Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا سید ریاست علی ندوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا سید ریاست علی ندوی
ARI Id

1676046599977_54338182

Access

Open/Free Access

Pages

347

آہ! مولانا سید ریاست علی ندوی
گزشتہ مہینہ پٹنہ کے اخبار صدائے عام میں دارالمصنفین کے ایک پرانے لائق خدمت گزار مولانا سید ریاست علی ندوی کی وفات کی خبر بڑے دکھ، اور درد کے ساتھ پڑھی، اسی وقت ان کی اہلیہ کے نام ایک تعزیتی تار بھیجا، پھر ان کے صاحبزادے سید ارشد علی کا یہ خط موصول ہوا:
آبگیلہ، ڈاکخانہ بنیادگنج، گیا۔
۱۹، دسمبر ۱۹۷۶؁ء
محترم چچا جان! السلام علیکم
بہت ہی افسوس کے ساتھ لکھنا پڑرہا ہے کہ والد محترم جناب مولانا سید ریاست علی ندوی صاحب ۱۴؍ نومبر ۱۹۷۶؁ء کو بروز اتوار بوقت سوانو بجے دن رحلت فرماگئے، موت حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے ہوئی، پہلا دورہ ۱۳؍ نومبر کو ۹ بجے دن کو ہوا، شہر کے مشہور ڈاکٹروں نے دیکھا، طبیعت سنبھل گئی، ہم لوگ کافی پر امید ہوگئے، احتیاط کی خاطر گیارہ بجے رات کو مقامی اسپتال میں داخل کردیا گیا، کبھی کبھی طبیعت کچھ بگڑ جاتی تھی، لیکن برابر ہوش میں رہے، اپنی وفات سے ایک منٹ پہلے ہنستے بولتے رہے، ہم لوگوں کے گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ ہم لوگوں کو اس قدر جلد داغ مفارقت دے جائیں گے۔
ان کو اپنی غیر مطبوعہ کتابوں کی کافی فکر تھی، وہ اعظم گڑھ جانے کا ارادہ بار بار کرتے رہے، وہ دسمبر میں اعظم گڑھ ضرور پہنچتے، وہ اپنی چند کتابیں دارالمصنفین کو دینا چاہتے تھے۔ یہ بات اطلاعاً لکھ رہا ہوں، امید کہ جناب عالی مع الخیر ہوں گے‘‘۔
اس خط کو پڑھ کر آبدیدہ ہوا اور چالیس سال پہلے کے دارالمصنفین کی صحبتیں یاد آگئیں، میں یہاں ۱۹۳۵؁ء میں آیا، یہ اس کی شہرت کے شباب کا زمانہ تھا، اس وقت اس علمی کارواں کے سالار اور حدی خواں استاذی المحترم حضرت مولانا سید سلمان ندویؒ تھے، جن کے علم کا اعتراف علامہ اقبالؒ نے جوئے شیر اسلامیہ کافرہاد کہہ کرکیا تھا، اس وقت ان کی علمی بصیرت اور تحقیقی ژرف نگاہی سے پورا ہندوستان گونج رہا تھا، ہندوستان کے ہر گوشہ سے ان سے استفادہ کے لئے ارباب علم پہنچتے رہتے تھے، دارالمصنفین کے اندر مولانا عبدالسلام ندویؒ اپنے گزشتہ عافیت میں بیٹھ کر علم و ادب کے موتی بکھیرنے میں مشغول تھے، اس بیت الحکمت سے مولانا ابو ظفر ندوی، مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی، مولانا سید ریاست علی ندوی، جناب محمد عزیر صاحب ایم۔ اے، ایل۔ ایل۔ بی، اور ہاں مدراس سے آکر مولوی حافظ محمد یوسف کوکنی عمری وابستہ تھے، مولوی مسعود علی ندوی اہل علم نہ ہونے کے باوجود اس علمی مجلس کے رکن رکین بنے رہے، وہ اپنی دلچسپ باتوں اور بذلہ سنجیوں سے اس پر چھائے رہتے، میں یہاں پہنچا تو مجھ کو یہاں کا ہر ہر گوشۂ بساط دامانِ باغبان اور کفِ گل فروش نظر آیا۔
مگر یہی بزم جنت نگاہ اور فردوس گوش بنی ہوئی تھی، سرور و سوز، جوش و خروش سے خالی ہوتی گئی، پہلے تو استاذی المحترم مولانا سید سلیمان ندوی کی جدائی سے ان کے صریر خامہ کے نوائے سروش سے محروم ہوگئی، ان کے بعد مولانا عبدالسلام ندوی کے قلم کا خرام ناز اور نظارۂ جمال آنکھوں سے اوجھل ہوا، مولانا ابو ظفر ندوی بھی دارالمصنفین سے جاکر اﷲ کو پیارے ہوئے، پھر مولوی مسعود علی ندوی کی شیریں بیانی اور خوش گفتاری چھن گئی، جناب مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی دارالمصنفین کے وقار اور آبرو کے ضامن بنے ہوئے اس کی مسند پر متمکن تھے کہ یکایک اس کے ذرہ ذرہ کو سینہ کوبی کرنے کے لیے چھوڑ گئے، ڈاکٹر محمد عزیر ۱۹۴۰؁ء ہی میں دارالمصنفین چھوڑ کر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ چلے گئے تھے، مگر بفضل اﷲ تعالیٰ وہ بقید حیات ہیں اور کراچی میں عاقبت سنوارنے میں لگے ہوئے ہیں، جناب مولوی حافظ محمد یوسف صاحب بھی پانچ سال یہاں رہ کر مدراس واپس ہوگئے، جہاں وہ مدراس یونیورسٹی میں عربی و فارسی اور اردو کے شعبوں کے صدر ہوئے۔
مولانا سید ریاست علی ندوی بھی ۱۹۵۰؁ء میں یہاں سے مستقل طور پر چلے گئے، مگر یہاں سے جانے سے پہلے دارالمصنفین کے بزم دوشین کی ایک روشن شمع وہ بھی تھے، مگر آہ وہ بھی اب خموش ہے،
وہ ۱۹۲۴؁ء میں جناب شاہ معین الدین احمد ندوی کے ساتھ ندوہ کی تعلیم ختم کرکے حضرت سید صاحب کی خواہش پر یہاں آئے اور تھوڑے ہی عرصہ میں سید صاحب کو اپنی علمی ریاضت و محنت سے متاثر کیا، ۱۹۲۶؁ء میں ان کو اپنی نگرانی میں معارف کے مضامین کی ترتیب کا کام سپرد کیا، جس میں وہ اچھے اچھے مضامین کی تلخیص کرتے اور مطبوعات جدیدہ پر ریویو بھی لکھتے رہے، ۱۹۲۶؁ء سے ۱۹۵۰؁ء تک معارف میں ان کے اہم مضامین حسب ذیل عنوانات سے شائع ہوئے۔
عربوں کا علمِ طب شام میں (جون ۱۹۲۶؁ء)، فقہ اسلامی کے مذاہب اربعہ (جولائی تا ستمبر ۱۹۲۶؁ء)، ترکی ادبیات پر ایک اجمالی نظر (جون ۱۹۲۷؁ء)، امام غزالی اور حکمائے یورپ (اگست ۱۹۲۸؁ء)، ابن رشیق صقلیہ میں (اپریل، اگست، ستمبر ۱۹۲۹؁ء)، خان اعظم تاتار خان (فروری ۱۹۳۲؁ء)، کیا عالمگیر کے عہد میں تاریخ نویسی قانوناً جرم تھی (مئی ۱۹۳۲؁ء)، ترجمان القرآن اور نجات و سعادت کی راہ (مارچ ۱۹۳۳؁ء)، اغلبیوں کا عدالتی نظام (دسمبر ۱۹۳۳؁ء)، سندھ کے اسلامی حملوں کے قیدی (مئی ۱۹۳۵؁ء)، سسلی میں مسلمانوں کا تمدن (ادارہ معارف اسلامیہ لاہور میں پڑھا گیا، ستمبر تا دسمبر ۱۹۳۵؁ء و جنوری ۱۹۳۶؁ء)، صفی ہندی (مارچ ۱۹۴۳؁ء)، عالمگیر کے عہد میں مندروں کا انہدام (ستمبر ۱۹۴۳؁ء)، کتاب العشر و الزکوٰۃ (اگست، ستمبر ۱۹۴۴؁ء) ،عہد اسلامی کا ہندوستان (مئی، جون، جولائی ۱۹۴۹؁ء)۔
معارف میں باب الاستفسار قائم کیا گیا تو اس میں بیرونی سوالات کے جوابات بہت ہی محنت سے لکھتے جو بڑی دلچسپی سے پڑھے جاتے۔
دارالمصنفین کے قیام میں ان کا اہم کارنامہ دو جلدوں میں تاریخ صقلیہ کی ترتیب و تدوین ہے، اس جزیرہ میں مسلمانوں کی حکومت کے کارناموں کو بالکل بھلا دیا گیا تھا، یہاں ان کی ڈھائی سوسال کی حکمرانی رہی، اس مدت میں انھوں نے اس کو جس طرح سنوارا، وہ مسلمانوں کی تاریخ کا بڑا شاندار کارنامہ ہے، اس کی پہلی جلد بقول مصنف مرحوم رزمگاہ ہے، جس میں یہاں کے سیاسی حالات اور مسلسل معرکہ آرائیاں دکھائی گئی ہیں، اور دوسری جلد بزمگاہ ہے جس میں صقلیہ کے اسلامی تمدن کے مناظر دکھائے گئے ہیں، اس طرح یہ دونوں جلدیں ایک ایسی تمدن آفریں قوم کی سرگزشت ہے جس کی تمدنی ترقیاں یورپ کی جدید ترقیوں کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد ہے، مرحوم نے ان دونوں جلدوں کو جس محنت و ریاضت سے لکھا ہے، وہ دارالمصنفین کی علمی تاریخ کا ایک بڑا کارنامہ شمار کرنے کے لائق ہے، اس کو جن چند کتابوں پر ناز ہے، ان میں یہ دو جلدیں بھی شامل ہیں۔
ان کی ایک کتاب تاریخ اندلس جلد اول بھی ہے، یہ بھی دارالمصنفین کی مقبول کتابوں میں ہے اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں داخل ہے، انھوں نے معارف میں اسلامی نظام تعلیم کے عنوان سے ایک سلسلہ مضمون بھی لکھنا شروع کیا تھا، جو بعد میں کتاب کی صورت میں شائع ہوکر مقبول ہوئی، اردو میں اس موضوع پر اس سے بہتر شائد کوئی اور کتاب نہیں، معارف میں ان کے جو مضامین ہندوستان پر نکلتے رہے، ان کا ایک مجموعہ ’’عہد اسلامی کا ہندوستان‘‘ کے نام سے شائع کیا۔
دارالمصنفین میں تقریباً ۱۴ سال رہنے کے بعد وہ مدرسہ شمس الہدیٰ کے پرنسپل کے عہدہ کے خواستگار ہوئے، وہاں ان کا انتخاب نہیں ہوسکا تو ان کو دارالمصنفین واپس آنے میں تامل ہوا، اس لئے وہ اپنے وطن گیا جاکر رسالہ ندیم کے مالک ہوگئے، ان کو خیال ہوا کہ وہ معارف کے اپنے ادارتی تجربے سے اس کے معیار کو اونچا کرکے معارف بنادیں گے۔ لیکن اس میں ان کو مایوسی ہوئی، ندیم کا ایک بہار نمبر تو اچھا نکالا، مگر اس کے بعد مالی پریشانیوں میں مبتلا ہوگئے تو پھر دارالمصنفین واپس آگئے، یہ زمانہ ہندوستان کی سیاست میں بہت ہی پُر آشوب تھا، کانگریس اور مسلم لیگ کی کشمکش سے ہندوستان کی سیاست بہت ہی مکدر ہورہی تھی، سید صاحب دارالمصنفین کو اس سیاسی الجھاؤ سے محروم رکھنا چاہتے تھے، مگر ریاست علی صاحب کھل کر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے، جو سید صاحب کو پسند نہ آیا، ۱۹۵۰؁ء میں وہ دارالمصنفین کو چھوڑ کر شمس الہدیٰ کے پرنسپل ہوگئے تو وہاں نہ خود مطمئن رہ سکے، نہ وہاں طلبہ اور اساتذہ کو خوش رکھ سکے، اس لئے بہار عربک پرشین ریسرچ انسٹیٹیوٹ منتقل ہوگئے، جہاں سے ریٹائر ہوئے تو ان کو یونیورسٹی گرانٹ کمیشن سے کچھ تحقیقی کام کے لئے وظیفہ بھی ملا، مگر شائد مکمل نہ کرسکے، ان کا وطن آبگیلہ ضلع گیا تھا، وہیں زندگی کے آخری ایام گزار رہے تھے، سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے باوجود سیاست ان کے لئے سازگار نہیں ہوئی، وفات سے کچھ دنوں پہلے ان کو موتیا بند ہوگیا تھا، اس لئے لکھنے پڑھنے سے مجبور ہوگئے، آپریشن کے بعد روشنی آگئی تھی، میرا اصرار تھا کہ وہ دارالمصنفین آکر تاریخ اندلس کی دوسری جلد مکمل کردیں، اس کے لئے وہ رضامند بھی ہوگئے تھے، ان کی آمد کا انتظار تھا، کہ یکایک ان کی رحلت کی خبر ملی، جس سے بڑا دکھ پہنچا، وفات کے وقت ان کی عمر غالباً ۷۴ سال تھی۔
ان کی اصل جگہ دارالمصنفین تھی، وہ ایک پرنسپل، ایک استاد اور ایک سیاست داں کی حیثیت سے تو بھلا دیئے جائیں گے لیکن ایک اچھے مصنف کی حیثیت سے برابر یاد کئے جائیں گے، اگر ان کی ساری عمر دارالمصنفین ہی میں گزرتی تو اپنے پیچھے مفید اور بلند پایہ تصانیف چھوڑ جاتے، انھوں نے پٹنہ میں ادارۃ المصنفین قائم کرنا چاہا لیکن ناکام رہے، وہ خود کہتے کہ دارالمصنفین چھوٹا تو علم کا لبادہ بھی خودبخود اتر گیا، دارالمصنفین کی تاریخ کا یہ پہلو عجیب ہے کہ یہاں رہ کر اچھے سے اچھے مصنف تیار ہوئے، لیکن یہاں سے جانے کے بعد وہ علم و فن کے لئے کھوگئے، مرحوم دارالمصنفین چھوڑ رہے تھے تو سید صاحب کو دکھ تھا کہ ایک لائق، محنتی اور قابل قدر مصنف ان سے جدا ہورہا ہے، اس تحریر کے لکھتے وقت یہ خیال آرہا ہے کہ وہ یہاں آخر وقت تک رہتے تو دارالمصنفین کے علمی آسمان کے ایک اہم سیارہ اور ملک کے ایک قیمتی علمی سرمایہ بن کر رہتے۔
دعا ہے کہ اﷲ تبارک تعالیٰ ان کو اپنی آغوش مغفرت میں لے کر ہر قسم کی رحمتوں اور برکتوں سے سرفراز فرمائیں۔ آمین! (صباح الدین عبدالرحمن، دسمبر ۱۹۷۶ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...