Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ڈاکٹر ظفرالہدیٰ

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ڈاکٹر ظفرالہدیٰ
ARI Id

1676046599977_54338194

Access

Open/Free Access

Pages

370

آہ! ڈاکٹر ظفر الہُدیٰ
ڈاکٹر ظفر الہدیٰ ایم، اے۔ پی، ایچ۔ ڈی، علامہ شبلیؒ کی بڑی پوتی کے شوہر تھے، ان کا آبائی وطن تو اعظم گڑھ ضلع ہی میں تھا، مگر ان کے گھر کے لوگ دربھنگہ (بہار) منتقل ہوگئے تھے، اس لئے پٹنہ یونیورسٹی میں اپنی انگریزی تعلیم کی تکمیل کی، وہاں سے فارسی اور اردو میں ایم، اے کرنے کے بعد ڈھاکہ یونیورسٹی میں لکچرار ہوگئے، وہیں سے پنشن پاکر ڈھاکہ میں مقیم تھے کہ ۷؍ مارچ ۱۹۷۸؁ء کو اﷲ کو پیارے ہوئے، ان کی وفات علامہ شبلیؒ کے خاندان کا ایک المناک سانحہ ہے، وہ اپنے شاگردوں اور یونیورسٹی کے رفقائے کار میں اپنے اخلاق، اخلاص، محبت اور میٹھی زبان کی وجہ سے بہت مقبول تھے، اسی لئے جب بنگلہ دیش میں خونیں انقلاب آیا تو وہاں کی سفاکانہ اور بیرحمانہ خونریزی میں ہر طرح محفوظ رہے، ان کے اور رفقائے کار تو کراچی منتقل ہوگئے، لیکن انھوں نے ڈھاکہ ہی میں رہنا پسند کیا، بنگالیوں نے غیر بنگالیوں کے ساتھ جو بے رحمانہ سلوک کیا تھا، اس کی وجہ سے بنگلہ دیش کے لوگوں کے خلاف ہندوستان کے مسلمانوں میں بڑا سخت ردعمل تھا، اس کو ڈاکٹر ظفر الہدیٰ اپنے خطوط میں یہ لکھ کر دور کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ آخیر یہ لوگ بھی مسلمان ہیں، وہاں کے مسلمانوں کے لئے اسلام کا صالح لٹریچر پیش کرنے کی خاطر شبلی اکیڈمی بھی قائم کی، دارالمصنفین کی مطبوعات کو بنگلہ زبان میں ترجمہ کرانے کی علمی مہم شروع کی، ان کا کام کچھ چل نکلا تھا کہ وہ وہاں پہنچ گئے، جہاں ایک روز سب کو جانا ہے۔
ان کو دارالمصنفین اور اس کے وسیلہ سے میری حقیر ذات سے بڑی محبت رہی ہے، جب کبھی ڈھاکہ گیا تو وہ مجھ سے سگے بھائی کی طرح ملے اور خاطر تواضع میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے اعظم گڑھ آتے تو ان کا زیادہ تر وقت دارالمصنفین ہی میں گزرتا، یہیں قیام کرکے انھوں نے اپنے پی، ایچ، ڈی کا مقالہ لکھا، جس کا عنوان یہ تھا، ہندوستان میں ۱۴۵۱؁ء سے ۱۵۲۰؁ء تک کے عہد میں فارسی زبان و ادب کا فروغ۔ ان کے اس مقالہ کے کچھ حصے کراچی کی پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی کے سہ ماہی انگریزی جرنل اور معارف میں چھپے اور اس کی داد ان کو اہل نظر سے ملی، ان کے پورے مقالہ کا اردو ترجمہ ان کے ایک شاگر سلطان احمد صاحب نے کیا ہے، امید کہ یہ ترجمہ دارالمصنفین سے شائع ہوگا، ان کی اہلیہ ڈھاکہ یونیورسٹی سے ایم۔ بی، بی، ایس کی ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کرکے وہیں پریکٹس کرتی ہیں، ان کی اولاد میں صرف ایک لڑکی ہے، وہ اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے، لیکن اپنی شرافت، اغلاق، بھلمنساہت، دوست نوازی، اعزہ پروری اور دوسری خوبیوں کی وجہ سے ایک عرصہ دراز تک اپنے عزیزوں اور دوستوں کے حلقے میں یاد کئے جائیں گے، دعا ہے کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ ان کو ان کی نیکیوں کی بدولت کروٹ کروٹ جنت نعیم اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائیں، آمین، ثم آمین۔ (صباح الدین عبدالرحمن، اپریل ۱۹۷۸ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...