Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > پروفیسر سینتی کمار چٹرجی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

پروفیسر سینتی کمار چٹرجی
ARI Id

1676046599977_54338190

Access

Open/Free Access

Pages

362

پروفیسر سینتی کمار چٹرجی
گزشتہ مئی میں ملک کے مشہور ماہر لسانیات پروفیسر سینتی کمار چٹرجی کی وفات سے ایک عظیم علمی سانحہ ہوا، بنگال میں رابندرناتھ ٹیگور کے بعد ان ہی کی علمی شخصیت اُبھری، انھوں نے رابندرناتھ ٹیگور کے ساتھ رہ کر نہ صرف تربیت پائی، بلکہ ان کی شانتی نکیتن یونیورسٹی کی تاسیس میں ان کا بھی حصہ تھا، بنگال کے اس فلسفی شاعر نے ان کی جوانی ہی میں ان کی قدر کرنی شروع کردی تھی اور اپنی ایک کتاب ان کے نام سے معنون بھی کیا اور ان کو بھاشا اچاریہ کا خطاب دیا، جس کے معنی زبانوں کا پیشوا ہے، اس خطاب کے وہ مستحق تھے، وہ بنگال، سنسکرت، ہندی، پراکرت، فارسی، انگریزی، فرانسیسی، آئرش، گوتھک اور خدا جانے کتنی زبانیں جانتے تھے۔
کلکتہ اور لندن سے ڈگریاں حاصل کرکے یونیورسٹی میں ایک استاد کی حیثیت سے مقرر ہوئے، یہاں رہ کر انھوں نے جو شاندار کارنامے انجام دیئے، ان پر یونیورسٹی ہمیشہ ناز کرتی رہے گی، ہندوستان اور ہندوستان سے باہر کوئی علمی اعزاز ایسا نہ تھا جس سے وہ سرفراز نہیں کئے گئے، رابندر ناتھ ٹیگور کے ساتھ ملایا، سماترا، جاوا، بالی اور تھائی لینڈ گئے، تو وہاں ہندوستانی آرٹ اور کلچر پر ان کے لکچر بہت مقبول ہوئے، جس کے بعد علم و زبان کی تمام بین الاقوامی کانفرنسوں میں مدعو ہونے لگے، اسی سلسلہ میں بلجیم اور کوپن ہیگن کا سفر کیا، یونسکو کے علمی اجتماعات میں شرکت کے لئے کئی بار پیرس بلائے گئے، بیروت میں عربی و فارسی کی علمی و لسانی کانفرنس ہوئی تو وہاں خاص طور پر مدعو ہوئے، کلکتہ یونیورسٹی کی طرف سے اٹلی، برطانیہ، ہالینڈ اور ترکی کے تعلیمی حالات کا مطالعہ کرنے کے لئے بھیجے گئے، پن سلونیا یونیورسٹی کے وزیٹنگ پروفیسر بھی مقرر ہوئے، امریکہ کے قیام میں کولومبیا اورییل کی یونیورسٹیوں کی علمی مجلسوں میں لکچر دیئے، راک فیلر فاونڈیشن کی طرف سے میکسیکو کے مختلف شہروں میں خاص خاص موضوعات پر لکچر دینے کے لئے بھیجے گئے، پیکنگ یونیورسٹی اور چینی حکومت کی دعوت پر چین بھی گئے، روس کی سوویٹ اکیڈمی آف سائنس نے ان کو روس مدعو کیا، جہاں کے مختلف شہروں میں ان کے لکچر ہوئے، یونسکو کی طرف سے می چیگن یونیورسٹی میں بھی لکچر دیئے، پھر منگولیا جاکر وہاں اپنی علمی عظمت کا سکہ جمایا، کینبرا میں دولت مشترکہ کی پارلیمنٹری کانفرنس ہوئی تو اس میں ہندوستان کی نمائندگی کی، جاپان بھی گئے، جہاں ٹوکیو یونیورسٹی میں لکچر دیئے، وہاں سے فلپائن گئے، جہاں منیلا یونیوسٹی کو مخاطب کیا، وہ لیتھونیا اور لیٹ ویا بھی مدعو ہوئے، ہندوستان کی طرف سے افریقہ اور یورپ کی مختلف یونیورسٹیوں میں ہندوستان کی تاریخ اور کلچر پر لکچر دیے کے لئے بھیجے گئے، حکومت ہند کی وزارت تعلیم کے ماتحت محکمہ انڈین کانسل آف کلچرل ریلیشنر کی طرف سے گھانا، نائجیریا اور لائبیریا کی یونیورسٹیوں میں لکچر دینے کے لئے مامور ہوئے، قاہرہ، ادیس بابا، طہران، بخارسٹ اور روم جاکر بھی لکچر دینے، فرانس کی دو یونیورسٹیوں کی صد سالہ سالگرہ منائی گئی تو وہاں بھی بلائے گئے، آرمینیا اور ہندوستان کے ثقافتی تعلقات پر مواد جمع کرنے کے لئے آرمینیا بھی بھیجے گئے، زیکوسلویکیا کی ایک یونیورسٹی کے چھ سالہ سالگرہ کے جشن کے موقع پر مدعو ہوئے تو وہاں ان کی قابلیت کا اعتراف ایک طلائی تمغہ دے کر کیا گیا، روم کی یونیورسٹی نے ان کو ڈی لٹ کی ڈگری بھی دی، دنیا میں لسانیات کی جو بھی کانفرنس یا مجلس کہیں ہوئی، چاہے یہ پولینڈ یا ہوائی یا نیویارک یا پیرس یا ناروے یا سری لنکا میں ہوئی اس میں وہ ضرور بلائے جاتے، وہاں وہ پہنچ کر بڑا اچھا اثر پیدا کرتے، جس سے ہندوستان کے علمی وقار میں اضافہ ہوتا رہتا۔
اس بین الاقوامی علمی سفیر و ضمیر کی قدر ملک کے اندر بھی ان کے رتبہ کے مطابق ہوتی رہی، برما بنگالی لڑیری کانفرنس وغیرہ کے اجلاسوں کی صدارت کی، ڈاکٹر ذاکر حسین صدر جمہوریہ ہند کے بعد دہلی کی ساہتیہ اکیڈمی کے صدر ہوئے، انڈین کانسل آف کلچرل ریلیشنز نئی دہلی کے بہت ہی اہم اور ممتاز رکن رہے، کلکتہ یونیورسٹی کی طرف سے ان کو ہر قسم کا اعزاز ملا، کلکتہ کی ایران سوسائٹی کے مستقل اعزازی رکن تھے اور اس کی ساری علمی سرگرمیوں سے برابر دلچسپی لیتے رہتے، بنگال لیجیسلیٹو کانسل کے پہلے رکن اور پھر اس کے صدر بھی ہوئے، ان غیر معمولی ملکی اور غیرملکی علمی سرگرمیوں کے باوجود تصنیف و تالیف کے مشاغل بھی برابر جاری رکھے، بکثرت مضامین لکھنے کے ساتھ، حسب ذیل کتابوں کے مصنف بھی ہوئے، (۱)اوریجن اینڈ ڈیولپمنٹ آف بنگالی لینگویج۔ (۲)انڈیا اینڈ ایتھوپیا۔ (۳)ورلڈ لٹریچر اینڈ ٹیگور۔ (۴)ایرانیسزم۔ (۵)جے دیو۔ (۶)انڈیا اے پولی گلوٹ نیشن۔ (۷)اے شورٹ اینڈاریا ہندو ویڈنگ اینڈ اینی شی ایشن ری چوئلز۔ (۸)بنگلہ بھاشا پرسنگے وغیرہ۔ حکومت ہند نے ان کو پدم بھو اور پدم دی بھوشن کے خطابات دے کر ان کی علمی خدمات کو سراہا۔
ان کی ہر قسم کی قدردانیوں کے باوجود ان کی بعض تحریریں متنازعہ فیہ بن گئی تھیں، ان پر نکتہ چینی ہوئی کہ انھوں نے رامائن کے قصے کو ہومر سے مستعار بتایا ہے، ان کی طرف سے یہ جواب تھا کہ انھوں نے رامائن کو تو نہیں لیکن ان کے نزدیک دس سروں والے راکشس کا وجود یونانی تخییل کی صدائے بازگشت ہے، کیونکہ ہندوؤں کے قدیم ترین خرافاتی ادب میں ایسے راکشس کا ذکر نہیں ملتا، انھوں نے بعض بہت ہی پرانے شواہد سے اس پر بحث کی ہے کہ رام اور سیتا، بھائی بہن تھے، یا ازدواجی رشتے میں منسلک تھے، اس سے بھی ایک علمی سنسنی پھیلی۔
ان سے میری ذاتی ملاقاتیں بھی رہیں، وہ انڈین کانسل آف کلچرل ریلیشنز نئی دہلی کے سالانہ جلسوں میں برابر شریک ہوتے رہے، میں نے بھی اس میں دارالمصنفین شبلی اکیڈمی کی نمائندگی بارہ برس تک کی، اس کے جلسوں میں ان کی اہم تقریریں ہوتیں، جو شوق سے سنی جاتیں، جلسہ ختم ہوتا تو اراکین ان کو گھیرلیتے، میں بھی ان سے ملتا رہتا، وہ دارالمصنفین کی علمی سرگرمیوں سے اچھی طرح واقف تھے، اس لئے مجھ سے بڑی خندہ پیشانی سے ملتے، کلکتہ کی ایران سوسائٹی کی طرف سے البیرونی پر ایک اہم یادگار جلد شائع ہوئی تھی، اس میں ان کا ایک مضمون ’’البیرونی اینڈ سنسکرت‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا، میں نے اس سے اپنی تصانیف اور مضامین میں بڑا استفادہ کیا تھا، ان سے اس مضمون پر دیر تک باتیں ہوئیں، میں نے کانسل کے ایک اجلاس میں اپنی ایک تقریر میں دارالمصنفین کی مطبوعات میں سے ’’ہندوستان عربوں کی نظر میں‘‘ کا ذکر کیا، تو ڈاکٹر سینتی کمار چٹرجی نے اس کتاب سے بڑی دلچسپی لی اور اس کی جلدوں کی وی،پی بھیجنے کو کہا، اعظم گڑھ آکر میں نے اس کی ایک جلد ان کی خدمت میں ہدیتہ بھیج دی، جب یہ ان کے پاس پہنچی تو انھوں نے مجھ کو انگریزی میں یہ خط لکھا جس کا ترجمہ یہ ہے،
جناب سید صباح الدین عبدالرحمن صاحب!
آپ کا خط مورخہ ۲۶؍ نومبر ۱۹۶۰؁ء کو موصول ہوا، اس کے لئے میں آپ کا شکر گزار ہوں، اس خط کے ساتھ میرے لئے ’’ہندوستان عربوں کی نظر میں‘‘ ایک بہت ہی دل پذیر تحفہ ہے۔
آپ لوگوں کا یہ خیال ہی خوب رہا کہ ایک جلد میں اسلام کے ان تیرہ مصنفوں کی تحریروں کے اقتباسات جمع کردیں، جنھوں نے عربی زبان میں ہندوستان سے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے، اس کتاب میں عربی عبارتوں کے ساتھ جو ان کے اردو ترجمے ہوگئے ہیں، اس سے غیر معمولی سہولت پیدا ہوگئی ہے، عرب مورخوں اور جغرافیہ دانوں کی تحریر میں بعض ملکوں کے قدیم عہد اور ازمنہ وسطیٰ کے حالات معلوم کرنے کے لئے بہت ہی قیمتی ماخذ ہیں، یہ ملک خواہ ایشیا یا یورپ یا افریقہ ہی کے کیوں نہ ہوں، مغربی افریقہ کے چار یا پانچ سو بلکہ ایک ہزار برس پہلے کے حالات جاننے کے لئے تو ان عرب مورخوں اور جغرافیہ دانوں کی تحریریں ہی واحد ماخذ بنی ہوئی ہیں، شبلی اکیڈمی نے یہ کتاب (ہندوستان عربوں کی نظر میں) شائع کرکے ہندوستان سے متعلق معلومات فراہم کرنے میں ایک بہت بڑی خدمت انجام دی ہے، یہ کتاب تو ایسی ہے کہ ریسرچ کرنے والوں کو اپنی الماری میں رکھنی چاہئے، جو پڑھا لکھا آدمی ہندوستان کے ازمنہ وسطیٰ کی تاریخ اور کلچر سے دلچسپی رکھتا ہے، اس کے پاس بھی یہ کتاب ہونی چاہئے۔
والسلام
آپ کا مخلص، سینتی کمار چٹرجی
وہ اس دارفانی سے رخصت ہوگئے، ایک دن سب ہی کو یہاں سے کوچ کرنا ہے، وہ مگر ان لوگوں میں ہیں، جو اپنے پیچھے اپنا شاندار نام اور کام چھوڑ جاتے ہیں، ہندوستان کی جب کبھی علمی تاریخ لکھی جائے گی، تو ان کی علمی سرگرمیوں کا ذکر نمایاں طور پر ہوگا، بنگال کی جس پکچر گیلری میں بکتم چندر، جے۔ سی، بوس اور رابندر ناتھ ٹیگور کی تصویریں ہوں گی، وہاں پروفیسر سینتی کمار چٹرجی کا بھی ہونا ضروری ہے۔
(صباح الدین عبدالرحمن، جولائی ۱۹۷۷ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...