Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا مفتی محمد شفیع

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا مفتی محمد شفیع
ARI Id

1676046599977_54338180

Access

Open/Free Access

Pages

344

مولانا مفتی شفیع صاحب
۶؍ اکتوبر کو ریڈیو پاکستان سے یہ اندوہناک خبر معلوم ہوئی کہ مولانا مفتی محمد شفیع صاحب حرکت قلب بند ہوجانے سے انتقال فرما گئے، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
ان کی طبیعت عرصہ سے خراب تھی، اس پیرانہ سالی میں جواں سال فرزند کی وفات کا صدمہ بھی برداشت کرنا پڑا، کئی بار دل کا دورہ پڑچکا تھا، بالآخر اس بیماری دل نے کام تمام کردیا۔
وہ دیوبند کے عثمانی خانوادہ کے چشم و چراغ تھے، اور یہیں ۱۳۱۴؁ھ میں پیدا ہوئے تھے، ان کے والد مولانا محمد یٰسین صاحب دارالعلوم دیوبند میں مدرس تھے، مفتی صاحب نے ان سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۳۳۰؁ھ میں دارالعلوم کے عربی درجہ میں داخلہ لیا، مولانا مفتی عزیزالرحمن، مولانا انورشاہ کشمیری، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا محمد ابراہیم بلیاوی اور مولانا اعزاز علی وغیرہ اکابر علماء سے درسیات کی تکمیل کی، مولانا قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم اور مولانا شاہ وصی اﷲ کے ہم سبق تھے، ۱۳۳۶؁ء میں درس نظامی سے فراغت کے بعد دارالعلوم میں درس و تدریس کی خدمت پر مامور ہوئے، اس عرصہ میں دارالافتار کے سربراہ مولانا مفتی عزیز الرحمن کے زیر نگرانی فتویٰ نویسی کا کام بھی انجام دیتے رہے، ان کے انتقال کے بعد ۱۳۵۰؁ھ میں یہ شعبہ خود ان کے سپرد کیا گیا اور بارہ سال تک اس خدمت کو خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے، دارالعلوم دیوبند کی فتویٰ نویسی کی تاریخ میں یہ دونوں بزرگ اپنے علم و فضل اور فقہی و دینی بصیرت کی وجہ سے برابر یاد کیے جائیں گے، ملک کی تقسیم کے بعد مولانا شبیر احمد عثمانی مرحوم کی دعوت پر پاکستان کے اسلامی دستور کا خاکہ تیار کرنے کے لئے مئی ۴۸؁ء میں کراچی تشریف لے گئے، پھر وہیں مستقل طور پر رہ گئے، دارالعلوم دیوبند کے طرز پر دارالعلوم کراچی کے نام سے ایک بڑے عربی مدسہ کی داغ بیل ڈالی، جس کے دہی مہتمم ہوئے، ۶۷؁ء میں ان کے خلف الرشید مولوی محمد تقی عثمانی نے ان کی سرپرستی میں البلاغ کے نام سے ایک علمی، دینی اور اصلاحی ماہنامہ جاری کیا جو دارالعلوم کراچی کا ترجمان ہے، اس کے ہر نمبر میں مفتی صاحب کے مفید مضامین بھی شائع ہوتے رہتے تھے۔
تفسیر، حدیث اور متد اول علوم میں مفتی صاحب کی استعداد پختہ تھی، مگر فقہ وافتاء کی طرف میلان زیادہ رہا، حنفی فقہ پر ایسی گہری نظر رکھنے والے اب بہت کم لوگ ہوں گے۔
ان کو تصنیف و تالیف کا فطری ذوق تھا، ان کی تحریریں بڑی سلیس، عام فہم سنجیدہ، پرمغز اور جامع ہوتی ہیں، دارالعلوم دیوبند میں درس و افتا کی مشغولیت کی باوجود متعدد علمی، دینی، فقہی، اور اصلاحی رسائل تصنیف کئے، ردِ قادیانیت پر کئی کتابیں لکھیں اسی زمانہ کی یادگار وہ ضخیم رسالہ ہے جو ختم نبوت کے عنوان سے چار حصوں میں شائع ہوا تھا، اس کے تین حصوں میں قرآن، حدیث اور صحابہ و تابعین کے اقوال و آثار کی روشنی میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا، اور آخری حصہ میں قادیانیوں کے دلائل کی محققانہ تردید کی گئی ہے، اس زمانہ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے دارالعلوم دیوبند کے ہزاروں فتووں کا مجموعہ آٹھ جلدوں میں مرتب کرکے افادہ عام کے لئے شائع کیا ہر جلد دو حصوں پر مشتمل تھی پہلے میں عزیز الفتاوی کے نام سے مولانا مفتی عزیز الرحمن کے اور دوسرے میں امداد الفتادی کے نام سے خود ان کے فتوے درج ہیں، یہی فتوے بعد میں مزید حک و اصلاحی و نظرثانی کے بعد نئی ترتیب و تبویب کے ساتھ جواہر الفقہ کے نام سے دو جلدوں میں مکتبہ و دارالعلوم کراچی سے شائع ہوئے، پہلی جلد مفتی عزیز الرحمن صاحب، اور دوسری ان کے فتووں کا مجموعہ ہے، مفتی صاحب نے اکثر جدید مسائل کا تشفی بخش جواب دیا ہے، اس طرح کے فتووں کا ایک علیحدہ مجموعہ البدائع المفیدہ فی الصنائع الجدیدہ کے نام سے چھپا تھا، اس میں سائنس کی موجودہ ترقیات نے جو نئے نئے آلات جیسے ریڈیو، سنیما، تار، ٹیلیفون، وائرلیس، فوٹوگرافی اور مسائل مثلاً روزہ میں انجکشن وغیرہ پیدا کردیئے ہیں، ان سے متعلق سوالات کے مفصل جوابات دیئے ہیں، کراچی کے قیام کے زمانہ میں بھی بعض علمی و فقہی مسائل پر ان کے مفید مضامین شائع ہوئے، ان میں اسلامی ذبیحہ، قربانی، رویت ہلال، سود اور اسلام کا نظام تقسیم دولت وغیرہ خصوصیت سے بڑے اہم ہیں، جن میں بعض علیحدہ رسالوں کی صورت میں چھپ کر بہت مقبول ہوئے۔
ان کی سب سے اہم کتاب تفسیر معارف القرآن ہے، جو کئی جلدوں میں چھپی ہے اور رسالہ البلاغ میں بھی قسط وار چھپتی رہتی ہے اور ہفتہ وار درس کی صورت میں ریڈیو پاکستان سے بھی نشر کی جاتی ہے، مفتی صاحب کی ایک اور قابل ذکر کتاب ’’اسلام کا نظام آراضی‘‘ ہے، اس کے پہلے حصہ میں زمین کی مختلف قسموں اور ہندوپاک کی زمینوں کے مفصل شرعی احکام بیان کئے گئے ہیں اور دوسرے حصہ میں آراضی ہند کی شرعی و فقہی حیثیت کو متعین کرنے کے لئے اسلامی فتوحات کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔
عربی میں بھی کئی رسالے لکھے اور بعض عربی رسالوں کا اردو ترجمہ بھی کیا، علامہ سیوطی کے ایک عربی رسالہ ’’الاجر الجزل فی الغزل‘‘ کا اردو ترجمہ کیا، اس میں چرخہ کاتنے کی فضیلت سے متعلق حدیثیں جمع کی گئی ہیں، یہ رسالہ ترک موالات کے زمانہ میں جب گاندھی جی نے چرخہ چلانے کی مہم پورے ملک میں چلائی تھی بہت مقبول ہوا، شعروسخن کا ذوق بھی تھا، عربی میں بعض اچھے نعتیہ قصائد کہے ہیں۔
علمی کمالات کے ساتھ وہ حسن اخلاق اور زہد و تقویٰ میں بھی ممتاز تھے، ان کے ہم جماعت مولانا وصی اﷲ صاحب طالب علمی کے زمانہ ہی سے تھانہ بھون آنے جانے لگے تھے، تعلیم مکمل کرنے کے بعد تو وہ اسی استاذ کے ہوکر رہے، مفتی صاحب ان کے دس سال بعد ۱۳۴۶؁ھ میں جب پہلی دفعہ اصلاح باطن کے لئے مولانا تھانویؒ کی خدمت میں تشریف لے گئے تو مولانا وصی اﷲ، مولانا کے خلیفہ حجاز ہوچکے تھے، ایک روز انھوں نے مولانا وصی اﷲ کا ذکر بڑی تحسین کے ساتھ کرتے ہوئے ان سے دریافت کیا کہ ’’کیا آپ کو جانتے ہیں‘‘ مفتی صاحب نے بے ساختہ یہ شعر پڑھا:
ماہ مجنوں ہم سبق بددیم در دیوان عشق
او بصحرافت و مادر کو چہار سوا شدیم
مولانا نے اپنے مخصوص انداز میں ارشاد فرمایا ’’ہاں یہاں یہی دستور ہے، کسی کو صحرا دیا جاتا اور کسی کو سہرا دیا جاتا ہے، ہر ایک کو جو کچھ ملا ہو، اس پر راضی ہونا چاہئے‘‘۔
اس کے بعد وہ برابر مرشد کی خدمت میں استفادہ کے لئے حاضر ہوتے رہے، بالاخر خلافت سے سرفراز ہوئے، ان کے والد مولانا محمد یسین صاحب، مولانا تھانویؒ کے ہم درس تھے، بیعت و ارادت کے تعلق سے محبت و شفقت میں اور بھی اضافہ ہوگیا، مفتی صاحب کو اپنے شیخ سے بے حد عقیدت تھی، اپنی تحریروں میں ان کا بڑے احترام سے ذکر کرتے ہیں، ان کی کئی کتابوں کے ضمیمے اور شرحیں لکھیں اور فتووں کے مجموعہ امداد الفتاویٰ کو ازسرنو مدون کیا اور اس کے بعض صبہم مسائل کی تشریح کی، ان کے حکم سے احکام القرآن کے نام سے عربی میں ایک کتاب لکھ رہے تھے، پتہ نہیں مکمل ہوپائی یا نامکمل رہ گئی، مفتی صاحب کی اکثر کتابوں کے نام مولانا تھانویؒ ہی کے تجویر کردہ ہیں اور ان میں ان کے تحسین آمیز کلمات بھی درج ہیں، مفتی صاحب کی تحریروں میں اپنے مرشد کے اسلوب کا پرتو اور اسی طرز کی حکیمانہ تشریح و تعبیر نظر آتی ہے، مفتی صاحب نے ان کو اصلاح اعمال اور تصفیۂ باطن کے لئے جو خطوط لکھے تھے، وہ مع جواب آج کل البلاغ میں شائع ہورہے ہیں، ان سے بھی مرشد و مسترشد کے تعلق کا اندازہ ہوتا ہے۔
مفتی صاحب حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ کے خواجہ تاش تھے، اس لئے دونوں بزرگوں میں بہت اچھے روابط تھے، اور ایک دوسرے کے علم و کمال کے معترف تھے، سید صاحب کے جانشین مولانا شاہ معین الدین احمد مرحوم بھی اکثر مفتی صاحب کے مضامین اور کتابوں کا اچھے انداز میں ذکر فرماتے تھے۔
مفتی صاحب اسلام کی حمایت اور فسق و فجور کے خلاف ہمیشہ سرگرم عمل رہے، انھوں نے اسلام، اسلامی تعلیمات اور داعی اسلام کے متعلق مخالفین کے اعتراضات کا جواب بھی دیا ہے اور مسلمانوں کے گمراہ فرقوں کے باطل خیالات کی پرزور تردید بھی کی ہے، پاکستان کے حکمران اور تجدوپسند طبقہ نے جب اسلام کے بعض قوانین اور عائلی نظام میں رد و بدل کرنا چاہا تو اس کے مقابلہ میں وہ بہت پیش پیش تھے، اور وہاں اسلامی قانون کے نفاذ کے لئے بھی جدوجہد کرتے رہے۔
مفتی صاحب اپنے اکابر کی طرح ہمیشہ دیوبند کے طرز فکر سے پورے طور پر وابستہ اور حنفی مذہب پرشدت سے قائم رہے، مگر طبیعت میں اعتدال اور میانہ روی تھی، اس لئے فروعی مسائل میں رواداری برتتے تھے، جماعت اسلامی اور جماعت اہل حدیث کے بارے میں ان کا اور ان کے حلقہ کا جو بھی خیال رہا ہو، مگر اسلامی قانون کے نفاذ اور مشترکہ دینی مسائل اور ملی اتحاد کی خاطر ان جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ تبادلہ خیال اور اشتراک عمل میں انھوں نے کبھی دریغ نہیں کیا، اپنے ایک رسالہ ’’وحدت امت‘‘ میں بڑے اخلاص اور دلسوزی کے ساتھ اتحاد کی اہمیت اور تفرق و انتشار کے نقصانات واضح کئے ہیں اور فقہی مسائل میں غلو، اختلافات اور معرکہ آرائی کی سخت مذمت کی ہے، وہ فروعی اختلافات کو حق و باطل کا معیار قرار دینے کے بجائے اولیٰ وغیر اولیٰ پر محمول کرتے تھے، اس رسالہ میں انھوں نے اپنے استاذ مولانا انور شاہ کشمیری کا یہ دلچسپ قول نقل کیا ہے کہ ’’میاں ہم نے تو افضل و مفضول کی بحث میں اپنی ساری عمر ضائع کردی‘‘۔
مفتی صاحب اپنے علم، تفقہ، تقویٰ، طہارت اور اعتدال و سلامت روی کی بناء پر برصغیر کے علمی و دینی حلقوں میں بہت مقبول تھے، اور ان کی علمی و فقہی رایوں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، افسوس ہے کہ ہماری پرانی علمی یادگاریں ایک ایک کرکے ختم ہوتی جارہی ہیں، اور ان کا کوئی بدل نظر نہیں آتا۔
ان کے صاحبزادہ مولوی محمد تقی عثمانی مدیر البلاغ دارالعلوم کراچی کے استاد اور لائق اہل قلم ہیں، ان سے بڑی توقعات وابستہ ہیں، اﷲ تعالیٰ ان کو اور دوسرے پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور علم دین کے اس خادم کو اپنی رحمت کاملہ سے نوازے، آمین۔ (ضیاء الدین اصلاحی، نومبر ۱۹۷۶ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...