Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا محمد سلیم کیرانوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا محمد سلیم کیرانوی
ARI Id

1676046599977_54338191

Access

Open/Free Access

Pages

363

مولانا محمد سلیم کیرانوی مرحوم
مولانا محمد سلیم صاحب سے میری پہلی ملاقات بارشاید قرول باغ دہلی میں ہوئی، اس زمانہ میں انھوں نے وہاں مدرسہ صولتیہ کے تعارف اور اس کی امداد و اعانت کی غرض سے دفتر قائم کیا تھا اور ایک ماہوار رسالہ نکالتے تھے، جامعہ ملیہ بھی اس زمانہ میں قرول باغ ہی میں تھی، اس کی وجہ سے میرا وہاں آنا جانا ہوتا رہتا تھا، خیال آتاہے کہ دو ایک بار لکھنؤ میں بھی ڈاکٹر عبدالعلی صاحب مرحوم ناظم ندوۃ العلماء کے یہاں انھیں دیکھا تھا، یہ ملاقاتیں سرسری تھیں، گفتگو بھی زیادہ تر رسمی ہوئی، مگر مولانا رحمۃ اﷲ کیرانوی سے نسبت اور مدرسہ صولتیہ کے تعلق کی بنا پر دل میں انکی غیر معمولی عزت تھی۔
مولانا رحمۃ اﷲ علیہ الرحمۃ کا مسلمانان ہند پر بڑا احسان ہے، ہندوستان میں انگریزوں کے تسلط کے بعد سارا ملک عیسائیت کے نرغے میں آگیا تھا، مشنری اس زور تور و قوت کے ساتھ میدان میں نکل آئے تھے کہ خیال ہوتا تھا کہ کچھ ہی عرصہ میں پورا ملک عیسائی ہوجائے گا، مسلمان خاص طور سے زد میں تھے، اس زمانہ میں انگریزوں کا جو رعب اور دبدبہ تھا اس کے سامنے بڑے بڑوں کے پتے پانی ہوتے تھے، ایسی دہشت انگیز فضا میں مولانا رحمۃ اﷲ علیہ الرحمۃ نے جان پر کھیل کر مقابلہ کی ہمت کی، اس زمانہ میں پادری فنڈر کا بڑا غلغلہ تھا، وہ بڑا زور آور مناظر سمجھا جاتا تھا، حکومت کی پشت پناہی نے اسے بہت بیباک بنادیا تھا، مولانا رحمۃ اﷲ نے اسے دعوت مبارزت دی، بالآخر ۱۲۷۰؁ھ میں آگرہ میں بہت بڑے پیمانہ پر مجلس مناظرہ منعقد ہوئی، اس موقع پر مولانا کے ساتھ ڈاکٹر محمد وزیر بھی تھے تاکہ حسب ضرورت انگریزی میں مولانا کی ترجمانی کرسکیں۔
مولانا نے بائبل کی تحریف اور نسخ پر ایسی مدلل اور موثر تقریر کی کہ پادری فنڈر لاجواب ہوگیا اس شکست نے مشنریوں کے حوصلے پست کردیئے اور نصرانیت کے بڑھتے قدم رک گئے لیکن انگریزی حکومت کے لئے یہ بات ناقابل برداشت تھی، آج آزادی کے دور میں ہم اس زمانہ کے انگریزی رعب و داب کا اندازہ نہیں کرسکتے ہیں، پادری فنڈر کی شکست تو بہت بڑی بات تھی، اس سے بہت چھوٹی باتوں پر داررورسن کی نوبت آجاتی تھی، مولانا رحمۃ اﷲ کو لوگوں نے اس صورت حال سے باخبر کیا، اور مشورہ دیا کہ ہندوستان سے باہر نکل جائیں، انھوں نے حجاز کا رخ کیا اور مکہ معظمہ میں سکونت اختیار کرلی، وہیں اپنی مایہ ناز کتاب ’’اظہارالحق‘‘ تصنیف کی جو مسیحی عقائد و خیالات کی تردید میں اب تک لاجواب سمجھی جاتی ہے۔
پادرری فنڈر ساری دنیا میں مشہور تھا، اس کی شکست سارے مسلم ممالک میں بڑی مسرت کے ساتھ سنی گئی اور مولانا رحمۃ اﷲ کا نام بڑی عزت کے ساتھ لیا جانے لگا، یہ سلطان عبدالحمید کا زمانہ تھا، انھوں نے مولانا کو قسطنطنیہ بلایا، بڑا اعزاز و اکرام کیا اور خواہش کی کہ آستانۂ خلافت کے قریب قیام کریں، مگر مولانا نے ہجرت کے ثواب کو ضائع کرنا پسند نہ کیا اور سلطان سے اجازت لے کر مکہ معظمہ واپس آگئے، اس کے بعد بھی کئی بار طلب کئے گئے اور اسی خواہش کا اظہار کیا گیا مگر مولانا نے معذرت کردی اور ساری زندگی بیت اﷲ کے جوار میں گذار دی، مکہ معظمہ میں انھوں نے ۱۲۹۰؁ھ میں مدرسہ صولتیہ کے نام سے ایک مدرسہ بھی قائم کیا جس کی خدمات آج تک جاری ہیں۔
۱۳۰۸؁ھ میں مولانا نے وفات پائی، ان کے بعد ان کے بھتیجے مولانا محمد سعید نے مدرسہ صولتیہ کا انتظام اپنے ہاتھ میں لیا، جب ان کا بھی انتقال ہوگیا تو یہ خدمت ان کے صاحبزادہ مولانا محمد سلیم کے سپرد ہوئی، انھوں نے اپنی ساری زندگی اس کام میں لگادی، اس اثنا میں حجاز میں بڑے انقلاب آئے، پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا اور ترکی سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے، شریف حسین نے انگریزوں کی شہ پر ترکوں کے خلاف بغاوت کی اور حجاز میں اپنی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی لیکن اس غداری کا انجام اچھا نہیں ہوا، ساری دنیائے اسلام نے اس حرکت پر بیزاری کا اظہار کیا، چند ہی برس میں والیٔ نجدشاہ عبدالعزیز ابن سعود نے اسے شکست دے کر حجاز سے نکال باہر کیا اور اپنی حکومت قائم کی۔
یہ سارے انقلابات مولانا محمد سلیم کے سامنے ہوئے وہ تفصیل سے اس دور کے حالات سناتے تھے، کہتے تھے کہ حرمین شریفین کے ساتھ ترکوں کو والہانہ عقیدت تھی، وہ دل سے اپنے کو خادم الحرمین سمجھتے تھے، جنگ عظیم کے زمانہ میں حرم شریف کے اندر کھڑے ہوکر شریف حسین نے انور پاشا کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا تھا لیکن اس اقرار کے باوجود انور پاشا کے رخصت ہوتے ہی بغاوت کردی اور برطانوی حکومت کی مدد سے ترک سپاہیوں کو گولی کا نشانہ بنایا، شیخ الہند مولانا محمود الحسن اور ان کے رفقاء کی گرفتاری کا حال بھی سناتے تھے سعودی حکومت کے آغاز سے اس وقت تک کے حالات سے بھی خوب واقف تھے اور بہت سے ایسے واقعات ان کے حافظہ میں محفوظ تھے جو تاریخ کی کتابوں میں نظر نہیں آتے۔
۱۹۶۷؁ء میں جب جامعہ کے بعض احباب (ارشادالحق مرحوم، عبدالرزاق صاحب اور سعید انصاری صاحب) کے ساتھ حج کا ارادہ ہوا تو قیام کے لیے مدرسہ صولتیہ کا خیال آیا مولانا محمد سلیم صاحب کو اس ارادہ کی اطلاع دی اور جہاز کا نام اور تاریخ بھی لکھ دی، جب ہم لوگ جدہ پہنچے تو مولانا کے فرستادہ قاری عبدالروف مدینتہ الحجاج میں خوش آمدید کہنے کے لیے موجود تھے، دوسرے دن مکہ معظمہ میں مولانا سے ملاقات ہوئی تو بڑے تپاک سے ملے اور فرمایا، پوچھنے کی کیا بات تھی، صولتیہ تو مولویوں کا گھر ہے، ان کی کریم النفسی کرایہ کے ذکر سے گریز کرتی تھی، لیکن ہم لوگوں نے مدرسہ کا نقصان گوارا نہ کیا اورکرایہ ادا کردیا، تقریباً ڈھائی ماہ مکہ معظمہ میں قیام رہا، ان کے سایہ میں یہ دن بڑے آرام سے گذرے، ان کی مجلس بڑی باغ و بہار ہوتی تھی، بات کرتے تو منھ سے پھول جھڑتے، سیکڑوں لطائف و ظرائف نوک زبان تھے، قصص و امثال کی تو کوئی حد نہ تھی، بات میں بات نکلتی اور قصہ پر قصہ چھڑتا اور سامعین ایسے محو ہوتے کہ گھنٹوں گزر جاتے اور اٹھنے کا جی نہ چاہتا، ان کی معلومات و ملفوظات اگر قلمبند ہوگئے ہوتے تو بڑے دلچسپ اور مفید ہوتے، گزشتہ ۶۰ ساٹھ برس کی تاریخ پر ان کی نظر بہت گہری تھی، شاید ہی کوئی دوسرا شخص واقعات اور ان کے علل و اسباب سے اس قدر واقف ہو، میں نے کہا کہ یہ حالات قید تحریر میں آجاتے تو آئندہ مورخ کے لیے بڑے کارآمد ہوتے، کہنے لگے کہ عرصہ ہوا کچھ واقعات لکھے تھے لیکن پتہ نہیں اب کہاں ہیں، ان کے صاحبزادہ مولوی محمد شمیم کو بھی ایک بار توجہ دلائی تھی، خدا کرے وہ کاغذات مل جائیں اور شمیم صاحب انھیں مرتب کر کے شائع کردیں۔
حجاج کی خدمت کا بہت شوق تھا، ان کی راحت رسائی کی پوری تدبیر کرتے تھے۔ ۱۹۷۴؁ء میں شاہ معین الدین احمد صاحب مرحوم کے ساتھ دوبارہ حج و زیارت کی سعادت حاصل ہوئی تو مولانا کی خدمت میں بھی حاضری کا موقع ملا،شاہ صاحب حضرت شاہ احمد عبدالحق رودولی کی اولاد میں تھے جو مخدوم جلال الدین پانی پتی کے خلیفہ تھے اور مولانا محمد سلیم صاحب حضرت جلال الدین پانی پتی کی نسل سے تھے، اس رشتہ سے دونوں کو ایک دوسرے سے بہت تعلق تھا، بڑی یگانگت سے ملے اور دیر تک بزرگوں کا تذکرہ ہوتا رہا، عمر کافی ہوچکی تھی مگر نشاط طبع میں کوئی فرق نہیں آیا تھا، لطف بیان اور حلاوت لسان کا وہی عالم تھا، بلبل ہزار داستان کی طرح بولتے اور چہکتے گلفشانی گفتار دیدنی ہوتی، ثقاہت میں لطافت اور سنجیدگی میں مزاح کی ایسی آمیزش کم دیکھنے میں آئی ہے، اس وقت کسے معلوم تھا کہ یہ زبان گہر بار جلد خاموش ہونے والی ہے، سال ہی بھر میں شاہ معین الدین احمد اﷲ کو پیارے ہوگئے اور ان کے دو برس بعد مولانا محمد سلیم نے بھی سفر آخرت اختیار کیا، اﷲ انھیں اپنے سایۂ رحمت میں جگہ عنایت فرمائے۔
مولوی محمد شمیم نے ان کی زندگی ہی میں تمام کاموں کو سنبھال لیا تھا، اﷲ انھیں توفیق عطا فرمائے کہ اپنے نامور باپ کی روایات کو قائم رکھیں، ہندوستانی حجاج روز افزوں گرانی سے بے حد پریشان ہیں، متوسط طبقہ کی استطاعت روز بروز ختم ہوتی جارہی ہے، اس وقت انھیں سہارے کی ضرورت ہے، کسی زمانہ میں حرمین شریفین میں متعدد رباطیں موجود تھیں، مگر اب وہ یا تو ختم ہوگئی ہیں یا خاتمہ کے قریب ہیں، شمیم صاحب اگر حاجیوں کے لیے سستی قیام گاہوں کا انتظام کرسکیں تو ثواب دارین کے مستحق ہوں گے، اس سلسلہ میں سعودی حکومت اور ہندوستانی گورنمنٹ دونوں کی طرف سے کافی مدد مل سکتی ہے۔مدرسہ صولتیہ کو اپنے زمانہ قیام ہی سے بڑی اہمیت حاصل ہوگئی تھی، مولانا رحمۃ اﷲ اوران کے رفقاء کی جدوجہد نے اسے عالم اسلام کا مشہور مدرسہ بنا دیا تھا، اس کے فیض یافتگان بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اور اعلیٰ مناصب پرسرفراز رہتے تھے، ساری دنیا میں اب حالات پہلے سے بہت کچھ بدل گئے ہیں، اس انقلاب سے سعودی عرب بھی متاثر ہواہے، تعلیم و تربیت کے میدان میں بہت اصلاحات ہوئی ہیں اور ان کا سلسلہ اب بھی جاری ہے، ان تغیرات کی روشنی میں مدرسہ کو بھی مناسب اصلاحات کرنی ہوں گی۔
مدرسہ صولتیہ میں ایک زمانہ میں ہندوستانی طلبہ کافی جایا کرتے تھے اور تعلیم و تربیت حاصل کر کے ہندوستان کے مدارس میں تدریس کی خدمت انجام دیتے تھے، اس بارہ میں خصوصی توجہ کی ضرورت ہے، اس کام کے لیے ہندوستان کے اہل خیر سے کافی وظائف مل سکتے ہیں۔ اس طرح اہل ہند اس درسگاہ سے زیادہ سے زیادہ فیض یاب ہوسکیں گے، حضرت مولانا رحمۃ اﷲ اور مولانا محمد سلیم مرحوم کے مقاصد پایۂ تکمیل کو پہنچ سکیں گے، خدا کرے مولوی محمد شمیم کے ہاتھوں مدرسہ صولتیہ کے ایک شاندار دور کا آغاز ہو۔ (’’ع ، ق‘‘۔ اگست ۱۹۷۷ء)

استدراک: گزشتہ ماہ کے معارف میں وفیات کے تحت مولانا محمد سلیم مرحوم کے مختصر حالات شائع ہوئے ہیں، اس میں ایک جگہ ان کے ’’بھتیجے کے بعد‘‘ کے لڑکے کا اندراج رہ گیا ہے، اسے درج کرلیا جائے، مولانا محمد سعید مولانا رحمۃ اﷲ کے بھتیجے نہیں تھے، بلکہ ان کے بھتیجے محمد صدیق صاحب کے لڑکے تھے۔
اسی طرح جہاں پادری فنڈر سے مناظرہ کا ذکر ہے، اس جگہ کی عبارت سے ایسا مترشح ہوتا ہے کہ مولانا اس کے بعد ہی مکہ معظمہ چلے گئے تھے، یہ صحیح ہے کہ ردمسیحیت کی وجہ سے مولانا انگریزوں کی نظر میں کھٹکتے تھے، پادری فنڈر کی شکست کے بعد ان کی ناراضی بہت بڑھ گئی تھی، مگر اس کے باوجود مولانا نے ہندوستان نہیں چھوڑا اور بدستور اپنے کام میں لگے رہے، آگرہ کا یہ مناظرہ ۱۸۵۴؁ء میں ہوا تھا، اس کے تین برس بعد ۱۸۵۷؁ء کی جنگ آزادی شروع ہوئی، مولانا رحمۃ اﷲ نے بھی اس میں حصہ لیا، جب انقلاب کی یہ کوشش ناکام ہوئی اور ہندوستان پر پھر انگریزوں کا تسلط قائم ہوگیا، تو مولانا بھی باغی قرار پائے اور ان کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا گیا، کچھ دن احباب و معتقدین نے پوشیدہ رکھا، لیکن جب یہ تدبیر ناکام ہوتی نظر آئی اور یہ محسوس ہوا کہ مولانا کے ساتھ سیکڑوں اور بندگان خدا بھی انگریزوں کے غضب کا شکار ہوجائیں گے، تو مخلص دوستوں نے ہجرت کا مشورہ دیا۔
مولانا جب مکہ معظمہ پہونچے تھے تو سلطان عبدالمجید کا زمانہ تھا، ان کے بعد سلطان عبدالعزیز اور سلطان عبدالحمید ثانی خلیفہ ہوئے، قسطنطنیہ کا پہلا سفر ۱۲۸۰ھ میں سلطان عبدالعزیز کے عہد میں ہوا، دوسرا سفر ۱۳۰۱ھ میں اور تیسرا سفر ۱۳۰۴ھ میں سلطان عبدالحمید ثانی کے دور حکومت میں ہوا۔ (عبد السلام قدوائی ندوی، ستمبر ۱۹۷۷ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...