Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

احمد زکی
ARI Id

1676046599977_54338178

Access

Open/Free Access

Pages

340

احمد زکی
انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل کا دور ایک عالمگیر بیداری تجدید اور ذہنی علمی تہذیب و تثقیف کا دور ہے، تقریباً ہر زندہ قوم و زبان پر بدلے ہوئے حالات کا اثر پڑا اور کچھ ایسی شخصیتیں سامنے آگئیں جو نئے رجحانات اور جدید تقاضوں سے باخبر بھی تھیں اور ان کی اہمیت و ضرورت کی معترف بھی، عالم عرب جو عرصہ سے سیاسی خلفشار اور معاشرتی اضطراب و بے چینی سے دوچار تھا، دوسروں کی بہ نسبت ان حالات سے جلد متاثر ہوا، عربی ادب جو زمانہ سے جمود و تعطل کا شکار تھا، اس دور میں اس نے کئی ایسے نامور ادیبوں کو جنم دیا جنھوں نے نہ صرف یہ کہ عربی ادب کو نئی روح، اس کے قالب کو نئی جان اور اس کے چہرے کو نئی رونق بخشی، بلکہ ان کی بالغ نظری، جدت طرازی اور دوربینی نے دوسروں کی توجہ بھی اپنی جانب مبذول کرلی اور ان کے خیالات کی بازگشت دور دور سنائی دینے لگی، شیخ محمد عبدہ، علامہ رشید رضا، امیر شکیب ارسلان، مصطفی لطفی منفلوطی، مصطفی صادق الرافعی معروف الرضافی خلیل مظران، کرد علی، عباس محمود عقاد، احمد امین، حسن زیات جیسے نامور مفکروں اور ادیبوں سے یہ عہدِ جدید مالا مال ہوگیا، ان میں سے ہر شخص زبان اور فکر و نظر، ادب و انداز اور گہرائی و گیرائی کے لحاظ سے منفرد و ممتاز حیثیت کا حامل ہے۔ انہی ناموروں کی صف میں احمد زکی کا بھی شمار ہوتا ہے، جن کا ابھی گزشتہ سال انتقال ہوا ہے، اور جنھوں نے اپنے سائنس آمیز مقالات و تصانیف کی وجہ سے عربی ادب میں ایسا مرتبہ حاصل کرلیا ہے جو محترم بھی ہے اور باوقار بھی۔
اصلاً وہ سائنس کے عالم تھے، ان کی تعلیم کا بیشتر حصہ سائنسی علوم کی تحصیل میں صرف ہوا، ۱۹۱۹؁ء میں انھوں نے لندن یونیورسٹی سے سائنس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی اور پھر چند ہی برسوں کے بعد فلسفہ میں بھی لیورپول یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کرلیا، اس طرح وہ سائنس و فلسفہ دونوں میں اعزازی نمبروں کے ساتھ سندیں لے کر اپنے وطن مصر واپس آئے اور پھر طویل عرصہ تک درس و تدریس کی زندگی میں لکچرر سے لے کر پروفیسر ڈین اور پرنسپل تک کے عہدوں پر کام کرتے رہے، اس اثنا میں وہ مصر کے اعلیٰ سائنسی اداروں کے مشیر شریک اور سربراہ کی حیثیت سے بھی اپنے فرائض انجام دیتے رہے، ۵۴؁ء میں سرکاری عہدوں سے ریٹائر ہونے کے بعد وہ مکمل طور سے سائنسی و علمی بحث و تحقیق میں لگ گئے، اس طرح انھوں نے سائنس اور ادب کے بہترین امتزاج کی ایک مثال قائم کردی، مشہور عربی محقق ڈاکٹر عدنان خطیب نے لکھا ہے، احمد زکی ایسے اچھے سائنسدان تھے، جنھوں نے لوگوں کو سائنس کے احترام پر مجبور کردیا، ایسے صاحب فکر تھے جو قارئین کو اپنے نقطۂ نظر سے متاثر کردیتے، ادیب اس درجہ کے تھے کہ اپنا ایک اسلوب رکھتے تھے، اس کے ساتھ کمال یہ تھا کہ اپنے علم و فکر کو صحیح، سلیس اور عام فہم زبان میں پیش کرنے کی بے مثل قدرت رکھتے تھے، احمد زکی کے طرز تحریر کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ دقیق و پیچیدہ سائنسی مسائل اور مشکل ترین معانی و مطالب کو ایسے صاف اور سلجھے ہوئے انداز میں پیش کرتے ہیں کہ سمجھنے میں زیادہ دشواری نہیں ہوتی ان کے یہاں علم کے وزن کے ساتھ ادب کی چاشنی بھی ہوتی ہے، ’’حصہ المکروب‘‘ اور ’’قصہ الکیمیا‘‘ ان کی ایسی ہی کتابیں ہیں جن میں قاری تجسس اور کھوج کی بھول بھلیوں میں بڑے اطمینان کے ساتھ ان کے ساتھ چلتا ہوا منزل تک جاپہنچتا ہے، ’’مع اﷲ فی السماء‘‘، ’’مع اﷲ فی الارض‘‘، ’’وحدۃ اﷲ تترأی فی وحدۃ خلقہ‘‘ اور ’’قدرۃ اﷲ تترائی فی بدیع صنعہ‘‘ جیسے سلسلۂ مضامین ان کی وقت نظری کثرت مطالعہ اور وسیع ثقافتی ذہن کے آئینہ دار ہیں، پیچیدہ ترین موضوع کو آسان الفاظ اور واضح ترکیبوں سے سلجھا دینے کا نمونہ دیکھنا ہوا تو ان کی زندہ جاوید کتاب ’’فی سبیل موسوعۃ علمیہ‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔
انھوں نے مصر کے اعلیٰ علمی ادارہ لجنۃ التالیف و الترجمہ و النشر کے ایک ممتاز رکن کی حیثیت سے کئی کتابوں کو عربی قالب عطا کیا، مختلف اعلیٰ علمی مباحثوں میں شریک ہوئے، اور ملک کے چوٹی کے مجلوں میں بلند پایہ مضامین لکھے، ان کی چند کتابوں کے نام یہ ہیں، ۱۔سلطۃ علمیہ، ۲۔بین السموع القرأۃ، ۳۔مارجرت اوغادۃ الکیمیا، ۴۔قصہ المکروب، ۵۔قصہ الکیمیا، ۶۔جان دارک، ۷۔مواقف حاسمہ فی تاریخ العلم، ۸۔مع اﷲ فی السماء، ۹۔فی سبیل موسوعۃ علمیہ، ۱۰۔مع اﷲ فی الارض، وہ صاحب طرز ادیب تو تھے ہی اسی کے ساتھ نئے الفاظ جدید اصطلاحات اور انوکھی ترکیبیں بھی بے تکلف استعمال کرتے تھے اور اس بارے میں کسی کی مخالفت کی پرواہ نہ کرے تھے، ’’العلم ورای السواد بین الناس‘‘، جو جیمز کونائٹ کی ایک کتاب کا ترجمہ ہے اس کے مقدمہ میں انھوں نے اپنے مسلک کی وضاحت بڑی جرأت کے ساتھ کی ہے، وہ لکھتے ہیں ’’رہی بات ترجمہ کی تو میں نے اس میں آزادی و آزاد روی کا مسلک اختیار کیا ہے، اور نفع و افادہ کو ترجیح دی ہے، ایسی کتاب کے لئے جو سائنسی مضامین پر مشتمل ہو، الفاظ کی نئی ساخت اور جدت و اختراع ضروری ہے، چنانچہ میں بھی اس بدعت کا مرتکب ہوا ہوں‘‘، ہاں انگریزی سے مانوس و واقف قارئین کے لئے قوسین میں اصل انگریزی الفاظ بھی لکھ دیتے ہیں، یہ کتابیں صرف اپنی جدت اسلوب کے لحاظ سے ہی ممتاز نہیں بلکہ احمد زکی کی تعلیمات اور ان کے گہرے علم سے لبریز حاشیوں کی وجہ سے بڑی قیمتی اور بلند پایہ ہوگئی ہیں، یہ حاشیے فروعی مسائل سے متعلق ہوتے ہیں، مگر مولف کے مسلک اور اس کی ماخذ و قبول کے اصول کو بھی نمایاں کردیتے ہیں، عنوانوں کے انتخاب میں بھی ان کا ایک خاص ذوق ہے، ’’مواقف حاسمہ فی تاریخ العلم‘‘ اسی ذوق کا آئینہ دار ہے۔
وہ ۱۹۴۷؁ء میں عالم عرب کی ممتاز ترین علمی اکیڈمی المجمع العلمی دمشق کے ممبر منتخب ہوئے اسی اکیڈمی کے ایک اجلاس میں جو ان کے اعزاز میں منعقد ہوا تھا، مشہور ادیب احمد امین نے کہا تھا ’’احمد ایک نامور ماہر کیمیا اور ایک بلند پایہ ادیب ہیں، انھوں نے سائنس اور ادب کو باہم شیرو شکر کردیا ہے، حق یہ ہے کہ وہ سائنسدانوں میں ادیب اور ادیبوں میں سائنسدان ہیں، کبھی لیباریٹری میں نلکیوں اور محلولوں میں سرکھپا رہے ہیں اور کبھی اپنے کتب خانہ میں الفاظ کی تحلیل و تجزیہ میں مشغول کسی اصطلاح کو عربی رنگ دیتے اور اپنے نتیجہ تحقیق کو ادبی جامہ پہناتے نظر آتے ہیں‘‘ قدیم سے اختلاف کے باوجود وہ افراط و تفریظ کا شکار کبھی نہ ہوئے، بلکہ ان کے اور کارناموں کے ساتھ یہ کارنامہ بھی یاد رکھا جائے گا، کہ نشر و اشاعت کے ذرائع میں انھوں نے سختی کے ساتھ عربی قواعد اور صحیح عربی اسلوب کے اختیار پر زور دیا، خبروں کی نشریات میں خاص طور سے انھوں نے غیر فصیح الفاظ کے استعمال پر روک لگوائی۔
احمد زکی عربی صحافت سے تقریباً ہمیشہ وابستہ رہے، ایک زمانہ میں وہ ’’الرسالہ‘‘ اور ’’الثقافہ‘‘ جیسے بلند ادبی رسالوں کی مجلس ادارت میں شریک اور ’’الہلال‘‘ کے اڈیٹر رہے۔ لیکن صحیح معنوں میں ان کے سائنس آمیز ادبی شہ پاروں و شہ کاروں کو پیش کرنے کا فخر عالم عربی کے مشہور رسالہ ’’العربی‘‘ کو حاصل ہوا یہ رسالہ جو آج ۴ لاکھ سے بھی زیادہ تعداد میں ہر ماہ شائع ہوکر تمام عالم عرب میں پھیل جاتا ہے، احمد زکی کی ادارتی صلاحیتوں اور ان کی اعلیٰ قابلیتوں کا حسین ترین نمونہ ہے، کویت کا ملک جب نیا نیا قائم ہوا، تو اس کی حکومت نے ایک ایسے رسالہ کی اجراء کی تحریک کی جو باوجود اختلاف بلاد عربیہ کے ہر حلقہ میں قبولیت حاصل کرسکے اور جس کا واحد مشن عربی زبان کی تحسین و تزیین اور ترویج و اشاعت ہو، ایک ایسا رسالہ جو قدیم اقدار کے ساتھ جدید علوم و نظریات کا بھی حامل ہو، اعلیٰ مقاصد کے حامل، اس رسالہ کے لئے کسی ایسی ہی شخصیت کی ضرورت تھی، اور ظاہر ہے، احمد زکی سے بڑھ کر اس وقت کون سی ایسی شخصیت تھی، چنانچہ حکومت کویت کی نظر انتخاب ان پر پڑی اور پھر ’’العربی‘‘ اور احمد زکی ایسا ایک جان دو قالب ہوگئے ایک کے بغیر دوسرے کا تصور مشکل تھا، احمد زکی نے دسمبر ۱۹۵۸؁ء میں العربی کے پہلے اداریہ جس نے بعد میں ’’عزیزی القاری‘‘ کے عنوان سے ایک روایتی شکل اختیار کرلی لکھا تھا ’’ہم نے اس رسالہ کا نام العربی رکھا ہے، وطن عزیز کے ہر شخص کے ذہنی افق پر ابھرتے ہوئے نئے معانی و مطالب اور قلب کی گہرائی میں جنم لیتی ہوئی آزروں اور تمناؤں کو واقعی اور حقیقی انداز میں پیش کرنے کے لئے اس سے مختصر اور مکمل لفظ اور کون ہوسکتا ہے‘‘، انھوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ العربی خالص عربی فکر کا ترجمان ہے، وہ وسیع معنی میں جہل کے برعکس علم کا مرادف ہے، وہ مرض کے خلاف صحت کا رفیق ہے، وہ فقر کا دشمن اور ثروت و غنا کا دوست ہے، وہ ایسے پرخلوص عمل کا داعی ہے جس میں اعلیٰ تعلیم، وسیع ثقافت اور سچی لگن کی روح کارفرما ہو، تب ہی یہ عمل ایک خوش حال و باوقار زندگی عطا کرسکے گا، عمل انسانی معاشرہ کا حق ہے، جسے وہ اپنے ہر فرد سے طلب کرتا ہے، تعطل و بے عملی قانون فطرت ہی کے نہیں قانون حیات کے بھی خلاف ہے، عربی دنیا کے مخصوص حالات کے پیش نظر العربی نے اپنے صفحات کو سیاست و عقائد کے مباحث سے پاک رکھا، لیکن احمد زکی استعماری اور استبدادی قوتوں کی ریشہ دانیوں سے ہمیشہ اپنے قارئین کو باخبر رکھنے کی کوشش کرتے رہے، عربوں کی شکست کے عوامل کا وہ تجزیاتی مطالعہ کرتے، اور اظہار رائے میں کبھی کسی ملامت یا خوف کا خیال نہ کرتے۔ العربی بدستور اپنے انداز پر قائم اور اپنی راہ پر گامزن رہا، ۲۰۴ شماروں کے بعد نومبر ۱۹۷۵؁ء کا شمارہ وہ آخری شمارہ تھا، جس میں احمد زکی نے اپنا آخری مقالہ سپرد تحریر کیا اور جس کا عنوان عربوں کی سیاسی صورت حال کے پیش نظر بڑا ہی معنی خیز تھا، عنوان تھا، لوگ کہتے ہیں رحم و الفت دوستی اور محبت تو پرانی باتیں ہوچکیں، اب مصلحت سب پر مقدم ہے، کیسی زبوں خیالی ہے‘‘، العربی کے دو سو چار رسالوں میں ہر جگہ احمد زکی اپنے وجود کا احساس دلاتے رہے، ’’عزیزی القاری‘‘ کے علاوہ نہ جانے کتنی نازک بحثوں اہم معاملوں اور زندہ عنوانوں پر انھوں نے اظہار خیال کیا، ان کے انتقال سے عربی زبان اپنے ایک بہت بڑے خادم سے محروم ہوگئی، جو ہر وقت اس کے لئے سینہ سپر رہا کرتا، اور ایک خوبصورت جدید انداز میں عربی کے حسن کو نکھارنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ ۱؂
(’’ع۔ص‘‘، اگست ۱۹۷۶ء)

؂۱؂ مضمون بالا کے واقعات و سنین ڈاکٹر عدنان خطیب کے ایک مضمون سے ماخوذ ہیں، جو المجمع العلمی العربی دمشق کے تازہ شمارے میں شائع ہوا ہے۔

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...