Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ماہرؔ القادری

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ماہرؔ القادری
ARI Id

1676046599977_54338197

Access

Open/Free Access

Pages

372

 ماہرؔ القادری
جناب ماہر القادری کی وفات کی خبر سے بہت ہی دل گیر اور دل فگار ہوکر جب یہ تحریر لکھنے بیٹھا ہوں تو کراچی کی ساری علمی و ادبی مجلسیں یاد آرہی ہیں۔
کراچی بارہا جانے کا اتفاق ہوا، وہاں کی ممتاز شخصیتوں کی یادوں کی قندلیں روشن کرتا رہتا ہوں، ان میں بہت سے اﷲ کو پیارے بھی ہوگئے، اختر جونا گڑھی مرحوم یاد آتے ہیں، ان کی کتاب ’’طبقات الامم‘‘ دارالمصنفین سے شائع ہوئی تھی، معارف میں مولانا شبلیؒ پر اچھے مضامین لکھے، وہ بزرگ محترم مولانا سید ابوظفر ندوی مرحوم کے ساتھ جونا گڑھ سے شہاب رسالہ بھی نکالا کرتے تھے، دارالمصنفین کے بڑے قدردان رہے، وہ جس محبت سے کراچی میں ملے اس کی یاد برابر باقی رہے گی، ان ہی کے یہاں کھانے پر حفیظ ہوشیار پوری مرحوم سے ملا تھا، ان کے پرکیف نغمہ شعری سے بھی محظوظ ہوا تھا، ان کی محبت بھری باتوں میں بڑی کیفیت تھی، ممتاز حسن مرحوم (ریٹائرڈ سکریٹری محکمہ فنانس حکومت پاکستان) یاد آتے ہیں تو ان کی علم نوازی، کرم گستری اور دوست پروری کے معطر اور نکہت بیز پھولوں کے بار سے دبتا چلا جاتا ہوں، ایک رات جناب جمیل عالی کے دستر خوان پر میں جناب ممتاز حسن مرحوم، ابن انشاء مرحوم اور یادش بخیر پیر حسام الدین راشدی کے ساتھ شریک ہوا، رات کو ایک بجے تک علمی و ادبی باتیں ہوتی ہیں، وہ رات بھی کیسی حسین اور بہار آفریں تھی، ممتاز حسن مرحوم ایک تناور سایہ دار علمی برگد تھے، اسی کے چھاؤں کے نیچے کراچی کے ارباب علم جمع ہوتے اور ان کے سایہ عاطفت میں اپنے علمی و ادبی ذوق کو پھلتے پھولتے محسوس کرتے، جناب ابن انشاء مجلسوں میں ملتے اور خاموش بنے رہتے، مگر اخبار کے کالم میں شب برات کی پھلجڑی اور پٹاخے بن جاتے ان کی موت پر پاکستان کے اخباروں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر جو ماتم ہوا ہے وہ قابل رشک ہے، جمیل الدین عالی صاحب ابھی بقید حیات ہیں خدا کرے ابھی بہت دنوں زندہ رہیں، اخبار کے کالم اور ٹیلی ویژن کے تو وہ ہیرو سمجھے جاتے ہیں، جناب پیر حسام الدین راشدی تو کراچی کے نہ صرف پرنس اسکالر ہیں، بلکہ وہاں کے علمی معشوقوں کے معشوق ہیں، ان کی کوٹھی تو میرے لیے ایک علمی زیارت بن گئی ہے، ان کے نوشت و خواند کے کمرے میں پہنچ جاتا ہوں تو وہاں علم و فن کی کرنیں میرے ذہن کو گرماتی رہتی ہیں، وہ اپنے یہاں کراچی کے اہل علم کو برابر مدعو کرکے ان سے ملاقاتیں کراتے رہتے ہیں، ان ہی کے یہاں پہلی دفعہ فلسفہ اور فلسفہ اقبالیات کے بہت بڑے ماہر جناب بشیر احمد ڈار صاحب سے ملا، ان کے عجز، انکسار اور استغناء سے ان کا علم و فن دب کر رہ گیا ہے، اقبال پر ان کا جب کوئی مضمون پڑھتا ہوں تو نظر و فکر میں کندن سی چمک پیدا ہوجاتی ہے، راشدی صاحب ہی کے دولت کدہ پر پروفیسر شیخ عبدالرشید سے بارہا ملا، بوڑھے ہیں مگر علمی باتوں میں جوان رعنا نظر آتے ہیں، تاریخ کے ہر پہلو پر ناقدانہ نظر رکھتے ہیں، راشدی صاحب ہی کے یہاں ڈاکٹر ریاض الاسلام صدر شعبہ تاریخ کراچی یونیورسٹی سے کئی بار ملا خاموش، متین اور سنجیدہ ہیں، مگر کام کرنے کی لگن کی وجہ سے کسی نہ کسی علمی کام میں لگے رہتے ہیں اور اب تک بہت سی کتابوں کے مصنف ہوچکے ہیں، کراچی یونیورسٹی کے ڈاکٹر ابوللیث صدیقی کو اردو کے ایک مصنف اور نقاد کی حیثیت سے تو جانتا تھا، مگر جب ان کی کتاب اقبال اور مسئلہ تصوف پڑھی تو ان کو علم معرفت کا ادا شناس بھی سمجھنے پر مجبور ہوا اور جب ان کی یہ کتاب ختم کی تو محسوس ہوا کہ بہت دنوں کے بعد ایک اچھی کتاب پڑھنے کو ملی، یہ کتاب جناب ڈاکٹر معزالدین ڈائریکٹر اقبال اکیڈمی کے ذریعہ سے ملی جس کے لئے ان کا شکر گزار ہوں، ڈاکٹر معزالدین صاحب کراچی میں تھے، تو اس طرح ملے جیسے کوئی شفیق چھوٹا بھائی ملتا ہو، ان کی بھلمنساہت میں بڑی دل آویزی ہے، جناب شریف المجاہد جرنلزم کے فن کے استاد ہیں ان کا مضمون جہاں کہیں دیکھتا ہوں ضرور پڑھتا ہوں۔
جناب مشفق خواجہ۔ تو اردو ادب کے حبیب بن کر اب اس کے محبوب بن گئے ہیں، ہر مجلس میں ان کی شان محبوبیت قائم رہتی ہے، وہ میری دل نوازی جس طرح کرتے ہیں، اس کی روداد کم دل آویز نہیں۔
کراچی کے علمی حلقہ میں جناب حکیم سعید دہلوی سے بھی بارہا ملنے کا اتفاق ہوا، خوشردوئی جامہ زیبی اور مہمان نوازی کے پیکر ہیں، ان کی علم نوازی میں وہی شان پائی جاتی ہے، جو تیموری دربار کے امراء کے یہاں ہوا کرتی تھی، معلوم نہیں کیسی کیسی علمی مجلسیں منعقد کیا کرتے ہیں اور کس کس طرح سے ارباب علم کو اپنی فیاضیوں سے سیراب کرتے رہتے ہیں۔
کراچی کی علمی مجلسوں میں مولانا عبدالقدوس ہاشمی ندوی تو بلبل ہزار داستان ہیں، کہیں بیٹھ جائیں تو وہی چھائے رہتے ہیں، حدیث، فقہ، تصوف، تاریخ اسلام یہود و انصاری کے صحائف، افریقہ کے جنگلی قبائل، تبلیغ اسلام روڈیشیا کے آئین اسمتھ، انگریز مورخ ٹوائن بی، ہٹی، مہاتما گاندھی، محمد علی جناح، پاکستان تحریک، شدھی، سنگھٹن، شعروادب، امیر مینائی جوش ملیح آبادی، سراج لکھنوی، قدیر لکھنوی، غزل، دوہے، مگھی گیت اور برہے پر ایک سانس میں گفتگو کرکے سامعین کو ساکت و صامت بنادیتے ہیں، وہ اپنی معلومات کے لحاظ سے انسائیکلوپیڈیا ہیں، مولانا ناظم ندوی سابق شیخ الجامعہ مدرسہ بھاولپور کو عربی شعر و ادب میں بڑا عبور ہے، عربی کے اشعار برجستہ سناتے ہیں اور خود بھی کہتے ہیں، عربی میں ان کی گہری نظر کا معترف کراچی کا پورا علمی حلقہ ہے، مہمان نوازی اور دوستوں کی دلجوئی کا پورا حق ادا کرتے ہیں، مولانا حسن مثنیٰ ندوی پاکستان کے موتمر اسلامی کے صدر ہیں، بہت اچھے مقرر ہیں، اپنے اردگرد دوستوں اور نوجوانوں کو ساتھ رکھنے کا خاص ملکہ رکھتے ہیں، نوجوانوں میں کام کرنے کا جذبہ پیدا کرنے کا بھی سلیقہ رکھتے ہیں، قہرنیم روز کے اڈیٹر ہیں، اپنے قہقہوں اور چہچہوں سے مجلس کو گرم رکھتے ہیں، ان کے ہمدم اور دمساز ظفیرالحسن صاحب ہیں جو بیدل لائبریری کے جنرل سکریٹری ہیں، ان میں علمی سرگرمیوں کو جاری رکھنے اور رکھانے کی بڑی لگن ہے، کسی نہ کسی مفید کام میں لگے رہتے ہیں، ڈاکٹر مطیع الاسلام صدر شعبہ فارسی کراچی یونیورسٹی، حضرت شرف الدین یحییٰ منیری کی تصانیف پر بڑی اچھی نظر رکھتے ہیں، مجھ سے بزم صوفیہ کے مصنف کی حیثیت سے جس اخلاص سے ملتے ہیں، اس کے لئے ان کا شکرگزار ہوں، جناب شفیق بریلوی نے ارمغان نعت مرتب کرکے کراچی کے علمی حلقہ میں بڑی مقبولیت حاصل کرلی ہے، بڑے متحرک اور فعال قسم کے اہل علم ہیں، بزمی انصاری صاحب سے ملنے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کے جسم کے کسی حصہ کو چھولیجئے تو علم ہی کی آواز بلند ہوگی، انگریزی میں انسائیکلوپیڈیا آف اسلام کے مستقل مقالہ نگار ہیں، اس کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے بھی شاید رکن ہیں، شاہجہانی دور کے علامہ سعداﷲ خاں پر ایک کتاب بڑی محنت اور عراق ریزی سے لکھی ہے، پروفیسر ایوب قادری تو ان گنت کتابوں کے مصنف ہوچکے ہیں، عہد مغلیہ کے دور کی فارسی کتابوں کا اردو ترجمہ کرنے میں غیر معمولی ملکہ حاصل کرلیا ہے، کراچی یونیورسٹی میں اس کے وائس چانسلر جناب احسان رشید صاحب سے ملا تو ان کی قدر آور شخصیت اور تواضع سے متاثر ہوا، وہیں شعبہ اردو کے پروفیسر ابوالخیر کشفی اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے جس طرح پذیرائی کی اس سے ان کا ممنون ہوا۔
ڈاکٹر معین الحق جنرل سکریٹری پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی کی مورخانہ بصیرت کی وجہ سے ان کی ذات خود ایک علمی انجمن بنی ہوئی ہے، ان کی ملاقات درس و تدریس کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
جناب خالد اسحق کراچی کے بہت ہی مقبول اور مشغول ایڈوکیٹ ہیں، ایک روز انھوں نے اپنے یہاں برادرم ڈاکٹر سلمان ندوی کے ساتھ کھانے پر مدعو کیا تو ان کا کتب خانہ دیکھ کر خوش ہوا، ان کا علمی ذوق پورے شہر میں مشہور ہے، بڑے دیدہ ور سیاست داں اور ایڈوکیٹ سمجھے جاتے ہیں، بڑی شستہ رفتہ گفتگو کرتے ہیں، اردو پنجابی، سندھی اور انگریزی ایک ساتھ بولتے ہیں، دنیا کے تمام مسلمانوں کے لئے درد رکھتے ہیں، ان ہی کے یہاں جناب صلاح الدین اڈیٹر جسارت سے ملاقات ہوئی، انھوں نے بنیادی حقوق کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے، جس کی دھوم پورے پاکستان میں ہے، ان کی اس کتاب کی رونمائی کے موقع پر انگریزی زبان کے لائق مصنف جناب جمیل احمد صاحب سے ملاقات ہوئی جنھوں نے Hundred Great Muslims of the World لکھی ہے، یہ پورے پاکستان بلکہ بیرون پاکستان میں بہت ہی شوق سے پڑھی جارہی ہے، اس کا ایک نسخہ مجھ کو بھی عنایت کیا، بہت ہی خاموش قسم کے اہل قلم معلوم ہوئے۔
ماہرالقادری مرحوم کی ماتمی تحریر کے سلسلہ میں یہ ساری باتیں بظاہر بے جوڑ معلوم ہوں گی، لیکن اس لمبی تمہید کے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ کراچی کے علمی حلقہ کی بہت سی ممتاز شخصیتوں سے ملنے کا اتفاق ہوا، مگر ان میں سب سے رعنا، دل آویز اور باغ و بہار شخصیت مولانا ماہرالقادری کو پایا، جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے، دن ہے تو مجلس کے گل سرسبد بن گئے، رات ہے تو شمع محفل نظر آئے۔
ان سے غائبانہ تعارف ۱۹۳۵؁ء سے بھی پہلے کا تھا، انھوں نے اپنی ایک غزل ایک بار معارف میں چھپنے کے لیے بھیجی، جناب شاہ معین الدین احمد ندوی مرحوم کا ذوق شعری بہت عمدہ تھا، اس میں انھوں نے کچھ اصلاح دے دی، ماہر القادری صاحب نے اس کو پسند نہیں کیا، احتجاجاً ایک خط حضرت مولانا سید سلیمانؒ ندوی کو لکھا، اس کا جواب سید صاحبؒ نے بہت ہی نرم اور ٹھنڈے انداز میں دیا جس سے وہ بہت متاثر ہوئے اس کا ذکر کراچی کی علمی مجلس میں برابر کرتے، جب میں ۱۹۷۵؁ء میں پاکستان گیا تو مولانا ظفر احمد انصاری صاحب سے بزرگانہ عزیزانہ مراسم پیدا ہوئے انھوں نے مجھ کو اپنے یہاں مدعو کیا تو جناب ماہرالقادری کو مجھ سے ملنے کے لیے خاص طور پر بلایا، وہ ان کو اس قدر پسند کرتے کہ اپنے یہاں چھوٹی بڑی جو بھی دعوت کرتے تو ان کو ضرور بلاتے، خود ماہر القادری صاحب ان کے بڑے دلدادہ تھے، یہ دلدادگی بلاوجہ بھی نہ تھی، مولانا ظفر احمد انصاری کراچی میں اپنے قدردانوں، دوستوں اور مخلصوں کے پیرمغان ہیں، وہ سندیافتہ عالم تو نہیں ہیں، بلکہ الہ آباد یونیورسٹی سے ایم،اے کیا اور یونیورسٹی میں اول آئے، ال،ال۔بی کے امتحان میں بھی امتیاز کے ساتھ کامیابی حاصل کی، شعروادب کا بھی ذوق رکھتے ہیں، ان کی ایک قومی نظم کی بھی شہرت ہوئی تھی، مگر وہ پاکستان کی تحریک میں شریک ہوئے تو پھر سیاست ہی کے ہوکر رہ گئے، مسلم لیگ کی کمیٹی آف ایکشن اور آل انڈیا مسلم لیگ سنٹرل پارلیمنٹ بورڈ کے سکریٹری پھر آل انڈیا مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سکریٹری بھی رہے، جناب لیاقت علی خان مرحوم کے ساتھ بھی کام کیا، ان ہی کی مساعی جمیلہ سے مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، مسلم لیگ میں شامل ہوئے، پاکستان کی دستور سازی کے سلسلہ میں جو تعلیمات اسلامی کا بورڈ بنا، اس کے بھی سکریٹری رہے اور جب استاذی المحترم مولانا سید سلیمان ندویؒ پاکستان پہنچے تو ان کے ساتھ بھی کام کیا، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے میں ان کا نمایاں ترین حصہ رہا جب میں ان سے ملا تو وہ پاکستان کی نیشنل اسمبلی کے بڑے بااثر آزاد رکن تھے، حکومت اور حزب مخالف دونوں کی رائے کی قدر کرتے، وہ اپنی نرم شیریں، سبک، متوازن اور متین باتوں سے اپنے ملنے والوں کے دلوں کی تسخیر کرتے ہیں شہرت یا کوئی ذاتی فائدہ نہیں چاہتے، گمنام رہ کر پاکستان کے تعمیری کاموں میں لگے رہتے ہیں، اس لیے پاکستان کے گمنام معمار کہلاتے ہیں، عربی کا ایک مدرسہ بھی ان کی نگرانی میں چل رہا ہے پاکستان کے سربراہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق ان کی بے لوثی، بے غرضی، رائے کی اصابت کے معترف ہیں، ان کی ذات گرامی میں کچھ ایسی ہی مقناطیسیت ہے، دارالمصنفین کی مطبوعات کے حق طباعت و اشاعت کا جو معاہدہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کراچی سے ہوا اس سلسلہ میں ہر قسم کی مدد پہنچائی ان کے یہاں ادیب، شاعر، عالم، وکیل، سیاست داں سب ہی جمع ہوتے ہیں، جناب ماہر القادری تو ان کے قلب کی دھڑکن بن کررہے، ان کے یہاں ماہر صاحب سے جو ملاقات ہوئی، تو یہ مشفقانہ راہ و رسم میں تبدیل ہوگئی، پھر خدا جانے کتنی ملاقاتیں ہوتی رہیں، وہ میری قیام گاہ پر آتے اور میں ان کے گھر پر حاضر ہوتا، دعوتوں اور جلسوں میں ان کا ساتھ رہتا، علامہ محمد اقبال کی صدسالہ سالگرہ کے موقع پر انٹرکونٹی نینٹل ہوٹل لاہور میں ٹھہرا ہوا تھا، ان دنوں وہ لاہور ہی میں تھے، کافی رات گزرچکی تھی تو وہاں ملنے آئے اور دیر تک اپنی باتوں سے محظوظ کرتے رہے۔
ان کی شیوہ بیانی ان کی خاص چیز تھی، اس وقت ان کی طلاقت لسانی زیادہ بروئے کار آتی وہ جب وہ اختلافی مسائل پر گفتگو کرتے، تصوف، وحدت الوجود، بدعت، تبلیغی جماعت، جماعت اسلامی، بریلوی علماء، زبان، ادب، تذکیر و تانیث ان کا خاص موضوع ہوتا، تصوف کے مخالف اور وحدت الوجود کے منکر تھے، ان دونوں مسائل پر گفتگو کرتے وقت پسینہ میں شرابور ہوجاتے ان کو چھیڑنے کے لیے ان کے دلائل کا رد کیا جاتا تو پھر ان کی قوت گویائی میں اور بھی اضافہ ہوجاتا، کلام پاک اور حدیث کا سہارا لے کر اپنے معترض کو قائل کرنے کی کوشش کرتے، کلام پاک کی آیتیں پڑھتے اور حدیث کے حوالے دیتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ ہم کو کوئی مستند عالم مخاطب کررہا ہے، حالانکہ انھوں نے فارسی اور عربی کی تعلیم گھر ہی پر پائی تھی، انگریزی تعلیم شائد میٹرک ہی تک حاصل کی تھی، مگر بحث کرتے وقت اپنی مذہبی اور علمی معلومات میں جید عالموں اور انگریزی دانوں سے کسی حال میں دبتے نظر نہیں آتے، ان کو معلوم تھا کہ یہ راقم بزم صوفیہ کا مصنف ہے، تصوف اور وحدت الوجود کے خلاف بولتے وقت میرا ہاتھ پکڑ لیتے اور میری دل جوئی کی خاطر کہتے کہ میں تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن کا مخالف نہیں ہوں، مگر تصوف میں جو غیر اسلامی اور اباحتی رنگ پیدا ہوگیا ہے، اس کا مخالف ہوں وہ میری کسی بات سے قائل ہونا پسند نہیں کرتے، جب بحث کرنے میں ان کو پسینہ آنے لگتا تو موضوع کا رخ بدل دینے کی کوشش کی جاتی، ایسے ہی ایک موقع پر جب ان کی بحث میں بہت تیزی آرہی تھی تو ایک صاحب بول اٹھے کہ مولانا شبلیؒ شان نزول کو مذکر لکھتے ہیں، شان تو مونث ہے، شان نزول بھی مونث ہونا چاہئے، پھر ان کا رنگ ہی بدل گیا، بولے کہ مولانا شبلیؒ نے شان نزول کو مذکر لکھا ہے تو یہی صحیح ہے، ان کے یہاں زبان کی کوئی غلطی نہیں مل سکتی، وہ مولانا شبلیؒ کے بڑے عقیدت مند تھے، بارہا ان کی زبان سے سناکہ مولانا شبلیؒ ایک طرف اور ساری علمی و ادبی امت دوسری طرف ہوتو بھی ان کا پلا بھاری ہوگا، ان کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا، ماہر صاحب اردو زبان کے محاوروں، تذکیر تانیث اور واحد و جمع پر بڑی اچھی نظر رکھتے، کہتے کہ درد اگر جمع کے ساتھ استعمال ہوتو معنی بدل جاتے ہیں، درد اٹھ رہے ہیں سے مراد دردزہ ہوتا ہے، ستو کے ساتھ پینا ہمیشہ جمع کے ساتھ استعمال ہونا چاہئے ستو پیئے صحیح ہے، ستو پیا بولنا غلط ہے، کہنے لگے کہ جوش ملیح آبادی نے ایک جگہ رنگینی پھٹ پڑی کا محاورہ استعمال کیا ہے، شباب اور جوانی کے لئے پھٹ پڑنا استعمال ہوتا ہے، رنگینی پھٹ پڑنا غلط ہے کہتے کہ ہر زبان کا مرکز ہوا کرتا ہے، حجاز عربی اور ایران فارسی کا مرکز ہے، تو اردو کا مرکز لکھنؤ اور دہلی کو تسلیم کرنا پڑے گا، وہیں کے روز مرے اور محاورے مستند سمجھے جائیں گے اسی کے ساتھ اقبال کے بہت معترف تھے، کہتے کہ میرؔ کی شاعری آہ ہے، سوداؔ کی واہ ہے، تو اقبالؔ کی شمعِ راہ ہے، رومی نے مسلمان کو ولی اﷲ بنانے کی کوشش کی تو اقبال نے کافر کو مسلمان بنایا، اقبال کی وفات پر انھوں نے ایک غمناک نظم بھی لکھی تھی جس کے چند اشعار یہ ہیں:
کاروان خواب میں تھا بانگ درا سے پہلے

Eساز میں سوز نہ تھا تیری نواسے پہلے
5اﷲ اﷲ ترا قافلہ نطق و کلام

Eبال جبریل کے سایہ میں ہوا گرم خرام
Iصرف مشرق نہیں مغرب کو بھی پیغام دیئے

?نگہ و فکر پہ اسرار خودی فاش کئے
Iتو کبھی شعلہ رقصاں ، کبھی رفتار نسیم

Aموج کوثر ترے اشعار کہیں ضرب کلیم
Aایک نئی طرز نئے باب کا آغاز کیا

;شکوہ اﷲ تعالیٰ سے بصد ناز کیا
Gترے شعروں میں کہیں معرکہ بدر و حنین

Cکہیں ایمان ابراہیم کہیں عزم حسینؓ
Gاس لئے ہے تری ایک ایک مجھے بات قبول

Aترا سرمایہ دانش تھا فقط عشق رسول
Aمحفل رومی و عطار تھی مدت سے خموش

Cترے نغموں نے بنایا اسے ہنگامہ جوش
Iعلم و حکمت کے مسائل کو دیا شعرکا رنگ

Eکس نزاکت سے ہم آغوش کئے شیشہ وسنگ
Aفکر افسردہ کو پرواز عطا کی تو نے

=لب خاموش کو آواز عطا کی تو نے
8 اس جامع نظم میں اقبال کی پوری تصویر کھینچ کر رکھ دی ہے، مگر جب ان سے کہا جاتا کہ رومی اور اقبال دونوں تصوف اور وحدت الوجود کے قائل تھے، تو پھر ان کی بحث میں تیزی آجاتی، لیکن ان کی بڑی خوبی یہ تھی کہ تلخ بحث کرنے میں کتنے ہی منہمک ہوجاتے، رخ بدل جاتا تو یکایک وہ بذلہ سنج، لطیفہ گو اور قہقہوں اور چہچہوں کے مالک بلاشرکت غیرے ہوجاتے، اس برصغیر کا کوئی سیاسی، علمی، ادبی اور معاشرتی لطیفہ ایسا نہ تھا، جو ان کے ذہن کے خزینہ میں محفوظ نہ تھا، اگر کوئی کسی اچھے لطیفہ کو صحیح طور پر بیان نہ کرتا تو وہ بدحظ ہوکر اس کی اصلاح کرتے، اپنے لطیفوں اور چٹکلوں سے مجلس کو زعفران بنائے رکھتے، کہتے کہ وہ نیند کے بادشاہ ہیں، نیند ہر وقت میری آنکھوں میں دھری رہتی ہے ریل کے مسافروں کے ہجوم میں بیٹھے بیٹھے سویا ہوں اس طرح کہ دہلی سے ریل چلتے ہی آنکھ لگی اور امرتسر پہنچ کر آنکھ کھلی۔ دنیا میں صرف ایک ہی شخص نیند میں ان سے بازی لے گیا، ایک بحری جہاز ڈوبنے لگا تو ایک شخص اس کے عرشہ سے سمندر میں گرگیا مگر سمندر کے پانی پر گرنے سے پہلے کچھ لمحات کے لئے وہ سوگیا، ان کی تفریحی باتوں کے درمیان ان سے ان کی غزلیں سننے اور سنانے کی فرمائش ہوتی تو پھر ان کی نعت، نظم، غزل اور گیت کے نغمے فضا میں اس طرح گونجنے لگتے کہ معلوم ہوتا کہ وہ پئے ہوئے ہیں اور پلارہے ہیں، وقت گزرتا جاتا، ان کی زمزمہ سنجی اور گلفشانی جاری رہتی، وہ رخصت ہوتے تو جی چاہتا کہ وہ دوسرے دن پھر ملیں، خود مجھ سے اور میں ان سے ملنے کے لئے بے قرار رہتا، کبھی چائے اور کبھی کھانے پر بلاتے، بریانی اور گاجر کے حلوے بہت شوق سے کھاتے اور دوستوں کو کھانے کے لئے اصرار کرتے، کراچی میں ابھی گزشتہ فروری ہی میں اپنی قیام گاہ پر مولانا ظفر احمد انصاری، پیرحسام الدین راشدی، مولانا جمال میاں فرنگی محلی، بزمی انصاری، مولانا عبدالقدوس ہاشمی ندوی، مولانا ناظم ندوی کاظم، ایم،اے شفیق بریلوی، ڈاکٹر آفتاب صدیقی، محمود الرحمن آہنگ کے ایڈیٹر صبیح محسن اور جنگ کے نامہ نگار اقبال احمد صدیقی، ظفیرالحسن، ڈاکٹر محمد نعیم اور ڈاکٹر محمد طیب وغیرہ کو اپنے یہاں شام کی چائے پر مدعو کیا، ماہرالقادری کی وجہ سے تو صبح صبحِ بنارس اور شام شامِ اودھ بن جاتی، وہ کیوں نہ ہوتے، مجلس کو مولانا عبدالقدوس ہاشمی ندوی اور جناب ماہرالقادری دونوں نے مل کر لوٹا، یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ دونوں میں کس کی شیوہ بنائی زیادہ کام کررہی ہے، مگر جب حضرت ماہرالقادری اپنی نظمیں سنانے لگے تو پھر سب ہی لوگ دم بخود تھے، جنگ کے نامہ نگار نے کہا کہ یہ مجلس کراچی کی یادگار مجلس میں شمار کی جائے گی۔
دارالمصنفین کا معاملہ کراچی کے نیشنل بک فاؤنڈیشن سے ہورہا تھا، تو انھوں نے ہر طرح کی اخلاقی مدد پہنچائی تھی، جس کے لئے ان کا شکر گزار رہا، کراچی سے اعظم گڑھ آتے وقت گزشتہ فروری میں ان سے رخصت ہوا، تو انھوں نے بھینچ بھینچ کر پیار کیا، کیا معلوم تھا کہ پھر کبھی ملاقات نہ ہوگی، ۱۰؍ مئی کی رات کو پاکستان کی خبروں میں یکایک سناکہ پاکستان کے مشہور ادیب، نقاد اور شاعر وفات پاگئے، ان کی تدفین مکہ معظمہ کی جنت المعلیٰ میں ہوگی، یہ خبر سننے کے لئے تیار نہ تھا، غایت اضطراب میں رات کے زیادہ حصہ میں کروٹیں لیتا رہا ان کا ہشاش بشاش چہرہ ان کی سرمگیں آنکھیں، ان کی دلآویز باتیں، ان کے لطیفے چٹکلے غزل اور نظم سنانے میں ان کی مترنم آواز کانوں میں گونجتی رہی، خیال آیا کہ مولانا شبلیؒ، استاذی المحترم مولانا سید سلیمان ندویؒ، دارالمصنفین اور خود اس عاجز راقم کا ایک بڑا قدرداں جاتا رہا، استاذی المحترم نے کراچی پہنچ کر اسلامی ملکوں کے علماء کا ایک احتفال منعقد کیا تھا، اس کے انعقادمیں وہ بھی شریک تھے، اس موقع پر انھوں نے ایک نظم بھی کہی تھی، جس کے کچھ اشعار یہ ہیں،
یہ حقیقت آپ کو اچھی طرح معلوم ہے

Gآج دین حق جہاں میں ہر جگہ مظلوم ہے
Gدین سے بیزار دولت مند بھی نادار بھی

Qنفس کی خواہش کے بندے شیخ بھی مے خوار بھی
Oقوم کی وہ بیٹیاں جن کو کہ بننا تھا بتول

Mمدرسوں میں سیکھتی ہیں ناچ گانے کے اصول
Cمال و زر جاہ و تعیش منزل مقصود ہے

Gآدمی کا اس جہاں میں آدمی معبود ہے
Cزندگی نان و شکم کے ماسوا کچھ نہیں

Qدل میں سب کا خوف ہے خوف خدا کچھ بھی نہیں
Gہر طرف باطل کے پھندے ہر طرف بازیگری

Kروس کا فتنہ بھی ہے اور لعنت افرنگ بھی
Mاپنی منزل سے ہیں اب تک ناشناس و بے خبر

Gمطمئن ہیں آج تک ہم کفر کے دستور پر
â پھر اسی احتفال میں مصر، شام، عراق، الجزائر، افغانستان، برما اور انڈونیشیا کے علمائے کرام کو للکار کر کہا تھا کہ:
روک دو طاغوت کے طوفان کو بڑھ کرروک دو
ان کی اس نظم کی تعریف سید صاحب نے بھی کی تھی، وہ معارف کے قدرداں ہونے کی حیثیت سے اس کو پابندی سے پڑھتے، میرے قیام کراچی میں معارف جب ان کے پاس پہنچتا، ملتے کے ساتھ ہی اس کے مضامین کے معیار کی تعریف کرنے لگتے کہتے کہ اس کا معیار اس کے ابتدائی دور سے اب بہت اونچا ہوتا جارہا ہے، میرا جب کسی سے تعارف کراتے تو میری تمام تصانیف کا نام شمار کرنے لگتے، گزشتہ فروری میں اعظم گڑھ پہنچا تو ایک نعت معارف میں چھپنے کے لئے بھیجی جو معارف سے ان کے لگاؤ کا ثبوت تھا۔
ان کے کوئی اولا نہ تھی، غالباً اب سے چھ سات برس پہلے ان کی اہلیہ کی وفات ہوگئی تھی، اپنے چھوٹے بھائی مسرور حسین کے بچوں کو اپنی اولاد سمجھتے رہے، ناظم آباد میں ایک اچھی کوٹھی خرید لی تھی، جس کی اب لاکھوں روپے کی قیمت لگائی جاسکتی ہے، ان کی سجی سجائی کوٹھی سے ان کی خوش مذاقی اور خوش سلیقگی ظاہر ہوتی تھی، یہاں اپنے دوستوں کو برابر چائے اور کھانے پر بلایا کرتے، ان کے مدعوئین اختلافی مسائل چھیڑ کر ان کے خیالات سن کر محظوظ ہوتے، انھوں نے کراچی پہنچ کر ۱۹۴۸؁ء میں رسالہ فاران نکالا، اس کی اشاعت تو بہت زیادہ نہ تھی، لیکن یہ اپنے مضامین کی سنجیدگی اور علمیت کی وجہ سے قدر کی نظر سے دیکھا جاتا، اس رسالہ کی وجہ سے ان کی عزت و وقعت میں اضافہ ہوتا رہا، ان کے قدر دان ان کے رسالہ میں کافی اشتہارات دیتے جس سے ان کو کبھی مالی پریشانی اٹھانی نہیں پڑی وہ مشاعروں اور علمی و ادبی مجلسوں میں ہر جگہ مدعو ہوتے، جس مشاعرہ میں وہ نہ ہوتے، وہ سونا رہتا، گزشتہ مہینہ جدہ ایک مشاعرہ میں گئے، جس میں حفیظ جالندھری بھی مدعو تھے، مشاعرہ سے پہلے مکہ معظمہ عمرہ کے لئے گئے، وہاں سے آئے تو مشاعرہ میں شرکت کی، ڈھائی بجے رات کو اپنا کلام سنایا اور اس کے فوراً ہی بعد اپنے خالق حقیقی سے جاملے، ان کی میت مکہ مکرمہ لے جائی گئی، جہاں بیت اﷲ میں نماز جمعہ کے بعد نماز جنازہ ادا کی گئی اوراسی سرزمین میں سپردخاک کردیئے گئے، بڑے خوش قسمت تھے، مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی محبت ان کی گھٹی میں پلائی گئی تھی، وہ خود ایک جگہ لکھتے ہیں،
’’خدا شاہد اور میری آشفتہ مزاجیاں اس کی گواہ ہیں کہ زندگی ہر طرح کے مرحلوں سے گزری، مگر کسی عالم میں بھی وہ مکہ اور مدینہ کی یاد سے خالی نہیں رہی‘‘ اسی یاد کی بدولت اپنی آرزؤں کی جنت میں آخری آرام گاہ پائی۔
ان کی زندگی کے مرحلے کی مختصر داستان یہ ہے: وہ کبیر کلان ضلع بلند شہر یو۔پی میں ۱۹۰۷؁ء میں پیدا ہوئے، ان کے والد نے ان کا نام منظور حسین رکھا، مگر وہ اپنے تخلص ہی کی وجہ سے مشہور ہوئے، ۱۹۲۶؁ء میں مسلم یونیورسٹی سے میٹرک پاس ہوئے، ۱۹۲۸؁ء میں حیدرآباد گئے وہاں چودہ پندرہ برس رہ کر مختلف اوقات میں باب حکومت نظامت پٹنہ فوج، صدر محاسبی، ہائی کورٹ، دیوانی اور نظام فوجداری میں ملازم رہے، شائد وہیں مولانا عبدالقدیر بدایونی سے بیعت ہوئے، مگر معلوم نہیں پھر کیوں تصوف سے بیزار ہوگئے، وہ حیدرآباد سے نجف اشرف، کربلا، بصرہ اور مداین کے سفر پر گئے، یہاں ان کو اپنے ادبی ذوق کی وجہ سے مہاراجہ سرکشن پرشاد، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا مناظر احسن گیلانی، مولوی عنایت اﷲ، جوش ملیح آبادی، ہوش بلگرامی، نظم طباطبائی، ہادی رسوا، مسعود علی محوی، فانی بدایونی، نواب بہادر جنگ، نواب محمد خان اور نواب نثارجنگ کی مجلسیں بھی ملتی رہیں۔
حیدرآباد میں وہ اپنی نعتیہ نظم ظہور قدسی کی وجہ سے مقبول ہوئے، ان کو مولانا شبلیؒ سے بڑی عقیدت تھی، اس لئے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت پر جو نظم کہی اس کا عنوان بھی یہی رکھا جو مولانا شبلی نے اپنی سیرۃ النبی میں رکھا تھا، بڑی لمبی نظم ہے، اس میں نوے اشعار ہوں گے، پڑھتے وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاعر کے جذبات رسول اﷲﷺ کے خیر مقدم کے ترانے گنگنانے میں بے قابو ہورہے ہیں، اس کے احساسات کی مے عشرت چھلک رہی ہے، شادمانی کے پھولوں سے وہ لدا ہوا ہے، اس کی عقیدت کے موتی جھلملا رہے ہیں اس کے ہر شعر میں گل و لالہ کی رعنائی ہے، وہ نعت نہیں لکھ رہا ہے، بلکہ خوشی کا گیت گارہا ہے، ولادت کا ذکر آتا ہے تو جوش طرب میں کہتے ہیں، شہ ہر دوسرا محمد مصطفےٰ غمگسار بے کسان، شفیع عاصیاں، نبی آخری، جہاں کی روشنی، مظہر شان احد، فاتح بدر و احد، ہادی دین مبین رحمۃ للعالمین، شہ کون و مکان، وجہ تخلیق جہاں، رہبروں کے پیشوا، شمع بزم انبیاء، دست گیربے نوا، دردمندوں کی دوا، مخبر صادق لقب، سید والا نسب، چشمہ صدق و صفا، مہبط وحی خدا، عرش کے مسندنشیں، بزم خلوت کے مکین، خاتم پیغمبران، امیر کارواں، زندگی کے مدعا، محبوب خدا، پیکر صبرورضا، جدشاہ کربلا، قبلہ ارباب دین، صادق الوعدوامیں، دافع رنج والم، صاحب جودوکرم، رسول محتشم نبی محترم تشریف لائے، پھر سلام بھیجتے میں ان کے عقیدت مندانہ جذبات کا سیلاب روکے نہیں رکتا، ہمارے رسول نے بیکسوں کی جو دستگیری کی بادشاہی میں جو فقیری کی، اسرار محبت کو جس طرح سمجھا یا زخم کھاکر دشمنوں پر جو پھول برسائے اپنے خون کے پیاسوں کو جو قبائیں دیں، گالیاں سن کر جو دعائیں دیں، سچائی کی خاطر جو تکلیف اٹھائی بھوکے رہ کر جس طرح اوروں کو کھلایا، جس کی سادگی میں درس بصیرت ہے، جس کی ذات فخر آدمیت ہے، پھر اسی انداز میں مکیں گنبد خضری، شب معراج کے دولھا، شمع سبستان ازل، ابد کی بزم کے کنول، بہار گلشن عالم اور فخرمبین آدم پر درود بھی بھیجے ہیں، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس نعت کے لکھنے میں شاعر کے اندر عقیدت کے جذبات کارفرما تھے، یہ نعت ایسی مقبول ہوئی کہ اس کو ایک علیحدہ رسالہ میں شائع کیا گیا جس میں مولانا سید مناظر احسن گیلانی صدر شعبہ دینیات عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد کا تعارف ہے، اس میں وہ رقمطراز ہیں:
’’اس سلام میں ماہر نے حتی الوسع پیغمبر عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف اس قسم کے صفات منسوب کرنے سے احتراز کیا ہے، جن میں شان نبوت سے کوئی مناسبت نہیں ہے، لیکن عام شعرا جس کے انتساب میں بے باک ہیں، یہ تو ان کا سلبی کارنامہ ہے، اس کے بعد انھوں نے سیرت طیبہ کی مستند کتابوں اور احادیث کے مفید ذخیروں سے ان سچے واقعات کا انتخاب کیا ہے، جس کی توثیق و تصدیق پر محدثین اور علماء سیر کی مہریں ثبت ہوچکی ہیں، پھر انہیں واقعات صادقہ کو اپنے خاص بلیغ اور اچھوتے انداز میں نظم کا لباس پہنایا ہے‘‘۔
ؤپھر آگے چل کر لکھتے ہیں کہ:
’’ان کی شعریت کے متعلق اسی قدر عرض کرسکتا ہوں کہ وہ پڑھتے جاتے اور بے اختیار میرے دل سے آنسوؤں کا سیلاب بہہ بہہ کر آنکھوں کی راہ سے نکل رہا تھا، اگر شعر کی بلندی پستی کا معیار اس کی تاثیری کیفیت ہے، تو کم از کم اس معیار پر میرے خیال میں ان کی یہ نظم بلند مقام کی مستحق ہے‘‘۔
اخیر میں وہ لکھتے ہیں:
’’مجھے امید ہے کہ انشاء اﷲ تعالیٰ ماہر القادری کے اس اسلام کے بعد میلادی مجالس سلاموں کی تاثیر و افادیت میں ایک بڑا انقلاب پیدا ہوگا، مسلمانوں کو چاہئے کہ آئندہ اسی سلام کو میلاد کی مجلسوں میں پڑھنے اور پڑھانے کا دستور جاری کریں اور وہ دن کچھ دور نہیں کہ ماہر کا یہ سلام پشاور سے برما تک اور کاٹھ منڈو سے، راس کماری تک کے علاقوں کو فتح کرے گا‘‘۔
مولانا مناظر احسن گیلانی جیسے اہل دل دیوبندی عالم کی یہ ستائش جناب ماہرالقادری کی نعت کے لیے حرف آخر ہے اور یہ سلام واقعی بہت مقبول ہوا، اور خدا جانے کتنی مجلسوں میں پڑھا گیا، خود ماہر القادری صاحب کی زبان سے کتنی بار سناگیا ان کے پڑھنے کا انداز بھی ایسا تھا کہ وہ پڑھتے تو سننے والے کے دل سے آنسوؤں کا سیلاب بہ کر آنکھوں کی راہ سے نکلنا ناگزیر تھا، جناب ماہرالقادری نے اپنے اس سلام کو اس نعتیہ کلام کے مجموعہ کے ساتھ بھی شائع کیا، جس کا نام انھوں نے ذکر جمیل رکھا ہے، اس میں وہ لکھتے ہیں:
’’خدائے پاک کے ناموں کی قسم، رسول پاک کے مقدس نام کی لذت کبھی کم نہیں ہوئی، جتنی بار بھی محمد کہئے اک نیا کیف اور ایک نئی لذت محسوس ہوتی ہے، محمد رسول اﷲ سن کر یا کہہ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی کجکلاہیان بھی مجھے اپنی طرف نہیں کھینچ سکتیں، اﷲ کے نام کے بعد اسی نام پر خاتمہ چاہتا ہوں‘‘۔
اسی میں وہ یہ تحریر کرتے ہیں کہ:
’’میں نے اپنے آقا و مولا کی مدح لکھ کر کفارہ معاصی کی کوشش کی ہے، اﷲ کی رحمت اور نبی کی شفاعت سے کیا بعید ہے کہ یہی کارنیک وسیلۂ بخشش اور ذریعہ نجات بن جائے، قیامت کے دن ایک ہاتھ میں فردعمل اور دوسرے ہاتھ میں ذکر جمیل ہوگی، ذکر جمیل میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے مختلف طریقوں سے جو محبت و عقیدت کا اظہار کیا گیا ہے، عجب کیا کہ اس نعت گو کا یہی وسیلہ بخشش ہوجائے، اس میں ایک نعت صلی اﷲ علیہ وسلم کے عنوان سے ہے، جو اسی انداز میں کہی گئی جس میں اعظم گڑھ کے جناب اقبال سہیل کی نعت موجِ کوثر بہت مقبول ہوئی، وہ مجھ سے برابر کہتے رہے کہ اقبال سہیل کے بہت قائل اور معترف ہیں، اس مجموعہ کے اور دوسرے کچھ عنوانات یہ ہیں انسان گرے پیداش، اسیران بدر، حریت کا مبلغ اعظم، جشن ولادت دربار اقدس میں، پیغمبر انسانیت، جانوروں سے حسن سلوک، شاہ حسین کے دربار میں حضرت جعفرؓ کی تقریر، ساقی نامہ اور معراج کی رات وغیرہ‘‘۔
ان کی آخری تمنا یہ تھی کہ ذکر جمیل کا کچھ حصہ دربار اقدس میں حاضر ہوکر اپنی زبان سے عرض کریں اور اس کے بعد اسی جان حیات کے سامنے دم نکل جائے، جس کے قدموں پر جان نچھاور کرنے کے لیے دی گئی تھی، ان کی یہ تمنا بڑی حد تک پوری ہوئی، وہ ۱۹۵۴؁ء میں حج کے لیے گئے، ظاہر ہے کہ روضہ نبوی کے سامنے پہنچ کر ان کی کیا قلبی کیفیات ہوں گی، ذکر جمیل کے کن کن اشعار کو نہ دہرایا ہوگا اور اس وقت تو اپنی جان وہاں نچھاور نہیں کی لیکن ۱۹۷۸؁ء میں اپنے رسول کے مولد و منشاء میں سپردخاک ہوکر اپنی آخری تمنا پوری کی۔
وہ ۱۹۵۴؁ء میں حج کے لئے گئے تو واپسی پر کاروان حجاز کے نام سے اپنا سفرنامہ شائع کیا، جس میں ان کی پوری تصویر نظروں کے سامنے گھومتی نظر آتی ہے، وہ اس میں لکھتے نہیں دکھائی دیتے، بلکہ جن لوگوں کو ان کی صحبت میں ان کی باتیں سننے کا اتفاق ہوا ہے، ان کو اس کے پڑھنے میں محسوس ہوگا کہ وہ بول رہے ہیں، اور لوگ ان کو سن رہے ہیں، انھوں نے پورا سفرنامہ بہت ہی والہانہ انداز میں لکھا ہے، جب وہ حرم شریف پہنچے تو فجر کی نماز کے لیے اذان ہوئی، ان کو اس میں بڑی دلکشی محسوس ہوئی، صبح کا سہانا وقت تھا، بوقبیس کی چوٹیوں پر سپیدہ سحر کے آثار کا آغاز ہورہا تھا، حرم کے درودیوار میں ان کو بجلیاں نظر آئیں، بیت اﷲ کی جلالتِ شان اور دیواروں پر سیاہ غلاف کے سکوت کا باوقار منظر ان کے لئے جنت نگاہ بن گیا، اسی وقت بہت سے اشعار قلمبند کئے، جن میں سے کچھ یہ ہیں:
حرم میں اذان سحر اﷲ اﷲ

;کہ ہیں وجد میں بام و در اﷲ اﷲ
7یہ میز اب رحمت وہ رکن یمانی

)مقامات اہل خبر اﷲ اﷲ
;دھڑکتے ہوئے دل کا لے کر سہارا

+مناجات باچشم تر اﷲ اﷲ
7تجلی میں دھوئے ہوئے سنگریزے

1یہاں کے نجوم و قمر اﷲ اﷲ
3مقام ابراہیم پر یہ نمازیں

5یہ ہر سجدہ معراجِ سر اﷲ اﷲ
3جلال الٰہی کی تابندگی میں

5جھلکتے ہوئے بام و در اﷲ اﷲ
7وہ کعبہ جسے دیکھ لینا عبادت

-مسلسل ہے پیش نظر اﷲ اﷲ
æ حج کے بعد جب وہ مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے تو اس وقت بھی انھوں نے فی البدیہ کچھ اشعار کہے جن میں سے کچھ یہ ہیں:
پاک دل ، پاک نفس ، پاک نظر کیا کہنا

Aبعد مکہ کے مدینہ کا سفر کیا کہنا
Gجیسے جنت کے دریچوں سے جھلکتی ہوبہار

Eپہلی منزل ہی کے انوار سحر کیا کہنا
?تپش شوق بھی ہے گرمی موسم بھی ہے

Eاور پھر اس پہ مرا سوز جگر کیا کہنا
Kخشک آنکھوں کو مبارک ہو یہ طغیانی شوق

Cہی رواں اشک بہ انداز دگر کیا کہنا
sمدینہ منورہ پہنچ کر جب مسجد نبوی میں پہنچتے تو لکھتے ہیں:
یہ سروقامت ستون، یہ مصفا جھاڑ فانوس، یہ نظر افروز نقش و نگار ایک ایک چیز آنکھوں میں کھبی جارہی ہے، اس ظاہری چمک دمک سے بڑھ کر جمال و رحمت کی فراوانی! جیسے مسجد نبوی کے در و دیوار سے رحمت کی خنک شعاعیں نکل رہی ہیں،
دامان نگہ تنگ گل حسن تو بسیار

=گل چین بہار تو زدامان گلہ دارد
کی معنویت آج سمجھ میں آئی، تجلیوں کا وہ ہجوم کہ آنکھیں جلوے سمیٹے سمیٹے تھکی جاری ہیں، یہاں کے انوار کا کیا پوچھنا، یہ آفتاب جہاں تاب بے چارہ اس جلوہ گاہ کے ذروں کا ادنی غلام ہے دائیں بائیں اوپر نیچے، ادھر ادھر روشنی ہی روشنی اور نور ہی نور، مگر لطف یہ کہ آنکھیں خیرہ نہیں ہوتیں، یہ آنکھوں کا نہیں خود یہاں کی تجلیوں کا کمال ہے۔
انھوں نے مسجدنبوی کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ، حضرت عمر فاروق اعظمؓ، باب جبریل، بیت فاطمہؓ، صفہ، مسجد قبا اور میدان احد کا بھی والہانہ انداز میں ذکر کیا، سیدنا حمزہؓ کے مزار، جنت البقیع، سیدہ فاطمہؓ، حضرت امام حسنؓ، حضرت امام زین العابدینؓ، حضرت امام محمد باقرؓ اور حضرت امام جعفر صادقؓ، حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت عبداﷲ بن عمرؓ اور مشہور محدث امام مالکؒ کے مزارات کی زیارت میں ان پر جو کیفیات طاری ہوئیں، ان کو بہت ہی موثر انداز میں بیان کیا ہے، لکھتے ہیں کہ ایک ایک مزار پر دل کھینچا اور موت بھی یاد آئی، وہ قبرپرستی کے تو قائل نہیں تھے، مگر قمطراز ہیں کہ جنت المعلا کو دیکھ کر بڑا دکھ ہوا، اس میں صحابہ کرام، تابعین عظام اور اکابر اولیاء آسودہ ہیں، حضرت سیدہ خدیجہ الکبری رضی اﷲ عنہا کی قبر کو چھوڑ کر ہر طرف جھاڑ جھنکار، اونٹوں اور دنبوں کی مینگنیاں اور گندگی نظر آتی ہے، یہ تو ان نفوس قدسیہ کی قبریں ہیں جو ہم سب کے مخدوم اور محسن ہیں، عام مسلمانوں کی قبروں کے ساتھ بھی یہ سلوک جائز نہیں میرے دو شعر ان ہی تاثرات کی یادگار ہیں:
فغان کر دن کہ شکایۃً ہنسوں کہ اشک بہاؤں

Iکھڑا ہوا ہوں میں ٹوٹے ہوئے مزاروں پر
Eتجلیاں تو چھپانے سے چھپ نہیں سکتیں

;ہزار خاک اڑائے کوئی ستاروں پر
ú جب وہ تصوف اور قبرپرستی کے خلاف اپنے دوستوں سے بحث کرتے تو ان کے ان اشعار کا حوالہ دیا جاتا، وہ تھوڑی دیر کے لئے جزبز تو ضرور ہوجاتے مگر پھر اپنی طلاقت لسانی سے اپنے معترضین کو خاموش کردیتے، مگر اس سفرنامہ میں انھوں نے یہ لکھ کر اپنی فراخدلی کا بھی ثبوت دیا ہے کہ مدینہ منورہ ہی میں ترجمان السنتہ کے مصنف مولانا بدر عالم میرٹھی سے ملاقات ہوئی، ان کے بعض حکمت آمیز نکتوں نے میرے دل کی کتنی گرہیں کھول دیں، ان کے بعض ارشادات پر میں گفتگو کرسکتا تھا، مگر میں نے بات کو طول دینا پسند نہیں کیا، رشتہ تصوف میں کچھ ایسے سچ بھی پڑے ہوئے ہیں، جن کو سلجھانا دشوار ہے، انھوں نے باربار کہا کہ اہل تصوف، فقہا اور مفسرین پر کوئی نیک نیتی کے ساتھ ذرا سی بھی تنقید کرتا ہے تو اس دور افکار و الحاد میں متشککین اور منکرین کوشہ مل جاتی ہے اور انکار و تشکیک کے لئے مسالہ ہاتھ آجاتا ہے، یہ لکھنے کو تو لکھ گئے، لیکن اپنی نجی صحبت میں تصوف کے متعلق ان کے وہی خیالات رہے جن کا اظہار اپنی نجی صحبتوں میں کرتے رہے۔
ان کا سفرنامہ کاروان حجاز ان کے تمام ذہنی خیالات کا کشکول ہے، اس میں تبلیغی جماعت، تحریک پاکستان، قبرپرستی، تصوف، شاہ ابن سعود، شریف حسین، ترکوں کی حکومت اور دوسرے مسائل پر اپنی رائے کا اظہار کھل کر کیا ہے، ان کی طبیعت میں بڑی صاف گوئی تھی، ظاہر اور باطن یکساں تھا، اس لئے ان کے دل میں جو بات ہوتی وہ ان کی زبان اور تحریر میں برملا آجاتی، مگر اس کا لحاظ ضرور رکھتے کہ خیر کے بجائے شر نہ ابھرنے پائے، اس لحاظ س وہ محتاط تھے۔
۱۹۵۵؁ء میں ان کے کلام کا مجموعہ فردوس کے نام سے مکتبۂ چراغ راہ بیرون لوہاری دروازہ لاہور سے شائع ہوا، اس کے کچھ عنوانات یہ ہیں، لا الہ الا اﷲ، صبح سعادت، طیبہ کی زیارت ہوتی ہے، منقبت، سلام، سوئے مدینہ، نغمۂ حرم حجاز سے رخصت ہوتے ہوئے، نوائے جبریل، خلافت الٰہی، مغربی تہذیب، مسلمان عورت سے سجدہ و تکبیر، اشتراکیت وغیرہ ان کے کچھ برق پارے اور کچھ غزلیں بھی اس میں ہیں، ان کی شاعری پر تبصرہ مختصر طریقہ پر یہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کے سامنے ایک مقصد تھا ان کا مقصد ان کی شاعری پر چھایا ہوا ہے، ان کے نقاد کہہ سکتے ہیں کہ ان کے مقصد نے ان کے فن شاعری کو دبا رکھا ہے، وہ اپنے مقصد کی ترویج اپنے زور کلام کے ذریعہ جس طرح کرتے رہے، اس سے ان کی مخالفت بھی ہوتی رہی، لیکن وہ دب کر اپنی شاعری میں اپنے خیالات کا اظہار کرنا پسند نہیں کرتے، ان کے خیالات سے چاہئے کوئی کتنا ہی اختلاف کرے لیکن وہ آخر وقت تک ایک جواں ہمت اور جواں حوصلہ شاعر رہے، بہ بانگ دہل کہا:
میں کسی خوف سے خاموش نہیں رہ سکتا

Cظلمت شام کو میں صبح نہیں کہہ سکتا
’ وہ مولانا ابوالاعلی مودودی کے بڑے معتقد تھے، اور ان کے جو خیالات تھے، وہی اپنی شاعری میں پیش کرتے رہے، وہ اسلام پسند شاعر کہلانے میں فخر محسوس کرتے رہے، رہی ان کی غزل گوئی تو بڑے جوش کے ساتھ کہتے ہیں:
اب وقت ہے کہ شعر و ادب کی زبان سے

5مفہوم لاالہ بتاتے ہوئے چلو
x اور اپنے اس جذبہ پر ان کو پورا اعتماد رہا، اس لئے کہتے ہیں:
مرا ہر شعر ماہرؔ شارح آیات قدرت ہے،

Uوہاں جذب و یقین کی ترجمانی ہے جہاں میں ہوں
#وہ اپنی قادر الکلامی سے اس میں غزل کی وہ ساری خوبیاں پیدا کرسکتے تھے، جو غزل کے اجزائے ترکیبی کے لیے ضروری ہیں، ان میں وہ نغمہ، ترنم، موسیقیت، ایمائیت، جذباتیت اور کیفیت پیدا کرکے نرالی شان پیدا کرتے رہے، ان کی اس غزل کو پڑھ کر کون ہے جس میں کیف و سرور نہیں پیدا ہوسکتا ہے:
جب غم کی لطافت بڑھتی ہے ، جب درد گوارا ہوتا ہے
اشکوں میں تبسم ڈھلتا ہے ، فریاد میں نغمہ ہوتا ہے
فرقت کی بھیانک راتوں میں کیسا طرفہ تماشا ہوتا ہے
شمعیں بھی فروزاں رہتی ہیں اور گھر میں اندھیرا ہوتا ہے
بیمار کی حالت کیا کہئے درد آخری حد میں آپہنچا
پرستش کا زمانہ بیت گیا تسکین سے اب کیا ہوتا ہے
سورج کی شعاعیں افسردہ ، آنکھیں پرنم ، دل پژ مردہ
اک جب بھی سویرا ہوتا تھا اک اب بھی سویرا ہوتا ہے
وہ یاد سلامت ہے جب تک دنیا کے غموں کی کیا پروا
کانٹوں میں بھی رہ کر اے ہمدم! پھولوں میں بسیرا ہوتا ہے
سمجھو تو خموشی سب کچھ ہے ، دیکھو تو خموشی کچھ بھی نہیں
آواز بھی ہے ، الفاظ بھی ہیں مفہوم بھی پیدا ہوتا ہے
ماہرؔ مرے شعروں کے خاکے اس طرح مرتب ہوتے ہیں
کچھ دل بھی تقاضا کرتا ہے ، کچھ ان کا اشارا ہوتا ہے
انھوں نے کچھ افسانے اور ناول بھی لکھے ہیں، جن کے نام یہ ہیں، انگڑائی، طلسم حیات، حسن و شباب، نگینے، جب میں جوان تھی، کردار اور کانجی ہاؤس وغیرہ اسلام کے موضوع پر ان کے چھوٹے چھوٹے رسالے آخری رسول، خدا اور کائنات، دریتیم اور نقش توحید بھی شائع ہوئے، ان کے روزنامچے اور خطوط بھی طبع کئے گئے ہیں۔
ان کے اشعار کے اور دوسرے مجموعوں کے نام نغمات ماہرؔ، جذبات ماہرؔ اور محسوسات ماہرؔ ہیں اور بھی کچھ چھپنے کو باقی رہ گئے ہوں گے، ان تمام مجموعوں کو سامنے رکھ کر آئندہ ان کے شاعرانہ کمالات پر مقالے لکھے جائیں گے وہ ’’فاران‘‘ جس انداز میں نکالتے رہے وہ خود ایک بڑا کارنامہ ہے، ہندو پاکستان دونوں جگہوں کے ارباب قلم کو ڈر لگا رہتا کہ کہیں فاران کے مدیر کی نظر ان کی تحریروں پر پڑگئی تو وہ زبان، طرز ادا، طرز فکر کی ساری خامیوں کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیں گے، اس طرح وہ فاران کے ذریعہ سے علم و ادب کے بڑے محتسب بھی بنے رہے، فاران میں ’’نقش اول‘‘ کے عنوان سے جو کچھ لکھتے، وہ اس برصغیر میں شوق سے پڑھا جاتا، ان کے مجموعے بھی اگر شائع ہوں گے تو آئندہ ان سے بڑی علمی بصیرت حاصل ہوگی، انھوں نے فاران میں جو مضامین لکھے ہیں، ان کو بھی کتابی صورت میں شائع کرنے کی ضرورت ہے، ان سے علم و ادب میں گراں قدر اضافہ ہوگا، فاران کا جو سیرت نمبر ان کی ادارت میں نکلا تھا وہ بھی کتاب کی صورت میں شائع ہوجائے تو یہ بھی ایک بلند علمی کام ہوگا، انھوں نے اس کے نقش اول میں لکھا تھا:
’’دنیا اگر فوز و فلاح اور سکون و اطمینان چاہتی ہے، تو اسے چاہئے کہ وہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مقدس تعلیمات کے مطابق اپنے کو بدلے چاہے اس تبدیلی میں معاشرے کی ایک ایک اینٹ کو کیوں نہ اکھیڑنا پڑے، مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ تمدن و تہذیب اور معاشرے کی غلط کاریوں سے․․․․․․ رسول اﷲﷺ کے حکم میں ایک شوشہ کی بھی تبدیلی گوارا کرلی جائے، زندگی اور ترقی نام ہی اسوہ حسنہ کی اتباع کا ہے، جہاں یہ اتباع نہیں وہاں رجعت ہے، زوال ہے، اور موت ہے‘‘۔
ان کا یہ پیغام دنیا کے تمام گوشوں تک تو نہ پہنچ سکے گا، مگر پاکستان تو ان کے اس پیام کو کم از کم سن کر اس پر غور کرسکتا ہے۔
ان کو سیرو سیاحت کا بھی بڑا شوق تھا، ۱۹۶۹؁ء میں جنوبی اور مشرقی افریقہ کی دعوت پر وہاں کے مشاعرے میں شرکت کی تو روم، اسپین اور انگلستان کے مختلف شہروں کی سیاحت کرتے ہوئے کراچی واپس آئے، لندن تو مشاعرہ میں غالباً کئی بار گئے۔
وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں، خدا جانے ان کے بھائی مسرور حسین پر کیا گزری ہوگی، معلوم نہیں پاکستان کے علم و ادب کے حلقوں میں ان کے بغیر جو بے رونقی آگئی ہے، وہ پھر کب واپس آئے گی، ان کے احباب ان کی بذلہ سنجیوں سے محروم ہوکر جو سوگوار ہوئے ہوں گے ان کی سوگواری کب ختم ہوگئی، مولانا ظفر احمد انصاری ان سے مل کر اپنے بڑھاپے میں جوانوں کی جو رعنائی محسوس کرتے تھے، وہ ان کو اس بقیہ زندگی میں شاید ہی محسوس ہو، ان کی وفات پر مولانا ابوالاعلیؒ مودودی کی نمناک آنکھیں معلوم نہیں کتنے دنوں کے بعد خشک رہی ہوں گی، وہ اپنی نیکیوں عشق رسول کی تابناکیوں، اسلام کے نام پر دل کی اپنی دھڑکنوں کی بدولت کوثر و تسنیم کے کنارے ضرور کھڑے ہوں گے، مگر اپنے تمام ملنے والوں کو اپنا یہ پیام چھوڑگئے ہیں:
ماہرؔ میں محبت کے صحیفوں میں ملوں گا
ڈھونڈیں جو کبھی تجھکو میرے ڈھونڈنے والے

(صباح الدین عبدالرحمن، جون ۱۹۷۸ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...