Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ڈاکٹر وحید مرز ا

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ڈاکٹر وحید مرز ا
ARI Id

1676046599977_54338181

Access

Open/Free Access

Pages

346

آہ! ڈاکٹر وحید مرزا
گزشتہ ماہ ریڈیو سے خبر ملی کہ اس برصغیر کے ایک بہت ہی لائق اور ممتاز اہل علم ڈاکٹر وحید مرزا کی وفات لاہور میں ہوگئی، اس خبر سے بڑا دکھ ہوا، ان سے میری ملاقات زیادہ نہیں رہی، اب سے ۳۵ سال پہلے ۱۹۴۱؁ء میں دہرہ دون میں تو ان سے برابر ملنے کا موقع ملا، اس کے بعد پھر کہیں ان سے نہیں ملا، مگر وہ اس وقت سے برابر دل و دماغ پر چھائے رہے ہیں ۱۹۴۱؁ء میں ایک طویل علالت کے بعد دہرہ دون جاکر تقریباً تین مہینے رہا، سرسید احمد خان ہم عصر اور دوست منشی ذکا اﷲ مرحوم کے نامور فرزند جناب عنایت اﷲ صاحب نے اپنی کوٹھی کے دو کمرے میرے قیام کے لئے دے دیئے تھے، اسی زمانہ میں لکھنؤ سے ڈاکٹر وحید مرزا دہرہ دون آکر اپنے خسر جناب رضاء اﷲ کے یہاں مقیم تھے، جو جناب عنایت اﷲ صاحب کے چھوٹے بھائی تھے، انجینئر کے عہدہ سے ریٹائر ہوکر دہرہ دون میں ایک بنگلہ بنایا تھا، دونوں بزرگوں کا وطن دہلی تھا، مگر عنایت اﷲ صاحب نے دہرہ دون ہی میں ڈالن والاکے سیمی روڈ پر منتقل سکونت اختیار کرلی تھی، ان ہی کے بنگلہ کی پشت پر رضا اﷲ صاحب کا بنگلہ تھا، ڈاکٹر وحید مرزا ان دنوں لکھنؤ یونیورسٹی میں استاذ تھے، وہ دہرہ دون آئے تو عنایت اﷲ صاحب کو سلام کرنے آئے، وہیں ان سے میرا تعارف ہوا، قد لمبا اور جسم دبلا پتلا تھا، دونوں گال پچکے ہوئے تھے، کیونکہ منہ کے تمام دانت نکلوا دیئے تھے، پتلون اور قمیض پہنے ہوئے تھے، بڑے متین اور سنجیدہ نظر آئے، خاموش بیٹھے رہے، عنایت اﷲ صاحب کی باتوں کا جواب بہت ہی مختصر طریقے پر دے کر خاموش ہوجاتے، جب وہ اٹھ کر چلے گئے تو عنایت اﷲ صاحب نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ بڑی قابلیت رکھتے ہیں، امیر خسرو پر بہت عمدہ کتاب لکھی ہے، اس زمانہ میں خود عنایت اﷲ صاحب کی لیاقت کی بڑی شہرت تھی، جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے دارالترجمہ کے ناظم کے عہدہ سے ریٹائر ہوکر بھی علمی کاموں میں لگے ہوئے تھے، ان کی جغرافیہ اندلس سے استاذی المحترم مولانا سید سلیمان ندویؒ بہت متاثر تھے، پھر بہت سی کتابوں کے ترجمے کر ڈالے تھے، جن میں تائیس، سلامبو، تیمور اور چنگیز خان زیادہ مقبول ہوئیں، ہوورتھ کی ہسٹری آف دی منگولس کی ضخیم جلدوں کے بھی ترجمے کرلیے تھے، ڈاکٹر وحید مرزا کی قابلیت سے ان کا متاثر ہونا کوئی معمولی بات نہ تھی، میں نے اس زمانہ میں حضرت سید صاحب کے بہت سے مضامین کے ترجمے انگریزی میں کیے تھے، دو چار ملاقاتوں کے بعد ڈاکٹر صاحب سے ان ترجموں کی انگریزی دیکھنے کو عرض کی تو بڑی خوشی سے میرا مسودہ مجھ سے مانگا، اپنے پورے قیام میں اس کو دیکھتے رہے، انھوں نے جو اصلاح و ترمیم کی اس سے میں بھی ان کی قابلیت سے متاثر ہوا، ان کو عربی، فارسی، انگریزی اور اردو پر بڑی قدرت حاصل رہی، مگر بے تکلف صحبتوں میں بھی کبھی اپنے کمالات کا اظہار کرنا پسند نہ کرتے، ہم لوگ باتیں کرتے رہتے وہ صرف سننے ہی پر اکتفا کرتے، کچھ دنوں پہلے ان کی بیوی یعنی رضاء اﷲ صاحب کی صاحبزادی کا انتقال ہوگیا تھا، اس سے ملول اور مغموم رہتے، ان کا لڑکا طاہر مرزا شاید تین چار برس کا رہا ہوگا، اس سے دل بہلاتے رہتے، اس کی ہر طرح کی ناز برداری کرنے ہی میں ان کو لذت ملتی، وہ ان کو چھیڑتا، تنگ کرتا، ان کا ہاتھ پکڑ کر برآمدہ سے کمرہ اور کمرہ سے باہر لے جاتا، وہ اس کے حکم کی تعمیل کرتے رہتے تھے، جتنے دنوں ان کا ساتھ رہا یہی تماشہ دیکھنے میں آیا، اس سے ان کی شرافت نفس کا گہرا نقش دل میں برابر قائم رہا، پھر ان سے ملاقات نہیں ہوئی، مگر آنکھوں کے سامنے وہی وحید مرزا رہے جن کو طاہر مرزا ہر طرح چھیڑا کرتے تھے۔
دارالمصنفین واپس آکر امیر خسرو پر ان کی کتاب منگوائی، اس کے پڑھنے میں جو لذت ۱۹۴۲؁ء میں ملی وہی ۱۹۷۶؁ء میں بھی پاتا ہوں، اپنی علمی و ادبی زندگی میں مجھ کو امیر خسرو سے لگاؤ نہیں بلکہ عشق ہوگیا ہے، جن کو سب سے پہلے علامہ شبلی کے ذریعہ سمجھا مگر اس ذوق کی شراب کو دو آتشہ ڈاکٹر وحید مرزا کی کتاب نے بنایا، علامہ شبلی نے امیر خسرو سے متعلق اپنی شعرالعجم میں جو کچھ لکھا ہے، اس کے ایجاز کا اطناب ڈاکٹر صاحب کی تصنیف ہے، اگر علامہ شبلی بقید حیات ہوتے تو اس اطناب کی داد دل کھول کر دیتے، اس کی بڑی خوبی یہ ہے کہ امیر خسرو پر جو کچھ لکھا گیا تھا، وہ اس میں ہے، جو کچھ نہیں لکھا گیا ہے وہ بھی اس میں ہے، اور جو کچھ آگے چل کر لکھا جائے گا وہ بھی اس میں ہے ۱۹۷۵؁ء میں ہندوستان اور پاکستان میں امیر خسرو کا سات سوسالہ جشن بہت دھوم دھام سے منایا گیا، ان تقربیات میں بہت سے مقالات پڑھے گئے، ہر طرف سے رسائل کے امیر خسرو پر نمبر نکالے گئے، ظروف بدلے ہوئے تھے، مگر مظروف وہی تھا، جو ڈاکٹر وحید مرزا اپنے ظرف میں پیش کرچکے تھے۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب ’’لائف اینڈ ورکس آف امیر خسرو‘‘ کے بعدامیر خسرو کی مثنوی ’’نہہ سہپر‘‘ کو ایڈٹ کرکے شائع کیا، اس سے پہلے امیر خسرو کی قران السعدین اور ان کی خمسہ شائع ہوچکی تھیں، نہہ سہپر کو ہاتھ لگاتے ہوئے شائد اہل نظر بھی گھبراتے تھے، مگر ڈاکٹر صاحب نے اس پر انگریزی میں ایک بہت ہی فاضلانہ مقدمہ لکھ کر اس کو شائع کیا تو ایک بار پھر ان کی اعلیٰ قابلیت کی دھوم ہوئی، انھوں نے مثنوی نہہ سہپر کو جس طرح سمجھایا ہے اس سے بہتر کوئی اور نہ سمجھا سکے گا، آئندہ جو بھی اس مثنوی پر کچھ لکھے گا، اس سے استفادہ کئے بغیر نہ رہ سکے گا، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ دنیا میں اس لئے بھیجے گئے تھے کہ امیر خسرو کو سمجھیں اور دوسروں کو سمجھائیں، ان کی طبیعت کی بلندی اور بے نیازی کا اثر اس حیثیت سے بھی پڑا کہ ۱۹۷۵؁ء میں جب پاکستان میں امیر خسرو پر نیشنل اور انٹرنیشنل سیمینار ہوئے تو میں اس زمانہ میں پاکستان ہی میں تھا، ان علمی مجلسوں میں ہر قسم کے اسکالر امیر خسرو پر کچھ نہ کچھ لکھ کر داد و تحسین کا خراج وصول کرنا چاہتے تھے، مگر ڈاکٹر وحید مرزا کہیں نظر نہیں آئے، حالانکہ ان ہی کا طوطی ہر جگہ بول رہا تھا، وہ ان تقریبوں کے ہنگاموں سے دور اپنے گوشہ عافیت میں بیٹھے اپنی دنیا آپ آباد کررہے تھے۔
مئی ۱۹۳۵؁ء کے اورینٹل کالج میگزین میں مظہر کڑہ مانکپوری پر ایک بحث چھڑ گئی تھی، اس میں محمود شرانی، مولانا حبیب الرحمن خان شروانی کے ساتھ ڈاکٹر وحید مرزا نے بھی حصہ لیا تھا، ان کا مضمون بڑے شوق سے علمی حلقہ میں پڑھا گیا تھا، ۱۹۶۰؁ء میں دارالمصنفین سے ’’ہندوستان عربوں کی نظر‘‘ میں نکلی تھی، تو اس کی پہلی جلد پر ڈاکٹر صاحب نے حیدرآباد کے اسلامک کلچر میں ایک طویل ریویو لکھا تھا، اس میں ترجموں کے تسامحات کی نشاندہی فاضلانہ انداز میں کی تھی جن کو دارالمصنفین میں تسلیم کیا گیا۔
وہ جب تک لکھنؤ یونیورسٹی میں رہے، اساتذہ اور طلبہ دونوں نہ صرف ان کی عزت بلکہ ان سے محبت کرتے یہاں سے ریٹائر ہونے کے بعد لاہور کے پروفیسر محمد شفیع نے انسائیکلوپیڈیا آف اسلام کی ترتیب و تدوین کے سلسلہ میں اپنے یہاں مدعو کیا، جہاں وہ آخر وقت تک رہے۔
ان کے اعزہ زیادہ تر دہلی میں رہتے تھے، مگر انھوں نے لاہور میں رہ کر پنجاب یونیورسٹی سے ایم۔اے کیا، اور وہیں سے پی۔ایچ۔ڈی کرنے لندن گئے، ان کو لاہور سے خاص مناسبت تھی، اس لئے اﷲ تبارک و تعالیٰ کو بھی منظور تھا کہ وہ وہیں سپرد خاک ہوں۔
وہ اب آغوش رحمت الٰہی میں ہیں، مگر اپنے پیچھے ایک بہت ہی اچھے محقق، بہت اچھے اہل علم اور بہت ہی شریف انسان کی یاد چھوڑ گئے، امیر خسرو پر ان کی کتابیں تو شائع ہوکر مقبول ہوچکی ہیں، ضرورت اس کی ہے کہ ان کی ایک اچھی سوانح عمری لکھ کر ان کی علمی سرگرمیوں کا سیر حاصل جائزہ لیا جائے۔
دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کی نیکیوں اور خوبیوں کی بدولت ان کو کروٹ کروٹ جنت نعیم عطا کریں، آمین ثم آمین۔ (صباح الدین عبدالرحمن، نومبر ۱۹۷۶ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...