Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > عبدالرزاق قریشی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

عبدالرزاق قریشی
ARI Id

1676046599977_54338192

Access

Open/Free Access

Pages

365

عبدالرزاق قریشی
دارالمصنفین میں یہ خبربڑے دکھ اور رنج سے سنی گئی کہ جناب عبدالرزاق قریشی اﷲ کو پیارے ہوئے، ان کی وفات سے نہ صرف اردو زبان و ادب ایک لائق خدمت گزار، بلکہ دارالمصنفین ایک بہت ہی مخلص پرستار سے محروم ہوگیا ہے، ان کے اعزہ نے ان کی وفات کی خبر بڑی تاخیر سے بھیجی۔ معارف کی آیندہ اشاعت میں ان پر ایک تفصیلی مضمون شائع ہوگا، اس وقت توان کی مغفرت کے لیے دل سے دعا نکل رہی ہے۔
(’صباح الدین عبدالرحمن، ستمبر ۱۹۷۷ء)

 

عبدالرزاق قریشی مرحوم
(سیدشہاب الدین دسنوی )
ضلع اعظم گڈھ کی ایک چھوٹی سی بستی بسہہ میں ۳۰؍ جولائی ۷۷؁ء کو عبدالرزاق قریشی پر ۹ بجے دن کو دورہ پڑا، دو تین قے ہوئی، ۱۲ بجکر دس منٹ پر ’’یااﷲ‘‘ کہہ کر آنکھیں بن کرلیں اور پانچ منٹ بعد یہ خاموش، متین اور سنجیدہ، سادہ مزاج اسکالر اور ادیب اپنے مالک حقیقی سے جاملا، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
عبدالرزاق قریشی کم عمری میں بمبئی چلے گئے تھے، جہاں میری اور ان کی رفاقت ۴۱ سال تک قائم رہی، ان کا خاندانی ماحول کچھ ایسا حوصلہ افزا نہ تھا، کہ وہ کسی اسکول یا مدرسے کی تعلیم مکمل کرسکتے، اس کے باوجود وہ بمبئی آئے تو اپنے ساتھ پڑھنے لکھنے کا شوق بھی لیتے آئے تشنگی علم انھیں مختلف چشموں تک لے گئی، مگر آخر میں میکدہ شبلی کے اس بادہ خور کو جس ساقی کی تلاش تھی، وہ ۱۹۳۲؁ء میں پروفیسر نجیب اشرف ندوی مرحوم کی صورت میں نظر آگیا، جو دارالمصنفین چھوڑنے کے بعد پہلے گورنمنٹ کالج احمد آباد، پھر وہاں سے بمبئی کے ایک سرکاری کالج میں اردو کے پروفیسر ہو کر آگئے تھے، اعظم گڑھ کے ہونے کے ناتے اور دبستان شبلی کے خوشہ چیں کی حیثیت سے قریشی صاحب نے ندوی صاحب سے اپنا تعارف کرایا، طالب و مطلوب کی یہ ملاقات استاد اور شاگرد، بزرگ اور عزیز، دوست اور رفیق کی حیثیتوں میں تبدیل ہوکر زمانے کے بدلتے ہوئے لیل و نہار کے باوجود پوری وضعداری کے ساتھ ۱۹۳۲؁ء سے پروفیسر نجیب اشرف ندوی صاحب مرحوم کی زندگی کے آخری لمحوں تک برقرار رہی۔
عبدالرزاق قریشی نے ابتدا میں تفریحاً بمبئی کی اردو صحافت کی دنیا میں بھی دشت نوردی کی، پھر ایک مشن اسکول میں، اس کے بعد پارسی اسکول میں ٹیچر ہوکر پڑھاتے رہے، کچھ عرصہ ایک گجراتی اسکول میں بھی پڑھایا، پھر انجمن اسلام ہائی اسکول (بمبئی) میں بھی اردو اور فارسی کے مدرس ہوئے، جہاں انھوں نے طلبہ کو صرف اعلی نمبر ہی کے لیے نہیں تیار کیا، بلکہ ان میں سے بیشتر طالب علموں میں زبان کا ستھرا ذوق بھی پیدا کیا، جتنے شوق سے وہ لڑکوں کو پڑھاتے تھے، اتنی ہی دلچسپی کے ساتھ وہ ان کے ذاتی مسائل کے حل کرنے میں بھی لگے رہتے تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کے شاگرد ان کا نام بڑے احترام و عقیدت سے لیتے رہے، درس و تدریس کے علاوہ طلبہ میں تحریر و تقریر کا شوق پیدا کرتے، اور مختلف سرگرمیوں کے ذریعے ان کی تنظیمی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا کام بھی وہ بڑی خوبی کے ساتھ انجام دیتے تھے، مگر جیسے جیسے ان کا علمی معیار بلند ہوتا گیا، انھیں ہائی اسکول کا تدریسی میدان اپنے لئے تنگ نظر آنے لگا۔ ۱۹۴۷؁ء میں انجمن اسلام کے تحت ایک اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم ہوا ۱۹۵۵؁ء سے پروفیسر نجیب اشرف ندوی (کالج سے ریٹائر ہو کر) اس ادارے کے پورے وقت کے ڈائرکٹر مقرر ہوئے، اس درمیان میں انسٹی ٹیوٹ سے عبدالرزاق قریشی کا تعلق گہرا ہوتا گیا اور وہ محسوس کرنے لگے کہ ان کا میدان عمل انسٹی ٹیوٹ ہی ہوسکتا ہے مگر دوسری طرف اسکول کے ہیڈ ماسٹر خلیفہ ضیاء الدین صاحب ان کے ایسے قدر شناس تھے کہ ان کو اسکول سے جدا کرنا گوارا نہ تھا، جب معاملہ میرے سپرد ہوا تو ایک روز میں نے خلیفہ صاحب سے کہا: ’’دیکھئے قریشی صاحب سے ہم اور آپ دونوں خصوصی تعلقات رکھتے ہیں مگر ان کا ایک اہم کام آج تک نہ کرپائے یعنی ان کی شادی نہ کراسکے، اس طرح تو وہ دنیا سے لاولد ہی رخصت ہوجائیں گے، اب میں ان کی شادی کی تجویز لے کر آیا ہوں وہ حیرت سے میرا منھ تکتے رہے، پھر بولے: ’’تمہید چھوڑئے، تجویز بیان کیجئے‘‘۔ میں نے کہا: ’’عبدالرزاق قریشی کا رشتہ اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے منسلک کردیا جائے، جہاں سے ان کی تصنیفات معنوی اولاد کی صورت میں ظہور میں آسکیں، ایک لمحہ کے توقف کے بعد وہ متبسم ہوئے اور بولے: ’’رشتہ منظور‘‘ اور ۱۹۶۲؁ء سے عبدالرزاق قریشی نے انجمن اسلام اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو اپنا شریک حیات بنا لیا، اور آخری دم تک اس رشتے کو اس طرح نبھایا کہ انتہائی معذوری کے سوا ایک دن ایسا نہیں گذرا جب کہ وہ بمبئی میں موجود ہوں اور یہاں حاضر نہ رہے ہوں، وہ یہاں اسکول ہی کی تنخواہ پر آئے لیکن شادمانی اور انبساط کا یہ عالم تھا کہ جیسے انھیں یونیورسٹی پروفیسر کا گریڈ مل گیا ہو جب تک رہے اسی نشہ میں سرشار رہے۔
ایک بار وہ چھٹی لے کر وطن گئے اور وہاں علالت کی وجہ سے قیام میعاد سے زیادہ طویل ہوگیا، وہ تنخواہ پیشگی لے گئے تھے، واپس ہوئے تو خود ہی حساب لگا کر معلوم کیا کہ جتنی چھٹی ان کی جمع تھی اس سے دو چار دن زائد ہوگئے تھے، اکاؤنٹ آفس نے کوئی پرسش نہیں کی، کسی نے یہ بھی مشورہ دیا کہ چند دن اگلی چھٹی میں منہا کردئے جائیں مگر انھیں اطمینان نہیں ہوا، میں انجمن اسلام کا جنرل سکریڑی تھا، انسٹیٹیوٹ کے انتظامی امور سے بھی میرا تعلق تھا، انھوں نے مجھے صورت حال سمجھائی اور زائد دنوں کی تنخواہ واپس کرنے پر اصرار کیا، بڑی مشکل سے میں انھیں اس پر راضی کرسکا کہ وہ ان کو نصف تنخواہ کی چھٹی میں منہا کرادیں جو ان کے حساب میں جمع تھی۔
استغناء کی ایک شان یہ بھی تھی کہ نوائے ادب اور تحقیق و تالیف کے سلسلہ میں انھیں مختلف ادیبوں اور اسکالروں سے کافی خط و کتابت کرنی پڑتی تھی، ایک روز میں نے انھیں ڈاکخانے کے عام قسم کے کارڈ اور ان لینڈ کاغذ پر خطوط لکھتے دیکھا تو کہا: ’’آپ اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی اسٹیشنری اور ٹکٹ کیوں نہیں استعمال کرتے؟‘‘ ہنس کر فرمانے لگے: ’’بھائی! میں اپنی طرف سے انسٹی ٹیوٹ کی یہی چھوٹی سی خدمت تو کرتا ہوں‘‘۔
اکتساب علم میں عبدالرزاق قریشی نے جتنی محنت، شوق اور تلاش سے کام لیا وہ اپنی جگہ خود ایک مثال ہے، وہ ہر اتوار کو نجیب اشرف ندوی صاحب مرحوم کے بنگلہ جوگیشوری پہنچ جاتے، ان کے ذاتی کتب خانہ میں اردو، فارسی اور انگریزی کتابوں کا اچھا خاصا ذخیرہ تھا، یہ کتابیں اور ندوی صاحب کی ہدایتیں ہر اتوار کو قریشی صاحب کو وہاں کھینچ لے جاتیں، اس معمول پر وہ اس پابندی سے عمل کرتے کہ بمبئی کی بے تحاشہ بارش اور تیز و تند ہوائیں بھی انھیں اس گیارہ میل کے سفر سے کبھی باز نہ رکھ سکیں، صبح سے شام تک وہ مطالعے میں غرق رہتے، یہ سلسلہ سالہا سال تک جاری رہا، اور اس وقت ختم ہوا جب ان کی صحت بہت خراب ہوگئی اور وہ اتنی لمبی مسافت طے کرنے کے لائق نہیں رہے۔
وہ اپنا ہر کام بڑی لگن کے ساتھ کرتے اور علمی کاموں میں خوب سے خوب تر کے قائل تھے، ان کی سیدھی سادہ زندگی دیکھ کر یہ اندازہ لگانا دشوار ہوتا کہ وہ اپنے مسودے اتنے سلیقے، احتیاط اور اتنی نفاست کے ساتھ تیار کرتے ہوں گے، ان کا خط بڑا پاکیزہ اور پختہ تھا: تحقیقی کاموں میں وہ دوسرے درجہ کی چیز گوارا نہیں کرسکتے تھے، انھوں نے کسی کالج یا یونیورسٹی میں تعلیم نہیں پائی لیکن مغربی طریقہ تحقیق کا نہایت گہرا مطالعہ کرکے اس پر عمل پیرا تھے، ان کی مختصر سی کتاب ’’مبادیات تحقیق‘‘ ریسرچ کرنے والوں کے لیے نہایت مفید ہدایت نامہ ہے اور اردو زبان میں اپنے طرز کی شاید پہلی کتاب۔
اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں عبدالرزاق قریشی ریسرچ اسسٹنٹ کی حیثیت سے شریک ہوئے، اپنے خاص موضوعات پر تحقیق کرنے علاوہ ادارے کے سہ ماہی رسالے ’’نوائے ادب‘‘ کی ادارت بھی سنبھالی اور رسالے کو جس بلند معیار اور وقار کے ساتھ ایڈٹ کیا، اس نے ساری اردو دنیا سے خراج تحسین حاصل کی، جب ان کی وفات کی خبر ملی تو مجھے اور باتوں کے ساتھ نوائے ادب کی یاد آئی اور بے اختیار غالب کا شعر زبان پر آگیا ؂
کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق
ہے مکرر لب ساتی پہ صلا میرے بعد
عبدالرزاق قریشی نے بڑی تعداد میں ادبی، تنقیدی اور تحقیقی مضامین لکھے، تعلیم بالغان کے سلسلہ میں بمبئی کی مشہور سوشل ورکر مسز کلثوم سایانی نے ۱۹۴۰؁ء میں ایک پندرہ روزہ اخبار ’’رہبر‘‘ نکالا تو کئی مہینوں تک اس کے سارے مضامین عبدالرزاق قریشی اور راقم الحروف نے مل کر لکھے، ان مضامین میں بڑی عمر کے لوگوں کی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے سہل نگاری کا لحاظ بہت ضروری تھا، اخبار، زبان اور مضامین دونوں حیثیتوں سے اس قدر مقبول ہوا کہ تھوڑے دنوں میں بیک وقت یہی اخبار اردو (ٹائپ)، دیوناگری اور گجراتی تینوں رسم خط میں چھپنے لگا، اس کوشش کو ملک کے مشہور سربراہوں نے بہت سراہا۔
قریشی صاحب کے سترہ ۱۷ شائع شدہ مضامین کا مجموعہ ’’تاثرات‘‘ کے عنوان سے ۱۹۶۹؁ء میں شائع ہوا جس میں بعض کتابوں اور شخصیتوں کے متعلق ان کے تاثرات ہیں، مضامین میں ان کی انشا پردازی شبلی اسکول سے وابستگی ظاہر کرتی ہے اور کتاب کا معارف پریس میں طبع کرانا ان کی دارالمصنفین کے دلدادہ ہونے کی دلیل ہے۔
مہاراشٹر کی ریاست میں (جو پہلے ریاست بمبئی کہلاتی تھی) اردو کی تعلیم میں خاصی سہولتیں فراہم تھیں، پھر بھی بعض چیزیں خود اردو والوں کے کرنے کی تھیں، جب تک حکومت نے درسی کتابیں قومیانے کا فیصلہ نہیں کیا تھا، ایسی کتابوں کی تالیف و اشاعت کا مسئلہ اردو والوں کے لئے منفعت بخش نہ ہونے کی وجہ سے قابل توجہ نہ سمجھا جاتا تھا، اوپر کی جماعتوں کی زبان دانی کی مناسب کتابیں مفقود تھیں، انجمن اسلام نے صورت حال کا جائزہ لے کر تالیف کا کام عبدالرزاق قریشی کے سپرد کیا، اور ان کی مرتب کی ہوئی ریڈریں ’’نگار اردو‘‘ کئی سال تک داخل نصاب رہیں اور اس طرح ہزاروں اردو داں طلبہ کی اہم ضرورت پوری ہوتی رہی۔
مئی ۱۹۵۶؁ء میں حیدرآباد اردو کانفرنس کی ایک نشست میں ’’اردو تحریک آزادی‘‘ موضوع بحث تھا، اسی نشست میں یہ خیال پیش ہوا کہ اگلے سال جب پہلی جنگ آزادی کی صد سالہ سالگرہ منائی جائے تو اردو کی ایسی تحریروں اور نظموں کا جن سے ملک کی آزادی کی تحریکوں کو بڑی تقویت پہنچی، ایک انتخاب انجمن ترقی اردو (ہند) کی طرف سے شائع ہو، انجمن اسلام کے صدر سیف طیب جی بھی وہاں موجود تھے، انھوں نے انجمن اسلام کی جانب سے انتخاب کے شائع کرنے کے اخراجات کی ذمہ داری قبول کرلی، مگر بعض اسباب کی بنا پر انجمن ترقی اردو اس انتخاب کی ذمہ داری لینے پر رضامند نہ ہوئی اور انجمن اسلام نے یہ کام عبدالرزاق قریشی کے سپرد کردیا جو اس وقت تک انجمن کے لائف ممبر بن چکے تھے، اگلے سال مئی میں چار سو صفحات کا یہ انتخاب قریشی صاحب کے مقدمہ کے ساتھ ’’نوائے آزادی‘‘ کے نام سے ٹائپ میں چھپ کر شائع ہوا تو لوگوں کی آنکھیں کھل گئیں، اس کا پہلا نسخہ انجمن کے صدر نے وزیر اعظم جواہرلال نہرو کی خدمت میں پیش کیا، یوں تو اس موقع پر جنگ آزادی اور تحریک آزادی کی تاریخیں ہندوستان کی ہر زبان میں لکھی گئیں لیکن اردو کے سوا کسی زبان کو یہ فخر نصیب نہیں ہوا کہ وہ کوئی ایسا مجموعہ (نثر و نظم کا) پیش کرتی جس سے ثابت ہوتا کہ وہ اس ملک کی تحریک آزادی میں معاون ہوئی ہو، یہ کتاب انجمن کے شعبہ اشاعت (ادبی پبلشرز) کی طرف سے شائع ہوئی تھی۔
اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں سب سے پہلے قریشی صاحب نے مرزا مظہر جان جاناں اور ان کے اردو کلام کو تحقیق کا موضوع بنایا، جب یہ کتاب کی صورت میں ان کے عالمانہ مقدمہ کے ساتھ شائع ہوئی تو اردو کے ایک بڑے بلند پایہ محقق اور نقاد نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ کتاب ہندوستان کی کسی بھی یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کے تھیسس کی حیثیت سے پیش کردی جاتی تو پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری مل جاتی۔
انسٹی ٹیوٹ کے تحقیقی پروگرام کے تحت انھوں نے بڑی قابلیت کے ساتھ ’’دیوان عزلت‘‘ اور ’’بارہ ماسہ‘‘ دو نایاب قلمی نسخے ایڈٹ کر کے شائع کروائے، پھر ’’اردو کا تمدنی سرمایہ‘‘ کے عنوان سے نوائے ادب میں ان کے کئی مضامین شائع ہوئے، موخرالذ کر کام میں ان کی دلچسپی اتنی بڑھی اور اتنا مواد جمع کیا کہ ایک مستقل تصنیف کا مسودہ تیار ہوگیا جو اب دارالمصنفین کے اشاعتی پروگرام میں شامل ہے۔
’’مبادیات تحقیق‘‘ کا ذکر اوپر آچکا ہے، قریشی صاحب کا تعلق اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے قائم ہوا تو پوسٹ گریجویٹ کلاس کے طلبہ اور تحقیق کا کام کرنے والوں کی خاصی تعداد ان کے اردگرد منڈلانے لگی، وہ لوگ ان سے مشورے کرتے، مقالے دکھاتے، مشکل مقامات کے حل طلب کرتے، عبدالرزاق قریشی مرنجاں مرنج طبیعت کے آدمی، بڑی خوش دلی کے ساتھ ان کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہتے، اسی سلسلہ میں انھوں نے محسوس کیا کہ بیشتر طلبہ تحقیق کے ابتدائی اصول اور طریقہ کار سے بے خبر ہوتے ہیں، کالج اور یونیورسٹی والے اس مفروضے کے تحت کہ طلبہ یہ باتیں خود ہی معلوم کرلیں گے، انھیں اس فن کی معلومات دینا غیر ضروری سمجھتے ہیں، چنانچہ اکثر مقالے اس طرح لکھے اور پیش کئے جاتے ہیں کہ جن کو پڑھنے میں الجھن ہوتی ہے، قریشی صاحب نے مبادیات تحقیق میں وہ اصول بتائے ہیں جن سے مقالہ کی تیاری میں باضابطگی پیدا ہوتی ہے۔
کردار کے اعتبار سے عبدلرزاق قریشی بڑے بلند مرتبے کے انسان تھے، وضعداری پسند کرتے اور اسے نباہنا بھی خوب جانتے تھے، ان کے عزیز اور رشتہ دار وطن سے علاج کے لیے بمبئی آتے تو یہ ان کے مشیر اور مدد گار ہوتے مرض کے لحاظ سے کسی ماہر طبیب کا انتخاب، اس سے وقت طے کرنا، پھر بیمار کو وہاں تک لے جانا، ضرورت ہوتی تو اسپتال یا نرسنگ ہوم میں داخل کرانا اور اس وقت تک اس کا حال چال دریافت کرتے رہنا جب تک کہ اس کا قیام بمبئی میں رہتا ہے، یہ سب ان کی زندگی کے معمول میں داخل تھا، یہی سلوک وہ اکثر ان طالب علموں کے ساتھ بھی کرتے جن کے بارے میں انھیں شبہہ ہوجاتا کہ وہ بغیر والی یا مدد گار کے ہیں۔
عبدالرزاق قریشی راسخ العقیدہ تو ضرور تھے مگر مذہبی فرائض کی ادائیگی میں ان سے شروع میں کوتاہی ہوتی رہی، میں جب بھی ان سے کہتا: ’’حضرت! آپ پر صوم و صلوٰۃ کا حکم کب نازل ہوگا؟‘‘ تو وہ بڑے معصوم انداز میں مسکرا دیتے اور بس! پھر ایک وقت وہ آیا جب وہ عبادت کی طرف رجوع ہوئے اور اس جوش و خشوع کے ساتھ عبادت میں مشغول دکھائی دینے لگے، کہ ان کے وہ احباب بھی جو پہلے سے پابند صوم و صلوٰۃ تھے ان کی عبادت پر رشک کرنے لگے، ان کے قلب کی اس تبدیلی کا راز افشا کرنا شاید اخلاقی جرم ہو، پھر بھی ان کی روح سے معذرت کرتے ہوئے بیان کردینے کو جی چاہتا ہے، خود ان کا کہنا تھا کہ ایک روز وہ اپنے کمرے میں تنہا سورہے تھے، فجر ہونے والی تھی، اب دھندلکا تھا کہ انھیں محسوس ہوا کہ اذان کی آواز آرہی ہے، اس سے پہلے ایسی آواز کبھی سنائی نہ دی تھی، ان کی آنکھ کھل گئی مگر وہ پلنگ پر لیٹے رہے، دوسرے دن پھر یہی ہوا، اس مرتبہ اذان کی آواز اور قریب سے آتی ہوئی محسوس ہوئی، پھر آنکھ کھلی اور یہ لیٹے رہے تیسرے دن اور چوتھے دن بھی یہی بات ہوئی، ہر روز آواز قریب تر ہوتی گئی، پھر ایک صبح ایسی آئی جب کہ انھیں لگا جیسے اذان ان کے کانوں میں دی جارہی ہو اور یہ گھبرا کر اٹھ بیٹھے، کچھ دیر تک غور کرتے رہے، پھر اٹھے، وضو کیا اور فجر کی نماز ادا کرنے بیٹھ گئے، اس دن سے ان کی نماز شروع ہوئی جس کی پابندی آخری دم تک قائم رہی، اس سال وہ فریضہ حج ادا کرنے کا عزم کرچکے تھے مگر وقت آگیا اور وہ سوئے عدم سفر پر چلے گئے۔
اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے ریٹائر ہوکر ان کی سب سے بڑی تمنا یہ تھی کہ دارالمصنفین میں رفیق بن کر کام کریں، اس کی پوری تیاری انھوں نے کرلی تھی، ذاتی کتب خانے کی اکثر کتابیں انھوں نے وہاں بھجوادی تھیں اور اربابِ دارالمصنفین بڑے شوق کے ساتھ ان کے چشم براہ تھے، مگر
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
عبدالرزاق قریشی کی پوری زندگی پر نظر ڈالتے ہوئے ان کی زبان سے میر کا یہ شعر کتنا مناسب معلوم ہوتا ہے:
برسوں لگی رہی ہیں جب مہرومہ سے آنکھیں
تب کوئی ہم سا صاحب، صاحب نظر بنے ہے
اﷲ تعالیٰ انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے، آمین۔ (اکتوبر ۱۹۷۷ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...