Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا محمد یوسف بنوری

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا محمد یوسف بنوری
ARI Id

1676046599977_54338193

Access

Open/Free Access

Pages

368

مولانا محمد یوسف بنوری
۱۹۲۷؁ء کا زمانہ تھا، میں اس وقت ندوہ میں پڑھتا تھا، درس کے دوران اور بحث و تحقیق کے سلسلہ میں مولانا انور شاہ صاحب کشمیریؒ کا تذکرہ ہوتا تھا، ہمارے استاد مولانا حیدر حسن خاں صاحب شاہ صاحب سے بخوبی واقف تھے، اُن کی مجلس میں شاہ صاحب مرحوم کی وسعت علم، بے نظیر حافظہ، ندرتِ فکر، اور دقت نظر کا ذکر آتا تھا، شاہ صاحب کے بعض شاگرد بھی کبھی کبھی آجاتے اور اپنے استاد کے علم و کمال کا والہانہ ذکر کرتے، گرمیوں کی چھٹی میں مولانا سیدطلحہ پروفیسر اورینٹل کالج لاہور لکھنؤ آتے، مولانا حیدر حسن خاں صاحب مرحوم اُن کے شفیق استاد تھے، ٹونک اُن کا وطن تھا، اس طرح تلمذ کے ساتھ وطن کی مشارکت بھی اُن کو ندوہ لاتی، اور بعض اوقات کئی کئی دن مولانا حیدر حسن خاں کے ہاں ان کا قیام رہتا، مولانا طلحہ کی عقیدت اور مولانا حیدر حسن خاں کی شفقت قابل دید ہوتی۔
مولانا سید طلحہ صاحب نے مولانا انور شاہ صاحبؒ کو قریب سے دیکھا تھا، اور ان کے حلقہ درس میں کئی بار بیٹھے تھے، اُن کی مخصوص صحبتوں میں بھی شریک ہوئے تھے، علوم اسلامیہ پر خود اُن کی اچھی نظر تھی، خصوصاً تفسیر حدیث، اور رجال کا بہت اچھا مطالعہ تھا، حافظہ بھی غضب کا پایا تھا، لیکن بایں ہمہ وہ شاہ صاحب سے بہت زیادہ متاثر تھے، اور ان کی وسعت نظر، حفظ و اتقان، مہارت علوم، اور مجہتدانہ صلاحیت کے بیحد معترف تھے، ان کا تذکرہ بڑے کیف و وجد کے ساتھ کرتے، کہا کرتے تھے، کہ اگر میں نے مولانا انور شاہ صاحب کو نہ دیکھا ہوتا، اور اُن کے حافظے کا ذاتی تجربہ نہ ہوتا، تو مجھے ان رواتیوں کو تسلیم کرنے میں تامل ہوتا جو کتابوں میں سلف کے حافظے کے بارے میں درج ہیں، لیکن شاہ صاحب کو دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ جس امت کے پچھلوں کا یہ حال ہے، اس کے اگلوں کی کیا کیفیت ہوگی۔
یہ باتیں سن کر مجھے اور میرے ساتھیوں کو بھی شاہ صاحبؒ سے بڑی عقیدت پیدا ہوگئی، دیکھنے کا اتفاق تو اس کے کئی برس بعد ہوا لیکن دل پر اُن کی عظمت کا نقش اسی وقت سے قائم ہوگیا تھا، شاہ صاحب کے شاگردوں کے نام بھی کبھی کبھی کان میں پڑتے تھے، مولانا حفظ الرحمن، مفتی عتیق الرحمن، مولانا سعید احمد اکبر آبادی، مولانا بدر عالم میرٹھی، مولانا محمد یوسف بنوری اور مولانا احمد رضا کے نام بار بار سننے میں آئے، پھر جب مولانا حبیب الرحمن عثمانی مرحوم کے زمانہ اہتمام میں دارالعلوم دیوبند میں عظیم الشان اسٹرائک ہوئی، اور مولانا انور شاہ صاحب، مفتی عزیز الرحمن، مولانا شبیر احمد عثمانی وغیرہ متعدد بزرگوں نے استعفا دے کر دارالعلوم سے علیحدگی اختیار کی تو عرصہ تک اخبارات میں ان واقعات کا چرچا رہا، بعض اخبارات تو محض انہیں مسائل پر بحث کے لیے نکالے گئے تھے، یہ اسٹرائک بڑی خطرناک تھی، اور ڈر تھا کہ کہیں بزرگوں کی نصف صدی کی کمائی خاک میں نہ مل جائے، لیکن اﷲ نے اس کے نقصان سے بڑی حد تک محفوظ رکھا، ایک طرف مولانا حسین احمد مدنیؒ نے دارالعلوم میں صدر مدرس اور شیخ الحدیث کے منصب کو سنبھال لیا،اور دوسری طرف بعض اہل خیر نے ڈابھیل (گجرات) میں شاہ صاحب ان کے رفقاء اور شاگردوں کو بلاکر ایک نئے علمی مرکز کی بنیاد رکھ دی، اساتذہ کی علمی شہرت، کارکنوں کی دل سوزی، اور معاونین کی دریا دلی نے سارے ملک میں اس درسگاہ کا ایسا سکہ جمادیا، کہ تشنگان علم دور دور سے کھنچ کر اس چشمہ صافی کے گرد جمع ہوگئے، اور ڈابھیل کے گلی کوچوں میں قال اﷲ اور قال الرسول کے ترانے گونجنے لگے، شاہ صاحب کی صحت پہلے ہی اچھی نہ تھی، ڈابھیل کی مرطوب آب و ہوا اور مضر ثابت ہوئی لیکن اس کے باوجود وہ اپنے کام میں لگے رہے، اور جب تک صحت کی خرابی نے بالکل مجبور نہیں کردیا، وہ یہاں سے نہیں ہٹے، ان کا قیام اگرچہ زیادہ عرصہ نہیں رہ سکا، مگر اس کے باوجود ڈابھیل دیوبند کا مثنی سمجھا جانے لگا، شاہ صاحب کے بعد ان کے مشن کو ان کے شاگردوں نے نہ صرف جاری رکھا، بلکہ اس میں چار چاند لگا دیئے، ان اصحاب میں مولانا محمد یوسف بنوری خاص طور سے قابل ذکر ہیں، انھوں نے درس و تدریس کے علاوہ ڈابھیل میں نشر و اشاعت کی غرض سے ایک علمی مجلس بھی قائم کی، جس کی طرف سے بہت سی بیش قیمت کتابیں شائع ہوئیں، شاہ صاحب کی سوانح عمری کے علاوہ ان کے افادات درس بھی کئی ضخیم جلدوں میں مرتب کر کے شائع کئے گئے ان میں بخاری کی شرح فیض الباری خاص طور سے قابل ذکر ہے، قدماء کی کتابوں میں ہدایہ کی تخریج نصب الرایہ کی بڑی اہمیت ہے، لیکن پہلے یہ بہت ہی معمولی کاغذ پر چھپی تھی، اور اس کے نسخے بھی بہت کمیاب تھے، مولانا بنوری کا حدیث و فقہ کے طلبہ پر بڑا احسان ہے کہ انھوں نے مصری ٹائپ میں بہت اچھے کاغذ پر اس کتاب کی طباعت کا انتظام کیا، اور اس کے ساتھ بڑے عالمانہ خواشی تحریر کئے، جن کی وجہ سے اس کتاب کا افادہ بہت بڑھ گیا حضرت شاہ ولی اﷲ کی بعض نایاب کتابیں بھی ان کی توجہ سے شائع ہوئیں، ملک کی تقسیم کے بعد انھیں بھی پاکستان جانا پڑا، لیکن ان کی علمی اور تعلیمی سرگرمیاں وہاں بھی جاری رہیں، بلکہ ہندوستان سے بھی زیادہ وہاں انھوں نے علمِ دین کی خدمت کی، کراچی میں ایک درس گاہ کی بنیاد ڈالی جس نے ان کی زندگی ہی میں بڑی مرکزیت حاصل کرلی، اس درسگاہ کے ساتھ ایک ماہنامہ ’’بینات‘‘ بھی جاری کیا، جو اپنے وقیع علمی و دینی مضامین کی وجہ سے بہت ممتاز ہے، ہندوستان کی طرح پاکستان میں بھی عربی مدارس کے درمیان کوئی رشتہ ارتباط نہیں تھا، وہاں کے سرکاری حلقوں نے اس انتشار سے فائدہ اٹھانا چاہا، اور ان مدارس کو سرکاری سرپرستی میں لے کر مشرقی امتحانات کا مرکز بنا دینے کی کوشش کی لیکن مولانا محمد یوسف بنوری مرحوم نے بڑی ہمت سے اس صورت حال کا مقابلہ کیا، اور آزاد عربی مدارس کا ایک وفاق بنادیا، جو بہت مفید ثابت ہوا، جو حضرات عربی مدارس سے تعلق رکھتے ہیں، وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ کام کتنا مشکل تھا، اس کامیابی سے ایک طرف ان کے اثرو رسوخ کا اندازہ ہوتا ہے، اور دوسری طرف یہ پتہ چلتا ہے کہ انھیں دینی اور علمی حلقوں میں کتنا اعتماد حاصل تھا، ان اہم کاموں کے علاوہ انھوں نے وہاں لامذہبیت اور بدعقیدگی کو بھی روکنے کی کامیاب کوشش کی، اس سلسلہ میں بعض اوقات انھیں حکومت سے بھی ٹکر لینی پڑی لیکن انھوں نے اس کی کوئی پروا نہیں کی، اُن کی اس ہمت اور استقامت کو دیکھ کر بعض دوستوں نے بے ساختہ کہا کہ یہ کسی بنوری ہی کا دل و گردہ تھا، ورنہ جنرل ایوب کے فوجی اقتدار کے زمانہ میں ایسی جرأت کی توقع کسی سے مشکل ہی سے کی جاسکتی تھی، وہ حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ کے نامور خلیفہ شیخ آدم بنوری کی اولاد میں تھے، اور اُن کے اندر دینی حمیت تجدیدی روح اور استقامت و ثبات قدمی انھیں کی وراثت کی بنا پر آئی تھی، جو شاہجہاں کے شان و شکوہ اور اس کے صاحب اثر وزیر سعداﷲ خاں کے جاہ و جلال کو خاطر میں نہیں لایا، اس کا نام لیوا ایوبی حکومت کی کیا پرواہ کرتا، ان کی ہمت و استقامت نے بہت سے ڈگمگائے ہوئے قدموں کو سہارا دیا، الحادوبے دینی کے اڈے ٹوٹ گئے، اور ملحدین کو راہ فرار اختیار کرنی پڑی، مسلم ممالک میں بھی ان کا بڑا اثر تھا، اور اکثر اسلامی اور دینی کانفرنسوں میں انھیں شرکت کی دعوت دی جاتی تھی، اور ان کے علم و تجربہ سے فائدہ اٹھایا جاتا تھا، میرا ان سے ملنا جلنا زیادہ نہیں ہوتا تھا، مگر جب مل جاتے تو بڑی محبت سے پیش آتے ۶۷؁ء کے موسم حج میں ان کے والد صاحب بھی ساتھ تھے، مجھے ان سے خاص اہتمام سے ملایا، اور میرا تعارف بڑی تعریف و توصیف کے ساتھ ان سے کرایا، جب بھی ملاقات ہوتی، بڑی خوش دلی اور بشاشت کے ساتھ ملتے، آخری بار ۷۴؁ء میں مکہ معظمہ میں ملاقات ہوئی، اس وقت کمزور بہت تھے، پیدل چلنا دشوار تھا، اس لیے سعی گاڑی پر کررہے تھے، آخری ملاقات وہیں مسعٰی میں ہوئی، پھر اس کے بعد ملنے کا موقع نہیں ملا کئی مہینہ سے ان کی بیماری، اور کمزوری کی خبریں آرہی تھیں، بالآخر وقت موعود آپہنچا، اور ۱۸؍ اکتوبر ۷۷؁ء کو جان جان آفریں کے سپرد کردی، اﷲ انھیں اپنے سائیہ رحمت میں جگہ دے، ان کے مراتب بلند فرمائے، اور ان کے جانشینوں کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
انھوں نے علم دین کی خدمت کے لیے جو ادارے قائم کئے تھے، امید ہے کہ وہ برابر ترقی کرتے رہیں گے، اور ان کے دائرہ کار میں مزید توسیع ہوتی رہے گی، تصانیف کے جو مسودے مکمل ہوچکے ہیں، ان کی طباعت کا انتظام جلد ہونا چاہئے، اور جو ابھی نامکمل ہیں، ان کی تکمیل کا بندوبست کرنا چاہئے، اس بارے میں جامع ترمذی کی شرح خاص طور سے قابل ذکر ہے، امید ہے کہ ان کے لائق جانشین اس کی تکمیل اور اشاعت کی خاص فکر کریں گے۔ (عبد السلام قدوائی، نومبر ۱۹۷۷ء)

استدراک : معارف کے ایک نمبر میں مولانا یوسف بنوری کے متعلق آپ کا مضمون پڑھ کر خوشی ہوئی، دیوبند کے قدیم حالات پر آپ کی نظر ہے، اور آپ نے بڑی وسعت قلبی کے ساتھ ان کا ذکر فرمایا ہے، اس مضمون میں ایک ذرا سا تسامح رہ گیا ہے، ڈابھیل میں مجلس علمی مولانا یوسف بنوری نے نہیں بلکہ خود حضرت مولانا سید انور شاہ صاحب ؒ نے قائم فرمائی تھی، اور اپنے اس وقت کے نوجوان شاگرد وں مولانا بدر عالم میرٹھی، مولانا حفظ الرحمن، مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانی، مولانا سعید احمد اکبر آبادی، مولانا محمد یحییٰ تھانوی وغیرہ کو تصنیف و تالیف کے کام پر لگایا تھا، مولانا محمد یوسف بنوری ڈابھیل میں دورۂ حدیث پڑھ کر اپنے وطن واپس جاچکے تھے، ڈابھیل میں بہ سلسلہ تدریس و تصنیف اباجی ؒ کے انتقال کے بعد پہنچے اور پھر انھوں نے مجلس علمی کی بڑی خدمت کی ہے، عجیب بات یہ ہے کہ بنوری صاحب کو اباجیؒ سے قریب رہنے کا موقع بہت کم ملا، اس کی ابتدا یہ ہے کہ ۱۸ برس کی عمر میں وہ مشکوٰ ۃ و جلالین کے طالب علم کی حیثیت سے دیوبند آئے، ان کے والدمولانا محمد زکریاصاحب اور ماموں مولانا فضل صمدانی سے اباجی ؒ کے تعلقات تھے، مگر بنوری صاحب نے بغیر کسی تعارف کے اپنا ایک عربی قصیدہ اباجیؒ کے سامنے پیش کیا، جسے ملاحظہ فرماکر اباجیؒ نے فرمایا کہ اس میں کسی اصلاح کی ضرورت نہیں ، بنوری صاحب بہت تھوڑی مدت میں اباجیؒ سے قریب ہوگئے، علاوہ عام درس کے کئی کتابیں صرف ان کو اباجیؒ نے پڑھائیں، لیکن اباجی سے ان کی معیت و صحبت کی مدت بہت کم ہے، مگر اس بہت کم مدت میں انھوں نے اباجی کو خوب سمجھا، اوران کے علوم کی بڑی خدمت کی، آپ نے مولانا سید محمد طلحہ کا بھی ذکر کیا ہے، میں نے بچپن میں مولانا طلحہ صاحب کو اباجیؒ کی مجلسوں میں لاہور اور دیوبند میں دیکھا ہے۔
آپ نے یہ خبر کسی اخبار میں پڑھی ہوگی کہ حکومت جموں و کشمیر نے ابھی اکتوبر میں اباجیؒ کی یاد میں ایک سیمینار کشمیر میں بلایا تھا جس میں ان کے خاص خاص شاگرد جمع ہوئے تھے، یہ سیمینار بہت کامیاب رہا اور اس میں شیخ عبداﷲ صاحب نے کشمیر میں اباجیؒ کی یاد میں ایک علمی ادارہ قائم کرنے کی تجویز منظور کی، عزیز مکرم مولانا محمد فاروق، میر واعظ کشمیری ، مولانا مسعودی، مولانا محمد طیب صاحب، مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانی ، مولانا سعید احمد صاحب اس تجویز کے محرک تھے۔
معارف کو اپنے صفحات پر اس تجویزکی تائید کرنی چاہیے اور اس کے قیام پر زور دینا چاہیے، کشمیر میں علمی دینی کام کرنے کا بڑا میدان ہے، اب شیخ صاحب بھی متوجہ ہیں، ایسا علمی ، دینی اور تصنیفی ادارہ قائم ہوگیاتو بڑا کام ہوگا۔
(مولانا محمد ازہر شاہ قیصر، اپریل ۱۹۷۸ء )

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...