Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > رشید احمد صدیقی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

رشید احمد صدیقی
ARI Id

1676046599977_54338185

Access

Open/Free Access

Pages

355

آہ! رشید احمدصدیقی
ابھی مولانا عبدالماجد دریابادی کی وفات کا غم تازہ ہی تھا کہ اردو زبان کے ایک اور صاحب کمال صاحب طرز اور صاحب فن ادیب اور انشاء پرداز یعنی یگانۂ روزگار، فخر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ درمایۂ ناز فرزند شیراز ہند جناب رشید احمد صدیقی کی رحلت کی خبر ملی۔
دل سے لپٹ لپٹ کر غم بار بار رویا
وہ مڑیاہو ضلع جونپور کے رہنے والے تھے، علی گڑھ میں چھ سال تعلیم پائی، یہاں کے شعبۂ اردو کے صدر کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے تو یہیں کے ہوکر رہ گئے، اس کی روایات کے رازداں، اس کی حمیت کے دیدباں، اس کی عزت کے نگہبان اور اس کی آبرو کے پاسبان بن کر ساری زندگی گزاری، وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو ایک اہل دل مسلمان نقاش اور مصور کا شاہکار سمجھتے رہے، سیاحوں کو جو دل آویزی اور رعنائی اجنٹا اور ایلورا میں نظر آتی ہے، وہی ان کو گھر بیٹھے مسلم یونیورسٹی میں نظر آتی رہی، شاہجہاں مثمن برج میں بیٹھ کر تاج محل دیکھا کرتا، پھر اسی برج میں اس نے ایک چھوٹا سا شیشہ نصب کرا رکھا تھا، جس میں تاج محل کا پورا عکس پڑتا رہتا، رشید صاحب کے لئے علی گڑھ میں ان کا مکان ان کا مثمن برج تھا، جس کے اندورونی حصہ میں ایک خوبصورت لہلہاتا سبزہ زار تھا، اس کے بیرونی حصہ میں طرح طرح کے گلاب کے پودے لگے رہتے تھے، یہیں سے اپنے شیشہ دل میں اپنے ذہن کے تاج محل یعنی مسلم یونیورسٹی کو دیکھ کر خوش ہوتے رہتے، اب اسی تاج محل کے اندر مدفون ہیں، جس کی سرزمین نے ان کے جسدخاکی کو نہیں بلکہ مسلم یونیورسٹی کے نشاط روح، سوزسینہ اور دل بے قرار کو بڑے شوق سے اپنی آغوش میں لے لیا ہوگا، وہ جاچکے مگر اپنی کتاب ’’آشفتہ بیانی میری‘‘ میں علی گڑھ کے لئے یہ پیام چھوڑ گئے ہیں کہ زمانہ بدلتا رہتا ہے بدلتے رہنا اس کی تقدیر ہے، علی گڑھ اس تقدیر سے باہر نہیں ہے، اس لئے وہ بنتا بگڑتا رہے گا، لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ ہر تبدیلی کی زیادہ سے زیادہ اچھائیوں اور کم سے کم برائیوں کو قبول کرے گا۔
وہ ادبی دنیا میں ایک مزاح نگار کی حیثیت سے داخل ہوئے ’’طنزیات و مضحکات‘‘ لکھ کر اس فن کو سیکھنے اور سکھانے کی کوشش کی، پھر ’’خنداں‘‘ اور ’’مضامین رشید‘‘ لکھ کر سنجیدہ ظرافت اور ظریفانہ سنجیدگی دونوں کو ایک مستقل آرٹ بنادیا، شیخ نیازی لکھ کر بچوں کو بھی کشت زعفران کے کنارے لاکر کھڑا کردیا، ان کے مضامین ’’دھوبی‘‘ اور ’’حاجی صاحب‘‘ کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے قلم سے آب و گیاہ سے خالی زمین کو لالہ زار اور بے مزہ زندگی کو مزیدار بناسکتے تھے، شروع میں ان کا نام فرحت اﷲ بیگ، شوکت تھانوی اور پطرس بخاری کے ساتھ لیا جاتاتھا، مگر رفتہ رفتہ ان کی صف سے نکل کر اپنے لئے نئی راہ نکالی، وہ قہقہوں کے بجائے صرف موج تبسم کے قائل تھے، وہ صرف گدگدانے، گدگدا کر ہنسنے پر مجبور نہیں کرتے، دکھتی ہوئی رگ کو ضرور پکڑ لیتے، مگر اس کو مسل دینے سے گریز کر جاتے، ان کے یہاں نیش عقرب ہوتا اور نہ نوک سوزن ہوتی، ان کی بذلہ سنجی پر ان کے ذوق کی عفت مآبی چھائی رہتی، جو حجاب شکن اور نہ نقاب پوش ہوتی مگر ہرحال میں محمل نشیں ہوتی، وہ شاعر نہ تھے، مگر اپنی مزاحیہ نثر سے شاعری کا کام لیتے رہتے، آخر میں تو اس میں غالب کی شوخی، داغ کا تیکھاپن، اکبر الہ آبادی کا اخلاقِ درس، جگر کی دردمندی اور فانی کے غم کی معرفت پیدا ہوگئی تھی۔
ان کی علمی و ادبی تحریروں میں بڑی آب و تاب ہوتی، ان کی وجہ سے دہلی اور لکھنؤ اسکول کی طرح اردو زبان کا ایک علی گڑھ اسکول بھی بن گیا ہے، وہ جب کوئی تحریر لکھتے اس میں اردو کے ساتھ علی گڑھ یا علی گڑھ کی کسی شخصیت کا ذکر ضرور لے آتے، ان کو خود اعتراف ہے کہ ان میں انداز گل افشانی گفتار علی گڑھ ہی کے پیمانہ و صہبا سے آیا، ان کی تحریروں میں مشرقیت کے احترام کے ساتھ مغربیت کا پاس خاطر بھی ہوتا، جن میں خوشی طبعی، شایستگی اور خیر اندیشی کے آبدار موتی بھی جھلملاتے رہتے، اپنے محبوب معاصروں اور خصوصاً علی گڑھ کے کسی نامور فرزند کی وفات پر کوئی ماتمی تحریر لکھتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ وہ لکھ نہیں رہے ہیں بلکہ اس کی تربت پر پھولوں کی چادر چڑھا رہے ہیں، مولانا محمد علی پر ان کا نوحہ ان کے قلم اور خود اردو ادب کی انشا پردازی کی بہترین مثال ہے۔ وہ ان کے متعلق لکھتے ہیں کہ بولتے تو معلوم ہوتا کہ بوالہول کی آواز اہرام مصر سے ٹکرا رہی ہے، لکھتے تو معلوم ہوتا کہ کرپ کے کارخانے میں توپیں ڈھلنے والی ہیں، یا پھر شاہ جہاں کے ذہن میں تاج محل کا نقشہ مرتب ہورہا ہے،․․․․․․․ محمد علی کو بدتوفیقوں اور بدمذاقوں سے سابقہ پڑا، ایسے بدتوفیق اور بدمذاق بھوکے تھے، بوالہوس اور کثیر کینہ پرور بھی، محمد علی نے ان سب سے انتقام بھی لیا، لیکن اپنی زندگی میں نہیں بلکہ اپنی موت سے․․․․․․ ’’ایسا حسین کہاں جس کو خود یزید تلاش ہو‘‘ آج کون ہے جو ایسے ڈھلے، ترشے اور کندن کی طرح چمکتے ہوئے جملے لکھ سکتا ہے، ان کی گنج ہائے گرانمایہ اردو ادب کا بیش بہا سرمایہ بنی رہے گی۔
وہ اپنے زندہ معاصروں میں سے کسی پر کچھ لکھتے تو اس میں بھی خاص رنگ و بو پیدا کردیتے، ان کی کتاب ’’ہمارے ذاکر صاحب‘‘، ڈاکٹر ذاکر حسین ہی کی زندگی میں شائع ہوئی، ڈاکٹر صاحب نے راشٹرپتی بن کر جب کبھی اس کو راشٹرپتی بھون میں پڑھا ہوگا تو ان کو یہ فیصلہ کرنا شائد مشکل ہوا ہوگا کہ راشٹرپتی کے مغل گارڈن کے سبزہ زاروں اور پھولوں میں زیادہ لہلہاہٹ اور شادابی ہے یا رشید صاحب کی اس کتاب میں ان کی تحریروں کو پڑھتے وقت کبھی ایسا بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہم گوری چنبیلی کی روش کے بیچ کھڑے ہوکر بکھری ہوئی تجلی اور چھٹکی ہوئی چاندنی سے محظوظ ہورہے ہیں، ان ہی کے انداز میں یہ کہتے میں تامل نہیں کہ وہ اپنی تحریروں کی جنت میں ہمیشہ زندہ و قائم رہیں گے۔
انھوں نے اردو تنقید نگاری کے فن کی بھی امامت کی، جس میں ان کا رنگ بالکل ہی منفردانہ اور غیر مقلدانہ رہا، وہ جب یہ لکھتے ہیں کہ ’’غزل بدنام ہونے کے باوجود اردو شاعری کی آبرو ہے‘‘، ’’غالب نے اردو شاعری کو وزن اور وقعت دینے کے علاوہ ایک نسب اور ایک روایت بھی دی‘‘، بعض احباب کہتے رہتے ہیں کہ ’’غالب ایک زوال آمادہ تمدن، جاگیردارانہ نظام یا روایتی شاعری کے چراغ رہگذار باد تھے، تو یہ الزامات ہیں، اصولی تنقید نہیں، آئین نہیں، آرڈیننس ہے‘‘، ’’جدید اردو میں ان تمام صالح و دلکش اور وقتی عناصر کی جلوہ گری ملتی ہے جن سے خود علی گڑھ عبارت ہے‘‘، ’’اقبال کے کلام کا مطالعہ کیجئے، حاتم طائی کے کوہ ندا کی مانند وہ اپنی پہلی آواز پر آپ کو کشاں کشاں اپنے قدموں میں لا ڈالیں گے‘‘۔ ’’اقبال کبھی حکیم پہلے اور شاعر بعد میں اور کبھی اس کے خلاف لیکن بالآخر دونوں‘‘۔ تو ان جملوں میں نہ صرف نیا پن ہے بلکہ نظر و فکر کی گہرائی بھی ہے، انھوں نے غالب، اقبال، اکبر الہ آبادی، اصغر اور فانی پر جو کچھ لکھ دیا ہے اس میں آئندہ نسلوں کے لئے بھی کہنگی محسوس نہیں ہوگی، اس سے ہر زمانہ میں روشنی ملے گی اور ذہن میں جلا پیدا ہوتی رہے گی، جس سے ان کے ادبی شعور کی پختگی کا اظہار ہوتا رہے گا۔
ان کو دارالمصنفین سے بڑا گہرا لگاؤ تھا، وہ علامہ شبلی کی تحریروں کی رعنائی، برنائی، جمالیات کی زمر شناسی، ان کے تخیل کی رنگینی اور جذبے میں حرارت اور تلملاہٹ کے بے حد قائل تھے، استاذ محترم مولانا سید سلیمان ندویؒ علی گڑھ تشریف لے جاتے تو وہ ان کی میزبانی بڑی محبت اور احترام سے کرتے، ان کی وفات پر معارف کے سلمان نمبر کے لئے گنج گرانمایہ کے عنوان سے جو مضمون لکھا وہ ان کے بہترین مضامین میں شمار ہوتا رہے گا، اس میں ان کے علمی تبحر، تحقیقی ذہانت، ذہنی تنقیحات، ادبی بصیرت، مورخانہ ژرف نگاہی، طالب علمانہ شغف، علوم پر محرمانہ نظر، مذہب کے معاملات میں شریفانہ، دانشمدانہ اور عالمانہ رویہ، تقریر کی اثر آفرینی اور صلح جوئی کے ساتھ ساتھ ان کی وضع قطع میں نفاست پسندی اور رکھ رکھاؤ کی مدح بڑی فراخدلی سے کی ہے، ان کی اس رائے پر کہ وہ بحیثیت طالب علم علامہ شبلی سے متاثر ہوئے اور بحیثیت معلم سید صاحب سے، ان کے مرتبہ شناسی میں مدد ملے گی، اور یہ غور و فکر کی بھی دعوت دیتی ہے، وہ مولانا عبدالسلام ندوی کی تصانیف کی منطقیانہ ترتیب کے معترف تھے، کہتے کہ پیچیدہ مسائل کو سلجھاکر لکھنے میں ان کی ہمسری کوئی نہیں کرسکتا ہے، ان کی اقبال کامل کے متعلق باربار کہا کہ یونیورسٹیوں میں اقبال اسی کتاب کے ذریعہ سے سمجھے گئے، وہ جناب شاہ معین الدین ندوی مرحوم کے ادبی ذوق کے بھی مداح تھے، معارف کے سلیمان نمبر کے لئے انھوں نے اپنا مضمون ان کے پاس یہ لکھ کر بھیجا کہ وہ جس طرح چاہیں اس میں کتربیونت کرسکتے ہیں، ان کی ترمیم و اصلاح سے ان کو پورا اتفاق ہوگا، یہ ان کی کسرنفسی کا بھی ثبوت تھا، یہ راقم علی گڑھ جب بھی گیا ان کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے کچھ نہ کچھ سیکھ کر اٹھا، جب اپنی کتاب ’’غالب مدح و قدح کی روشنی میں‘‘ لکھ رہا تھا تو ان کو یہ کچھ ایسی پسند آگئی کہ اس کو جلد از جلد طبع اور شائع کرنے کی فرمائش کرتے رہے، اس کا اعتراف ہے کہ ان ہی کی حوصلہ افزائی سے یہ دو جلدوں میں پایۂ تکمیل کو پہنچی۔
ان کے فرشتہ صفت چھوٹے بھائی جناب نیاز احمد صدیقی شبلی کالج میں انگریزی کے لکچرر تھے، جن کا قیام عرصۂ دراز تک شبلی منزل کے احاطہ ہی میں رہا، اس لئے وہ جب کبھی اعظم گڑھ آئے تو یہیں قیام کرتے، وہ مولانا مسعود علی ندوی کی خوش سلیقگی اور خوش انتظامی، یہاں کی خاطر مدارات، مہمان نوازی، رفقاء کے میل محبت اور کام کرنے کے شغف سے متاثر ہوتے، انھوں نے اپنے ایک مضمون میں جہاں یہ تحریر فرمایا کہ بہت سے دانایان سیاست، اربابِ فضیلت اور شیدائیان شعروادب اس سے نسبت رکھنا اپنے لیے ایک امتیاز سمجھتے تھے، وہاں یہ بھی لکھا کہ اعظم گڑھ کا یہ مختصر سا خطہ جو کسی طرح ایک اوسط درجہ کے باغ کے رقبہ سے زیادہ نہیں ہے، شمالی ہند کی روایتی تہذیب و دانش و بینش کی نہ صرف نمایندگی کرتا رہا بلکہ اس میں خاطر خواہ اضافہ بھی کرتا رہا ’’․․․․․․یہ خاکسار جب جب ملا شبلی منزل کی اس روایتی تہذیب کو برقرار رکھنے کی بھی ضرور نصیحت کی، وہ معارف کے شذرات کو بہت شوق اور پابندی سے پڑھا کرتے تھے، حضرت سید صاحبؒ نے اس کے لکھنے میں جو معیار قائم کیا تھا اس کو قائم رکھنے کی تلقین اپنی ملاقاتوں میں برابر کرتے رہتے، ان سطروں کے لکھتے وقت ایسا معلوم ہورہا ہے کہ ان کی وفات سے دارالمصنفین اپنے ایک بہت ہی دلنواز اور شفیق بزرگ اور قدرداں سے محروم ہوگیا‘‘۔
ان کی رحلت کے بعد علی گڑھ کے چمن کی نرگس خدا جانے اپنی بے نوری پر کتنے دنوں تک روتی رہے گی، علی گڑھ والے جب ان کو یاد کریں گے، ان کے دل سے یہ آواز نکلے گی:
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں
وہ اردو زبان کے حبیب تھے، مگر وہ خود اس کے محبوب بن گئے، وہ اردو ادب کے عاشق زار تھے مگر اردو ادب نے خود ان کو اپنا معشوق بنالیا، انھوں نے اپنے محبوب ذاکر صاحب کے لیے جو کچھ کہا تھا وہی ان کیلئے اردو ادب اپنی زبان حال سے کہتا رہے گا:
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
علی گڑھ کے لئے ان کے سینہ میں ایک سوز سلگتا رہا، یہ سوزسینہ ہندوستان کے مسلمانوں کے افتخار، وقار اور سربلندی کے لئے تھا، یہی ان کا توشۂ آخرت بنے گا جو ممکن ہے کہ جنت کی حوروں کے گیسوؤں کا شمامہ بن جائے۔ آمین، انھوں نے کسی موقع پر لکھا تھا کہ مجھ سے اگر پوچھا جائے کہ ہندوستان کو مغلیہ سلطنت نے کیا دیا تو میں بے تکلف یہ تین نام لوں گا، غالبؔ، اردو اور تاج محل۔ اگر اس راقم سے پوچھا جائے کہ ایم۔ اے۔ او کالج نے ہم کو کیا دیا تو میں یہ کہوں گا، خوبصورت یونی فارم، مسلم یونیورسٹی اور رشید احمد صدیقی۔ (صباح الدین عبدالرحمن، فروری ۱۹۷۷ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...