلماء لکھنؤ، دائرۃ المعارف حیدرآباد دکن، دارالمصنفین اعظم گڑھ، ندوۃ انجمن لائبریری پٹنہ، رام پور اسٹیٹ لائبریری سالار جنگ میوزیم، آصفیہ لائبریری حیدرآباد اور ایشیاٹک سوسائٹی کلکتہ میں وہ ہمیشہ سرگرم عمل نظر آئے، ہندوستان کی ان تمام یونیورسٹیوں سے جہاں عربی، فارسی اور اسلامیات کی تعلیم کا انتظام ہے، وہ ہمیشہ منسلک رہے، اور یہاں ان کے مشورے بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، ملک کے بہت سے اسلامی مدارس کے علمی اور انتظامی امور میں ڈاکٹر صاحب کے مشوروں کو بڑا دخل تھا، مدرسۂ شمس الہدیٰ پٹنہ اور مدرسۂ عالیہ کلکتہ کے نصاب تعلیم کی تشکیل میں انھوں نے بڑا حصہ لیا، مدرسۂ عالیہ کلکتہ سے تو تقسیم بنگال سے پہلے اور اس کے بعد برابر ان کا تعلق رہا، وہ اس کی گورننگ باڈی کے چیرمین اور مدرسہ بورڈ کے ممتاز رکن تھے، مشرقی علوم سے متعلق ہندوستان اور بیرون ہند کی کانفرنسوں میں وہ بالعموم شریک ہوتے تھے، بین الاقوامی اورینٹل کانگریس کے کئی جلسوں میں جو ایشیا اور یورپ کے مختلف ممالک میں منعقد ہوئے، انھوں نے شرکت فرمائی اور تحقیقی مقالے پڑھے، وہ ڈھاکہ کی اس آل پاکستان ہسٹوریکل کانفرنس میں بھی تشریف رکھتے تھے جس میں مولانا سید سلمان ندویؒ کے خطبہ کے خلاف اردو دشمن عناصر نے بڑا نازیبا مظاہرہ کیا تھا، ڈاکٹر صاحب کو اس ناشائستہ حرکت سے بڑا قلق ہوا تھا۔
ڈاکٹر صاحب کے اساتذہ کرام میں مولانا عبداﷲ صاحب پنجابی، مولانا حکیم عبدالعزیز صاحب منطقی سہارنپوری، مولانا حکیم محمد نجم الدین صاحب داناپوری، مولانا فضل حق صاحب رامپوری، ڈاکٹر عظیم الدین (پٹنہ) پروفیسر محمد شفیع (لاہور) پروفیسر محمد اقبال (لاہور) پروفیسر اے۔ اے بیوان اور پروفیسر ایڈورڈ جی۔ براؤن کے نام ذہن میں محفوظ ہیں، جن اکابر وقت سے ان کو عقیدت تھی، یا جن کا نام وہ احترام کے ساتھ لیا کرتے تھے، ان میں سر فخرالدین وزیر تعلیم بہار و اڑیسہ، سرعبداﷲ سہروردی، سرحسان سہروردی، سرعزیزالحق، ڈاکٹر رادھا کرشنن، رینالڈ اے نکلسن، علامہ سید سلیمان ندوی، ڈاکٹر ذاکر حسین، ڈاکٹر ہربندر کمار مکھرجی اور ڈاکٹر پروفیسر بی۔سی رائے خاص طور پر قابل ذکر ہیں، علامہ سید سلیمان ندویؒ کے علم و فضل اور اخلاق و کمالات کے بڑے قدردان تھے، اپنی عقیدت و نیازمندی کا اظہار اپنے اس مقالہ میں کیا ہے، جو معارف سلیمان نمبر میں شائع ہوا ہے، ہم عصروں اور ہم چشموں میں ڈاکٹر عبدالستار صدیقی (الٰہ آباد) ڈاکٹر شیا ماپرشاد مکھرجی، پروفیسر ہمایوں کبیر ڈاکٹر سونیتی کمار چٹرجی (نیشنل پروفیسر) ڈاکٹر نظام الدین، پروفیسر ہارون خان شروانی، مسٹر اے۔ اے فیضی، ڈاکٹر عابد حسین، ڈاکٹر عبدالعلیم سابق وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی، پروفیسر محمد محفوظ الحق سابق صدر شعبۂ عربی فارسی و اردو پریسیڈنسی کالج (کلکتہ)، ڈاکٹر عندلیب شادانی (ڈھاکہ)، ڈاکٹر محمد اسحق (کلکتہ)، مولانا عبدالعزیز میمن، مولانا فضل الرحمن باقی (غازیپور)، حکیم نورالحسن (پٹنہ)، حکیم مظہر امام صاحب رئیس پٹنہ اور قاضی عبدالوودو صاحب بیرسٹرایٹ لا (پٹنہ) سے، وہ بڑے گہرے دوستانہ روابط اور بے تکلفانہ مراسم رکھتے تھے، مؤخرالذکر دو بزرگ ان کے بچپن کے رفیق ہیں، اور خدا کا شکر ہے کہ دونوں بقید حیات ہیں۔ مظہر امام صاحب مدرسۂ حنفیہ میں ان کے ہم سبق تھے، اور ڈاکٹر صاحب جب پٹنہ جاتے ان سے ضرور ملاقات کرتے تھے، قاضی صاحب سے جو خلوص تھا، اس کا اندازہ ان الفاظ سے ہوتا ہے جو ڈاکٹر صاحب نے سرعبداﷲ میموریل لکچر کے آغاز میں ان کی طرف خطبہ کا انتساب کرتے ہوئے لکھے ہیں، اور جس میں انھوں نے حافظ شیرازؒ کا یہ شعر بھی نقل کیا ہے:
محبک راحتی فی کل حین
وذکرک مونسی فی کل حال
ڈاکٹر صاحب مرحوم کے شاگردوں کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ یہاں اس کی مختصر سے مختصر فہرست بھی پیش نہیں کی جاسکتی ہے، اپنی چہل سالہ تدریسی زندگی میں انھوں نے اپنی نظر کیمیا اثر سے نہ معلوم کتنے مس خام کو کندن بنادیا، ان کے علم کی تابانی سے بہت سے ذرے آفتاب بن گئے، اور ان کی نگاہ جوہر شناس نے کتنے ہی موتیوں کو در شہوار بنادیا۔ پہ سطریں لکھتے وقت جن ارشد تلامذہ کے نام حافظہ کے افق پر ابھر رہے ہیں، صرف ان کی فہرست پیش خدمت ہے۔
مولانا حافظ عبدالحفیظ سابق پرنسپل مدرسۂ عالیہ ڈھاکہ، مولانا حافظ عبدالحئی سابق پرنسپل مدرسۂ چاٹگام، مولانا محمد اکبر ندوی ریڈر شعبہ عربی و فارسی کلکتہ یونیورسٹی ڈاکٹر امام الدین صدر شعبۂ اسلامی تاریخ و ثقافت ڈھاکہ یونیورسٹی، پروفیسر محمد اسمٰعیل مولانا آزاد کالج کلکتہ، ڈاکٹر محمد صابر خان ممبر پبلک سروس کمیشن مغربی بنگال، خواجہ محمد یوسف ایڈوکیٹ ہائی کورٹ، سید ابوبکر حسنی (نہرو یونیورسٹی دہلی)، ڈاکٹر عطا کریم برق صدر شعبہ فارسی و عربی کلکتہ یونیورسٹی، مسٹر محمد عبدالمجید جنرل سکریٹری ایران سوسائٹی (کلکتہ) لکھنؤ یونیورسٹی سے وابستگی کے زمانہ میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے بھی ڈاکٹر صاحب سے استفادہ کیا ہے۔ ۱؂
کلکتے میں جن بے شمار لوگوں نے ڈاکٹر صاحب کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، ان میں ہیچ مداں راقم السطور بھی داخل ہے، گوش آشنا تو شمس الہدی پٹنہ کی طالب علمی کے زمانہ (۳۵۔۱۹۳۲ء) سے تھا، ۱۹۳۷؁ء میں جب کہ پریسیڈنسی کالج کلکتہ میں داخل ہوا، مختلف مجلسوں میں ڈاکٹر صاحب کو دور سے دیکھنے اور تقریریں سننے کا موقع ملا۔ اس وقت تک میں مغربی وضع و قطع کے لوگوں کے منہ سے قرآن و حدیث کی باتیں سننے کا عادی نہیں ہوا تھا، مدرسہ کی تعلیم کی کچھ خشونت ابھی باقی تھی، اس لیے شروع شروع میں ایسے موقعوں پر مدرسی عصبیت کی بناء پر دل میں انقباض پیدا ہوتا تھا، مگر شکر ہے کہ تشکیک کی یہ منزل بہت جلد طے ہوگئی، ۱۹۴۱؁ء کے وسط میں کلکتہ یونیورسٹی میں طالب علم کی حیثیت سے پہنچا تو ڈاکٹر صاحب کے حلقۂ درس میں شریک ہونے کی سعادت حاصل ہوئی، براہ راست استفادہ کا موقع ملا، ان دنوں وہ ایم۔اے (عربی) میں ابن قدامہ کی نقدالشعر اور تاریخ اسلام کا درس دیا کرتے تھے، ان کی عربی دانی، تاریخ ادبیات عرب سے گہری واقفیت اور وسعت مطالعہ نے میرے دل پر سکہ جمانا شروع کیا، رفتہ رفتہ میں ان کا گردیدہ ہوگیا، ایم۔اے کے بعد جب ان کی نگرانی میں علمی تلاش و تحقیق کا کام شروع کرنے کا شرف حاصل ہوا تو اور قربت بڑھی۔ اب میں ان کے دولت کدے پر بھی حاضر ہونے لگا۔ انھوں نے ابن حزم اندلسی کی جمھرۃ الانساب کے متن کی تہذیب و تصحیح اور ابن حزم کے حالات زندگی کی ترتیب کا کام میرے سپرد کیا، اس وقت تک جمھرۃ الانساب کے صرف دو قلمی نسخے موجود تھے، ایک کتب خانہ خدابخش پٹنہ میں اور دوسرا رامپور لائبریری میں، ۲؂ میں نے اپنی بساط علم کے مطابق بڑی محنت کی اور دو سال تک اس کام میں لگا رہا، مگر چونکہ استاد محترم کی علمی تحقیق کا معیار بہت بلند تھا، اور وہ اپنے شاگردوں سے بھی یہی توقع رکھتے تھے، اس لیے میرے کام سے کچھ زیادہ مطمئن نہیں تھے، مگر جب میں نے چپکے چپکے ابن حزم اور اس کی جمھرۃ الانساب پر انگریزی میں ایک مقالہ لکھا اور وہ رائل ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کے جرنل میں شائع ہوگیا تو وہ مجھ سے بہت خوش ہوئے، علمی کاموں میں ان کی سخت گیری کا ایک واقعہ جو اسی زمانہ میں میرے ساتھ پیش آیا مجھے یاد ہے، میں امپریل لائبریری (موجودہ نیشنل لائبریری) کے بوہار سیکشن کے دارالمطالعہ میں بیٹھا ہوا حسب معمول اپنے کام میں مشغول تھا، میری میز پر بہت سی کتابیں بے ترتیبی سے پڑی ہوئی تھیں، اس وقت میں اتفاق سے شعرالعجم میں کچھ دیکھ رہا تھا، اچانک استاد محترم میرے قریب آئے اور یہ کہتے ہوئے کہ ’’ابھی آپ شعرالعجم ہی میں ہیں‘‘ گزر گئے، ان کا یہ جملہ مجھ پر بجلی کی طرح گرا۔ اس وقت وہاں کچھ اور لوگ بھی موجود تھے، اس لیے شرم اور ندامت سے عرق عرق ہوگیا، مگر اس جملہ نے میرے سمند شوق پر تازیانہ کا کام کیا، اور میں اپنی علمی جدوجہد میں پہلے سے زیادہ سرگرم ہوگیا۔ پھر وہ دن آیا جب استاد محترم نے مجھے ایک سرکاری کالج کی پروفیسری کے لئے منتخب کیا۔ چند ہی برسوں کے بعد انھوں نے اپنی کوششوں سے میرا رشتہ کلکتہ یونیورسٹی کے شعبۂ یونیورسٹی کے شعبۂ عربی و فارسی سے بھی قائم کردیا، اور میں وہاں بھی درس دینے لگا۔
۱۹۵۹؁ء کا ذکر ہے، مولانا سعید احمد اکبر آبادی پرنسپل مدرسۂ عالیہ کلکتہ مدرسہ سے شدر حال کا مصمم ارادہ کرچکے تھے، ان کی جگہ کا اعلان ہوا تو مدرسہ کے رموز و اسرار سے ناواقفیت کی بنا پر میں نے درخواست دینی چاہی، میں نے استاذ مرحوم سے اس سلسلہ میں مشورہ کرنا چاہا، مگر انھوں نے انکار کردیا، اس وقت ان کی اس بے التفاتی سے میرے دل کو تھوڑی سی تکلیف پہنچی تھی، مگر بعد کے واقعات نے بتایا کہ ان کا طرز عمل درست تھا، بہرحال میں نے درخواست دے دی اور میرا انتخاب بھی ہوگیا۔ انتخابی کمیٹی میں دوسرے ماہرین کے ساتھ استاذ مرحوم بھی تھے، پرنسپل کے عہدہ پر فائز ہوئے، ابھی ایک ہی سال گزرا تھا کہ میں وہاں کی فضا سے بددل ہوکر مولانا اکبر آبادی کی طرح رخت سفر باندھنے پر مجبور ہوگیا، استاذ محترم مدرسے سے میری علیحدگی کے مخالف تھے ان کے اور بعض دیگر بزرگوں کے اصرار سے میں نے وہاں تقریباً چار سال گزارے، اس پوری مدت میں میرے خلاف شدید ہنگامے ہوتے رہے، حضرت الاستاذ ہمیشہ ہر آڑے وقت میں میری دستگیری فرماتے اور مفید مشورے دیتے مدرسے کے علاوہ پرنسپل کوارٹر میں پابندی سے تشریف لاتے، اور گھنٹوں مدرسہ کے پیچیدہ معاملات پر گفتگو کرتے، یہاں تک کہ میری حمایت میں وہ اہل مدرسہ کے سب و شتم کا نشانہ بھی بنے۔
۱۹۶۴؁ء کے اوئل میں خدا خدا کرکے مدرسہ سے رخصت ہوکر مولانا آزاد کالج میں واپس آیا تو کھویا ہوا سکون مجھے واپس ملا۔اور ان علمی و ادبی منصوبوں کی طرف پھر توجہ کا موقع ملا، جن کا شیرازہ گزشتہ پانچ سال کے عرصہ میں بکھر گیا تھا، ع
دگر از سر گرفتم قصۂ زلف پریشاں را
حضرت الاستاذ کی ہم نشینی، ان کی ہمرکابی اور ان سے علمی استفادہ کے زیادہ مواقع نصیب ہوئے، اب وہ بھی یونیورسٹی کی ملازمت سے سبکدوش اور سینٹ اور سنڈیکیٹ کی کاروائیوں کے چکر سے سبک ہار ہوچکے تھے، اس لئے اکثر باریابی کا موقع میسر آتا، پھر جب ان کی صحت خراب رہنے لگی، تو اکثر مزاج پرسی کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ وہ ہمیشہ اپنے مرض کی تفصیلات بیان کرنے سے اغماض کرتے اور اپنی دلچسپی کی خبریں پوچھتے، آخری دو تین برسوں میں عام صحت کے ساتھ حافظہ بھی کمزور ہوگیا تھا، آخری ملاقات اور گفتگو ۱۳؍ جنوری ۱۹۷۶؁ء کی صبح کو ہوئی، وہ اندر کے برآمدے میں دھوپ میں بیٹھے ہوئے تھے، میری آمد کی اطلاع پاکر ملاقات کے کمرہ میں داخل ہوئے تو میں نے ان کو سہارا دینا چاہا مگر انھوں نے منع فرمایا میں نے مزاج پرسی کے بعد ان کے بچپن کے رفیق حکیم مظہر امام صاحب کا ایک پیغام سنایا اور عرض کیا کہ پٹنہ جارہا ہوں، اگر آپ انھیں کچھ کہنا یا لکھنا چاہیں تو میں خدمت انجام دے سکتا ہوں، میں نے جب پہلی مرتبہ حکیم صاحب کا نام لیا تو فرمایا ہاں حکیم مظہر امام میرے بچپن کے ساتھی ہیں، پھر دو تین منٹ بعد ان کا ذکر آیا تو فرمانے لگے، کون مظہر امام؟ کہاں کے رہنے والے، فروری کے مہینے میں میں ان کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکا۔ مارچ کے مہینہ میں ان کی آخری علالت کی اطلاع مجھے بہت دیر سے ملی۔ ۱۷؍ مارچ کی شب کو حاضر ہوا تو انھیں بستر مرگ پر بے ہوش دیکھا۔ ان کی تکلیف مجھ سے نہیں دیکھی گئی، دل ہی دل میں انھیں الوداع کہتا ہوا کمرے سے باہر نکل آیا۔ دوسرے دن مغرب سے کچھ پہلے جناب احمد سعید ملیح آبادی صاحب اور جناب خواجہ محمد یوسف صاحب میرے غربت کدے پر یہ غمناک خبر دینے کے لئے تشریف لائے کہ استاذ مرحوم رفیق اعلیٰ سے جاملے۔
افسوس! صدا افسوس!! یہ ابر کرم، علم و دانش، اخلاق و مذہب، فلسفۂ و حکمت اور حقایق و معارف کے موتی بکھیرتا ہوا، سرسے گزرگیا، اور میں کم نصیب پوری طرح اس سے فیض یاب نہ ہوسکا۔
ابر رحمت دامن از گلزارِ من برچید و رفت
اندکے ہر غنچہ ہائے آرزو بارید رفت
(مئی ۱۹۷۶ء)

۱؂ گذشتہ صفحات میں بہت سے بزرگوں اور رفیقوں کے نام آئے ہیں ان میں سے کتنے اس دنیائے فانی سے رخصت ہوچکے ہیں جن کے متعلق مجھے معلوم نہیں ہے کہ وہ بقید حیات ہیں یا اﷲ کو پیارے ہوگئے۔ مرحومین کے لئے دعائے مغفرت کرتا ہوں احباب اوررفقاء میں کوئی قابل ذکر نام اگر درج ہونے سے رہ گیا ہو تو وہ معاف فرمائیں کہ یہ عمداً نہیں بلکہ سہواً ہے۔
۲؂ عرصہ ہوا یہ کتاب مصر سے شائع ہوگئی ہے۔


 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...