Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > پروفیسر اختر ا ورینوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

پروفیسر اختر ا ورینوی
ARI Id

1676046599977_54338189

Access

Open/Free Access

Pages

361

آہ! پروفیسر اختر اورنیوی
گزشتہ اپریل میں بہار کے پروفیسر ڈاکٹر اختر اورنیوی کی وفات کی خبر بہت دکھ اور غم کے ساتھ سنی ہم دونوں ہم درس اور ہم جماعت تو نہیں رہے، لیکن ہماری طالب علمی کا زمانہ ایک ہی تھا، وہ شروع میں سائنس کے طالب علم تھے، آئی ایس سی کرکے پٹنہ میڈیکل کالج میں داخل ہوئے، مگر وہاں ان کی صحت خراب ہوئی تو اٹکی اور رانچی کے سینی ٹوریم میں رہ کر صحت یاب ہوئے، میڈیکل کالج چھوڑ کر پٹنہ کالج میں آرٹس کی تعلیم حاصل کرنے لگے، ہم دونوں ۳۶؁ء میں ایم۔اے اردو کے امتحان میں ساتھ شریک تھے، اس کے نتیجہ میں ان کا نام سرفہرست تھا، میرا نام ان کے بعد تھا، وہ ایم۔اے کرنے کے بعد پٹنہ کالج میں اردو کے لکچرار ہوئے، اس زمانہ میں ڈاکٹر سید محمود مرحوم بہار کے وزیر تعلیم تھے۔ وہ کالج میں اردو کے ایک لائق استاد کے تقرر کے خواہش مند تھے، اس لئے انھوں نے امیدواروں کا انٹرویو خود لیا، درجہ میں باضابطہ سبق پڑھانے کو بھی کہا اختر اورنیوی صاحب ان کے معیار پر پورے اترے، وہ ایک استاد کی حیثیت سے طلبہ میں بہت مقبول رہے، جو نہ صرف ان کی صلاحیت اور قابلیت بلکہ ان کے ذاتی اوصاف کی بھی قدر کرتے، آخرمیں وہ پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر اور پروفیسر ہوگئے تھے، انھوں نے اردو زبان و ادب کے ارتقاء پر ایک مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی، بہار کے جن شاعروں، مصنفوں اور نقادوں پر اس وقت تک سیر حاصل بحث نہیں ہوئی ہے، اس کی تلافی ان کے مقالہ سے ہوگئی اور وہ بھی ایک اچھے مصنف کی صف میں داخل ہوگئے، اس کے بعد سے جب ان کا کوئی مقالہ کہیں شائع ہوتا، تو اردو کے ادبی حلقہ میں شوق سے پڑھا جاتا، انھوں نے اپنے مقالات کے مجموعے تنقید جدید، قدر و نظر اور تحقیق و تنقید کے نام سے شائع کئے، اس طرح اردو کے اچھے نقاد بھی شمار کئے جانے لگے۔
وہ ایک اچھے افسانہ نگار بھی تھے، ان کی بیوی شکیلہ اختر نے بھی ان کے ساتھ افسانے لکھنے شروع کئے، دونوں نے رومانی دنیاکے دلوں کی دھڑکنوں کی اچھی طرح عکاسی کی، انھوں نے کچھ ڈرامے اور ناولٹ بھی لکھے، وہ ایک اچھے شاعر بھی تھے، ان کی بعض نظمیں مثلاً جگنو، ایک مجاہد فلسطین کے افکار، ارمغان شباب اور نغمے مقبول ہیں۔
بہار میں اس وقت ایک اچھا علمی و ادبی ماحول پیدا ہوگیا ہے، جمیل مظہری صاحب شاعر کی حیثیت سے بہت مشہور ہوئے، جناب قاضی عبدالودود صاحب نے دینی علمی تحقیق و تدقیق سے بڑی ناموری حاصل کی، پروفیسر کلیم الدین احمد نے اپنی تحریروں سے اردو کی ادبی دنیا میں بڑی ہل چل پیدا کردی ہے، پروفیسر حسن عسکری نے تاریخ دانی میں اپنا لوہا منوالیا ہے، پروفیسر سید حسن نے اپنی سنجیدہ مقالہ نگاری سے علمی حلقہ کو اپنی طرف مائل کرلیا ہے، پروفیسر عطا کاکوی اپنے ذوق شعر و ادب کی وجہ سے مقبول ہیں، کلیم عاجز صاحب کی شاعری بھی مقبول ہورہی ہے، اسی بزم کے ایک ممتاز رکن پروفیسر اختر اورنیوی بھی تھے، پٹنہ میں رہ کر ہندوستان کے ممتاز شاعروں اور ادیبوں کو اپنی طرف کھینچتے رہے، جعفر علی خاں، اثر جگر مراد آبادی، فراق گورکھپوری، حفیظ جالندھری اور ڈاکٹر عبادت بریلوی وغیرہ ان کے مہمان رہے، طبیعت میں سادگی تھی، ان کو اپنے مہمانوں کو مٹی کے برتنوں میں زمین پر چٹائی بچھا کر کھانا کھلانے میں کوئی عذر نہ ہوتا، مگر ان کی بیوی مہمانوں کی خاطر تواضع پوری شان سے کرنا پسند کرتیں، اختر صاحب ان سے یہ کہہ کر اختلاف کرتے، ’’میں کوئی نواب کا ناتی تھوڑے ہی ہوں جو اپنی شان دکھاؤں، بس میں جیسا ہوں ویسا ہی رہوں گا‘‘۔
ان کی زندگی کے کچھ واقعات یاد رکھنے کے لائق ہیں، ایک غریب لڑکی کی تجہیز و تکفین کا سامان نہ تھا، تو انھوں نے اپنی بیوی کے سونے کے کڑے بیچ کر یہ سامان کردیا، اسی طرح ان کے ایک عزیز دوست کو اپنے والد کے لئے مقدمے کی فیس جمع کرنے کو کچھ روپے کی ضرورت تھی، اس کا ذکر ان سے اس وقت آیا، جب ان کی جیب خالی تھی، ان کو اپنے امتحانات میں سونے کے جتنے مڈل ملے تھے، ان کو اونے پونے فروخت کرکے روپے اپنے دوست کے حوالے کردیئے۔
وہ وہاں جاچکے جہاں سب کو جانا ہے، مگر بہار کے علمی و ادبی حلقہ میں ایک قابل قدر مصنف، نقاد، شاعر، افسانہ نگار اور ایک اچھے انسان کی حیثیت سے برابر یاد کئے جائیں گے۔
وہ بہار کے ضلع مونگیر کے ایک گاؤں اورین کے رہنے والے تھے، ان کا خوشحال خاندان جاجنیری زیدی سادات سے تھا جو مرزا غلام احمد کا پیرو ہوگیا، اس حیثیت سے وہ احمدی تھے، اپنے مسلک کی تبلیغ بڑی سرگرمی سے کرتے رہتے، پاکستان میں احمدیوں کو غیرمسلم قرار دیا گیا تو ان کے قریبی دوستوں کا بیان ہے کہ ان کو بڑا دکھ ہوا، ان کی افسانہ نگار بیوی نے ان کی زندگی میں لکھا تھا کہ وہ عائلی زندگی سے کوسوں دور رہتے، سمجھ میں نہ آنے اور چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھنے والے شوہر ہیں، مگر اسی کے ساتھ اس کا بھی اعتراف کیا تھا کہ ’’جب ان کے ساتھ گھر کے سارے لوگ ایک ہی ساتھ کھانا کھایا کرتے، تو ایسی مزیدار باتوں کا سلسلہ چلتا کہ گیارہ بارہ بجے تک محفل جمی رہتی، جوٹھے ہاتھ سوکھ کر جھڑ جاتے، پھر بھی کسی کا جی پلنگ پر جانے کو نہیں چاہتا‘‘۔ ان کے احباب بھی ان کی گفتگو کی بذلہ سنجی، زندہ دلی، اور خوش مذاقی کے قائل تھے، ان کی صحت ہمیشہ خراب رہی، آخر میں ان کی قوت گویائی بھی ختم ہوگئی تھی، ان کی بیوی کو ان کی ضد اور چڑچڑاہٹ سے شکایت رہی، مگر انھوں نے ان کے ساتھ جس وفاداری سے زندگی بسر کی، وہ ایک افسانہ کا موضوع بن سکتا ہے، ان کے کوئی اولاد نہ تھی، مگر وہ اپنی سوگوار بیوی کے دل و دماغ پر اپنی یادیں اس طرح چھوڑگئے ہیں کہ:
؂ مخملیں سبزے پہ جیسے برگ گل کی ہو پھوار
(صباح الدین عبدالرحمن، جون ۱۹۷۷ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...