Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > نواب علی یاور جنگ بہادر

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

نواب علی یاور جنگ بہادر
ARI Id

1676046599977_54338184

Access

Open/Free Access

Pages

351

نواب علی یاورجنگ بہادر
گزشتہ ماہ دسمبر میں نواب علی یاورجنگ بہادر گورنر بمبئی کا انتقال ہوگیا۔ ۱۹۴۷؁ء کے بعد حکومت ہند کی طرف سے ان کو بڑے بڑے عہدے ملتے رہے، وہ امریکہ میں ہندوستان کی طرف سے سفیر بناکر بھیجے گئے، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے وائس چانسلر بنائے گئے، بمبئی کی گورنری کے عہدے پر مامور ہوئے اور اسی ریاست کے گورنر کی حیثیت ہی سے عالم بقا کو سدھارے، اور معلوم نہیں کتنے دوسرے اعزاز ان کو حاصل ہوتے رہے، حکومت ہند کے معتمد ترین حکام میں ان کا شمار ہوتا رہا۔
میں نے ان کو کسی بڑے عہدیدار کی حیثیت سے نہ جانا اور نہ پہچانا، بلکہ ان سے نواب عمادالملک کے نواسے کی حیثیت سے ملتا رہا، نواب عماد الملک دارالمصنفین کی مجلس انتظامیہ کے پہلے صدر تھے، جن کا احسان دارالمصنفین پر بہت بڑا تھا، ان ہی کی مساعی جمیلہ سے علامہ شبلیؒ کی وفات کے بعد ان کا ماہانہ وظیفہ دارالمصنفین کے نام منتقل ہوا، جس سے اس کی تاسیس میں بڑی مدد ملی، وہ دارالمصنفین کے بڑے قدرداں اور سرپرست رہے، جب ان کی وفات ۳؍ جون ۱۹۲۶؁ء کو ہوئی تو استاذی المحترم مولانا سید سلیمان ندویؒ نے معارف کے شذرات میں اپنی غیرمعمولی سوگواری کا اظہار کیا، جس میں ان کے اور بہت سے فضائل اور محاسن کے ساتھ مولانا شبلی، دارالمصنفین اور خود ان سے جو تعلقات رہے، اس کا ذکر بہت ہی خوش عقیدگی سے کیا، جس کے کچھ ٹکڑے یہ ہیں:
’’آخر عمر میں مولانا شبلی مرحوم کی تحریک سے انھوں نے قرآن مجید کا انگریزی میں ترجمہ شروع کیا تھا جو سولہ پاروں تک ضعف بصارت و علالت کی وجہ سے رک گیا، اس ترجمہ میں بالکل بائبل کی زبان اختیار کی ہے‘‘۔
’’مولانا شبلی مرحوم سے ان کا تعلق سرسید کے زمانہ سے اور ان ہی کے واسطہ سے ہوا تھا، چنانچہ مرحوم ان کی بڑی قدر فرماتے تھے‘‘۔
’’الفاروق کی تالیف میں ان کی حوصلہ افزائی کو بھی دخل ہے، جامعہ عثمانیہ کا پہلا نام حیدرآباد کی مشرقی یونیورسٹی پڑا تھا، اس کے نصاب اور خاکہ کی تیاری کے لیے مولانا شبلیؒ مرحوم کا انتخاب ان ہی کے اشارہ سے ہوا تھا اور ۱۹۱۴؁ء میں مولانا شبلی مرحوم کی ماہانہ تنخواہ میں دوسو کا اضافہ نواب صاحب ہی کی تحریک سے اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خان نے منظور فرمایا‘‘۔
مولانا شبلی مرحوم سے اس تعلق اور دارالعلوم ندوہ کی تعلیم میں مشرقی و مغربی علوم و فنون کی جامعیت کی بنا پر اس سے بڑی دلچسپی رکھتے تھے، چنانچہ ۱۹۰۸؁ء میں انھوں نے ندوہ کو اپنا قیمتی کتب خانہ عطا فرمایا اور ہر موقع پر طلباے ندوہ کی سرپرستی و قدردانی کرتے رہے۔ مولانا شبلی کی نسبت اور ایک علمی مرکز ہونے کی حیثیت سے انھوں نے دارالمصنفین کے ساتھ ابتدا ہی سے اپنا شغف ظاہر فرمایا اور جس کو آخر زندگی تک قائم رکھا، چنانچہ جب دارالمصنفین قائم ہوا تو ان ہی کی سفارش سے مولانا شبلی مرحوم کی تین سو ماہوار رقم سرکار آصفیہ نے دارالمصنفین کے نام منتقل کردی، اس کے ساتھ خاص اپنی جیب سے انھوں نے اس کے لیے سالانہ سو روپے کی رقم مقرر فرمائی اور مجھے لکھا کہ دارالمصنفین پہلا انسٹیٹیوشن ہے جس کے لئے میں یہ مستقل رقم مقرر کرتا ہوں، لیکن یہ رقم ان کے حوصلہ کے مطابق نہ تھی، اس لیے اس پر ہمیشہ تاسف و مذامت کا اظہار کرتے رہے، وہ دارالمصنفین کی مجلس منتظمہ کے پہلے صدر نشین تھے اور آخر تک اس تعلق کو قائم رکھا، معارف کا بالاستیعاب مطالعہ فرماتے اور جو مضمون پسند آتا اس پر خوشی ظاہر کرتے، اس کے لکھنے والے کے حالات دریافت فرماتے، مولانا عبدالباری ندوی سے ان کا تعارف اسی طرح ہوا، دارالمصنفین کی تصنیفات جب ان کی خدمت میں بھیجی جاتی تھیں تو ان کو لازمی طور پر پڑھتے تھے اور اگر ضعف و علالت کی وجہ سے خود نہیں پڑھ سکتے تھے تو دوسروں سے پڑھواکر سنتے تھے، ان تصنیفات کے پہنچنے پر مجھے جو خط لکھتے، اس میں ان کی داد دیتے تھے اور اپنی مسرت کا اظہار کرتے تھے۔
خود سید صاحب اپنے متعلق فرماتے ہیں کہ:
’’آخر عمر تک نواب صاحب کے علمی تعلقات کا سلسلہ برابر جاری رہا، خصوصاً حضرت الاستاذ رحمہ اﷲ کی وفات کے بعد جو نومبر ۱۹۱۴؁ء میں ہوئی، ان کی شفقت بزرگانہ سے یہ تعلقات برابر بڑھتے رہے، خط و کتابت کا آغاز اس طرح ہوا کہ استاذ مرحوم کی وفات پر جو اردو مرثیہ میں نے لکھا تھا وہ ان کے پاس بھیجا، جواب میں ایک ایسا نکتہ حوالہ قلم فرمایا جو ہمیشہ میرے لیے رہنما ثابت ہوا۔ فرمایا، عرض ہنر اس وقت تک نہیں کرنا چاہئے جب تک یہ نہ معلوم ہوکہ اس ہنر میں میرا کوئی حریف نہ ہوسکے گا۔ حیدرآباد جب جانا ہوا تو شفقت سے ملتے، دیر تک باتیں کرتے رہتے تھے، اسلامی علوم و فنون، تمدن و تاریخ کا موضوع ہوتا، ہمیشہ اپنے مکتوبات سے ممنون فرماتے‘‘۔
نواب علی یاورجنگ کے لیے میرے دل میں نرم گوشہ محض اس لیے رہا کہ وہ علامہ شبلیؒ اور سید صاحبؒ کے بہت بڑے قدردان اور دارالمصنفین کے بہت بڑے مربی کے نواسے تھے۔
وہ جب مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوئے، تو ان کا ایک خط دارالمصنفین آیا کہ بزم صوفیہ ان کے نام سے وی، پی بھیجی جائے، مجھ کو تعجب ہوا کہ ان کو تصوف سے کیسے ذوق پیدا ہوگیا، میری پہلی ملاقات دہلی میں ان سے انڈین کونسل آف کلچرل ریلیشنز کے ایک جلسہ میں ہوئی، میں اس کونسل میں دارالمصنفین کی نمائندگی بارہ سال تک کرتا رہا، جب نواب علی یاورجنگ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے وائس چانسلر ہوئے تو اس کونسل کے وہ بھی رکن ہوئے، وہ پہلی دفعہ اس کے جلسہ میں شریک ہوئے تو جب ان کو معلوم ہوا کہ میں دارالمصنفین سے آیا ہوں تو جلسہ کے بعد اور تمام معزز اراکین کو نظر انداز کرکے میری طرف بڑھے، دارالمصنفین سے متعلق پوری تفصیلات حاصل کرتے رہے، کہنے لگے کہ دارالمصنفین سے بڑی دلچسپی رہی ہے، اس لیے کہ جب علامہ شبلی میرے نانا عمادالملک سے ملنے آتے تو وہ مجھ کو اپنی گود میں بیٹھالیتے، وہ دونوں کی علمی گفتگو سمجھ تو نہیں سکتے لیکن غیر شعوری طور پر ان کی باتوں کا نقش ان کے ذہن پر رہا، پھر کہنے لگے کہ وہ اب بھی فخر محسوس کرتے ہیں کہ وہ علامہ شبلی کی گود میں بیٹھے، بلکہ وہ اپنے کو ان کی گود کا پروردہ سمجھتے ہیں، وہ علامہ شبلی کی تصانیف، ان کے اسلوب، استاذی المحترم مولانا سید سلیمان ندویؒ نے ان کی جانشینی کا جو حق ادا کیا ہے اور پھر ان سے جو ملاقاتیں ہوتی رہیں اس پر اتنی دیر تک گفتگو کرتے رہے کہ چائے کی ایک نشست ختم ہوگئی اور ہم دونوں وہاں نہیں پہنچ سکے۔
اسی کے دوسرے سال میں کسی کام سے دہلی گیا تو ایک روز اپنے بہت ہی معزز کرم فرما اور دارالمصنفین کی مجلس انتظامیہ کے اہم رکن کرنل بشیر حسین زیدی کے ساتھ ان کی موٹر گاڑی پر کہیں جانا ہوا، انھوں نے راستہ میں کہا کہ وہ زرا انٹرنیشنل کلب بھی تھوڑی دیر ٹھہریں گے، وہاں پہنچ کر وہ کلب کی عمارت میں چلے گئے۔ میں موٹر ہی میں بیٹھا رہا وہ باہر آئے تو ان کے ساتھ نواب علی یاورجنگ بہادر بھی تھے، زیدی صاحب نے فرمایا کہ میں موٹر میں بیٹھا ہوں تو وہ مجھ سے ملنے چلے آئے ہیں، پھر تو ایک خوشگوار شام گزری، جس میں نواب عمادالملک، علامہ شبلی اور سید صاحب پر دیر تک گفتگو رہی، سید صاحب سے حیدرآباد میں جو ان کی ملاقاتیں ہوتی رہیں ان کا ذکر بھی کرتے رہے، پھر فرمایا کہ جب وہ امریکہ میں سفیر تھے تو تذکرہ سلیمان مولفہ غلام محمد کا اشتہار دیکھا، کراچی سے خاص طور پر یہ کتاب منگوائی اور جب یہ کتاب پڑھی تو اس میں مولانا سید سلیمان ندوی نظر نہیں آئے، میں نے اس پر ان سے عرض کیا کہ یہ کتاب آپ کے لیے نہیں لکھی گئی، پھر کہنے لگے کہ وہ سید صاحب کو ایک مصنف، ایک محقق، ایک مورخ اور ایک ادیب کی حیثیت سے جاننا چاہتے تھے، میں نے اثنائے گفتگو میں عرض کیا کہ آپ کے نانا نواب عمادالملک سید صاحب کے ذہن پر برابر چھائے رہے، ان کی زبانی میں نے سنا کہ جب علامہ شبلی کی رحلت ہوئی تو انھوں نے بہت دکھ اور درد کے ساتھ ان کا نوحہ لکھا جو اخباروں میں چھپا تو ہر طرف سے اس کی تعریف ہوئی، عزیز لکھنوی نے بھی اس کو پسند کیا، مگر نواب عمادالملک کو شاید پسند نہ آیا، اس لیے انھوں نے سید صاحب کو لکھ بھیجا کہ وہ بازار میں اپنی کسی چیز کو اس وقت تک پیش نہ کریں جب تک کہ ان کو یقین کامل نہ ہو کہ بازار میں اس سے بہتر چیز کوئی اور پیش نہیں کرسکتا، میں نے کہا کہ سید صاحب نے یہ بیان کرکے فرمایا کہ نواب صاحب کی یہ نصیحت ذہن پر برابر چھائی رہی اور اپنی تحریر اور تصنیف کی طباعت و اشاعت سے پہلے نواب صاحب برابر ذہن کے سامنے کھڑے رہتے، نواب علی یاورجنگ نے اپنے نانا کی یہ نصیحت سنی تو بہت محظوظ ہوئے اور بولے کہ دارالمصنفین کو یہ نصیحت ہمیشہ پیشِ نظر رکھنی چاہئے، میں نے عرض کیا ’’حتی الوسع یہ پیشِ نظر ہے‘‘۔
ان سے میری دو ملاقاتیں آئی گئی ہوگئیں، دسمبر ۱۹۷۴؁ء میں شاہ صاحب کی وفات ہوئی تو ان کا یہ مکتوب میرے نام پہنچا:
راج بھون، ۶؍ جنوری ۱۹۷۵؁ء
مکرمی!
مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی کے انتقال کی خبر مجھ کو شاق گزری، خدا ان کو اپنے جوار رحمت میں لے، میری ان سے ملاقات تو نہیں ہوئی البتہ اپنے نانا کے توسط سے مجھے مولانا سید سلیمان ندوی سے نیاز حاصل تھا، بچپن میں تو مولانا شبلی مرحوم کو بھی اپنے نانا کے پاس آتے جاتے دیکھا تھا اور کبھی کبھار ان کی گود میں بیٹھنے کی عزت بھی حاصل ہوئی۔ (علی یاورجنگ)
اس کے بعد امیر خسرو کاسات سوسالہ جشن منایا جانے لگا، تو اس کے وہ روح رواں بن گئے، میرے نام سے بھی ان کے دستخط سے ایک گشتی مراسلہ پہنچا، امیر خسرو سے مجھ کو عشق رہا ہے، اس لیے میں نے ان پر انگریزی میں ایک مضمون لکھ کر ان کی خدمت میں بھیج دیا، فروری ۷۵؁ء میں دہلی میں امیر خسرو پر انٹرنیشنل سیمینار کی تاریخیں مقرر ہوئیں تو ان ہی کے دستخط سے میرے نام سے بھی شرکت کے لیے ایک دعوت نامہ پہنچا، میں ان ہی دنوں دارالمصنفین کے کام سے پاکستان جانے والا تھا، اس لیے میں نے اس دعوت نامہ کی رسید نہیں بھیجی، جب سمینار کا وقت قریب آیا تو ایک روز نواب علی یاورجنگ صاحب کا ایک لمبا تار میرے نام پہنچا کہ میری شرکت ضروری ہے۔
اس تار پر اس میں شرکت کے لیے آمادہ ہوگیا، وہاں پہنچا تو نواب علی یاورجنگ اس طرح ملے جیسے میری اور ان کی ملاقاتیں برابر ہوتی رہی ہیں، ملتے ہی کہا کہ حیات سلیمان چھپ گئی ہے، مجھ کو اس کے پڑھنے کا بہت اشتیاق ہے، میں نے عرض کیا کہ یہ آپ کی خدمت میں پہنچ جائے گی۔
سیمینار میں انگلستان، روس، شام، ترکی، مصر، عراق اور بنگلہ دیش کے بھی نمائندے آئے ہوئے تھے، ہندوستان کی یونیورسٹیوں کے عربی اور فارسی کے اساتذہ بھی موجود تھے، بڑا اچھا اجتماع تھا، صدر جمہوریہ ہند نے اس کا افتتاح کیا، اس کے بعد ایک علیحدہ کمرہ میں سیمینار شروع ہوا، تو یہ بھرگیا، جگہ کی تنگی محسوس ہونے لگی، شام کے نمائندے کی صدارت میں کاروائی شروع ہوئی، مگر اس میں نواب علی یاورجنگ بہادر ہی پورے طور پر چھائے رہے، انھوں نے جب یہ کہا کہ عمادالملک کے نواسے کی تقریب میں عمادالملک کا نواسہ موجود ہے، تو بہت پسند کیا گیا۔
انھوں نے کمرے کو ضرورت سے زیادہ لوگوں سے بھرا ہوا دیکھا تو فوراً جھلاہٹ کے لہجہ میں مجمع کو مخاطب کرکے کہا ’’جن کے پاس دعوت نامے نہیں ہیں وہ باہر نکل جائیں‘‘۔ اس سے مجمع میں کھلبلی سی مچ گئی، نواب صاحب نے ایک صاحب کو مخاطب کرکے کہا کہ ’’وہ کیسے آگئے ہیں، باہر چلے جائیں‘‘، اس سے اور بھی تکدر بڑھا، مگر پھر فضا خوشگوار ہوگئی، جلسہ ختم ہوا تو نواب صاحب کے لب و لہجہ پر تنقیدیں ہورہی تھیں، مگر پوری تقریبات نواب صاحب کی وجہ سے بہت ہی خوش اسلوبی سے انجام پائیں، انھوں نے ہر مقرر اور مقالہ نگار پر اچھے اچھے تبصرے کیے، اسی لیے میں نے معارف کے شذرات میں جب اس سیمینار کا ذکر کیا تو نواب صاحب کی ابتدائی ڈانٹ پھٹکار کو زیادہ نمایاں نہیں کیا، جس سے بعض دوست میرے شاکی بھی ہوئے۔
اس سمینار میں امیر خسرو کے کچھ مخالفین اور ناقدین بھی جمع ہوگئے تھے، جنھوں نے ان پر یہ کہہ کر اعتراضات کیے کہ وہ صوفی کسی معنے میں نہ تھے، خواجہ نظام الدینؒ اولیاء سے ان کی ارادت نہ تھی، وہ ایک چالاک آدمی تھے، اس لیے دربار سے، ہر حکمران سے تعلقات رکھتے رہے وہ موسیقی کے ماہر نہ تھے، ان کی ہندو دشمنی سے متعلق بھی کچھ باتیں بیان کی گئیں، وغیرہ وغیرہ۔ سیمینار میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کی درگاہ کے جناب پیرضامن علی اور جناب حسن ثانی بھی تھے، وہ دونوں یہ سب کچھ سن کر دم بخود تھے، مگر خاموش تھے، میرے لیے بھی یہ اعتراضات ناخوشگوار بلکہ ناقابل برداشت تھے، بے چین ہوکر میں نے ہر ایک سے ٹکرلی اور امیر خسرو سے متعلق میرا جو کچھ مطالعہ تھا اس کو بروئے کار لانے کی کوشش کی، یہاں تک کہ نواب صاحب نے مجھ کو مخاطب کرکے کہا کہ میں نے بہت کافی وقت لیا، کچھ اور لوگوں کو بھی بولنے کا موقع دوں، میں نے ان سے عرض کیا کہ میں اس لیے برابر بول رہا ہوں کہ عمادالملک کے نواسے امیرخسرو نے سات سو برس میں جو کچھ حاصل کیا ہے، وہ عمادالملک کے نواسے کی موجودگی میں اس دور روز کے سیمینار میں ان سے چھین نہ لیا جائے، یہ سن کر مجمع کے ساتھ وہ بھی ہنسنے لگے، چائے کا وقفہ ہوا، تو وہ میرے پاس آئے اور بولے کہ میں دارالمصنفین کی نمائندگی کا پورا حق ادا کررہا ہوں اسی وقت ایک روسی نمائندہ بھی میرے پاس پہنچ گئے اور مجھ سے پوچھا کہ میں کہاں سے آیا ہوں۔ نواب صاحب نے شبلی اکیڈمی کا نام بتایا، تو روسی نمائندے نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ اس اکیڈمی کی نمائندگی پورے طور پر ہورہی ہے، میرے کچھ علمی دوستوں نے بھی کہا کہ میرا آنا اچھا ہوا ورنہ معلوم نہیں اس سیمینار میں امیر خسرو کہاں لے جاکر پٹک دیے جاتے، سیمینار کے دوسرے دن راشٹرپتی بھون میں صدر جمہوریہ ہند کی طرف سے ایٹ ہوم تھا، میں بھی ڈاکٹر یوسف حسین صاحب کے ساتھ وہاں پہنچا، صدر جمہوریہ سے بڑھ بڑھ کر سبھی مل رہے تھے، وہ دارالمصنفین کے بڑے محسن، ہمدرد اور سرپرست رہے ہیں، اس کی رکنیت بھی قبول فرما کر اس کی عزت بڑھائی ہے، میں بھی ان کی خدمت میں پہنچ کر شرف ملاقات حاصل کرنا چاہتا تھا، مگر اس بھیڑبھاڑ میں پہنچنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی، دور سے نواب علی یاورجنگ صاحب کی نظر میرے اوپر پڑی، وہ میرے پاس آئے اور مجھ کو اپنے ساتھ صدر صاحب کے سامنے لاکھڑا کردیا اور پھر میں نے سمینار میں جو حصہ لیا اس کا ذکر کرنے کے ساتھ میری تصانیف کے لیے ایسے ایسے کلمات خیر کہے جن کا میں اپنے کو مستحق نہیں پارہا تھا، میں دونوں بزرگوں کے سامنے شرمندہ ہورہا تھا، میں ان سے رخصت ہوا تو عرض کیا کہ میں دہلی سے بمبئی پی،ایچ۔ڈی کے ایک مقالہ کا ممتحن بن کر جارہا ہوں، وہ بولے، میں بمبئی میں ان سے ضرور ملوں، بمبئی میں کچھ ایسا مشغول رہا کہ ان سے وقت مقرر کرنے کا موقع نہ ملا، جب چلنے لگا تو ان کے سکریٹری سے ان کی مشغولیتوں کا پروگرام معلوم ہوا تو میں ان سے ملے بغیر بمبئی سے اعظم گڑھ کے لیے روانہ ہوا۔
اعظم گڑھ آکر حیات سلیمان کے ساتھ کچھ اور کتابیں ان کی خدمت میں بھیج دیں، پھر پاکستان چلاگیا، جہاں دارالمصنفین کے کام کے سلسلہ میں سات مہینے قیام کرنا پڑا، اس اثناء میں نواب صاحب کے دو عنایت نامے موصول ہوئے جو یہ تھے۔
راج بھون، مورخہ ۱۵؍ مارچ ۱۹۷۶؁ء
مکرمی!
چاروں کتابیں جن میں سے سچی کہانیوں کے دو حصے ہیں، وصول ہوئیں، جن کا ازحد شکریہ، مطالعہ بزم صوفیہ کی طبع ثانی سے شروع کیا ہے، جس کا بہت انتظار تھا، مولانا سید سلیمان ندوی صاحب مرحوم سے مجھے بڑا انس تھا اور ان کی حیات کو بھی بڑے شوق سے پڑھوں گا، مجھے علم ہے اور افسوس بھی کہ آپ بمبئی تشریف فرما تھے اور مجھ سے ملنا چاہتے تھے، مگر اتنے دن دہلی میں رہنے کے بعد واپسی پرکام کا انبار جمع ہوگیا تھا، اس کے علاوہ پے در پے کمیٹیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا، اس لیے آپ سے معافی چاہتا ہوں اور امید ہے کہ آپ مجھے بخش دیں گے، جی چاہتا ہے کہ اب اعظم گڑھ ہی میں ملاقات ہو، دارالمصنفین سے نانا مرحوم کو بھی دیرینہ علمی تعلق رہا، اس کے کتب خانہ کو بھی خاص طور سے دیکھنا چاہتا ہوں، یہ کب ہوسکے گا، خدا ہی جانتا ہے، مگر میں اس کے لیے برابر دعا کررہا ہوں۔ (فقط علی یاورجنگ)
راج بھون بمبئی، مورخہ ۱۱؍ مئی ۷۶؁ء
مکرمی!
ابھی سوچ میں لگا ہوں کہ کب آپ کی خدمت میں حاضر ہوں اور دارالمصنفین کا کتب خانہ دیکھوں جس میں جی لگا ہوا ہے، اس سلسلہ میں مولانا سید سلیمان ندویؒ کی سوانح عمری کا مطالعہ ختم ہوگیا، کتاب مجھے بے حد پسند آئی اور مولانا بہت یاد آئے، چند روز ہوئے حیدرآباد جانے کا موقع آیا تو اس مکان کو بھی دیکھا جہاں عمادالملک بہادر اپنی عمر کے آخری حصہ میں رہا کرتے تھے، اور جہاں مجھے پہلی بار مولانا سید سلیمان ندوی سے شرف ملاقات حاصل ہوا، اس وقت اس مکان میں آل انڈیا ریڈیو بسا ہوا ہے، ان کا سابقہ مکان بلگرامی ہوز (House) بھی مکرر دیکھا جو انھوں نے میری والدہ کو دے دیا تھا اور جس میں میں پیدا ہوا، میں نے خاص طور سے وہاں اس کمرے کا بھی معائنہ کیا جس میں وہ مولانا شبلی مرحوم سے ملاقات کیا کرتے تھے، اس طرح آپ کی بھیجی ہوئی کتاب کیا پڑھی کہ سارا پچھلا زمانہ یاد آگیا۔
معارف کی اس اشاعت کا شکریہ جس کے شذرات میں سیمینار کا ذکر خیر کیا گیا ہے، جو آپ ہی کے قلم مبارک سے لکھا گیا ہے، اگر اس اشاعت کی تین یا چار کاپیاں اور مجھے مل سکیں تو ضرور بھیج دیجئے میں ممنون ہوں گا، سیمینار میں آپ کی عالمانہ تقریریں مجھے ہمیشہ یاد رہیں گی، جنھوں نے بالخصوص تصوف کے موضوع پر مباحث کو اتنے بلند پایہ رکھا۔
فقط علی یاورجنگ
محبی مولانا عبدالسلام ندوی میری عدم موجودگی میں دارالمصنفین کی ڈاک کے جوابات دیتے رہے تھے، نواب صاحب کے خطوط کے بھی جوابات دیئے، مگر شائد ان کے سامنے پیش نہیں کئے گئے، میں پاکستان سے واپس آیا تو اپنی ڈاک میں یہ دو خطوط بھی پڑھے، ان کا جواب دیا، مگر جواب دینے میں عجلت نہیں کی، خیال ہوا کہ ان کے جوابات تو جاچکے ہیں، میں نے ان کو جو خط لکھا اس میں کوئی جواب طلب بات نہ تھی، اس لیے ان کے جواب کا انتظار نہ تھا، ایک رات یکایک ان کی وفات کی خبر ریڈیو سے ملی، تو بڑا دکھ ہوا، ان کی علالت کی خبر نہ ملی تھی، اس لیے ان کی المناک وفات کی خبر سننے کے لیے تیار نہ تھا، ان کی ملاقاتیں اور ان کی باتیں یاد آتی رہیں، سرکاری حلقوں میں ان کی اہمیت کا اندازہ تو پہلے ہی سے تھا، ان کی موت پر صدر جمہوریہ ہند اور وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کے جو تعزیتی پیغامات شائع ہوئے اس سے ان کی سرکاری حیثیت کی اہمیت کے اندازہ میں اور بھی اضافہ ہوا۔
ان کی وفات کے چار روز کے بعد ان کا یہ مکتوب ملا:
راج بھون بمبئی، مورخہ ۷؍ دسمبر ۱۹۷۶؁ء
مکرمی!
آپ کے خطوط مورخہ ۹؍ نومبر کا شدید انتظار تھا، اور اب معلوم ہوا کہ کیوں میرے دو پچھلے خطوں کے جواب نہیں آئے۔ اس بیچ میں قلب کے عارضہ سے میں بیمار پڑگیا تھا اور آپریشن کروانا پڑا، اب خدا کے فضل سے رفتہ رفتہ روبصحت ہوتا جارہا ہوں، اس وقت دہلی جانے کا ارادہ نہیں ہے، مگر جب بھی ہوا تو وہاں سے اعظم گڑھ ضرور آؤں گا اور آپ سے ملاقات کا شرف حاصل کروں گا، جس کے لیے جی تڑپ رہا ہے، رسالہ معارف کے اس خاص شمارے کی دو تین کاپیاں جن کی مجھے ضرورت تھی اور جن میں شذرات کے تحت سیمینار کے بارے میں بڑا قدردانہ مضمون شائع ہوا تھا، ان کو بھیجنا نہ بھولئے، انتظار رہے گا، کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ وہ سیمینار کے رکارڈ میں رہیں۔ فقط، علی یاورجنگ
اس خط کو پڑھ کر ان کی وفات کی سوگواری میں ایک عجیب کیفیت پیدا ہوئی کہ علامہ شبلی، استاذی المحترم مولانا سید سلیمان ندوی اور دارالمصنفین کا ایک بڑا قدردان جاتا رہا، اس حیثیت سے وہ یاد آتے رہے اور اکثر یاد آتے رہیں گے۔
ان کی زندگی میں ان کے ناقدین بھی رہے، بعض حلقوں میں ان کی مخالفت بھی ہوتی رہی جس کی ناشگوار انتہا مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے کورٹ کے جلسہ میں پہنچ گئی تھی، مگر انھوں نے اپنے لیے جو دنیا بنائی تھی، اس میں وہ کامیاب رہے اور کامیاب اس دنیا سے رخصت ہوئے، ان میں کمزوریاں بھی رہی ہوں گی، مگر ان میں بہت سی خوبیاں بھی تھیں، اﷲ تبارک تعالیٰ ان کی عاقبت کو بھی بخیر کرے، آمین!
(’صباح الدین عبدالرحمن، جنوری ۱۹۷۷ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...