Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا محمد اویس نگرامی ندوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا محمد اویس نگرامی ندوی
ARI Id

1676046599977_54338179

Access

Open/Free Access

Pages

342

مولانا محمد اویس ندوی نگرامی
دارالمصنفین اور معارف کے حلقہ میں مولانا محمد اویس ندوی نگرامی کا نام محتاج تعارف نہیں ہے، وہ معارف کی مجلس ادارت کے رکن اور دارالمصنفین کی مینیجنگ کمیٹی کے ممبر تھے، رفیق کی حیثیت سے بھی کئی سال تک یہاں رہ چکے اور تصنیف و تالیف کے علاوہ سیرۃ النبی کی نظرثانی میں بھی انھوں نے مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم کا ہاتھ بٹایا تھا، سید صاحب کی جوہر شناس نگاہ نے طالب علمی کے زمانہ ہی میں ان کی صلاحیت کا اندازہ کرلیا تھا، تعلیم سے فراغت کے کچھ ہی عرصہ بعد ان کو دارالمصنفین لے آئے، تصنیف و تالیف کے علاوہ وہ ان کی درسی لیاقت کے بھی معترف تھے، قرآن مجید کے مطالعہ کا شوق انہیں شروع ہی سے تھا، سید صاحب کی صحبت میں یہ ذوق اور بڑھا، یوں تو سبھی اہم تفسیریں نظر سے گزریں تھی، لیکن ابن جریر اور ابن کثیر سے زیادہ دلچسپی تھی علامہ ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم کے تو عاشق تھے، ان کا ذکر بڑے والہانہ انداز میں کیا کرتے تھے، اس گرویدگی کا اثر تھا کہ مختلف کتابوں سے ان کے تفسیری بیانات چن کر ایک ضخیم کتاب تیار کردی، ان کی یہ کوشش ہندوستان ہی میں نہیں، بلکہ پوری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھی گئی، اب تک کئی اڈیشن شائع کرچکے ہیں۔
علمی انہماک کے ساتھ تزکیۂ نفس اور اصلاح باطن کا بھی بڑا خیال تھا، ان کا خاندان شریعت و طریقت کی جامعیت میں ممتاز تھا، ان کے پردادا مولانا عبدالعلی حضرت شاہ علم اﷲ رائے بریلوی کے سلسلہ سے وابستہ تھے، دادا مولانا محمد ادریس بھی ایک بڑے عالم اور شیخ طریقت تھے، وہ مولانا عبدالحئی فرنگی محلی مولانا عبدالحق حقانی اور قاری عبدالرحمن پانی پتی کے شاگرد اور مولانا فضل رحمن گنج مراد آبادی کے خلیفہ تھے، والد ماجد مولانا محمد انیس بھی پوری زندگی ارشاد و ہدایت میں مصروف رہے، اس خاندان کی بدولت اودھ کے بہت سے علاقوں میں کتاب و سنت کی روشنی پہنچی، دیہات کی بہت سی برادریاں جو شرک و بدعت اور غیر شرعی رسوم میں مبتلا تھیں، ان کے ذریعہ راہ راست پر آئیں، مولانا محمد اویس کو تعلیمی و تصنیفی مشاغل کی وجہ سے دیہاتی حلقوں میں دورہ کا زیادہ موقع نہیں ملتا تھا، لیکن بایں ہمہ بزرگوں کی یہ روایت منقطع نہیں ہونے پائی۔
دارالمصنفین کے زمانۂ قیام میں ندوہ کو ان کی ضرورت محسوس ہوئی، مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم ندوہ کے بھی معتمد تھے، چنانچہ ان کے مشورے سے وہ وہاں چلے گئے، اور قرآن مجید کی تعلیم ان کے سپرد ہوئی، خداداد مناسبت کے علاوہ سید صاحب کی رہنمائی میں وہ اس موضوع پر کافی تیاری کرچکے تھے، اس لئے ان کا درس بہت مقبول ہوا، طلبہ کے علاوہ لکھنؤ کے تعلیم یافتہ اصحاب نے بھی استفادہ کی خواہش کی، اور سید صدیق حسن صاحب مرحوم کے دولت کدہ پردرس ہونے لگا، یہ سلسلہ جب تک بیماری نے مجبور نہیں کردیا، برابر جاری رہا، ان کو قلبی تکلیف کئی سال سے تھی، لیکن شروع میں اس کا احساس نہیں ہوا لیکن جب تکلیف بڑھی تو علاج شروع ہوا، اور اس میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی، لیکن تقدیر کے سامنے کوئی تدبیر نہ چل سکی، بالآخر وقت موعود آپہنچا، اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کے مراتب بلند فرمائے، اور پس ماندگان کو توفیق عطا فرمائے کہ ان کے نقش قدم کو دلیل راہ بنائیں۔
(عبد السلام قدوائی، ستمبر ۱۹۷۶ء)

مولانا محمد اویس ندوی نگرامی
اہل علم و اصحاب نظر ابھی مولانا عبدالباری ندوی مرحوم کے ماتم سے فارغ نہیں ہوئے تھے کہ مولانا محمد اویس ندوی نگرامی بھی اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
مولانا مرحوم کا خاندان نگرام ضلع لکھنؤ میں صدیوں سے آباد اور اپنی علمی و دینی خدمات کے لحاظ سے قرب و جوار میں ممتاز تھا، مولانا مرحوم کے پردادا مولانا حفیظ عبدالعلی نگرامی ایک نامور عالم تھے، مشہور نقش بندی بزرگ قاضی عبدالکریم نگرامی سے بیعت اور صاحب اجازت تھے، یہ قاضی عبدالکریم اپنے ہم نام قاضی عبدالکریم جو راسی کے خلیفہ تھے، جو حضرت شاہ علم اﷲ رائے بریلوی کے صاحبزادہ سید محمد کے مرید اور سید محمد عدل کے تربیت یافتہ تھے، اس کے علاوہ مولانا عبدالعلی کو حضرت سید احمد شہیدؒ کے بھانجے خواجہ احمد نصیر آبادیؒ سے بھی اجازت حاصل تھی، ان بزرگوں کے اثر نے ان کے اندر توحید کا جوش اور سنت کا غیر معمولی ولولہ پیدا کردیا تھا، وہ گاؤں گاؤں پھر کر دین حق کی منادی کرتے تھے، اس زمانہ میں شرک و بدعات اور غیر شرعی رسوم کا جال ہر جگہ پھیلا ہوا تھا، مولانا عبدالعلی کے مواعظ اور دلنشین انداز بیان سے بکثرت لوگ تائب ہوئے اور شیخ سدوکے بکروں اور ٹھیلے کی مرغیوں کو چھوڑ کر اور میلے ٹھیلوں کو ترک کرکے اﷲ اور رسول کی فرمانبرداری میں لگ گئے۔
حافظ عبدالعلی کے بیٹے اور مولانا مرحوم کے دادا مولانا محمد ادریس صاحب بھی اپنے علم و فضل اور صلاح و تقویٰ میں بہت ممتاز تھے، اپنے والد کے علاوہ انھوں نے مولانا عبدالحئی فرنگی محلی، مولانا عبدالرحمن پانی پتی، شیخ عبدالحق صاحبِ تفسیر حقانی سے بھی اکتساب علم کیا، علوم باطنی میں توجہ شیخ وقت مولانا فضل رحمان گنج مراد آبادی کی پائی، ان سے خلافت عطا ہوئی، اور اس طرح علوم ظاہری و باطنی میں بڑا مقام پیدا کیا، مولانا مرحوم کے والد مولانا محمد انیس نگرامی بھی ایک صاحب علم تھے اور اودھ کے قصبات و دیہات میں ان کے تبلغی و اصلاحی دورے ہوتے رہتے تھے۔
اس طرح مولانا مرحوم کو ظاہری و باطنی علوم وراثت میں ملے اور قال اﷲ وقال الرسول کی صدائیں ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی ان کے کانوں میں پڑیں، آگے چل کر انھوں نے اس بیش قیمت ورثہ میں بیش بہا اضافہ کیا اور بزرگوں کے نام اور کام کو دور دور تک پھیلا دیا۔
ابتدائی تعلیم گھر ہی پر اپنے بزرگوں کے زیر سایہ حاصل کی، پھر اعلیٰ تعلیم کی غرض سے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخل ہوئے ۱۹۳۲؁ء میں تعلیم مکمل کی، بیعت اپنے والد سے ہوچکے تھے، لیکن بعد میں مولانا حسین احمد مدنی سے بھی اجازت حاصل کی اور ان کی مجلس درس سے مستفید بھی ہوئے، مولانا مدنی کے اثر سے ان کے سیاسی شعور میں بھی پختگی آئی اور جرأت و حق گوئی کی عادت پڑی، ذہنی تثقیف و تہذیب کے لئے خود دارالعلوم کی فضا اور ماحول ہی کیا کم تھا، مزید یہ کہ استفادہ کا موقع مولانا سید سلیمان ندوی جیسے یگانہ روزگار سے ملا جن کی نگاہ ہی میں مس خام کو کندن بنادینے کی صلاحیت تھی، ان کی نگاہ جوہر شناس پہلی نظر میں ذہانت و صلاحیت کو بھانپ لیتی تھی چنانچہ سید صاحب نے ان کو اپنی خاص تربیت میں لے لیا اور دارالمصنفین بلالیا، یہیں سے مولانا مرحوم کی علمی و دینی شہرت کا آغاز ہوا، معارف میں ان کے مقالات و مضامین اہل علم کی توجہ کا مرکز بنے، طبیعت کا میلان قرآنی علوم کی جانب شروع ہی سے تھا، چنانچہ اکثر مقالات قرآن مجید اور اس کی تعلیمات سے متعلق تھے، تراجم قرآن، زندیق کی حقیقت، حافظ جلال الدین سیوطی، کلمۃ اﷲ، ابن جریر طبری، مستشرق نولدیکی اور قرآن، امام ابوالحسن اشعری، کچھ تفسیر زاری کے متعلق، حجر اسود وغیرہ مضامین ان کے اس ذوق و شوق کے شاہد عادل ہیں، سید صاحب کی تربیت و نگرانی میں انھوں نے اس فن میں نمایاں ترقی اور بڑی دسترس حاصل کرلی، تفسیر ابن القیم ان کی تلاش و محنت کا ایسا شاہکار ہے جس نے دینی و علمی حلقوں میں غیرمعمولی مقبولیت حاصل کی، عرب سے اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے، سات سال تک دارالمصنفین میں تصنیف و تالیف کی مشق و مہارت کے بعد مولانا مرحوم نے ندوہ کی ضرورت کے پیش نظر سید صاحب کی مرضی و مشورہ سے دارلعلوم ندوۃ العلماء میں شیخ التفسیر کی ذمہ داری قبول کی اور پھر وہیں کے ہوکر رہ گئے، ندوہ کی ملازمت کے زمانہ میں بعض یونیورسٹیوں سے بیش قرار معاوضہ کی پیشکش ہوئی، مگر وہ ندوہ چھوڑ کر کہیں جانے کے لئے تیار نہ ہوئے، سینکڑوں طلبہ نے ان سے کسب فیض کیا، درس قرآن میں شرکت، طلبہ کی آرزو اور وجہ سعادت بن گئی، قرآن کی سی معجزانہ کتاب، بلاغت و فصاحت کا بلند ترین معیار اور پھر مولانا مرحوم کا والہانہ انداز گفتار مفسرین کے اقوال و افکار، صوفیہ کے رموز و اسرار درمیان میں سید صاحب کے ذکر کی تکرار، درس قرآن کو گل افشانی گفتار کا عجیب نمونہ بنادیتے، سورہ فاتحہ کی تفسیر میں بالخصوص کئی کئی روز تقریر جاری رہتی، تفسیر ماجدی کا ذکر تحسین کے ساتھ اکثر کیا کرتے، طلبہ کو اس کے مطالعہ کا مشورہ بھی دیتے، تفسیر میں صرف و نحو کی بحثیں بھی ہوتیں، فصاحت اور بلاغت کے مسائل بھی چھڑتے، عقائد و کلام کے مباحث بھی ہوتے، مگر ان چیزوں میں الجھ کر نہ رہ جاتے بلکہ قرآن کی دعوت اور اس کے مقاصد ہر موقع پر پیش نظر رکھتے، مفسرین کے حوالے دیتے، ان کے اقوال تائید میں نقل کرتے اور طلبہ کے لئے کسی گوشہ کو تشنہ نہ چھوڑتے، دوران درس آپ بیتی اور جگ بیتی کے پر لطف واقعات سنا کر خود محظوظ ہوتے، طلبہ کو بھی اس حظ میں شریک کرتے، سید صاحب کے ذکر کے وقت ان پر بے خودی و سرمستی کی عجیب کیفیت طاری ہوتی، مزے لے لے کر ان کے واقعات بیان کرتے، آج بھی کانوں میں ان کی یہ صدا گونج رہی ہے کہ ’’ہمارے سید صاحب یہ فرمایا کرتے تھے‘‘۔
وسیع النظر وسیع القلب تو تھے ہی وسیع المشرب بھی تھے، تقلید نہ جامد خود کیا کرتے دوسروں سے بھی اس کی توقع نہ رکھتے تھے، واقعہ یہ ہے کہ اس وسیع المشربی میں بڑا حصہ تعلیمات قرآن ہی کی دین تھا، ندوہ کے مقاصد سے انھیں صرف قول ہی کی حد تک اتفاق نہ تھا بلکہ عملی زندگی میں بھی وہ ندوہ کے مقاصد کی سچی تصویر تھے، ندوہ کا ماحول اور سید صاحب کی توجہ نے ان کی فکر کو جلابخشی تھی، ذہن میں ایسی درخشانی، عمل میں ایسی تابانی اور مزاج میں ایسی شگفتگی تھی کہ کیا دوست احباب، کیا تلامذہ و عقیدت مند، سب کے سب ان سے کسب نو کرتے، حق یہ ہے کہ ان کی ذات ندوہ کی اساس پر بڑی خوبصورت اور بڑی دلکش عمارت تھی، جس میں قدیم علم و تمدن اور عہد جدید کی بیداری و تازگی دونوں شامل تھیں، اور یہی وہ حسن توازن تھا جس نے ان کی شخصیت کو جدید و قدیم کا مرجع بنادیا تھا، پرانے دین دار بھی ان سے خوش تھے اور جدید تعلیم یافتہ اصحاب بھی ان کے گرویدہ تھے، ندوہ کا مقصد بھی یہی تھا اور ندوہ کے اس عظیم فرزند کا مشن بھی یہی، کتنے ذہن تھے جو بہک سکتے تھے مگر مولانا مرحوم کے درس قرآن نے ان کو ایمان و یقین کی ایسی مستحکم چٹان بنادیا تھا جن کو کفروالحاد کی تیزوتند آندھیاں بھی جنبش نہ دے سکیں۔
مولانا مرحوم کی تقریر و تحریر میں نمایاں چیز شگفتگی تھی، تفسیر تو خیر لیکن کلامی مسائل میں زبان شستہ و شگفتہ رہے یہ ذرا مشکل ہے لیکن شاید اودھ کے قصباتی اور ندوہ کے ادبی رنگ کی برکت تھی کہ ایسے مواقع پر بھی زبان بڑی دلکش اور مؤثر ہوتی۔ تقریریں عموماً کم کرتے لیکن جب کر تے تو دلوں پر گہرا اثر چھوڑتے، ندوہ کی مسجد کے توسیعی مرحلہ پر انھوں نے جو تقریر کی تھی وہ اب تک ذہن پر نقش ہے، اسی طرح تعزیتی جلسوں اور طلبائے ندوہ کی انجمن الاصلاح کی محفلوں میں ان کی تقریریں سننے کے لائق ہوا کرتی تھیں۔
بڑے خوش وضع خوش لباس اور خوش گفتار تھے، ہم طلبہ میں یہ بات مشہور تھی کہ مولانا باہمہ ہوں یا بے ہمہ، پان کی نفیس ڈبیا، خوبصورت منقش چھڑی اور لازوال تبسم کبھی ان سے جدا نہیں ہوتے، طلبہ انھیں دارالعلوم کی آبرو اور ماضی کی عظمت کا امین سمجھتے تھے اور اس احساس میں وہ غلط بھی نہ تھے۔
ندوہ سے ان کے عشق کا حال یہ تھا کہ جشن کے موقع پر ان کی علالت تشویش ناک ہوچلی تھی، مرض کی شدت نے ضعف و نقاہت میں بھی تیزی پیدا کردی تھی، اس کے باوجود ان سے رہا نہ گیا اور معالجوں کی ممانعت کے باوجود ایک کار میں بیٹھ کر انھوں نے دارلعلوم کے پورے کیمپس کا دورہ کیا، پنڈال اور اسٹیج دیکھا، عمارتوں اور پارکوں پر نظر ڈالی، درو دیوار بلکہ ایک ایک اینٹ کو غور سے دیکھا، درو دیوار پر سبزہ اگ رہا تھا، اس جو شش فصل بہاری میں انھیں غالب کی طرح اپنے بیابانی ہونے کا تکلیف دہ احساس ہورہا تھا۔ یہ دورہ دارلعلوم کا شائد آخری دورہ تھا، زبان قال سے نہ سہی زبان حال سے وہ چمن والوں کو خوش رہنے اور اپنے آخری سفر پر چلنے کی بات کہہ گئے تھے، ممکن ہے آنسو پلکوں تک آئے ہوں، لیکن مانوس تبسم اب بھی ان کے ساتھ تھا، یہ تبسم مجھے اس وقت بھی ان سے جدا نہ دکھائی دیا جب میں آخری بار ان کی عیادت کی غرض سے لکھنؤ میڈیکل کالج پہنچا تھا، بھاری بھرکم جسم نحیف و نزار ہوچکا تھا، دل کے مرض نے حالت اس حد تک پہنچا دی تھی، بے اختیار یہ شعر زبان پر آگیا:
دیدنی ہے شکستگی دل کی

کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے
مگر اس کے باوجود دیر تک نصیحتیں کرتے رہے، جب معلوم ہوا کہ میں دارالمصنفین جارہا ہوں تو بہت خوش ہوئے، دعائیں دیں اور پھر خاموش ہوگئے، شاید عہد رفتہ کی کچھ کہانیاں یاد آگئی ہوں۔
مولانا مرحوم کی تصانیف کی فہرست زیادہ طویل نہیں، درس و تدریس کی زندگی اس کا موقع بھی کہاں دیتی تھی لیکن اس کے باوجود تفسیر ابن القیم ہی ان کے نام کو زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے، فکر و خیال کی ہم آہنگی نے انھیں شاہ ولی اﷲ دہلوی کا بڑا معتقد بنادیا تھا، چنانچہ علم کلام میں شاہ صاحب کے رسالہ العقیدہ الحسنہ کی شرح لکھی جو العقیدۃ السنیہ کے نام سے طبع ہوئی، یہ رسالہ نہ صرف ہندوستان بلکہ عالم عربی کے مدارس میں داخل نصاب ہوا، اس کے علاوہ تعلیم القرآن، رسالہ اصول حدیث، قرآن کا مطالعہ کیسے اور بلاکشان اسلام جیسی تصانیف یادگار چھوڑیں، ضرورت اس کی ہے کہ مولانا کے مضامین کا مجموعہ شائع ہو، سید صاحب کے حوالوں اور حواشی کا ایک قابل تفسیری سرمایہ ان کے پاس محفوظ تھا، اس کی اشاعت بھی قرآنی علوم میں قیمتی اضافہ ہوگی۔
زندگی ان کی قابل رشک رہی پھر موت کیوں نہ قابل رشک ہوتی، جمعہ کا دن ملا شعبان و رمضان کے سے مبارک مہینوں کے عین اتصال کے موقعہ پر برکتوں کے سایہ میں وہ اپنے رب سے جاملے دیکھا تو نہیں لیکن یہ یقین ضرور ہے کہ اپنے خدا سے ملتے وقت بھی وہی لازوال تبسم ساتھ رہا ہوگا، جو خداد کے بندوں کے لئے دل کا آئینہ بنا ہوا تھا،
نشان مرد مومن باتو گویم
چو مرگ آید تبسم برلب اوست
(عبد السلام قدوائی، ستمبر ۱۹۷۶ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...