Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ڈاکٹرخلیل الرحمن اعظمی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ڈاکٹرخلیل الرحمن اعظمی
ARI Id

1676046599977_54338198

Access

Open/Free Access

Pages

380

یادِ خلیل
مرزا غالب مرحوم نے عارف کی موت پر کہا تھا:
ہاں اے فلک پیر جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور
ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمی مرحوم کی خبر وفات سن بے ساختہ یہ شعرزبان پر آگیا، ابھی شاید وہ پچاس کے ہوں، بھلا یہ مرنے کے دن تھے، لیکن تقدیر کے راز کون سمجھ سکتا ہے، انّ اجل اﷲ اذا جاء لا یوخّر[نوح: ۴]۔
وہ بہت ہو نہار، لائق اور ذی استعداد تھے، اپنی صلاحیت سے انھوں نے اس کم سنی ہی میں اردو کے مشہور نقادوں، ممتاز ادیبوں اور اہم شاعروں کی صف میں اپنی جگہ بنالی تھی، ان کا نام ادبی حلقوں میں عزت سے لیا جاتا تھا اور ان کے خیالات کا وزن محسوس کیا جاتا تھا۔
وہ اعظم گڑھ کے مردم خیز خطہ سے تعلق رکھتے تھے، سرائے میر کے قریب ایک گاؤں سیدھا سلطان پور کے رہنے والے تھے، ان کے والد محترم مولانا محمد شفیع صاحب مرحوم بڑے نیک نفس اور مقدس بزرگ تھے، مدرستہ الا صلاح سرائے میر کا قیام انھیں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے، جس کے نظم ونسق کی ذمہ داری ترجمان القران مولانا حمیدالدین فراہی نے بعد میں علامہ شبلی مرحوم کے ایماء سے قبول کرکے اس کو بڑی شہرت و ترقی دی تھی، مولانا محمد شفیع مرحوم کے پانچ صاحبزادوں میں خلیل صاحب سب سے چھوٹے مگر اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے سب میں ممتاز تھے، انھوں نے شبلی نیشنل اسکول سے میٹرک پاس کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یو نیو رسٹی میں داخلہ لیا، تعلیم مکمل کر چکے تو وہیں شعبۂ اردو میں لکچرر ہوگئے، بعد میں ترقی کرکے ریڈر ہوئے، وہ اپنے استادوں میں پروفیسر رشید احمد صدیقی مرحوم کی عقیدت کا دم بھرتے تھے، وہ ان کے ادب و انشا کے بڑے مداح اور ان سے تلمذ اپنے لئے مایۂ فخر خیال کرتے تھے، رشید صاحب کی طرح ان کو بھی اردو اور علی گڑھ سے عشق تھا، سرسید نگر میں ایک خوبصورت اور کشادہ مکان تعمیر کرایا تواس کا نام ’’اردو باغ‘‘ رکھا، علی گڑھ سے اس قدر مانوس ہوگئے تھے کہ وہاں سے بہت کم باہر نکلتے، اپنے وطن بھی کئی کئی برس کے بعد آتے اور چارچھ روز سے زیادہ قیام نہ کرتے۔
خلیل الرحمن اعظمی کا تعلق ایک علمی و دینی گھرانے سے تھا، ان کے والد بزرگوار متورع عالم تھے، چاروں بڑے بھائی بھی دینی تعلیم حاصل کرکے علم و دین کی خدمت میں مشغول رہے، افسوس ہے کہ اب مولانا حبیب الرحمن اور پرواز اصلاحی کے سوا سب اﷲ کو پیارے ہوچکے ہیں، خلیل صاحب کی نشوونما اسی علمی ودینی ماحول میں ہوئی تھی، وہ علی گڑھ گئے تو ان کے خیالات میں ترقی پسندی آئی اور دین کی طرف میلان میں کمی ہوگئی، مگر الحمداﷲ چند برس قبل ان میں پھر تبدیلی آئی، وہ صوم صلوٰۃ کے پابند ہو گئے تھے اور دین و مذہب سے تعلق بڑھ گیا تھا، انھوں نے ایک مرد مومن کی طرح خندہ پیشانی کے ساتھ موت کا خیر مقدم کیا، اپنی آخری کتاب ’’مضامین نو‘‘ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں:
’’گذشتہ ایک سال سے موت وحیات کی جس کشمکش سے گذر رہا ہوں، اس نے زندگی کی بے ثباتی اور نا پائداری کے نقش کو گہرا کردیا ہے، یوں تو میں اﷲ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوں، مگر اس کے بلاوے اور پکار پر لبیک کہنے کو اپنے لئے باعث برکت سمجھتا ہوں، اس ’’جہانِ گندم وجو‘‘ میں ہمیشہ کے لئے رہنے، یہاں بستی بسانے اور چھاؤنی چھانے کی تمنا نہ پہلے تھی، اور نہ اب ہے‘‘۔
کتب بینی اور مطالعہ کا شوق بچپن سے تھا، رات رات بھر جاگ کر کتابیں پڑھتے تھے، اسی میں ان کی صحت خراب ہوگئی، جب شبلی اسکول میں زیر تعلیم تھے تو پابندی سے دارالمصنفین کے کتب خانہ میں آکر اخبار، رسالے اور کتابیں پڑھا کرتے تھے، اسی تعلق کی بنا پر اعظم گڑھ آتے تو دارالمصنفین بھی ضرور آتے اور مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی مرحوم اور جناب سید صباح الدین عبدالرحمن صاحب دیر تک علی گڑھ، دارالمصنفین اور اردو وغیرہ کے مسائل پر باتیں کرتے، یہاں کے پرانے کارکن مولوی عبدالباری صاحب سے زیادہ مانوس تھے، ان کے پاس اسی طرح بیٹھتے جس طرح طالب علمی کے زمانے میں بیٹھا کرتے، اپنی آخری کتاب ’’مضامین نو‘‘ انھیں کے نام معنون بھی کی ہے۔
ان کا حافظہ بہت اچھا تھا، جو کچھ پڑھتے سب ذہن نشین ہوجاتا، اردو ادبیات پر ان کی نظر بہت وسیع تھی، اردوکی ترقی پسند تحریک کا بڑی گہرائی اور وقتِ نظر سے مطالعہ کیا تھا۔
گفتگو دلچسپ اور معلومات افزا کرتے، یوں تو شعر و ادب کے سبھی شعبوں سے دلچسپی تھی مگر تنقید ان کا خاص موضوع تھا، وہ ادبی و تنقیدی مسائل میں اپنا خاص نقطۂ نظر رکھتے جس کو بہت مربوط اور مدلل انداز میں پیش کرتے تھے، چاہے کسی کو ان کے خیالات سے اتفاق نہ ہو مگر وہ ان کی قوت استدلال، جوش بیان، دلنشیں انداز، منطقیانہ ترتیب اور خود اعتمادی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا، ان کی گفتگو اور ان کی تحریر میں جانبداری و مصلحت کو دخل نہ ہوتا، وہ خود ترقی پسند ادیب تھے، مگر اس ادب کی خوبیوں اور خامیوں دونوں پر ان کی نظر تھی، اس کے انتہا پسندوں کی طرح ’’عوامی ادب‘‘ کی دھن میں اردو زبان کی پرانی روایات کو نظر انداز نہ کرتے، بعض نامور ترقی پسند ادیبوں کی تحریروں پر بھی بے لاگ تنقید کرتے، اظہار رائے میں نہ کوئی رو رعایت کرتے اور نہ کسی کی خوشی یا نا خوشی کی پرواہ کرتے، مولانا شبلی مرحوم کی عظمت کے معترف تھے مگر ان کے بعض ادبی و تنقیدی خیالات کے ناقد تھے اور مولانا کے عقیدت مندوں کے سامنے بھی ان کے متعلق بے جھجک اظہار خیال کرتے، اپنے ایک مضمون میں مولانا کے تنقیدی مسلک کی وضاحت کرکے اس پرکچھ ردوکدکی ہے، مگر آخر میں یہ اعتراف بھی کیا ہے:
’’شعرالعجم اس اعتبار سے قابل قدر ہے کہ اس نے اپنے دامن میں فارسی شاعری کے بہترین جواہر پاروں کو سمیٹ لیا ہے، شبلی نے ان کی تشریح و ترجمانی ایسے موثر انداز میں کی ہے کہ عجم کا حسن طبیعت ہم پر ایک لازوال نقش چھوڑ جاتا ہے، شبلی کی تنقیدی نگار شات نے کئی نسلوں کے مذاق سخن کی تربیت کی ہے، موجودہ دور میں بھی کافی دور تک ہماری رہنمائی کرسکتے ہیں‘‘۔
ایک مرتبہ کہنے لگے کہ مولانا شبلی نے میر انیس کی حمایت کے جوش میں ان کے کھاتے میں مرزا دبیر کے اچھے اشعار بھی ڈال دئے ہیں، جیسے:
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
رن ایک طرف چرخ کہن کانپ رہا ہے
میں نے کہا آپ خود جوش بیان میں خلاف واقعہ بات کہہ رہے ہیں، مولانا شبلی نے بھی اس شعر کو مرزا صاحب ہی کا بتایا ہے، کہنے لگے نہیں! جب میں نے ان کو موازنۂ انیس ودبیر دکھایا، تب جاکر چپ ہوئے، مگر ان کے قلم میں میانہ روی اور تحریر میں اعتدال تھا، اس لئے اختلاف کے باوجود شایستگی اور متانت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے نہ پاتا۔
خلیل الرحمن اعظمی کی زندگی سادہ تھی، وہ تکلف، بناوٹ، نمائش اور ظاہرداری کو پسند نہ کرتے تھے، جو ان کے دل میں ہوتا وہی زبان پر بھی، وہ اپنی کسی ادا سے رعونت یا اپنی عظمت کا احساس نہ ہونے دیتے، اعظم گڑھ آتے تو اپنے ایک ایک ساتھی اور دوست کو تلاش کرکے اس سے نہایت بے تکلفی سے ملتے، اپنے بزرگوں اور استاذوں سے عقیدت و احترام کا برتاؤ کرتے اور تواضع و انکسار سے پیش آتے، ان کی جو حیثیت تھی اس کی بنا پر جہاں جاتے اونچے سے اونچے درجہ کے لوگ ان کا خیر مقدم کرنے کے لئے تیار رہتے، مگر وہ اپنے دوستوں کے ساتھ رہنا پسند کرتے، اعظم گڑھ آتے تو میجر علی حماد عباسی صدر شعبۂ انگریزی شبلی نیشنل پوسٹ گریجویٹ کالج کے یہاں ہمیشہ قیام کرتے، جوان کے کلاس فیلو، بے تکلف رفیق اور گہرے دوست تھے، اس سال فروری میں راقم بمبئی گیا تو معلوم ہوا کہ وہ بھی آئے ہیں، ان سے ملنے کے خیال سے ان کے بڑے بھائی جناب پرواز اصلاحی کے پاس گیا اور ان کی قیام گاہ کے بارہ میں دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ اپنے اسکول کے ساتھی حاجی نیاز اعظمی کے یہاں مقیم تھے مگر اب چلے گئے ہیں۔
خلیل اعظمی نے کم عمر پائی، لیکن جو عمر پائی وہ اردو کی خدمت میں گذار دی، درس و تدریس ان کا اصلی مشغلہ تھا اور وہ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے اچھے اور کامیاب استاد تھے، تصنیف و تالیف سے مدت العمر سروکار رکھا، ان کے قلم نے نظم و نثر دونوں میں گلکاری کی ہے، کلام کے دو (۲) مجموعے ’’کاغذی پیرہن‘‘ اور ’’نیا عہد نامہ‘‘ چھپے ہیں، ان سے شاعری میں ان کی جدت طبع اور منفرد انداز کا پتہ چلتا ہے، لیکن ادیب و نقاد کی حیثیت سے ان کی زیادہ شہرت ہوئی ’’مقدمہ کلام آتش‘‘ ان کی طالب علمی کے زمانہ کی تحریر ہے، مگر اسی کی بدولت وہ اردو کے مشہور ادیبوں اور نقادوں میں شمار کئے جانے لگے، ’’نوائے ظفر‘‘ بھی اسی طرح کی کتاب ہے ’’فکروفن‘‘، ’’زاویۂ نگاہ‘‘ اور ’’مضامین نو‘‘ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے ہیں، جدید نظموں کا ایک انتخاب ’’نئی نظم کا سفر‘‘ کے عنوان سے کیا تھا، ان کی زیادہ اہم کتاب ’’اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک‘‘ ہے، جو ترقی پسند ادب کی تاریخ پر پہلی باقاعدہ کتاب ہے، یہ دراصل ان کے ڈاکٹریٹ کا مقالہ ہے، اس کے تین حصوں میں ترقی پسند مصنفین کی تحریک کی تاریخ، ان کی خدمات ادب کا جائزہ اور ان کے خیالات پر تنقید و تبصرہ کیا گیا ہے، مصنف نے یہ کتاب محنت و جستجو اور سلیقہ سے لکھی ہے، اس کی ترتیب و پیرایۂ بیان بھی عمدہ ہے، اعتدال و غیرجانبداری کی وجہ سے اس کو سنجیدہ ارباب ذوق نے پسند کیا ہے، مقالہ کے نگراں اور ممتحن جناب مجنون گورکھپوری اور پروفیسر رشید احمد صدیقی نے اپنی اپنی رپورٹ میں اس کی بہت تحسین کی تھی، جب یہ شائع ہوکر دارالمصنفین آئی تو سب سے پہلے مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی نے اس کو شوق اور دلچسپی سے پڑھا اور کئی نشستوں میں اس کی تعریف کرتے رہے اور مجھ سے فرمایا کہ میں خود اس پر ریویو کروں گا، ان کے تبصرے کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’مصنف نے بڑی محنت اور تلاش وتحقیق سے یہ کتاب لکھی ہے، اس کے لئے ترقی پسند ادب کا پورا دفتر کھنگالا ہے اور بڑے اعتدال و توازن اور حسن مذاق سے اس کا تنقیدی جائزہ لیا ہے، اس سے اس کی پوری سرگذشت اور اس کا ہر رخ سامنے آجاتا ہے، مصنف ایک مشاق اہل قلم اور دیدہ ور نقاد ہیں، یہ خصوصیت اس کتاب میں بھی نمایاں ہے اس سے اردو کے ادبی ذخیرے میں ایک اچھی کتاب کا اضافہ ہوا‘‘۔
خلیل الرحمن اعظمی کے ابھی متعدد مضامین کتابی صورت میں چھپنے سے رہ گئے ہوں گے، انجمن ترقی اردو کو ان کاایک مجموعہ شائع کرنا چاہئے، چند برس پہلے انھوں نے انجمن کے ہفتہ وار اخبار ’’ہماری زبان‘‘ میں ’’میرا صفحہ‘‘ کے عنوان سے ایک سلسلۂ مضامین شروع کیا تھا جسے اس وقت بہت پسند کیا گیا تھا، اس کا مجموعہ بھی شائع کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کی اٹھان بہت شاندار تھی، آئندہ ان سے بڑی توقعات وابستہ تھیں مگر ع خوش درخشید ولے شعلۂ مستعجل بود بلڈ کینسر کے موذی مرض نے ایک سال سے موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا کر رکھا تھا، بالآخر یکم جون ۷۸؁ء کو پیام اجل آگیا، اﷲتعالیٰ مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین۔
(ضیاء الدین اصلاحی، جولائی ۱۹۷۸ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...