Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا مفتی محمد عتیق فرنگی محلی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا مفتی محمد عتیق فرنگی محلی
ARI Id

1676046599977_54338188

Access

Open/Free Access

Pages

360

مولانا مفتی محمد عتیق فرنگی محلی
مولانا مفتی محمد عتیق کا سانحہ وفات بھی مذہبی اور علمی حلقوں کے لئے باعث رنج و افسوس ہے، ہر چند کہ وہ عمر طبعی کو پہنچ چکے تھے، اور عرصہ سے بیمار رہتے تھے لیکن اس قحط الرجال کے زمانہ میں ان کا دم بساغنیمت تھا، وہ فرنگی محل کے اس خانوادہ سے تعلق رکھتے تھے، جس نے کئی سو برس سے تعلیم و تدریس، تصنیف و تالیف اور ارشاد و ہدایت کی شمع روشن رکھی ہے، اس خاندان کے فیوض و برکات سے ہندوستان ہی نہیں بلکہ دوسرے ممالک بھی مستفید ہوتے رہے ہیں۔
ملا نظام الدین کا مجوزہ نصاب تعلیم ایسا مقبول ہوا کہ سینکڑوں برس سے عربی مدارس میں رائج ہے، اور درس نظامی کی تکمیل دستار فضیلت کے حصول کے لئے ضروری سمجھی جاتی ہے، اس دو ڈھائی سو برس میں ساری دنیا میں انقلاب برپا ہوگیا، اور تعلیمی نصاب میں غیرمعمولی ردوبدل ہوا، لیکن ہندوستان میں عربی مدارس کی بڑی تعداد اب بھی درس نظامی پر جمی ہوئی ہے، یہ ملا نظام الدین اور ان کے جانشینوں کے خلوص اور کمال علم و عمل کا اثر ہے کہ عوام و خواص سب اس خاندان کی حلقہ بگوشی کو باعث فخر سمجھتے رہے، مل بحرالعلوم نے جب جنوبی ہند کا رخ کیا تو نواب ارکاٹ استقبال کے لئے آگے بڑھے اور ان کی پالکی کو کاندھا دیا۔
مولانا محمد عتیق صاحب اسی خاندان عالی کے ایک ممتاز فرد تھے، اس خاندان میں علم و عمل کا ایسا اجتماع رہا کہ فرنگی محل دارالعلوم کہلایا، ملا نظام الدین علمی کمال کے ساتھ شاہ عبدالرزاق ہانسوی سے ارادت رکھتے تھے، اس طرح اس خاندان میں علم و معرفت، معقول و منقول اور فقرو درویشی کا ہمیشہ اجتماع رہا۔ مغربی علوم و فنون کی چمک دمک سے سبھی متاثر ہوئے، زمانہ کے حالات اور معاشی ضروریات نے بہتوں کو جدید یونیورسٹیوں میں پہنچا دیا، فرنگی محل بھی اس سے محفوظ نہیں رہا، اور یہاں کے بھی بہت سے افراد کالجوں اور یونیورسٹیوں کی زینت بن گئے، لیکن اب بھی پرانے بزرگوں کے کچھ نام لیوا موجود ہیں، ان ثابت قدم اصحاب میں مولانا محمد عتیق صاحب خاص طور سے قابل ذکر ہیں، انھوں نے بزرگوں کے نام کو حرزجاں بنائے رکھا، ان کے نقش قدم کو دلیل راہ سمجھتے رہے اور باد مخالف کے تیز جھونکوں میں تعلیم و ارشاد کی شمع کو روشن رکھنے کی کوشش کی جو بزرگوں نے جلائی تھی، اور اﷲ کا نام لے کر ساری زندگی اسی راہ میں بسر کردی، وہ پرانے بزرگوں کی آخری نشانی تھے، ان کو دیکھ کر اور ان سے مل کر فرنگی محل کی پرانی محفلیں یاد آجاتی تھیں، اگرچہ پیرانی سالی کی بناء پر عرصہ سے گوشہ نشین تھے، مگر پھر بھی ان کے ساتھ لوگوں کی محبت و عقیدت کا یہ عالم تھا کہ شرعی معاملات میں سارے اودھ کو ان کے فتویٰ کا انتظا رہتا تھا، اور جب تک ان کی طرف سے اعلان نہ ہوجاتا لوگوں کو اطمینان نہ ہوتا، اسی اعتماد و اعتقاد کا اثر تھا کہ جب ان کی وفات کا اعلان ہوا تو لکھنؤ میں دوکانیں بند ہوگئیں، اور لوگ اپنا کاروبار چھوڑ کر نماز جنازہ میں شرکت کے لئے دوڑ پڑے، مستند اخبار نویسوں کا اندازہ ہے کہ جنازہ کے ساتھ تقریباً دو لاکھ اشخاص تھے۔
حکومت نے بھی ان کے اسی ہمہ گیر اثر کا اعتراف کیا اور گورنر کی طرف سے تربت پر پھول چڑھائے گئے، لکھنؤ سے باہر کے علمی اور دینی حلقوں نے تعزیتی جلسے کئے اور قرآن خوانی کے ذریعہ ان کی روح کو ثواب پہنچایا، اﷲ تعالیٰ مرحوم کی علمی و دینی خدمات قبول فرمائے، انھیں اپنے سایہ رحمت میں جگہ دے، ان کے مراتب بلند فرمائے، ان کے صاحبزدگان اور متعلقین کو صبر عطا فرمائے اور ان کے اعمال جلیلہ کو نصب العین بنانے کی توفیق نصیب فرمائے۔ (عبد السلام قدوائی، جون ۱۹۷۷ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...