Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا عبدالماجد دریا بادی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا عبدالماجد دریا بادی
ARI Id

1676046599977_54338183

Access

Open/Free Access

Pages

349

آہ! مولانا عبدالماجد دریابادی
معارف کے زیر نظر شمارہ کی کتابت ہوچکی تھی کہ فخر روزگار، یگانہ وقت، مجاہد العلم، رئیس القلم اور دارالمصنفین کی مجلس ارکان کے صدر نشین مولانا عبدالماجد دریاباری کی رحلت کی اچانک خبر ریڈیو سے سنی تو ع عجب اک سانحہ ہوگیا ہے۔
ان کی زندگی کی شاندار کتاب ختم ہوگئی، جس کا ہر ورق اپنی گوناگوں خوبیوں سے مزین رہا، یہ عاجز راقم گزشتہ ۴۲ سال سے ایک ادنی خورد کی حیثیت سے ان کی بزرگانہ شفقت اور علمی جلالت کے سامنے سرتسلیم خم کرتا رہا، اس مدت میں ان کی زندگی کی جو سرگرمیاں رہیں وہ متحرک تصویروں کی طرح نظروں کے سامنے گھومنے لگیں۔
گل و آئینہ کیا ، خورشید و مہ کیا
جدھر دیکھا تدھر تیرا ہی رو تھا
کیننگ کالج لکھنؤ سے بی،اے کرنے کے بعد ان کی زندگی کا آغاز الحاد وبے دینی کی وادی کی سیر سے ہوا، مگر یہیں ان کی نظر شعلۂ طور بن کر چمکی، جس کے بعد وہ توحید اور رسالت کے ایسے داعی اور مبلغ بنے کہ سندیافتہ عالم نہ ہونے کے باوجود باوقار عالم تسلیم کیے گئے، اچھے اچھے علماء ان کے سامنے جھکے، کبھی علماء کی مجلس کے سرخیل بھی منتخب ہوئے اور ان کا خاتمہ بالخیر کلام پاک کے مفسر اور شارح کی حیثیت سے ہوا، انھوں نے اردو اور انگریزی میں جو تفسیر لکھی ہے اس میں اسرائیلیات کی فتنہ سامانیاں اور توریت و انجیل کی تحریفات کی شرانگیزیوں کی راز کشائی میں جو دیدہ وری اور نکتہ وری دکھائی ہے اس سے کلام پاک کے مفسروں میں ان کا مقام ہمیشہ نمایاں رہے گا، ان کی یہ تفسیر گنجینہ معارف و تحقیق بھی سمجھی جاتی رہے گی۔
وہ کچھ دنوں تک فلسفی بھی رہے، ان کی ’’فلسفہ جذبات‘‘ اور ’’فلسفہ اجتماع‘‘ ان کی ابتدائی دور کی تصانیف ہیں جن کے بعد ان کی ’’مبادی فلسفہ‘‘ کی دو جلدیں ’’فلسفہ اور اس کی تعلیم‘‘، ’’ہم اور آپ بھی نکلیں‘‘، ان کے فلسفیانہ مضامین کا ایک مجموعہ بھی شائع ہوا اور جب اردو کا خالی دامن ان کے فلسفیانہ خیالت سے پر ہورہا تھا تو انھوں نے فلسفہ کے چناں وچنیں سے منہ موڑ کر اقبال ہی کی طرح پیرروم کو اپنا معنوی مرشد قرار دیا، اسلامی تصوف اور فیہ مافیہ لکھ کر راہ سلوک کے ایک پرجوش سالک بن گئے، مولانا حسین احمد مدنیؒ سے بیعت بھی ہوئے، مگر حکیم الامت لکھ کر مولانا اشرف علی تھانویؒ کی تعلیمات کے اسرار و رموز کے شارح بنے جس کے بعد
؂جس طرف کے لے چلا رہبر چلے
وہ بڑے اچھے مترجم بھی تھے، انگریزی سے اردو میں برکلے کے مکالمات، لیسکی کی تاریخ اخلاق یورپ بکل کی تاریخ تمدن، سیوپال کے پیام امن کے ترجمے کیے ان کے ترجمے میں اصل کتاب ہی کی لذت اور کیفیت محسوس ہوتی ہے، ان کتابوں سے یورپ کے تہذیب و تمدن سے واقف ہوئے تو ان سے متاثر ہونے کے بجائے ان کو یا جوجی تمدن اوردجالی فتنہ قرار دیا، وہاں کی فحاشی، عریانی، رندی اور بے راہ روی پر اپنی مختلف تحریروں سے ایسی کاری ضربیں لگاتے رہے کہ جن لوگوں نے ہندوستان کو یورپ کی تمدنی فریب کاریوں سے بچایا ہے ان میں ان کا نام بھی نمایاں طور پر لیا جائے گا۔
وہ اردو تنقید نگاری کے ایک خاص رنگ کے امام بھی رہے، اردو شعر و ادب کی رمزشناسی میں ان سے شاید ہی کوئی سبقت لے جاسکا، لکھنوی تہذیب کے ساتھ لکھنو کی شاعری اور اس کے نثری اسلوب کے بڑے دلدادہ تھے، زہر عشق، مرزا رسوا اور گل بکاؤلی پر ان کے تبصرے ان کے نقادانہ دقت نظر کے شاہکار ہیں، غالب کو ایک فلسفی کے بجائے ہر بات کو حکیمانہ انداز میں کہنے والا شاعر مرزا شوق کو ایک بدنام شاعر حالی کو ایک واعظ شاعر، اکبر آبادی کی شوخی اور دل لگی کو ایک نیا آئین اکبری، شکوہ والے اقبال کو صاحب حال اور سالک اور جواب شکوہ کے اقبال کو صاحبِ مقام اور عارف کہکر نقادوں کے ذہن کے لیے نئے دریچے کھول دیئے۔
وہ اپنے زمانہ میں اردو کی انشاء پردازی کے بھی امام رہے، وہ اپنے طرز کے موجد اور خاتم تھے، شبلیؒ، مہدی افادی اور سید سلیمانؒ کے انداز بیان کے بڑے پرستار اور قدردان تھے، مگر اپنے طرز نگارش میں کسی کی تقلید پسند نہیں کی، بالکل منفرد اور غیر مقلد رہے، ان کی تحریروں میں جہاں تندی صہبا موجِ خرامِ یار، نکہتِ بادِ بہاری اور فکری لالہ کاری ملے گی وہاں کج رو حریفوں کے مقابلہ میں سانپ کی پھنکار، بچھو کا ڈنک اور خنجر کا وار بھی ہے، وہ اپنے مخالفوں کے خلاف اپنے قلم سے صف شکن یلغار اور مردافگن یورش کرکے اپنی انشا پردازی کا جوہر دکھاتے، اپنے عزیز دوستوں اور محبوب معاصروں کی موت پر ماتم کرتے تو اس میں دلسوزی، عقیدت مندی اور وفاکہشی کے ساتھ ان کے قلم کی رعنائی، شگفتگی اور رنگینی کی پوری بہار آفریں قوس قزح نظر آتی، مولانا محمد علی، مولانا شوکت علی، مولانا عبدالماجد بدایونی، بہادر یارجنگ اور سید سلیمان ندوی اور حکیم عبدالمجید لکھنوی پر ان کی ماتمی تحریروں میں ان کے زور بیان کے ساتھ اثر، تاثیر اخلاص محبت اور درد کے جھلملاتے جواہر ریزے نظر آتے ہیں، ان کے مضامین کے مجموعے انشائے ماجدی میں جمع کردیئے گئے ہیں جو ہر زمانہ میں بلاغت کی سحرکاری، فصاحت کی تازگی اور سلاست کی پرکاری کے لحاظ سے اردو ادب کے شہ پارے بنے رہیں گے، یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ لکھنو کی زبان کا بانکپن اور رسیلاپن دکھانے والا سفر حجاز اور تفسیر کی زبان لکھنے میں کس قدر باوقار، باوزن اور متین ہوگیا ہے۔
انھوں نے سچ اور صدق نکال کر اپنے کو شیر دل بلکہ کفن بردوش صحافی بھی ثابت کیا، حکومت کا دبدبہ قانون کا شکنجہ، انقلاب کا کوئی ہچکولہ ان کے قلم کی آزادی کو نہ روک سکا، مسلمانوں کے غمخوار، غمگسار اور دمساز بن کر ان کے سیاسی المناک حوادث پر خون کے آنسو روئے، ان کی سیاسی کامیابی اور فتح پر اپنی مسرت و شادمانی کا اظہار دل کھول کرکیا، خواہ ان کی یہ تحریریں حکومت کی پالیسی کے خلاف ہی کیوں نہ ہوتیں، سچ اور صدق جدید میں سچی باتیں لکھ کر ایمان، ایقان اور عرفان کے موتی بکھیرتے رہے، اس انداز کی تحریر اب مدت مدید تک کوئی اور نہ لکھ سکے گا، اسی کے ساتھ اسلامی طرز فکر کی راہ چھوڑنے والوں کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں اترتے، کردار کو نیلام کی بولی پر بھینٹ چڑھانے والوں کے نہاں خانے میں پہنچ کر شب خوں مارتے، اپنی تحریروں کی ناوک فگنی سے تجدد پسندوں کے کلیجوں کو چھلنی کرتے رہے، ان کے اخبار کا ایک شعر ایک جلی سرخی، ایک زہریلا فقرہ ان کے حریفوں کے پورے مضمون پر بھاری ہوتا۔
ان کے چھوٹے سائز کا ہفتہ وار اخبار سچ یا صدق جدید کل آٹھ صفحے پر مشتمل ہوتا، اس کو شروع سے آخر تک خود ہی لکھتے جو ان کے قلم کی صاعقہ پاشی کی دلیل ہوتی، اس میں کبھی تو واعظ، کبھی فقیہ، کبھی مرد مومن، کبھی مفسر قرآن، کبھی متکلم اسلام، کبھی نقاد، کبھی سیاسی مبصراور ہاں کبھی قلم کے افراسیاب، کبھی اسلوب کے جمشید اور کبھی زور بیان کے رستم بن جاتے اور اپنی آخر عمر میں خوش ہوں گے کہ علم، ادب اور فن کا ایک انبار نہیں بلکہ گل و گلزار لگاکر زندگی ختم کررہے ہیں۔
وہ خلافت تحریک میں مولانا عبدالباری فرنگی محلی اور مولانا محمد علی کے اصرار سے شریک ہوئے، مگر کبھی سیاسی رہنما ہونے کے دعوے دار نہیں ہوئے، البتہ علی برادران کی طرح جو کھدر کا کرتہ اور پائجامہ اور چغہ پہنا تو آخر عمر تک پہنتے رہے، مولانا محمد علی کے نام پر جان چھڑکتے رہے، ان کی یاد میں محمد علی کی ڈائری کے نام سے جو دوجلدیں لکھی ہیں ان میں ان کے نہ صرف دل و جگر کے ٹکڑے بلکہ انشا پردازانہ کمالات کے سارے جلوے نظر آتے ہیں، مولانا محمد علی پر ان دونوں جلدوں سے بہتر اب تک کوئی اور کتاب نہیں لکھی گئی۔
دارالمصنفین کی اکسٹھ سالہ زندگی کے ہر نشیب و فراز میں اس کے ہمدم اور ہمراز بنے رہے، شروع میں اس کی مجلس انتظامیہ کے رکن تھے، پھر اس کی مجلس ارکان کے صدر بھی ہوگئے، اس کا شائد ہی کوئی ایسا جلسہ ہواہو جس میں ان کی شرکت نہ ہوئی ہو، آخری بار گزشتہ نومبر میں ان کی علالت کے زمانہ میں ملنے گیا تو رخصت کرتے وقت فرمایا کہ، خدا کرے دارالمصنفین کے آئندہ جلسہ میں پھر حاضری کا موقع مل جائے، وہ یہاں تشریف لاتے تو تمام لوگ ان کے سامنے مودب بیٹھتے، سید صاحب سے وہ عمر میں بہت چھوٹے تھے، مگر وہ ان کا بڑا احترام کرتے، ان کو کوئی خط لکھتے تو اس احترام کو برقرار رکھتے، خود وہ سید صاحب کی بڑی عزت بلکہ ان سے بڑی محبت کرتے، جب کبھی ان پر کوئی مضمون لکھا، ان کا قلم بہت ہی رواں اور شگفتہ ہوگیا، مولوی مسعود علی ندوی سے ان کی بڑی بے تکلفی رہتی، وہ طبعاً بہت ہی متین سنجیدہ اور خاموش تھے کسی مجلس میں مشکل سے کچھ بولتے، مگر مولوی مسعود علی ندوی سے باتیں کرتے تو عندلیب شیوا بیان بن جاتے، صدق میں ان سے کسی سے قلمی جنگ شروع ہوجاتی تو سید صاحب فرماتے کہ ان کے گوریلا جنگ کے خلاف کسی کا کامیاب ہونا آسان نہیں، سید صاحب کے بعد وہ دارالمصنفین کے علمی محتسب بھی بن گئے تھے، معارف اور یہاں کی نئی تصانیف ان کی خدمت میں ضرور بھیجی جاتیں، زبان اور انداز بیان میں کوئی فروگذاشت ہوجاتی تو اس کی طرف توجہ ضرور دلاتے اور جو چیز پسند آجاتی اس کی تعریف دل کھول کر کرتے، افسوس دارالمصنفین اپنے ایک بڑے علمی محتسب سے محروم ہوگیا۔
ان تمام اوصاف کے ساتھ ان کا ایک بہت بڑا صف یہ بھی تھا کہ انھوں نے بڑی جرأت کے ساتھ اسلامی جمعیت کی دیدبانی، اسلامی شعار کی پاسبانی اور ملی غیرت کی رجز خوانی کی، ان کی تفسیر کے ساتھ ان کا وہ سوز نہاں اور درد پنہاں جو ان کے دل میں اسلام کے لئے رہا، ان کا توشہ آخرت بنے گا، ان ہی کی بدولت جنت کے رضوان نے ان کا خیر مقدم کیا ہوگا اور حوریں پیشوائی میں شراب طہور کا مینا و ساغر لے کر بڑھی ہوں گی، ان سطروں کے لکھتے وقت اخبار سے معلوم ہوا کہ ان کے جنازہ کی نماز ندوۃ العلماء کے احاطہ میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے پڑھائی جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک ہوئے، مولانا علی میاں سے تو وہ محبت نہیں بلکہ عشق کرتے، ندوہ سے بھی ان کو غیر معمولی لگاؤ رہا، ندوہ میں مولانا علی میاں نے ان کے جنازہ کی نماز پڑھا کر اپنا فرض اور قرض دونوں ادا کیا، یہ راقم بخار میں مبتلا تھا، اس لئے تعزیت میں نہیں پہنچ سکا لیکن جنازہ کی شرکت کے لئے ایک سہ رکنی وفد دارالمصنفین کی طرف سے بھی گیا، دل کے تقاضے سے مجبور ہوکر یہ سطریں بستر علالت ہی پر سے قلمبند کی جارہی ہیں۔ ع اے نالہ! نشانِ جگر سوختہ کہاں ہے۔
موت سے کس کو رستگاری ہے، مگر مولانا سپردخاک ہوئے تو ان کے سینہ میں علم کی جو ہمہ گیری، قلم کی جو صاحبقرانی تحریر کی جو برق روشنی، علم و عرفان کی جو فرمانروائی اور اسلام کی عزت و ناموس کی خاطر جو قلمی سرفروشی اور جانبازی تھی، وہ بھی ان کے ساتھ خاک ہوگئی، عالم بقا کے مسافر! تجھ پر رحمت، تیری روح پر رحمت، اسلامی روایت کی تیری حدی خوانی پر رحمت، تیرے قلم کی اس کوہ کنی پر رحمت جس سے جوئے شیر اسلامیہ بہتی نظر آتی، الوداع، السلام، تو جاچکا، مگر تو زبان حال سے کہتا گیا:
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
(صباح الدین عبدالرحمن، جنوری ۱۹۷۷ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...