Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > فخر ا لدین علی احمد

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

فخر ا لدین علی احمد
ARI Id

1676046599977_54338186

Access

Open/Free Access

Pages

357

آہ! جناب فخرالدین علی احمد صاحب صدر جمہوریہ ہند
معارف کے اس شمارہ کی طباعت ہوچکی تھی کہ یکایک ریڈیو سے صدر جمہوریہ ہند کی المناک رحلت کی خبر ملی، ملک اس قدر جلد ان کی دائمی جدائی کے لیے تیار نہ تھا، فلک کا کیا بگڑتا جو نہ وہ مرتے کوئی دن اور، پہلے ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم اور اب جناب فخرالدین علی احمد کی وفات راشٹرپتی بھون ہی میں ہوئی، دونوں کی صدارت کے ساتھ،
پیچھے پیچھے وہ دبے پاؤں قضا بھی آئی
وہ جاچکے، جب ان کی سوانح عمری لکھی جائے گی تو وہ ایک پرجوش مجاہد آزادی، قابل فخر محب وطن، کامیاب بیرسٹر، آسام کے معزز ایڈوکیٹ جنرل، اسی ریاست کی حکومت کے قابل اعتماد وزیر خزانہ، پھر ملک کی لوک سبھا کے ہر دلعزیز ممبر، اقوام متحدہ کے ہندوستانی وفد کے بڑے لائق رکن، مرکزی حکومت کے مختلف محکموں کے بہت ہی کارگزار وزیر سیکولرزم کے بہترین نمائندہ، قومی یکجہتی کے زریں نشان اور آخر میں جمہوریہ ہند کے محبوب صدر کی حیثیت سے برابر یاد کئے جائیں گے، ہندوستان کی خارزار سیاست میں داخل ہوکر کسی مسلمان رہنما کا کامیاب ہونا آسان نہیں، کچھ مسلمان قائد ایسے ہوئے جو مسلمانوں میں تو مقبول تھے لیکن ہندوؤں میں اچھی نظروں سے نہیں دیکھے گئے اور کچھ مسلمان لیڈر ایسے بھی گذرے جو ہندوؤں میں تو محبوب لیکن مسلمانوں میں غیر محبوب رہے، جناب فخرالدین علی احمد صاحب کا نمایاں وصف یہ تھا کہ وہ دونوں حلقوں میں عزت کی نگاہوں سے دیکھے گئے، ان کے کسی اخباری بیان کسی عمل کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی ہے، جس سے ہندو خوش اور مسلمان ناخوش یا مسلمان خوش اور ہندو ناخوش ہوئے۔
ان کی علم نوازی کی یادوں کی بھی مشعل روشن رہے گی، ۱۹۶۹؁ء میں غالب کی صدسالہ برسی پورے ملک میں ان ہی کی خواہش پر بڑے اہتمام سے منائی گئی، ایوان غالب اور غالب انسٹی ٹیوٹ ان کی یاد کو ہمیشہ تازہ رکھیں گے، ۱۹۷۵؁ء میں امیر خسرو کا سات سوسالہ بین الاقوامی جشن ان ہی کی سرپرستی میں بڑی کامیابی سے منایا گیا، ملک کے بعض حلقوں میں اردو زبان سے جو بیزاری تھی ان کو رفع کرنے میں ان کی مؤثر شخصیت بہت کارآمد ثابت ہوئی، مختلف ریاستوں میں جو علیحدہ اکیڈمی قائم ہوئی ہیں اس میں ان کی ہدایت کو بڑا دخل رہا، انھوں نے اردو کی حمایت میں بھی ایسی مؤثر تقریر کی جس سے ایک ریاست کا غفلت شعار ضمیر بیدار ہوا، اردو کو ملک کے تہذیبی ورثہ میں واپس لانے میں ان کی کوشش برابر جاری رہی۔
وہ دارالمصنفین کے بھی بڑے مربی رہے، ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم ہماری مجلس انتظامیہ کے بڑے قدیمی رکن تھے، ان کی وفات کے بعد جب جناب فخرالدین علی احمد صاحب سے ان کی جگہ پر یہاں کی رکنیت قبول کرنے کی درخواست کی گئی تو انھوں نے اپنے حسب ذیل گرامی نامہ میں یہ تحریر فرمایا، اس وقت وہ محکمۂ زراعت اور غذا کے وزیر تھے۔
نئی دہلی، ۲۲؍ ستمبر ۱۹۶۹؁ء
مکرمی: تسلیم۔ آپ کا گرامی نامہ ملا، آپ نے شبلی اکیڈمی کی مجلس انتظامیہ کا رکن بننے کی جو پیشکش کی ہے، وہ بڑی عزت افزا ہے، دارالمصنفین کی خدمات کے ملک اور ملت لئے بہت مفید رہی ہیں، میں اسے فخر کی بات سمجھوں گا کہ اس سے میرا رشتہ اور قریب تر ہوجائے، امید کہ مزاج گرامی مع الخیر ہوگا۔ نیازمند: فخرالدین علی احمد
دارالمصنفین جب مالی پریشانیوں سے گذر رہا تھا تو انھوں نے اچ۔ای۔اچ نظام چیری ٹیبل ٹرسٹ حیدرآباد کے صدر شہزادہ مفخم جاہ کو حسب ذیل مکتوب انگریزی میں تحریر فرمایا:
نئی دہلی، ۲۹؍ مارچ ۱۹۷۱؁ء
مائی ڈیر پرنس مفخم جاہ! آپ کو معلوم ہے کہ دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ یو۔پی اپنی علمی اور تحقیقی سرگرمیوں میں تقریباً پچپن سال سے مشغول ہے، اس نے ایسی شہرت حاصل کرلی ہے کہ دوسرا کوئی بھی علمی ادارہ اس سے رشک کرسکتا ہے، اس کو ہندوستان کے ایک نامور فرزند مولانا شبلی نے قائم کیا جن سے اردو میں تاریخی تحریروں کی تحقیقات کی بنا پڑی اور اردو کے تنقیدی سرمایہ میں بڑا گرانقدر اضافہ ہوا، ان کی سیرۃ النبیؐ علم و فضل کا شاہکار ہے۔
اس اکیڈمی کو ہزہائینس نظام حیدرآباد کی طرف سے ہندوستان کی آزادی سے پہلے امداد ملتی رہی، بدقسمتی سے گزشتہ چند برسوں کے اندر اکیڈمی بعض مختلف اسباب کی بناء پر مالی پریشانیوں میں مبتلا ہے، یہ بڑی المناکی ہوگی اگر یہ ادارہ بند ہوجائے یا اس کو اپنی علمی سرگرمیوں کو بڑی حد تک کم کرنا پڑے، اس کو ہزاگزالٹڈ ہائینس نظام ٹرسٹ کی طرف سے پانچ سو روپے ماہوار کی امداد ملی ہے، اس سے جو اہم علمی کارنامے انجام پائے ہیں اور اس کے مالی ذرائع کی جو کمی ہے اس لحاظ سے یہ امداد بہت زیادہ نہیں، گو جو کچھ ملا ہے اس کا خیرمقدم کرنا بھی مناسب ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اس ادارہ کے لوگ بہت شکر گزار ہوں گے اگر ان کے لیے کوئی مستقل آمدنی کی صورت نکل آئے ہیں، آپ کا ذاتی طور سے شکر گزار ہوں گا اگر ان کو آپ یکمشت ایسی رقم دے دیں جس سے اس کو پندرہ سو روپے ماہانہ کی آمدنی مستقل طور پر ہوجائے۔ بہترین خواہشوں کے ساتھ۔ آپ کا مخلص فخرالدین علی احمد
ان کے اس مکتوب کے بعد بعد دارالمصنفین کو یکمشت بڑی رقم تو نہیں ملی لیکن ایک ہزار ماہانہ کی امداد گذشتہ سال تک ملتی رہی جس کے لیے دارالمصنفین ان کا بے حد ممنون ہوا۔
یہ راقم ان کی خدمت میں بارہا حاضر ہوا، ہر حاضری میں ان کی شرافت و اخلاق سے متاثر ہوکر اٹھا، جب ہندوستان و پاکستان کی آمدورفت کا سلسلہ بند تھا تو میں اپنی لڑکی کی شادی کے لئے کراچی جانا چاہتا تھا، تاخیر سے میری پریشانی بڑھ رہی تھی، میں نے جناب فخرالدین علی احمد صاحب کو ایک خط میں اپنی پریشانی کا اظہار کیا، انھوں نے ازراہ نوازش اپنے جواب میں یہ تحریر فرمایا کہ میں باضابطہ حکومت کو درخواست دوں، اگر اجازت ملنے میں کوئی دشواری ہوتو میں ان کو مطلع کروں، اس خط کے لکھنے کے بعد ہی وہ صدر جمہوریۂ ہند ہوگئے، یہ خط میں نے ضلع کے سرکاری حکام اور اترپردیش کے اس وقت کے وزیراعلیٰ شری ہیمہ وتی نندن یہوگنا کو دکھایا تو پھر ضروری کاروائیوں میں بڑی آسانی پیدا ہوگئی، پھر بھی اس میں کافی تاخیر ہوگئی، میں نے ایک دوسرے خط میں اپنی پریشانی کا اظہار جناب فخرالدین علی احمد سے کیا، میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب یہ معلوم ہوا کہ انھوں نے وزارت خارجہ کو ٹیلیفون کرایا کہ لکھنؤ کے علاقائی پاسپورٹ آفس کو ہدایت دی جائے کہ میرے لیے جلد پاسپورٹ بنادیا جائے، وزارت خارجہ سے لکھنؤ ٹرنک کال آیا، جس کے بعد پاسپورٹ لے کر میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ پاکستان وانہ ہوگیا، ان کا یہ احسان میرے اور میرے خاندان کے دل و دماغ پر برابر منقوش رہے گا۔
عابدہ احمد بیگم صاحب اب تک مسز اندرا گاندھی کے بعد ہندوستان کی معزز ترین خاتون سمجھتی جاتی تھیں، وہ اپنے بلند اقبال شوہر کے مہر و محبت کے عطر میں بسی ہوئی زندگی بسر کررہی تھیں اور اپنے کو ہندوستان کی بہت ہی خوش قسمت خاتون سمجھتی ہوں گی، جب یہ سطریں لکھی جارہی ہیں تو ان کے شوہر کی میت گلاب کے پھولوں کے انبار کے نیچے لوگوں کے آخری دیدار کے لیے رکھی ہوئی ہے۔ دہلی کے عقیدت مند شہری اس کو دیکھ کر ان کی زندگی کی کامیابی، ان کے مرتبے کی بلندی، ان کی بھلمنساہت کی خوبی اور ان کی مرنجان مرنج سیاسی حکمت عملی کو یاد کرکے ان کو آخری خراج تحسین پیش کررہے ہوں گے، اس کے بعد جنازہ پورے شاہانہ انداز میں اٹھے گا، ماتمی بگل کے بعد توپوں کی سلامی دی جائے گی، میت کی فوجی گاڑی پھولوں سے لدی ہوئی ہوگی، اس کے آگے خوش لباس سواروں کا دستہ ہوگا، اس کے پیچھے مغموم وزیراعظم مسزاندرا گاندھی، قائم مقام صدر، وزراء، سفرا، بیرونی ممالک کے ممتاز نمائندوں کی سواریاں ہوں گی، بحری، بری اور ہوئی فوج کے ہزاروں لشکریوں کا جلو ہوگا، یہ ماتمی جلوس شان و شوکت کے ساتھ نئی دہلی کی سڑکوں سے گزرے گا، بیشمار شہری اپنے مرحوم صدر کو الوداعی سلام کہہ رہے ہوں گے، ان کے لیے دعائے مغفرت بھی کرتے جاتے ہوں گے، مگر ان کی سوگوار اور غمزدہ بیوہ اس شاندار جنازہ کو دیکھ کر اپنی زبان حال سے کہہ رہی ہوں گی،
مفہوم کائنات تمھارے سوا نہیں
تم چھپ گئے نظر سے تو سارا جہاں نہ تھا
مسز اندرا گاندھی ان کے غم میں برابر شریک ہوں گی، کیونکہ ان کو اپنی سیاسی زندگی میں کوئی اور راشٹرپتی ایسا معتمدعلیہ شاید ہی ملے، دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ دونوں کو صبر جمیل اور مرحوم صدر جمہوریہ کو ان کی نیکیوں اور خوبیوں کی بدولت کروٹ کروٹ جنت نعیم عطا فرمائیں۔ آمین
رفتید ولے نہ از دلِ ما
(صباح الدین عبدالرحمن، فروری ۱۹۷۷ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...