1676046599977_54338177
Open/Free Access
339
مفتی سید محمد مہدی حسن شاہجہانپوری
(محمد نعیم صدیقی ندوی)
افسوس ہے کہ گزشتہ اپریل کی ۲۹؍ تاریخ کو علم و عمل اور فضل و کمال کی ایک اور شمعِ فروزاں گل ہوگئی، مولانا مفتی سید محمد مہدی حسن شاہجہانپوری نے ۹۶ سال کی عمر میں بعارضہ فالج داعی اجل کو لبیک کہا مرحوم اس عہد میں اگلی صحبتوں کی چند بقیۃ السلف یادگاروں میں سے تھے، وہ اتباع سنت، تبحر علم، وسعت نظر، طہارت و تقویٰ زہد و ورع اور کتاب و سنت کی تفسیر و تعبیر میں یگانہ عہد تھے، دارالعلوم دیوبند کی مسند درس و افتا ان کے فیضان کمال سے ایک عرصہ تک بارونق رہی ہے اور سیکڑوں تشنگان علم ان کے منبع فیض سے سیراب ہوئے، وہ بلاشہ معلومات کے دریا، حافظہ کے بادشاہ اور وسعت علم کی ایک نادر مثال تھے، ہر مجلس و محفل میں یکساں ان کی قدر و منزلت تھی، حدیث کے ساتھ فقہ کے جزئیات پر ان کی وسعت نظر مسلم خیال کی جاتی تھی۔
مفتی مہدی حسن مرحوم ۱۳۰۰ھ میں شاہجہاں پور کے ایک محلہ ملا خیل میں پیدا ہوئے، عربی و فارسی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد سید کاظم حسن اور بڑے بھائی سے حاصل کی بارہ سال کی عمر میں حفظ قرآن کی دولت سے مالامال ہوگئے، پھر وطن ہی کے مدرسہ عین العلم میں شیخ عبدالحق (خلیفہ مجاز مولانا رشید احمد گنگوہی) اور مفتی کفایت اﷲ دہلوی جیسے اکابر اساتذہ فن سے صرف و نحو اور فقہ کی تحصیل کی، پھر جب مفتی کفایت اﷲ صاحب مدرسہ امینیہ دہلی چلے گئے تو مرحوم کے والد نے ان کو بھی وہیں بھیج دیا، جہاں انھوں نے ملک کے منتخب اصحاب کمال کے سامنے زانوے تلمذتہ کرکے فقہ، ادب، منطق، فلسفہ، اصول فقہ اور حدیث وغیرہ علوم میں دسترس اور کمال بہم پہنچایا، ۱۳۲۶ھ میں کتب درسیات سے فراغت پائی اور مدرسہ امینیہ ہی میں تدریسی خدمت انجام دینے لگے، جامع ترمذی اور صحیح بخاری کا درس شیخ الہند مولانا محمود حسن سے بھی لیا، پھر مدرسہ اشرفیہ راندیر (سورت) میں صدر مدرس مقرر ہوئے اور وہاں سات سال تک حدیث کی امہات کتب کے علاوہ معقولات کا درس دیا، اس کے بعد راندیر ہی کے مدرسہ محمدیہ میں چار سال تک شیخ الحدیث کے منصب پر مامور ہوکر صحاح ستہ کی تدریس اور کامل تیس سال تک افتا کی خدمت انجام دی، یہاں تک کہ ۱۳۶۰ھ میں ارباب دارالعلوم دیوبند کی نظر انتخاب ان پر پڑی اور وہ وہاں تادم واپسیں صدر المفتیین کے اعلیٰ منصب پر فائز رہے، اس طرح تقریباً چالیس سال تک انھوں نے ایک جید مفتی کی حیثیت سے بے شمار لوگوں کو مستفیض کیا، وہ فتاویٰ کے جوابات مختصر لیکن ماقل ودل دیتے تھے۔
مرحوم پانچ مرتبہ حج بیت اﷲ سے مشرف ہوئے تھے اور انھوں نے حرمین میں علوم عقلیہ و نقلیہ کے ماہر شیوخ سے استفادہ کرکے سند و خرقہ اجازہ حاصل کیا تھا، یہ اسی طویل ریاض اور محنت کا نتیجہ تھا کہ مرحوم کا پایۂ فقہ و حدیث اور رجال و انساب میں اتنا اونچا تھا کہ اس عہد میں اس کی نظیر بہت مشکل ہے، ایک مشاق مدرس اور ماہر مفتی ہونے کے ساتھ تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی امتیاز حاصل تھا، چنانچہ انھوں نے عربی اور اردو دونوں زبانوں میں بکثرت کتابیں یادگار چھوڑی ہیں، جن میں اللآلی المصنوعہ فی الروایات المجموعۃ شرح کتاب الآثار (۳جلد) کتاب الحجۃ علیٰ اہل المدینۃ (۳جلد) الدرالثمین، رجال کتاب الآثار، الاھتداء فی ردالبدعۃ شرح بلاغات محمد فی کتاب الآثار خصوصیت کے ساتھ مفتی صاحب کے تبحر علمی، وسعت نظر، دقیقہ رسی اور بلند ذوق تحقیق و تفحص کی آئینہ دار ہیں، ان کتابوں کے مطالعہ سے پورا اندازہ ہوتا ہے کہ مرحوم کا علم کتنا حاضر و مستحضر اور جزئیات فقہ و حدیث و اسماء الرجال پر ان کو کیسا عبور کامل حاصل تھا، کتاب الحجۃ علیٰ اھل المدینۃ کی تصحیح و تعلیق کی خدمت انھوں نے کامل بیس سال تک نہایت جانکاہی اور عرق ریزی کے ساتھ مشغول رہ کر انجام دی تھی اور غالباً اسی باعث بقول مولانا ابوالوفا افغانی، یہ ایک بہترین تخلیق بن گئی ہے۔
فضل و کمال کے ساتھ مرحوم کی شخصیت گوناگوں محاسن اخلاق کی حامل تھی، علم اور عمل بہت کم یکجا ہوتے ہیں، لیکن مفتی صاحب کی ذات ان دونوں کی جامع تھی، وہ نہایت نیک طینت متواضع ملنسار سادہ مزاج، کشادہ دست خندہ جبیں کریم النفس، مہمان نواز رائے کے مضبوط اور کام کے دھنی تھے، تقویٰ اور دینداری ان کے چہرہ کمال کے نمایاں خط و خال تھی، وہ باایں ھمہ وقار علم بذلہ سنج بھی تھے، اردو شعر و سخن کا بڑا نکھرا ذوق رکھتے تھے، ان کے عربی اسلوب نگارش میں بہت سادگی، دلکشی اور رعنائی ملتی ہے، واقعہ یہ ہے کہ ایسے نادرِ عہد صاحبِ کمال صدیوں کی گردش میں پیدا ہوتے ہیں، اﷲ جل شانہ اس مجموعہ کمالات و اخلاق کی مرقد کو پرنور فرمائے اور اس پر اپنا ابر رحمت برسائے۔
(جولائی ۱۹۷۶ء)
Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
Loading... | |||
Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |