Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > اعجاز صدیقی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

اعجاز صدیقی
ARI Id

1676046599977_54338195

Access

Open/Free Access

Pages

371

اعجاز صدیقی مرحوم
( سید شہاب الدین دسنوی)
مولانا سیماب اکبر آبادی کے فرزند اور رسالہ ’’شاعر‘‘ کے مدیر، اعجاز صدیقی پر ۹؍ فروری ۱۹۷۸؁ء کو دل کا دورہ پڑا اور وہ اسی روز اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔
ایک عرصہ سے مختلف امراض کی وجہ سے اعجاز صاحب کی صحت خراب ہوچکی تھی، کئی بار اسپتال میں داخل کئے گئے، اچھے اچھے ڈاکٹروں نے بڑی توجہ اور شفقت سے علاج کیا، مگر بقول شاعر:
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا ، اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
اعجاز صدیقی فروری ۱۹۵۱؁ء میں اپنے وطن آگرہ سے بمبئی آئے اور یہیں انھوں نے مستقل سکونت اختیار کرلی، ان کا رسالہ ’’شاعر‘‘ (ماہنامہ) جو پہلے آگرے سے نکلتا تھا، اسی سال سے بمبئی سے شائع ہونے لگا، وہ اس کے معیار کو بلند رکھنے میں انتھک، کوشش کرتے تھے، اردو سے پر خلوص محبت اور اپنے قارئین کو صاف ستھرا ادب پیش کرنے کی کوشش، ان کی زندگی کے دو ایسے نمایاں پہلو تھے کہ جن کی وجہ سے اردو کے اچھے اور اہم لکھنے والوں اور شعراء کا انھیں غیر معمولی تعاون حاصل ہوتا رہا، جس کے سہارے وہ ’’شاعر‘‘ کے بڑے ضخیم خصوصی نمبر نکال سکے، ان میں کرشن چند نمبر، ناولٹ نمبر، افسانہ اور ڈرامہ نمبر اور آخری میں ہم عصر اردو ادب نمبر ہماری زبان و ادب میں قابل قدر اضافہ ہیں، حقیقت یہ ہے کہ مسلسل علالت گرتی ہوئی صحت اور محدود مسائل کے ساتھ ایسے ضخیم اور اچھے نمبر شائع کرنا، بڑی جرأت کا کام تھا، بلاشبہ اعجاز صاحب غیر معمولی قوت ارادی کے حامل تھے۔
اعجاز صدیقی، ذاتی طور پر مشرقی تہذیب اور قدروں کے علمبردار اور رکھ رکھاؤ کے آدمی تھے، انھوں نے لوگوں کے ساتھ اپنے تعلقات اور دوستانہ رسم سالہا سال تک آخری دم تک بڑی خوبی کے ساتھ نبھائے، بمبئی، فلمی دنیا کا مرکز مانا جاتا ہے، جہاں پہنچ کر اچھے اچھے ادیبوں اور مشاعروں (یا جدید اصطلاح میں قلمکاروں) کا ادبی پرہیز ٹوٹ جاتا ہے، مگر اعجاز صاحب نے سب سے تعلقات رکھتے ہوئے بھی، اپنے قلم کی سلامت روی کو قائم رکھا۔
اردو تحریک اور اس سے متعلقہ مسائل، اعجاز صاحب کے دماغ پر ہر لمحہ اس طرح چھائے رہتے تھے کہ ان سے کسی اور موضوع پر گفتگو کم ہوتی تھی، انھوں نے ’’جرعات‘‘ کے تحت ’’شاعر‘‘ میں ان مسائل پر اچھے اداریے لکھے ہیں جن میں فکر کی گہرائی اور خلوص کا جذبہ دونوں جھلکتے ہیں، وہ غزل کے شاعر تھے، مشاعروں میں اس وقت مقبول رہے، جب ترنم سے پڑھتے تھے اور اس وقت بھی دادسخن حاصل کرتے رہے، جب ترنم سے پڑھنا چھوڑ دیا تھا، انھوں نے کئی قومی نظمیں لکھیں مثلاً خوابوں کا مسیحا، ہماری جنگ آزادی، ہم امن چاہتے ہیں، وغیرہ ان میں سے بعض پر ادبی اداروں کی طرف سے انعامات بھی ملے۔
اعجاز صدیقی کی وفات سے اردو کی صف سے ایک مخلص، سچا اور جانباز سپاہی اٹھ گیا، اﷲ ان کی مغفرت فرمائے۔ (اپریل ۱۹۷۸ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...