Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ڈاکٹر سید عابد حسین

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ڈاکٹر سید عابد حسین
ARI Id

1676046599977_54338200

Access

Open/Free Access

Pages

382

ڈاکٹر سید عابد حسین
یہ سطریں لکھی جارہی تھیں کہ ڈاکٹر عابد حسین کے انتقال پر ملال کی خبر ملی، وہ جامعہ ملیہ کے جان نثار ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم کے رفیق قلبی، ایک بہت بڑے محب وطن، ایک قبل قدر فلسفی، اردو زبان کے مایہ ناز ادیب، ایک ماہر مترجم، ایک بلند پایہ مصنف، ایک محتاط اہل قلم، اسلام اور عصر جدید، پھر انگریزی رسالہ موڈرن اسلام کے صاحب دل اڈیٹر اور انسانی اخلاق کے بعض دلآویز اوصاف کے حامل کی حیثیت سے اپنے ہم وطنوں، معاصروں اور قدردانوں میں برابر یاد کئے جائیں گے دعا ہے کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ جنت نعیم عطا فرمائیں۔ (صباح الدین عبدالرحمن، دسمبر ۱۹۷۸ء)

 

ڈاکٹر سید عابد حسین
ڈاکٹر سید عابد حسین مرحوم کی وفات کو کم و بیش ایک مہینہ ہوچکا ہے، مگر اب تک دل ان کی جدائی پر تیار نہیں ہے، ان کا مسکراتا ہوا چہرہ ہر وقت نگاہ کے سامنے رہتا ہے، ان کی شفقت و محبت اور عنایت و کرم فرمائی رہ رہ کر یاد آتی ہے، اور ان کی دل آویز گفتگو کی آواز کانوں میں گونجتی رہتی ہے، وہ میرے استاد بھی تھے، اور محسن و مربی بھی تقریباً ۴۸ برس یہ روابط اس طرح قائم رہے کہ نہ میری عقیدت میں کوئی فرق آیا نہ ان کی شفقت میں کوئی کمی محسوس ہوئی، ان کے نام سے واقفیت تو ندوہ کی طالب علمی ہی کے زمانہ میں ہوگئی تھی، رسالہ جامعہ میں ان کے مضامین بھی پڑھے تھے، اور ان کی کتاب تاریخ فلسفہ اسلام بھی اسی زمانہ میں نظر سے گزری تھی، یہ اگرچہ طبع زاد نہیں تھی، بلکہ مشہور مستشرق دی بوئر کی کتاب کا ترجمہ تھی مگر ڈاکٹر صاحب نے اس خوش اسلوبی کے ساتھ اسے اردو میں منتقل کیا تھا کہ ترجمہ کا احساس نہیں ہوتا تھا، بلکہ اصل کا گمان ہوتا ہے۔
یہ شاید ان کا پہلا ترجمہ تھا، اہل نظر کو اسی سے ان کی صلاحیت کا انداز ہوگیا، آگے چل کر اس صلاحیت میں اور اضافہ ہوا، اور سارے ملک میں ان کی شہرت ہوگئی گاندھی جی کی خود نوشت سوانح عمری کے ترجمے کی مختلف لوگوں نے کوشش کی روزنامہ ہمدرد میں بھی ’’میرے تجربات زندگی کے‘‘ عنوان سے مدتوں اس کے ابواب شایع ہوتے رہے، مگر جب مکتبہ جامعہ نے ’’تلاش حق‘‘ کے نام سے عابد صاحب کا ترجمہ شائع کیا تو لوگوں کی آنکھیں کھل گئیں، اسی طرح پنڈت جواہرلال نہرو کی خود نوشت سوانح عمری کا ترجمہ ’’میری کہانی‘‘ کے نام سے شائع ہوا تو ہر طرف سے شور تحسین بلند ہوا، اس کے بعد انھوں نے متعدد کتابوں کے ترجمے کئے، اور پورے ملک میں ایک لائق مترجم کی حیثیت سے مشہور ہوگئے۔ وہ محض مترجم نہ تھے، بلکہ انھوں نے بہت سی کتابیں خود بھی لکھی ہیں، ان کی تحریر میں زبان کی صحت و شستگی، روانی و برجستگی، اور لطافت و حلاوت کے ساتھ زور بیان اور قوت استدلال بھی بہت ہے، وہ معلم بھی رہے ہیں، اس لیے ان کے اندر تفہیم کی غیر معمولی صلاحیت ہے، وہ اپنی بات کو دل میں اتارنے اور ذہن نشین کرنے کا ڈھنگ خوب جانتے ہیں زبان پر ایسی قدرت ہے کہ مشکل سے مشکل مسائل کو عام فہم بنادیتے ہیں، مگر عامیانہ انداز کو پاس نہیں آنے دیتے، ان کی سلاست رکاکت سے پاک ہوتی ہے، اور لطف بیان کہیں سے کلام کے وزن اور وقار کو گرنے نہیں دیتا بلکہ اس کی دل آویزی میں اضافہ کردیتا ہے۔
قنوج کے قریب داعی پور شرفا کی ایک پرانی بستی ہے۔ عابد صاحب وہیں کے رہنے والے تھے، اور سادات کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے اردو اور فارسی کی تعلیم کے بعد وہ انگریزی کی طرف متوجہ ہوئے اور میور سنٹرل کالج الہ آباد سے بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی، اس زمانہ میں علی گڑھ کے ایم۔ اے۔ او کالج کی مسلمانوں میں بڑی شہرت تھی، ڈاکٹر صاحب نے بھی وہاں ایم۔ اے میں داخلہ لیا لیکن زیادہ دنوں یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا، اور یورپ جانے کا موقع مل گیا، پہلی جنگ عظیم کو ختم ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا، سیاسی اعتبار سے جرمنی تباہ ہوگیا تھا، مگر اس کی یونیورسٹیوں کا علمی اثر اب بھی باقی تھا، برلن میں ڈاکٹر ایڈورڈ اشپرانگر فلسفہ کے نامور استاد تھے، ڈاکٹر صاحب ان سے وابستہ ہوگئے، اور کئی برس تک ان کی خدمت میں رہ کر پی۔ ایچ۔ ڈی کی سند حاصل کی۔
ڈاکٹر صاحب عملی سیاست سے تعلق نہیں رکھتے تھے، لیکن طبیعت آزادی پسند تھی، ان کی طالب علمی کا زمانہ تحریک خلافت اور کانگریس کے شباب کا زمانہ تھا، بچہ بچہ آزادی کے نشہ میں سرشار تھا، ہندو مسلمان، پارسی، سکھ سبھی آزادی کی جدوجہد میں شریک تھے، جوش و ولولہ اور قربانی و فدا کاری کی عجیب فضا تھی، ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کی انگریزی پالیسی سب پر آشکار ہوچکی تھی، اور فرقہ وارانہ اتحاد کے روح پرور نظارے ہر طرف نظر آرہے تھے، اس فضا میں ڈاکٹر صاحب جیسا حساس اور آزادی پسند نوجوان کس طرح بے تعلق رہ سکتا تھا، اس وقت جو نقوش ان کے دل پر ثبت ہوگئے وہ ساری زندگی باقی رہے، جب وہ علی گڑھ آئے تو وہاں خلافت اور کانگریس کے رہنماؤں کا اثر بہت بڑھ گیا تھا کالج کے احتیاط پسند عناصر نوجوانوں کو آزادی کی اس جدوجہد میں شرکت سے باز نہ رکھ سکے اور مولانا محمد علی کی سرکردگی میں ایم۔ اے۔ او کالج کے بہت سے طالب علموں، استادوں اور طلباء قدیم نے نیشنل مسلم یونیورسٹی (جامعہ ملیہ اسلامیہ) کی علی گڑھ ہی میں بنیاد رکھ دی۔
علی گڑھ میں عابد صاحب کا قیام زیادہ نہیں رہا، لیکن اس کے باوجود وہ وہاں کے ممتاز طلبہ اور اساتذہ سے واقف ہوگئے تھے، ڈاکٹر ذاکر حسین کو پہلی بار انھوں نے علی گڑھ ہی میں دیکھا تھا، اور ان کی ذہانت، طلاقت لسانی، حاضر جوابی، شرافت نفس، خدا پرستی اور انسانیت نوازی سے بے حد متاثر ہوئے، خود ان کا بیان ہے کہ انگریزی ادب میں ایم۔اے کرنے کے لیے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج میں داخل ہوا تو سارا کالج ذاکر حسین کی شہرت سے گونج رہا تھا، دو چار ملاقاتوں میں اچھی طرح اندازہ ہوگیا کہ میں نے ان کی غیر معمولی ذہنی اور اخلاقی صفات اور دلکش شخصیت کے بارے میں جو افسانوی روایتیں سنی تھی وہ بڑی حد تک صحیح تھیں، مجھے ان کی ذہانت میں ایک طرف ادراک وجدان کا اور دوسری طرف تفکر و تخیل کا ایک ایسا مرکب نظر آیا جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، آپ ان سے گفتگو کریں تو وہ چشم زدن میں بات کی تہہ تک پہنچ جاتے تھے، ان کی قوت فیصلہ بجلی کی طرح کوند کر صحیح حل کے مرکزی نقطہ کو واضح کردیتی تھی، ان کی تقریر پہلے سیدھی دل میں اتر جاتی تھی اور پھر استدلال کے ذریعہ دماغ کو قائل کرتی تھی، ان کی شخصیت میں بڑی دلکشی تھی، بحث و مباحثہ میں ان کے چبھتے ہوئے طنز و مزاح اور بے پناہ قوت مناظرہ کے سامنے ٹھہرنا مشکل ہوجاتا تھا، سرسری نظر سے دیکھنے والے کو ایسا لگتا کہ وہ ایک خوش باش، لاابالی مزاج رکھتے ہیں، مگر ان کے سینہ میں ایک پُرخلوص، پُرسوز اور پُرجوش دل تھا، اور اس دل میں محکم ایمان، اٹل ارادہ اور اتھاہ ہمت و حوصلہ تھا، اپنے ذہن کو مغربی علم و عقل کی روشنی سے منور کرنے کے باوجود انھوں نے اپنے دل میں نور ایمان کی شمع کو بجھنے نہیں دیا‘‘۔
کچھ عرصہ کے بعد ذاکر صاحب بھی برلن پہنچ گئے، اور پروفیسر زومبارٹ کی رہنمائی میں معاشیات کی تکمیل کرنے لگے، ذاکر صاحب معاشیات کے علاوہ فلسفہ تعلیم سے بھی بڑی دلچسپی رکھتے تھے، اور اس سلسلہ میں عابد صاحب کے استاد ڈاکٹر اشپرانگر سے خاص طور سے استفادہ کرتے تھے، نیز جرمنی کے نت نئے تعلیمی تجربوں سے بھی واقفیت حاصل کرتے رہتے تھے، یہ علم و تجربہ ان کے لیے جامعہ کے چلانے میں بہت مفید ثابت ہوا۔ برلن کے اس قیام میں عابد صاحب کا تعلق ان سے اور بڑھا۔ جس کی وجہ سے انھیں ان کے ساتھ جامعہ میں کام کرنے کا شوق پیدا ہوا۔
اس زمانہ میں پروفیسر محمد مجیب صاحب بھی آکسفورڈ یونیورسٹی سے بی۔ اے آنرز کی سند حاصل کرنے کے بعد پریس کے کاموں کو سیکھنے اور فن طباعت میں مہارت حاصل کرنے کی غرض سے برلن آگئے، اس طرح خدا نے جامعہ کے ان خدمت گزاروں کو یکجا کردیا، جن کی قسمت میں آئندہ تعلیم ملی کے اس سفینہ کی ناخدائی تھی، جو گرد اب حوادث میں گھرا تھا، اور بادمخالف کے تیز و تند جھونکے اسے تہ وبالا کرنے پر تلے ہوئے تھے، عابد صاحب اور مجیب صاحب کو پہلے جامعہ سے کوئی خاص تعلق نہ تھا، مگر ذاکر صاحب کی ذات ایسی پرکشش تھی، اور ان کے اندر دلداری و دلنوازی کی ایسی ادائیں تھیں، جن کی بنا پر مشکل ہی سے کوئی شخص ان سے متاثر ہوئے بغیر رہ سکتا تھا، پھر یہ لوگ تو وفور علم کے ساتھ ذہن ثاقب اور عقلِ حق شناس کے ساتھ دل درد مند بھی رکھتے تھے، اور ان کے اندر خدمت ملی کا جذبہ اور قوم کے بخت خفتہ کو بیدار کرنے کا حوصلہ تھا، بھلا یہ ذاکر صاحب سے متاثر کیوں نہ ہوتے، انھوں نے بھی جامعہ کے خدمت گزاروں میں شامل ہونے کا عزم کرلیا۔ ذاکر صاحب نے ان کے سامنے جامعہ کی غربت و فلاکت کا ذکر کیا اور بتایا کہ وہاں پھولوں کی سیج نہیں بلکہ صحرائے پر خار سے دوچار ہونا پڑے گا۔ لیکن اس سے ان بلاکشانِ شوق کے ارادہ میں کوئی ضعف نہیں آیا، اور ہر قسم کے سود و زیاں سے بے نیاز ہوکر ذاکر صاحب کی پرخلوص رفاقت میں ساری زندگی گزار دینے کا ارادہ کرلیا۔
اتفاق سے اسی زمانہ میں حکیم اجمل خان جرمنی آئے، وہ ایک حاذق طبیب اور ممتاز قومی رہنما ہونے کے علاوہ جامعہ کے امیر (چانسلر) بھی تھے، ذاکر صاحب جامعہ کے تعلق کی بنا پر ان سے واقف تھے، لیکن مجیب صاحب اور عابد صاحب کی یہ پہلی ملاقات تھی، اس وقت ہندوستان میں آزادی کی تحریک کمزور ہوگئی تھی، اور خلافت و کانگریس دونوں حلقوں میں بڑی افسردگی تھی، قوم پھر پیچھے کی طرف مڑنے لگی تھی، اور طلبہ آزاد تعلیم گاہوں کے بجائے سرکاری اسکولوں اور کالجوں کی جانب رخ کررہے تھے، ان حالات میں جامعہ کا علی گڑھ میں چلنا دشوار تھا، پرجوش کارکن ایک ایک کر کے رخصت ہورہے تھے، اساتذہ بھی اس ملی درسگاہ کو چھوڑ کر سرکاری اداروں کی طرف جارہے تھے، اس فضا میں حکیم صاحب کو یہ نوجوان بہت غنیمت معلوم ہوئے، انھوں نے ان کے اندر جامعہ میں آنے کا شوق اور اس کے ذریعہ ملک و ملت کی خدمت کا جذبہ پیدا کیا، ذاکر صاحب کی کشش انگیز شخصیت نے پہلے ہی ان لوگوں کو متاثر کررکھا تھا، حکیم صاحب کی ملاقات اور گفتگو نے اس جذبہ کو اور بڑھا دیا، عابد صاحب نے حکیم صاحب کی اس ملاقات کا اپنے ایک مضمون میں تفصیل سے ذکر کیا ہے۔
حکیم صاحب ہندوستان واپس آئے تو جامعہ کا حال بیحد ابتر نظر آیا۔ طلبہ بے چین اساتذہ پریشان، کارکن بددل، امناد (ٹرسٹی) مستقبل سے مایوس اور رہنما یا ن قوم دل برداشتہ تھے، بظاہر اس ادارہ کا دم واپسین بہت قریب محسوس ہوتا تھا، ان حالات میں گاندھی جی کی مدد سے حکیم صاحب جامعہ کو علی گڑھ سے دہلی لائے اور قرل و باغ میں طبیہ کالج کے قریب کرایہ کے مکانوں میں اس اجڑی ہوئی تعلیمی بستی کو پھر سے بسانے کا انتظام کیا، چند مہینوں کے بعد عابد صاحب اور مجیب صاحب ذاکر صاحب کی رفاقت میں دہلی پہنچ گئے، ان لوگوں کے آجانے سے جامعہ کی ڈوبتی ہوئی کشتی پھر ابھر آئی یہ تینوں نو عمر تھے، جامعہ کے مقاصد بہت عظیم تھے، مگر حالات بے حد ناساز گار تھے، کسی کو مشکل سے یقین آتا تھا کہ یہ ناتجربہ کار نودارد اس ادارہ کو حیات نو بخشیں گے، مگر اپنے وسیع علم، مخلصانہ خدمت اور مسلسل محنت کی بدولت بہت ہی جلد یہ لوگ سب کی توجہ کا مرکز بن گئے، جامعہ کے بچے کھچے اساتذہ، طلبہ اور کارکنوں میں ایک نئی امنگ پیدا ہوئی، اور تعلیم و تربیت کا کام بڑے جوش اور ہوشمندی کے ساتھ شروع ہوگیا، ذاکر صاحب اس مختصر گروہ کے قافلہ سالار اور عابد صاحب اور مجیب صاحب ان کے یمین و یسار تھے۔
ان لوگوں کے دلوں میں جامعہ کا بہت ہی بلند تصور تھا، اور اس کے ذریعہ وہ ملک و ملت کو ایسے رخ پر لے جانا چاہتے تھے، جو امن و سکون، اعتبار و اعتماد، خلوص و محبت، اور ہمدردی و بہی خواہی کی شاہراہ تک پہنچائے، بقائے باہم کے اصول کو اس ملک میں رواج عام حاصل ہو، اور رنگ برنگ پھولوں کے گلدستہ سے قوم کی شان دوبالا ہوسکے، اس کام میں عابد صاحب اور مجیب صاحب سرگرمی کے ساتھ ذاکر صاحب کا ہاتھ بٹاتے تھے، ان حضرات کی بہت سی تحریریں آج بھی موجود ہیں جن سے ان کے خیالات اور جدوجہد کا پتہ چلتا ہے، عابد صاحب کی زبان میں کسی قدر لکنت تھی، اس لیے ان کو بولنے میں دقت ہوتی تھی، لیکن اس لکنت کے باوجود وہ درس بھی دیتے تھے، اور تقریر بھی کرتے تھے، مگر اس لکنت کی تلافی اﷲ نے اس طرح کی تھی کہ انھیں بہت سلجھا ہوا دماغ، فکر عمیق اور قلم سیال عطا کیا تھا، ان کے قلم کی روانی نے جامعہ کی بڑی خدمت کی ’’مسلمانوں کی تعلیم اور جامعہ ملیہ‘‘ کے نام سے انھوں نے ایک کتاب لکھی تھی جو کہنے کو تو جامعہ کے مقاصد، طریق کار اور نصاب و نظام تعلیم کا ایک خاکہ ہے، لیکن اس کے اندر تعلیمِ ملّی کا جو منصوبہ پیش کیا گیا ہے، وہ ہمیشہ اس میدان میں کام کرنے والوں کی رہبری کرتا رہے گا۔
یہ پہلے لکھ چکا ہوں کہ جامعہ سے واقفیت ندوہ کی طالب علمی ہی کے زمانہ میں ہوچکی تھی اپنے شفیق استاد مولانا عبدالرحمن نگرامی مرحوم کی زبان سے بارہا اس کا ذکر سنا تھا شیخ الہند کا خطبہ تاسیس اور سرپی، سی، رے کا خطبہ تقسیم اسناد بھی نظر سے گزر چکا تھا، جامعہ کے بعض طلبہ سے ملاقات بھی ہوچکی تھی، اور کچھ ہمارے ندوہ کے فاضل بھی وہاں پہنچ چکے تھے، ان سب ذرائع سے جامعہ کے بارے میں کافی معلومات حاصل ہوگئی تھیں، اور ذاکر صاحب کے ساتھ عابد صاحب کا نام اس طرح ذہن نشین ہوگیا تھا کہ دونوں توام بھائی معلوم ہوتے تھے، مئی ۱۹۳۰؁ء میں ایک معمولی سی بات پر ندوہ میں بڑی اسٹرائک ہوگئی اور تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنا پڑا، اس موقع پر انگریزی زبان اور جدید علوم کی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے جامعہ جانے کا خیال ہوا، ذاکر صاحب اس زمانہ میں شیخ الجامعہ (وائس چانسلر) تھے، ان کو صورت حال لکھی اور درخواست کی کہ اگر ہمیں اپنے زیر سایہ جگہ دے سکیں تو حاضر ہوں، اس درخواست کی قبولیت کا بہت کم یقین تھا، مگر ڈاکٹر ذاکر صاحب کے دل میں خدا نے کچھ ایسی ہمدردی پیدا کی کہ منظور ہوگئی، اور چند دن میں ہم جامعہ پہنچ گئے، اس سفر میں میرے عزیز دوست رئیس احمد جعفری مرحوم اور عبدالمجیب سہالوی ساتھ تھے، بعد میں محمد ابراہیم عمادی، رشید اختر، اور خلیل شرف الدین بھی ندویوں کے اس قافلہ سے آملے اور ماضی کے واقعات کو نظر انداز کر کے مستقبل کی تیاری میں لگ گئے۔
اس وقت عابد صاحب اورنگ آباد میں تھے، اور ڈاکٹر عبدالحق کے ساتھ انگریزی اردو ڈکشنری مرتب کررہے تھے، مجیب صاحب بھی تصنیف و تالیف کے سلسلہ میں وہیں مقیم تھے، شاید روسی ادب کی تاریخ لکھ رہے تھے، لیکن ہمارے داخلہ کے چند ہی ماہ بعد تحریک آزادی کو پھر فروغ ہوا، اور قید و بند کا سلسلہ شروع ہوگیا،جامعہ، آزادی پسندوں کا مرکز تھا، آزادی کی اس جدوجہد کا اس پر اثر ناگزیر تھا، چنانچہ کئی ممتاز اساتذہ اور طلبہ تعلیم گاہ سے نکل کر سیاست کے میدان میں پہنچ گئے، اور وہاں سے جیل بھیج دئے گئے، حکومت کی دار و گیر سے جامعہ کو بچانے کا کام تو ذاکر صاحب اور ان کے مشیر و معاون کسی نہ کسی طرح کررہے تھے، لیکن اساتذہ کی کمی کا کیا علاج تھا، جامعہ جیسی حکومت کی معتوب اور تہی مایہ درسگاہ میں آکر کون اپنے کو مصائب میں مبتلا کرتا، بالآخر عابد صاحب اور مجیب صاحب کو اورنگ آباد سے بلانا پڑا، ایک روز ہم لوگ ریاضی کے استاد حاجی برکت علی صاحب کے درجہ میں پڑھ رہے تھے، اچانک دو اجنبی ان سے ملنے آگئے، معلوم ہوا کہ یہ ڈاکٹر عابد حسین اور پروفیسر محمد مجیب ہیں، عابد صاحب کے چہرہ پر خاصی بڑی داڑھی تھی، جو بعد کو برقرار نہیں رہی، مگر ان کے دل میں اس کی جڑیں باقی رہیں، اور زندگی کے آخری دور میں پھر چہرہ پر اسی طرح نمودار ہوگئی، یہ ان کے مذہبی جذبات کا اثر تھا، وہ زندگی کے کسی دور میں مذہب سے غافل نہیں رہے، ایمان ان کے دل و دماغ دونوں میں پیوست تھا، وہ وجدانی طور پر بھی مسلمان تھے، اور علم و استدلال کے ذریعہ بھی انھیں اسلام کی صداقت کا یقین تھا، اور اس کی اشاعت و ترقی کے لیے کوشاں رہتے تھے۔
اس زمانہ کی انگریزی حکومت جامعہ کی مخالف تھی، اس کی سند ہندوستان میں کہیں تسلیم نہیں کی جاتی تھی، ان حالات میں طلبہ کی قلت لازمی تھی، ایسی صورت میں فلسفہ کی تعلیم کا کیسے انتظام ہوتا، عابد صاحب اس زمانہ میں کالج کے طلبہ کو اردو پڑھاتے تھے، اس کے علاوہ رسالہ جامعہ کی ادارت اور اردو اکیڈمی کی نظامت بھی ان کے سپرد تھی، جامعہ کے طلبہ میں اردو کا جو ذوق پیدا ہوا وہ بہت کچھ عابد صاحب کا رہین منت ہے، اردو اکیڈمی کے ذریعہ انھوں نے بیش بہا خدمات انجام دیں انکے اہتمام میں بڑے معرکے کے مشاعرے ہوئے، اور اعلیٰ درجہ کے مضامیں پڑھے گیے، ایسی محفلیں اب کاہے کو دیکھنے کو ملیں گی، ان مشاعروں میں جگرمرادآبادی، حفیظ جالندھری، اصغر گونڈوی، حسرت موہانی، ثاقیب لکھنوی، ظریف لکھنوی، سعید بریلوی، ساحل دہلوی، منور لکھنوی، برق دہلوی اکابر شعراء شریک ہوتے اور اپنے کلام سے حاضرین کو محظوظ کرتے، یہ مشاعرے بڑے باوقار اور پرسکون ہوتے تھے، مضمون خوانی کی مجلسیں بھی بڑی شاندار ہوتی تھیں، مولانا سید سلیمان ندوی، خواجہ غلام الثقلین، مولانا اسلم جیراج پوری، پروفیسر حبیب الرحمن، مولانا عبدالرؤف دانا پوری، خالدہ ادیب خانم، حسین رؤف بے، ڈاکٹر بہجت وہبی کس کس کو یاد کیجئے جامعہ کے ہال میں کیسے کیسے اصحاب علم رونق افروز ہوچکے ہیں، غیر ملکی مقالہ نگاروں کے ترجمے اکثر ڈاکٹر عابد صاحب کیا کرتے تھے، خالدہ خانم کے مقالات کا مجموعہ ’’ترکی میں مشرق و مغرب کی کشمکش‘‘ ان ہی کے قلم سے کتابی شکل میں اردو میں منتقل ہوا، اور آج تک اس باب میں تاریخ کا ایک مستند ماخذ سمجھا جاتا ہے، ان جلسوں کی صدارت بھی بڑے نامور اصحاب نے کی ڈاکٹر اقبال، مسز سروجنی نائیڈو، ڈاکٹر انصاری، مولانا سید سلیمان جیسے صاحبانِ علم کے خطابات صدارت نے ان مجالس کی رونق دوبالا کردی۔
کتابوں کی نشر و اشاعت کا کام مکتبہ جامعہ کرتا تھا، ان کی ظاہری آرائش و زیبائش کا اہتمام مکتبہ کے منیجر حامد علی خان صاحب کرتے تھے لیکن کتابوں کا معنوی وزن عابد صاحب کی توجہ کا رہین منت ہوتا تھا۔
عابد صاحب بہترین مشیر تھے، ان کی سوجھ بوجھ سے جامعہ کو بہت فائدہ پہنچا، غور و فکر کی صلاحیت ان کے اندر ہمیشہ بیدار رہی، بارہا نازک حالات میں ان کے مشورہ سے پیچیدہ مسائل حسن و خوبی کے ساتھ حل ہوگئے، مجھے اس کا ذاتی تجربہ ہے، ۱۹۵۱؁ء میں میں اُن کی طلب پر جامعہ آیا، اُس وقت وہ کالج کے پرنسپل تھے، چند سال براہ راست اُن کی ماتحتی میں کام کرنے کا موقع ملا، اس اثناء میں اور اس کے بعد بھی اُن کو بہت قریب سے دیکھنے اور ان کے طریقہ کار کو سمجھنے کا موقع ملا، اس زمانہ کی مشکلات کو آج سمجھنا دشوار ہے، تقسیم ملک سے فضا میں جو تلخی پیدا ہوگئی تھی، اس کا اثر ہنوز باقی تھا، طلبہ کی تعداد قلیل، اساتذہ کم، مالی وسائل محدود اور عمارتیں برائے نام تھیں، ہندوستان کی یونیورسٹیاں عموماً جامعہ کی سندیں تسلیم نہیں کرتی تھیں تعلیم کا دائرہ بہت تنگ تھا، چند ہی مضامین کی تعلیم کا انتظام تھا، ان سب پریشانیوں پر مستزاد یہ کہ مولانا ابوالکلام آزاد اور پنڈت جواہر لال نہرو کے اصرار پر ذاکر صاحب مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوگئے تھے، ان کا قیام علی گڑھ میں رہتا تھا، اور جامعہ ان کی باضابطہ رہنمائی سے محروم ہوگئی تھی، ان حالات میں جامعہ کو برقرار رکھنا ہی مشکل تھا، چہ جائیکہ اس کو ترقی دی جائے، لیکن مجیب صاحب اور عابد صاحب نے بڑی ہمت کے ساتھ ان مشکلات کا مقابلہ کیا، ذاکر صاحب کے خالی عہدہ کو مجیب صاحب نے سنبھالا، اور اعلیٰ تعلیم کی سربراہی عابد حسین صاحب نے اپنے ذمہ لی، ان دونوں کی تندہی اور شبانہ روز کی جانفشانی نے بند راہیں کھول دیں، اور رفتہ رفتہ جامعہ ترقی کی منزلیں طے کرنے لگی، حکومت کی امداد میں اضافہ ہوا، جامعہ کو ایک حد تک یونیورسٹی کا درجہ ملا، نئے مضامین داخل نصاب ہوئے، آرٹس اور سائنس کے متعدد شعبے کھلے، متعدد عمارتیں بنیں، ملک کی یونیورسٹیوں میں اس کی سندیں تسلیم ہوئیں اور حکومت نے اس کے مصارف کی پوری ذمہ داری اپنے سر لی، ڈاکٹر صاحب کے بعد مجیب صاحب جامعہ کے سربراہ تھے انھوں نے جامعہ کی خاطر بے حد مشقت برداشت کی، مگر اس ساری جدوجہد میں عابد صاحب ان کے مشیر خاص اور معین کار تھے وہ مسائل و حالات پر غور کرتے منصوبے بناتے، وسائل تلاش کرتے اور اشخاص کو ہموار کرتے، اس طرح مجوزہ اسکیم کو کامیابی کی منزل تک پہنچاتے انہیں آدمیوں سے کام لینے کا بڑا سلیقہ تھا جامعہ کی ترقی کے لیے انھوں نے معلوم نہیں کیا کیا جتن کیے اور کس کس طرح مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کی، سطح کے اوپر سبھی کو نظر آتا ہے لیکن اس کے نیچے کا حال کم ہی لوگوں کو معلوم ہوتا ہے۔
جامعہ کے علاوہ ملک و ملت کی خدمت سے بھی وہ کبھی غافل نہیں ہوئے اور زبان و قلم کے ذریعہ اصلاح حال کی تدبیر کرتے رہے تقسیم سے پہلے رسالہ جامعہ اور اپنی تصانیف و تراجم کے ذریعہ انھوں نے باشندگانِ ملک اور ابنائے ملت کے ذہن کی تعمیر اور خیالات کی اصلاح کے لیے بڑا کام کیا، اور جب ۴۷؁ء میں فرقہ وارانہ کشیدگی حد سے بڑھ گئی اور جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت دشوار ہوگئی اس وقت انھوں نے ’’نئی روشنی‘‘ کے نام سے ایک ہفتہ وار اخبار نکالا اور اس کے ذریعہ گم کردہ راہ انسانوں کی رہبری کی، انھوں نے ان کے سامنے منزل کی نشاندہی کی اور وہاں تک پہنچنے کے لیے سیدھی راہ دکھائی انھوں نے جزئیات و فروعات میں الجھنے کے بجائے اصول کی طرف توجہ دلائی اور شرافت و نیک نفسی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی تلقین کی، افسوس ہے کہ یہ اخبار زیادہ عرصہ تک جاری نہ رہ سکا، لیکن اپنی مختصر مدت حیات میں بیش بہا خدمت انجام دی، معلوم نہیں اس کے مضامین کے ذریعے کتنے مایوس دلوں کو امید کی شعاع نظر آئی، کتنے لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کو استقامت نصیب ہوئی، اور کتنے پریشان حالوں کو سکون حاصل ہوا۔
۱۹۶۹؁ء مین انھوں نے عصر حاضر کے چیلنج کا جواب دینے کے لیے اردو میں ’’اسلام اور عصر جدید‘‘ اور انگریزی میں ’’اسلام اینڈ دی ماڈرن ایج‘‘ نامی دوسہ ماہی رسالے نکالے وہ چاہتے تھے کہ مسلمان زمانہ کے تقاضوں کو سمجھیں اور اسلام کی صحیح تعلیمات کی روشنی میں ان مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کریں جن میں آج سارا عالم مبتلا ہے ان کا خیال تھا کہ مسلمان خدا کے عالمگیر پیغام کے حامل ہیں ان کا فرض ہے کہ ایک طرف مغربی تہذیب کا مطالعہ کر کے اس کے امراض کا پتہ چلائیں دوسری طرف اسلامی تعلیمات کا گہرا مطالعہ کر کے ان امراض کی روک تھام اور علاج کی تدبیریں بتائیں اس رسالہ کے موضوعات بحث ان کے الفاظ میں حسب ذیل تھے:
۱۔ عصر حاضر کی مغربی تہذیب کے مختلف پہلوؤں کا تنقیدی مطالعہ اور ان عناصر کی نشاندہی جو اسلام کی روحانی اور اخلاقی تعلیم سے ہم آہنگ ہیں اور مسلمانوں کی جائز ذہنی اور مادی ترقی میں مدد دے سکتے ہیں خصوصاً سائنس کے دائرہ فکر کا اور سائنسی انداز نظر کی تشریح اور سائنس کی رفتار ترقی کا جائزہ۔
۲۔ اسلامی تعلیم اور اسلامی تہذیب کے ان پہلوؤں پر بحث جو مسلمانوں کے ہندوستان کے، اور دنیا کے اہم ترین مسائل حاضرہ کے حل کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔
۳۔ مسلمانوں کے ان کارناموں کا ذکر جنھوں نے انسانیت کے علمی و تہذیبی سرمایہ میں اضافہ کیا۔
۴۔ ان مسائل پر بحث کہ اسلام اور دنیا کے دوسرے بڑے مذاہب کس طرح اور کس حد تک مل کر روحانی اور اخلاقی اقدار کے مقابلہ میں تشکیک اور انکار کے اس طوفان کا مقابلہ کرسکتے ہیں، جو دنیا میں اٹھتا ہوا نظر آرہا ہے۔
۵۔ اسلامی معاشروں میں تجدد کی تحریکوں کا تنقیدی مطالعہ۔
۶۔ اسلامی معاشروں کی علمی تعلیمی اور تہذیبی رفتار ترقی کا جائزہ۔
۷۔ اسلام سے متعلق مطبوعات پر تبصرہ۔
ڈاکٹر صاحب نے ان مقاصد کی تکمیل کے لیے ’’اسلام اینڈ دی ماڈرن ایج سوسائٹی‘‘ قائم کی تھی، یہ رسالے اسی سوسائٹی کی طرف سے نکلتے تھے، کتابوں کا ایک سلسلہ بھی پیش نظر تھا، ان میں سے بعض تیار ہوچکی ہیں اور بعض تیار ہورہی ہیں، ڈاکٹر صاحب کے اندر جب تک سکت رہی وہ سوسائٹی کی آمدنی بڑھانے کی کوشش کرتے رہے، اس کے لیے خط و کتابت کے علاوہ انھوں نے طویل دورے کیے، ان کوششوں سے چند ہی برس میں سوسائٹی نے بڑی ممتاز حیثیت حاصل کرلی، کئی بین الاقوامی سیمینار منعقد ہوئے، جن میں ہندوستان کے علاوہ یورپ، امریکہ اور افریقہ کے نامور اہل قلم نے شرکت کی، اگر وہ تندرست رہتے، تو سوسائٹی کی بنیاد مستحکم ہوجاتی، لیکن ان کی صحت جو کبھی اچھی نہ تھی، مسلسل افکار اور کثرت کار کی وجہ سے گرتی گئی پیرانہ سالی میں مدافعت کی قوت کمزور ہوگئی تو امراض کا ہجوم ہوا، دو تین سال سے ان کی حالت خراب ہوتی جارہی تھی لیکن جہاں تک ہوسکتا اپنے کو سنبھالتے اور شدید علالت کے باوجود کام کرتے رہتے، مگر ادھر تین چار ماہ سے بالکل بستر سے لگ گئے تھے، ۶؍ نومبر کو انجمن جامعہ کے سلسلہ میں دہلی گیا تو ان کے یہاں بھی حاضر ہوا اس وقت غنودگی طاری تھی کچھ دیر بستر کے پاس کھڑا انھیں دیکھتا رہا، اُن کی یہ حالت دیکھ کر بہت رنج ہوا بیگم صاحبہ بھی بہت متاثر تھیں، اور صبر و ضبط کے باوجود اُن کے چہرے پر رنج و ملال کے گہرے آثار نمایاں تھے، کیوں نہ ہوکے، ۴۵، ۴۶ برس کی رفاقت ختم ہوتی نظر آرہی تھی، جس کے ساتھ محبت و شفتگی، ہمدردی و غمگساری، خلوص و وفا اور دلداری و دلنوازی کی کتنی یادیں وابستہ تھیں، دہلی سے واپسی کے بعد خط لکھ کر برابر حالات معلوم کرتا رہا، ۱۳؍ دسمبر ۷۸؁ء کو اچانک ایک بجے دن کو ریڈیو سے ان کی وفات کا اعلان ہوا ہر چند کہ یہ خبر خلاف توقع نہ تھی، مگر پھر بھی دل بے قرار اور آنکھیں اشکبار ہوگئیں، اﷲ اپنی رحمت سے نوازے اور بیگم صاحبہ اور دوسرے عزیز و احباب کو صبر کی توفیق نصیب فرمائے اور اُن کی مثالِ نیک کو دلیل راہ بنانے کی ہمت عطا فرمائے۔ (عبد السلام قدوائی ندوی، جنوری ۱۹۷۹ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...