Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > شاہ عزالدین پھلواروی ندوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

شاہ عزالدین پھلواروی ندوی
ARI Id

1676046599977_54338187

Access

Open/Free Access

Pages

359

شاہ عزالدین پھلواروی ندوی
شاہ عزالدین پھلواروی علمی اور دینی حلقوں کے لئے محتاج تعارف نہیں، اپنے مواعظ اور تصانیف کی وجہ سے خاصے معروف ہیں، ابھی چند ہی مہینہ کی تو بات ہے جب انھیں عربی زبان اور اسلامی علوم میں مہارت کی بناء پر حکومت ہند نے اعزاز عطا کیا تھا، اور معارف نے اس سلسلہ میں انھیں مبارکباد دی تھی، کسے معلوم تھا کہ وہ اتنی جلد اس دنیا سے رخصت ہوجائیں گے۔
ادھر کچھ عرصہ سے ان کی صحت مضمحل رہنے لگی تھی، اس لئے انھوں نے سفر ترک کردیئے تھے، لیکن پورنیہ کے کچھ لوگ ان کے بے حد معتقد تھے، ان کی آرزو تھی کہ وہ اپنی تشریف آوری سے انھیں عزت بخشیں اور انھیں اپنے مواعظ سے مستفید فرمائیں، شاہ صاحب نے ناسازی مزاج کا عذر کیا، مگر جب معتقدین کا اصرار جاری رہا تو آمادہ ہوگئے تاکہ ان کے دلوں کو ٹھیس نہ پہنچے، مومن کے دل کو خوش کرنا بڑے ثواب کا باعث ہے، انھیں اس سلسلہ میں آقائے دو جہاںﷺ کی ہدایات یاد تھیں، اس لئے اپنی تکلیف کو نظرانداز کرکے آمادہ سفر ہوگئے، راستہ بخیر گزرا، پورنیہ پہونچ کر بھی ایک آدھ دن طبیعت ٹھیک رہی لیکن پھر ضعف کے ساتھ درد سینہ کی شکایت محسوس ہوتی، جو برابر بڑھتی رہی، جب مقامی دوا دارو سے طبیعت قابو میں نہ آئی، تو لوگ کسی بڑے ڈاکٹر کو بلانے کے لئے شہر گئے، مگر ساری تگ و دو بے کار ثابت ہوئی اور بالآخر وطن سے دور عزیزوں سے مہجوری کے عالم میں جان جان آفریں کے سپرد کردی، نعش پھلواری لائی گئی اور خاندانی قبرستان میں سپردخاک کئے گئے، وہ مجھ سے عمر میں چند سال بڑے تھے، تعلیم میں بھی دو تین درجے آگے تھے، لیکن طلبائے ندوہ کی انجمن الاصلاح میں میرا ان کا عرصہ تک ساتھ رہا اور ایک سال ان کے دور نظامت میں ان کی نیابت کا موقع بھی ملا، اس طرح عمر اور درجہ کے فرق کے باوجود اکثر نشست و برخاست اور تبادلۂ خیالات میں ساتھ رہتا، وہ مزاج کے نرم تھے، اور انھیں دوستوں کے ساتھ نباہ کرنے کا اچھا سلیقہ تھا، زودحس بہت تھے، اس لئے بعض اوقات معمولی بات بھی گرانی طبع کا باعث ہوجاتی، مگر حتی الامکان ظاہری برتاؤ میں فرق نہ آنے دیتے، مزاج میں رواداری اور دوست نوازی بہت تھی، طالب علمی کے بعد جب انھیں تعلیم و تدریس کی خدمت سپرد ہوئی تو اس زمانہ میں کئی برس میرا ان کا ساتھ رہا، مجھے یاد نہیں آتا کہ کبھی شکر رنجی کی نوبت آئی ہو، میرے ان کے خیالات میں خاصہ فرق تھا، بسا اوقات اختلافی مسائل زیر بحث بھی آجاتے، لیکن یاد نہیں پڑتا کہ کبھی تکدریا ملال خاطر کی نوبت آئی ہو۔
وہ پھلواری کے اس مشہور دینی خانوادہ سے تعلق رکھتے تھے جس کا سلسلہ مخدوم شاہ مجیب اﷲ سے ملتا ہے، آخری زمانہ میں اس سلسلہ کے دو نامور بزرگ حضرت شاہ بدرالدین اور مولانا شاہ سلیمان بہت مشہور ہوئے ہیں، شاہ بدرالدین بہار کے پہلے امیر شریعت تھے، جن کے اثر سے امارت شرعیہ کو استحکام حاصل ہوا، شاہ سلیمان اپنی جادو بیانی کے لئے سارے ملک میں مشہور تھے، ان کے مواعظ عوام و خواص دونوں میں مقبول تھے، شاہ عزالدین ان دونوں سلسلوں سے تعلق رکھتے تھے، وہ شاہ سلیمان کے نواسے اور شاہ بدرالدین کے صاحبزادے شاہ محی الدین امیر شریعت مرحوم کے داماد تھے، ان دونوں بزرگوں سے انھوں نے اکتساب فیض کیا، اور دونوں سے اجازت حاصل کی، سلسلہ کے اذکار و اشغال سے عملی واقفیت کے علاوہ تصوف میں ان کی علمی نظر بھی بہت گہری تھی، وہ اس کی تاریخ، اکابر صوفیہ کے حالات، اصحاب سلاسل کے واقعات اور ان کے معمولات و مختارات سے بخوبی آگاہ تھے، ان مسائل پر جب ان سے گفتگو ہوئی تو انھیں بہت باخبر پایا۔
یوں تو سب ہی سلسلوں سے ان کا تعلق تھا، مگر نسبت قادریہ کا غلبہ تھا، خاندانی اعراس و مراسم میں شریک ہوتے تھے، اس بارے میں ان کا ایک خاص ذوق تھا، لیکن سکر پر ہمیشہ غالب رہا، محفل سماع میں شرکت اور وجدوحال کی کیفیت کے باوجود صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔
میں کبھی کبھی ان کے اس وجدو حال پر کچھ کہتا تو مسکرا کر کہتے:
؂ ’’ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں‘‘۔
انھیں طالب علمی ہی کے زمانہ سے عربی ادب کا خاص ذوق تھا، اور بے تکلفی سے عربی بولتے اور لکھتے تھے، ان کے عربی مضامین شائع بھی ہوتے تھے، یاد آتا ہے کہ ۲۵؁ء یا ۲۶؁ء میں ان کا ایک تحقیقی مضمون مصر کے مشہور رسالہ ’’الزھراء‘‘ میں شائع ہوا تھا، ندوہ میں عربی ادب کی اہم کتابیں پڑھاتے تھے، لیکن اس کے ساتھ دینی علوم سے بھی تعلق تھا، اور حدیث و تفسیر کے کچھ اسباق بھی پڑھاتے تھے، اسی ذوق نے ان سے حدیث کی تاریخ اور حیات امام احمد بن حنبلؒ لکھوائی، کچھ اور کتابیں بھی انھوں نے لکھیں، جن میں سے بعض چھپ گئی ہیں، اور بعض کے مسودے ان کے ہاں موجود ہوں گے، ندوہ میں کئی برس تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد پھر وہ مدرسہ شمس الہدی پٹنہ کے استاد مقرر ہوئے، اس کے علاوہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں تحقیقی کام بھی کیا، ندوہ سے جانے کے بعد کئی بار لکھنو، دہلی اور اعظم گڑھ میں ان سے ملاقات ہوئی، جب ملتے تو طالب علمی اور ندوہ کی مدرسی کے زمانہ کی بے تکلف صحبتیں یاد آجاتیں، کبھی کبھار پر خلوص خط بھی لکھتے، گزشتہ سال جب حکومت ہند کے ایوارڈ پر میں نے انھیں مبارکباد کا خط بھیجا اور پھر معارف میں ایک نوٹ لکھا تو خوش ہوئے، لکھا تھا کہ اعظم گڑھ آنے کا ارادہ ہے لیکن اجل نے اس کا موقع نہ دیا، اﷲ سے دعا ہے کہ وہ ان کے اعمال صالحہ کو قبول فرمائے اور اپنی رحمت سے انھیں شاد فرمائے، خدا ان کی اہلیہ، صاحبزادیوں اور اعزہ و احباب کو صبر عطا فرمائے اور توفیق دے کہ وہ ان کے نیک کام کو نہ صرف باقی رکھیں بلکہ انھیں اور چار چاند لگائیں۔ (عبد السلام قدوائی ندوی، جون ۱۹۷۷ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...